• 7 مئی, 2024

ہر ایک کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم میں سے ہر ایک کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا کیوں ضروری ہے۔ تیرہ چودہ سال کے بچے بھی یہ سوال کرتے ہیں اور والدین اُن کو صحیح طرح جواب نہیں دیتے۔ اس بارے میں مَیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کر دیتا ہوں۔ یہ تفصیلی ایک ارشاد ہے۔ اس کو ذیلی تنظیمیں بعد میں اس کے حصے بنا کر سمجھانے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں اور اس سے مزید رہنمائی بھی لے سکتی ہیں۔ ایک موقع پر بعض مولویوں نے آپ سے سوال کیا کہ ہم اب نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لاتے ہیں تو پھر ہمیں آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ:
’’دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تقویٰ طہارت کو بجا نہ لاوے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس، ترکِ شر اور حصول خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے‘‘۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے لیکن یہ ساری نیکیاں نہ بجا لائے، برائیوں کو نہ چھوڑے، نیکیوں کو اختیار نہ کرے تو فرمایا کہ وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ ’’اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آسکتا۔ اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقتِ اسلام اور غایتِ نبوت اور غرضِ رسالت سے بے خبر محض ہے‘‘۔ یعنی کہ اُس کو پتہ ہی نہیں کہ نبوت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اغراض ہیں؟ ’’اور وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اُس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآنِ شریف میں احکام دئیے ہیں اسی طرح سے آخری زمانہ میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے۔ قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق (جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظِ دیگر قرآنِ شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے) صرف یہ ہے کہ قرآنِ شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفہ آخری کو مسیح موعودؑ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس قرآنِ شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اُس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘

فرمایا کہ: ’’خلفاء کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک لمبا کیا ہے اور اسلام میں یہ ایک شرف اور خصوصیت ہے کہ اُس کی تائید اور تجدید کے واسطے ہر صدی پر مجدد آتے رہے اور آتے رہیں گے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے‘‘

یہاں مجدد کے بارے میں پھر بعض دفعہ لوگ غلطی کھا جاتے ہیں کہ اگر آتے رہیں گے تو کون ہوں گے؟ اس بارے میں ایک تفصیلی خطبہ مَیں پہلے دے چکاہوں۔ اُس سے بھی نوٹس لئے جا سکتے ہیں کہ خلفاء ہی مجدد ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑی وضاحت سے بیان بھی فرما چکے ہیں۔ جماعت کے لٹریچر میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے۔ فرمایا: ’’دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ کَمَا کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے۔ شریعتِ موسوی کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ تھے جیسا کہ خود وہ فرماتے ہیں کہ مَیں آخری اینٹ ہوں۔ اسی طرح شریعتِ محمدی میں بھی اس کی خدمت اور تجدید کے واسطے ہمیشہ خلفاء آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے۔ اور اس طرح سے آخری خلیفہ کا نام بلحاظ مشابہت اور بلحاظ مفوضہ خدمت کے مسیح موعود رکھا گیا۔ اور پھر یہی نہیں کہ معمولی طور سے اس کا ذکر ہی کر دیا ہو بلکہ اُس کے آنے کے نشانات تفصیلاً کُل کتبِ سماوی میں بیان فرما دئیے ہیں۔ بائبل میں، انجیل میں، احادیث میں اور خود قرآنِ شریف میں اس کی آمد کی نشانیاں دی گئی ہیں اور ساری قومیں، یہودی، عیسائی اور مسلمان متفق طور سے اس کی آمد کے قائل اور منتظر ہیں۔ اس کا انکار کر دینا کس طرح سے اسلام ہو سکتا ہے۔ اور پھر جبکہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ اُس کے واسطے آسمان پر بھی اللہ تعالیٰ نے اُس کی تائید میں نشان ظاہر کئے اور زمین پر بھی معجزات دکھائے۔ اُس کی تائید کے واسطے طاعون آیا اور کسوف و خسوف اپنے مقررہ وقت پر بموجب پیشگوئی عین وقت پر ظاہر ہو گیا۔ تو کیا ایسا شخص جس کی تائید کے واسطے آسمان نشان ظاہر کرے اور زمین اَلْوَقْت کہے وہ کوئی معمولی شخص ہو سکتا ہے کہ اُس کا ماننا اور نہ ماننا برابر ہو اور لوگ اُسے نہ مان کر بھی مسلمان اور خدا کے پیارے بندے بنے رہیں؟ ہرگز نہیں۔‘‘

فرمایا: ’’یاد رکھو کہ موعود کے آنے کی کُل علامات پوری ہو گئی ہیں۔ طرح طرح کے مفاسدنے دنیا کو گندہ کر دیا ہے۔ خود مسلمان علماء اور اکثر اولیاء نے مسیح موعود کے آنے کا یہی زمانہ لکھا ہے کہ وہ چودھویں صدی میں آئے گا…‘‘۔ فرمایا: ’’اس قدر متفقہ شہادت کے بعد بھی جو کہ اولیاء اور اکثر علماء نے بیان کی۔ اگر کوئی شبہ رکھتا ہو تو اُسے چاہئے کہ قرآنِ شریف میں تدبر کرے اور سورۃ النور کو غور سے مطالعہ کرے۔ دیکھو جس طرح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد حضرت عیسیٰ آئے تھے اسی طرح یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی ہی میں مسیح موعود آیا ہے۔ اور جس طرح حضرت عیسیٰؑ سلسلہ موسوی کے خاتَم الخلفاء تھے اسی طرح اِدھر بھی مسیح موعود خاتم الخلفاء ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد5 صفحہ551، 552 ایڈیشن 2003ء)۔ یعنی آپ نے فرمایا کہ میں آئندہ ہزار سال کا خلیفہ ہوں اور جو بھی اب آئے گا آپ کی متابعت میں ہی آئے گا۔

(خطبہ جمعہ 16؍اگست 2013ء)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز بسلسلہ یوم خلافت، بواکے ریجن آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2022