• 2 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 30)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
جانوروں اور پرندوں کے لئے رحمت
قسط 30

زہے خُلقِ کامل زہے حُسنِ تام
علیک الصّلوٰۃ علیک السّلام

رحیم و کریم مالکِ کل نے حضرت نبی کریم ﷺ کو کل عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپؐ نہ صرف انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے اور رکھواتے تھے بلکہ حیوانوں اور حشرات الارض کے حقوق ادا کرنے کی بھی تلقین فرمائی ان کے لئے نرمی اور ہمدردی کا درس دیتے تھے۔ مکہ مدینہ میں جانور گھروں میں پالنے کا رواج تھا۔ جانور ان کی بہت سی ضروریات پوری کرتے تھے خوراک کے کام آتے تھے سواری بھی اونٹ، خچر اور گدھے پر ہوتی تھی کھالوں سے مشکیزے بنتے تھے۔ غرضیکہ روزانہ زندگی کا اہم حصہ تھے۔

بلی ایک پالتو جانور ہے۔ اس کی خوراک وغیرہ کا خیال رکھنے کے لئے آپؐ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا اُس نے اُس بلی کو (کسی جگہ) بند کر دیا تھا یہاں تک کہ وہ بھوکی مر گئی۔ وہ عورت اُس کی وجہ سے دوزخ میں داخل کی گئی۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جب اس نے بلی کو باندھا تو نہ اُسے کھلایا نہ پلایا اور نہ ہی اُسے کھلا چھوڑا کہ وہ (خود) زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیا کرتی۔

(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحريم قتل الهرة)

اسی طرح آپؐ نے ایک کتے کی کہانی سنا کر جانوروں کو پانی پلانے کے ثواب کا ذکر فرمایا کہ ایک کتا کسی کنوئیں کے گرد گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جائے۔ اچانک اُسے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ لیا۔ اُس نے اپنا موزہ اُتارا اور اُس سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا۔ اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُس کی مغفرت فرما دی گئی۔

(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب فضل سقي البهائم)

کتے کو پانی پلانے کے ثواب کا ایک دوسری جگہ بھی ذکر ہے۔ واقعہ کتے کا ہے لیکن سبق یہ ملتا ہے کہ جانداروں کی ضرورت پوری کرنا اللہ پاک کو کس قدر پسند ہے حضور ﷺ نے فرمایا: ’’ایک شخص پیدل جا رہا تھا کہ اُسے سخت پیاس لگی، اُس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور اس سے پانی پیا وہاں پر ایک کتا پیاس سے بے تاب گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اُس شخص نے سوچا اِس کتے کی بھی پیاس سے وہی حالت ہو رہی ہے جو (کچھ دیر قبل) میری ہو رہی تھی، پس وہ دوبارہ کنویں میں اُترا اور اپنے جوتے میں پانی بھرا، پھر اُس کو منہ سے پکڑ کر اُوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول کی اور اُس کی مغفرت فرما دی‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اِن جانوروں کی وجہ سے بھی ہمارے لئے اجر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر ذی روح اور جاندار چیز کے ساتھ نیکی اور احسان کا اجر ملتا ہے۔‘‘

(سنن أبو داود، کتاب الجهاد، باب ما يؤمر به من القيام علی الدّواب والبهائم)

اونٹوں کے ذکر میں بڑا دلچسپ واقعہ ہے خود اونٹ نے نبی ِرحمت سے فریاد کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔

(صحيح البخاري، کتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء)

آپؐ کی نظریں مصیبت زدہ کو پہچان لیتی تھیں ایک دفعہ آپؐ کا گزر ایک اُونٹ کے پاس سے ہوا جس کی کمر اُس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اِن بے زبان جانوروں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جب یہ تندرست ہوں تو ان پر سوار ہوا کرو اور جب یہ تندرست نہ رہیں تو اِنہیں کھا لیا کرو۔‘‘

(سنن أبو داود، کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علی الدواب والبهائم)

ایک اور واقعہ یوں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز ظہر ادا فرمائی تو ایک اُونٹنی بندھی ہوئی دیکھی اور فرمایا: اِس سواری کا مالک کہاں ہے؟ تو کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی کو بدستور بندھا ہوا پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سواری (اونٹنی) کا مالک کہاں ہے؟ تو اُس کے مالک نے جواب دیا: یا نبی اللہ! میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے۔ یا اسے باندھ کر رکھ (اور چارہ ڈال) یا اسے کھلا چھوڑ دے تاکہ وہ خود چارہ وغیرہ کھا لے۔

(مجمع الزوائد جلد8 صفحہ196-197)

آپؐ نے جانوروں کو گالی دینے سے بھی منع فرمایا جانور تو سنتے نہیں اپنا اخلاق خراب ہوتا ہے ایک دفعہ ایک انصاری نے اونٹ کی ضد پر اسے بددعا دے کر لعنت ڈالی آپؐ نے فرمایا اب سامان وغیرہ اس اونٹنی سے اتار لو اور اسے خالی چھوڑ دو اب یہ ہمارے ساتھ نہ چلے اب یہ لعنت والی اونٹنی ہو گئی ہے۔

(مسلم کتاب البر والصلہ)

بکری پر رحم کے ثواب میں اللہ کا رحم ملے گا کتنی بڑی نوید عطا فرمائی تاکہ جانوروں سے نرمی کا سلوک ہو۔

ایک شخص نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا۔‘‘

ایک شخص بکری کو کان سے پکڑ کر کھینچ رہا تھا دیکھا تو فرمایا: ’’اس کا کان چھوڑ دو گردن سے پکڑ لو‘‘

(ابنِ ماجہ۔ کتاب الذبائح باب3)

آپؐ کی رحمت و شفقت کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ جانور ہے ذبح کرنا ہے چھری سے گلا کاٹنا ہے اس کو تکلیف تو ہوگی آپؐ نے یہ سوچا کہ اس تکلیف کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے، چھری تیز نہ ہوئی تو ٹھیک سے گلا نہیں کٹے گا اور جانور تڑپتا رہے گا۔ آپ ﷺ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو نرمی اور مہربانی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے، یہاں تک کہ اگر تم کسی جانور کو مارنے لگو تو اس میں بھی نرمی اور رحم دلی دکھاؤ جب کسی جانور کو ذبح کرنے لگو تو اچھے اور رحمدلی کے طریق سے ذبح کرو، مثلاً تم اپنی چھری خوب تیز کرلو اور اس طرح سے اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ۔‘‘

(مسلم کتاب الصید والذبائح باب الامر باحسان الذبح)

جانور کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے آپؐ نے تین آدمیوں کو اکٹھا سوار ہونے سے منع فرمایا۔ اسی طرح کمزور جانوروں پر بھی سواری پسند نہ فرمائی۔ انہیں گرم سلاخوں سے چہرے ناک وغیرہ پر داغنے سے منع فرمایا کہ اس طرح اذیت دینے کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ اگر ضروری ہے تو پیٹھ کی ہڈی پر نشان لگا سکتے ہیں تاکہ جانور کو تکلیف کم ہو۔

(مجمع الزوائد لھیثمی جلد8 صفحہ203 والبخاري في الأدب المفرد)

چھوٹے چھوٹے خوش نما پرندے بھی سمجھتے تھے کہ ہمارا چارہ گر کوئی ہے تو حضرت محمد ﷺ ہے۔ آپؐ نے ایک سفر میں پڑاؤ کیا۔ ایک شخص نے جا کر ایک چڑیا کے گھونسلے سے انڈے نکال لئے۔ وہ چڑیا آ کر رسول کریمؐ اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سر پر منڈلانے لگی۔ آپؐ کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا کہ اس پرندہ کو کس نے دکھ پہنچایا ہے۔ ایک شخص نے کہا، حضور میں نے اس کے انڈے اٹھائے ہیں، رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’جاؤ! اس کے انڈے واپس اس کے گھونسلے میں رکھ دو‘‘

(مسند احمد جلد1 صفحہ404)

آپؐ نے شکاری پرندے نیز چیونٹی، شہد کی مکھی اور ہد ہد کو مارنے سے منع فرمایا۔ حشرات الارض پر رحمت کا اندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے کہ آپؐ نے گھروں میں رہنے والے چھوٹے بے ضرر سانپوں کو مارنے سے بھی منع فرمایا ہے۔

آپؐ ایک عظیم ہمدردی اور دوسروں کا احساس رکھنے والے انسان تھے جانوروں سے بھی محبت کرتے تھے مثال کے طور پر ایک بلی کو اپنے کپڑے پر سوئے ہوئے دیکھا تو وہاں سے اٹھانا پسند نہ کیا کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کا ایک امتحان جانوروں کے ساتھ لوگوں کا رویہ ہوتا ہے تمام مذاہب محبت کے رویے کی حوصلہ افزائی کرتے اور عالم قدرت کی عزت کرتے ہیں محمدﷺ یہی سبق دینا چاہتے تھے۔ جاہلیت میں عرب جانوروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے۔ وہ زندہ جانوروں سے کھانے کے لئے گوشت کاٹ لینے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ وہ اونٹوں کی گردنوں میں تکلیف دہ حلقے ڈال دیتے تھے محمدﷺ نے جانوروں کو داغنے کے ظالمانہ طریق اور جانوروں کی لڑائیوں سے روک دیا۔

(Muhammad A Biography of prophet by Karen Armstrong page 231)

منقول از اسوہ انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحہ582)

رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا سب سے بہترین نمونہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ میں نظر آتا ہے۔ آپؐ کا عکس آپؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ میں بھی نمایاں تھا۔

حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب کشمیر کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ان کو خط میں لکھا کہ ایک دفعہ ایک بہت موٹا کتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں گھس آیا۔ اور ہم بچوں نے اسے دروازہ بند کرکے مارنا چاہا۔ لیکن جب کتّے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا اور آپؑ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کر کتے کو چھوڑ دیا۔ 

(ماخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ313 روایت نمبر342 جدید ایڈیشن)

آپ ؓ سے ہی روایت ہے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) دالان کے دروازے بند کرکے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا: ’’میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر178 صفحہ176 جدید ایڈیشن)

کتنی پر حکمت بات ہے رحم اور ایمان لازم ملزوم ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ کے شیدائی نےجانور پر بھی ظلم برداشت نہ کیا۔ آپؑ کے رحم کی وسعتیں بے کراں تھیں۔

حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے دیکھ کر کہا کہ محمود! اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا۔ بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں۔ بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذّت حاصل کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حس کے لئے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں۔ دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے۔ درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہوگا۔‘‘

(ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد4 صفحہ263)

آپ ؑ کی محبت انسان حیوان سب کے لئے تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسے اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرماتا رہے آمین اللّٰھم آمین۔

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز بسلسلہ یوم خلافت، بواکے ریجن آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2022