• 2 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 25)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 25

سوال:۔ ایک شخص کے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد رجوع کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کے استفسار پر اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ طلاق کے اسلامی حکم، جس کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللّٰهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ کو انہوں مذاق بنایا ہوا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر اپنی بیوی کو طلاق دیتے رہے ہیں۔

یہ کوئی طیش نہیں بلکہ سراسر جہالت ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک رخصت کی تضحیک ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کے دل میں بسا ہوا ہے کہ بیوی کو تنگ کرنے کیلئے طلاق ایک بہترین ہتھیار ہے۔ اور جب چاہیں بغیر سوچے سمجھے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایسے لوگوں کی ہی تأدیب اور اصلاح کیلئے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاقوں کو تین شمار فرمایا تھا۔ اس لئے میرے نزدیک تو یہ طلاق ہو گئی ہے اور اب رجوع نہیں ہو سکتا۔ لیکن پھر بھی مزید جائزہ لے لیں۔

سوال:۔ کسی کاروباری کمپنی میں نفع و نقصان کی شراکت کی شرط کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کی ایک رپورٹ کے بارہ میں راہنمائی فرماتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی کئی قسم کے کاروبار کرتی ہیں۔ کچھ کاروبار انہوں نے ظاہر کئے ہوتے ہیں، جن میں کسی قسم کی شرعی یا قانونی خلاف ورزی نہیں ہوتی لیکن کچھ کاروبار انہوں نے سائیڈ بزنس کے طور پر اختیار کئے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے Profile میں Highlight نہیں کرتیں۔ اور ایسے کاروباروں میں بعض اوقات دینی یا قانونی قواعد و ضوابط کا پوری طرح خیال نہیں رکھا گیا ہوتا۔

پس اگر کسی کمپنی کے کاروبار کی تفصیلات واضح ہوں یا آسانی سے ان کے کاروبار کی تفصیلات معلوم ہو سکیں اور ان میں کوئی غیر اسلامی یا غیر قانونی شق موجود ہوتو پھر ایسی کمپنی کے ساتھ نفع نقصان میں شراکت کی شرط کے ساتھ بھی کاروبار نہیں کرنا چاہئے۔

ہاں یہ ٹھیک ہے کہ چونکہ آجکل اکثر مسائل زیر و زبر ہو گئے ہیں۔ لہٰذا کمپنی کے جو کاروبار نظر آ رہے ہوں ان میں اگر کوئی غیر اسلامی یا غیر قانونی شق نہ ہو تو پھر نفع و نقصان میں شراکت کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کمپنی نے اپنے کاروبار کا کچھ حصہ سائیڈ بزنس کے طور پر رکھا ہوا ہے جس کے بارہ میں وہ اپنے شراکت داروں کو کچھ نہیں بتاتی تو پھر اس بارہ میں بلاوجہ وہم میں پڑنے یا خواہ مخواہ کرید کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر پتہ چل جائے کہ غیر قانونی ہے تو پھر اس سے علیحدگی کر لینی چاہئے۔

سوال:۔ صدقات کی رقم کو مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کے بارہ میں فقہی مسائل میں دیئے جانے والے ایک جواب کی درستی کرواتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب بنام محترم ناظم صاحب دارالافتاء مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ صدقات کی رقم کو مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے کے بارہ میں آپ کی طرف سے فقہی مسائل میں دیا جانے والا جواب مجھے کسی نےبھجوایا ہے، جس میں آپ نے سورۃ التوبہ کی آیات نمبر60سے استدلال کرتے ہوئےاس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

صدقہ کا لفظ قرآن و حدیث میں اسلام کے ایک فرض رکن زکوٰۃ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے اور زکوٰۃ کے علاوہ اللہ کی رضا کی خاطر غرباء و مساکین کی مدد اور اعانت کیلئے دئیے جانے والے دیگر صدقات کیلئے بھی یہ لفظ آیا ہے۔اور ہر جگہ کا سیاق و سباق اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اُس جگہ استعمال ہونے والا لفظ اسلامی رکن زکوٰۃ کیلئے آیا ہے یا دیگر صدقات کیلئے استعمال ہوا ہے۔ سورۃ التوبہ کی مذکورہ آیت میں بیان صدقات سے مراد اموال زکوٰۃ ہیں۔لہٰذا اس آیت سے استدلال کر کے زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے صدقات کی رقم کو مسجد فنڈ میں خرچ کرنے کا فتویٰ درست نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت نے زکوٰۃ اور دیگر صدقات میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صدقہ کے گوشت کو صرف غرباء کا حق قرار دیا اور انہیں میں تقسیم کی ہدایت فرمائی۔ لیکن لنگرخانہ میں اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی حالانکہ لنگر خانہ میں عام طور پر مسافروں کے قیام و طعام کا انتظام ہوتا ہے اور آپ کے استدلال کے مطابق تو پھر فی سبیل اللہ اور ابن السبیل کے تحت ان کیلئے بھی اس قسم کے صدقہ کے گوشت کی اجازت ہونی چاہئے تھی۔

فی سبیل اللہ یا ابن السبیل سے اس قسم کا استدلال خاص حالات میں تو ہو سکتا ہے اور ایسی تشریح کرنا بھی خلیفہ ٔ وقت کا حق ہے۔ اگر ہر شخص اس قسم کے استدلال کر کے جواز کی راہیں نکالنا شروع کر دے تو مسائل میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جہاں بینکوں سے ملنے والے سود کو اشاعت اسلام کی مد میں خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، اسے صرف اسلام کی غربت کی حالت میں اضطراری طور پر اور وقتی اجازت قرار دیا ہے۔ نیز صرف اشاعت اسلام کی مد میں لٹریچر وغیرہ کی اشاعت میں اس کے خرچ کی اجازت دی ہے، مساجد وغیرہ کی تعمیر کیلئے اجازت نہیں دی۔

پس ان امور کی روشنی میں پہلے خلفائے احمدیت کی طرح میرا بھی یہی موقف ہے کہ صدقات کی رقم مساجد فنڈ میں نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا اسی کے مطابق آپ کا بھی فتویٰ ہونا چاہئے۔

اس کے علاوہ آپ کے پاس اپنے موقف کے حق میں اگر کوئی اور دلائل ہیں تو علمی بحث کے طور پر بے شک مجھے اپنی رپورٹ بھجوا دیں۔

سوال:۔ صدقات کی رقم مساجد کی تعمیر میں خرچ کرنے نیز جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والے کی وفات پر تعزیت کیلئے جانے کے بارہ میں ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بغرض راہنمائی عریضہ تحریر کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ یکم جولائی 2020ء میں ان امور کے بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ مساجد فنڈ کیلئے صدقہ کی رقم کے بارہ میں آپ کا موقف بالکل درست ہے۔ صدقات کی رقم سے مساجد تعمیر نہیں کی جاتیں۔ مسجد بنانے کیلئے الگ سے ہدیہ دینا چاہئے۔ اسی لئے جماعت میں بھی جہاں ضرورت ہو مساجد کی تعمیر کیلئے الگ مساجد فنڈ کی تحریک کی جاتی ہے۔

آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو شخص جماعت کے خلاف بد زبانی کرنے والا تھااس کی وفات پر تعزیت کیلئے جانے کی ضرورت کیا ہے؟ ہاں اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق تو نہیں ملی لیکن اس نے اپنی زندگی میں کبھی جماعت کی مخالفت نہیں کی تو ایسے شخص کی وفات پر اس کے عزیزوں سے تعزیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

سوال:۔ ایک خاتون نے محمد بن عبدالجبار النفری کی کتاب ’’المواقف‘‘ کی عبارت ’’اُدْعُنِیْ فِیْ رُوْیَتِیْ وَلَا تَسْئَالْنِیْ، وَ سْئَلْنِیْ فِیْ غَیْبَتِیْ وَلَا تَدْعُنِیْ‘‘ (یعنی میرے دیکھنے کی حالت ہوتے ہوئے مجھ سے دعا کرو مگرمجھ سے مانگو نہیں اور میرے غائب ہونے کی حالت میں مجھ سے مانگو اور مجھ سے دعا نہ کرو) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے مانگنے میں کیا فرق ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 02 جولائی 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ تصوف کی مذکوہ بالا کتاب میں بیان یہ عبارت نہ تو قرآن کریم کا کوئی حکم ہے اور نہ ہی کسی حدیث پر مبنی اصول ہے۔ یہ اس کتاب کے مصنف کی بیان کردہ ایک عبارت ہے۔

قرآن کریم اور احادیث میں دعا کرنے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری دعا کسی سوال پر مبنی نہیں ہونی چاہئے۔

پھر ایک حدیث قدسی میں حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں نچلے آسمان پر اترتا ہے اور اعلان کرتا ہے مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ ایک ہی موقعہ پر دعا کرنے اور سوال کرنے دونوں کا حکم فرما رہا ہے۔

پھر حدیث میں ہی حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لئے اس موقعہ پر کثرت سے دعا کیا کرو۔ اس میں بھی حضورﷺ نے ایسی کوئی ممانعت نہیں فرمائی کہ تمہاری یہ دعا کسی سوال پر مبنی نہیں ہونی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے کلام میں ہمیں یہی نصیحت فرمائی ہے کہ ہمیں اپنی دینی و دنیوی تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے حضور ہی عرض کرنی چاہئیں۔ چنانچہ اپنے ایک شعر میں آپ فرماتے ہیں:۔

حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر
کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

پھر مذکورہ بالا کتاب میں درج عبارت کے حوالہ سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ کب سامنے نہیں ہوتا؟ وہ تو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔

پس میرے نزدیک اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اوراس سے سوال کرنے میں کوئی فرق نہیں۔علمی حد تک زیادہ سے زیادہ اس فقرہ کی یہ تشریح ہو سکتی ہے کہ چونکہ انسان کو جب کسی کے موجود ہونے کا ڈر ہو تو وہ برائی کرنے سے احتراز کرتا ہے، چنانچہ موجودہ دور میں سی سی ٹی وی کیمروں کی مثال اس کی ایک بین دلیل ہے۔ اس لئے جب کبھی انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا اور شیطان اسے کسی برائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے تو اسی وقت اسے اپنے ایمان کے بارہ میں فکر مند ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور اپنے ایمان کی سلامتی کیلئے اسی کے در کا سوالی بن کر اس کے سامنے جھک جانا چاہئے۔

سوال:۔ مکرم انچارج صاحب عربک ڈیسک یوکے کے ایک استفسار بابت صلاۃ التسبیح کے متعلق راہنمائی کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19جولائی 2020ء میں ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ علمائے سلف میں صلاۃ التسبیح کےمتعلق مروی احادیث پر دونوں قسم کی آراء موجودہ ہیں، کچھ نے ان احادیث کو قابل قبول قرار دیا ہے اور کچھ نے ان احادیث کی اسناد پر جرح کرتے ہوئے انہیں موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ائمہ اربعہ میں بھی اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ اس نماز کو مستحب کا درجہ بھی نہیں دیتے جبکہ دیگر فقہاء اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کی فضیلت کے بھی قائل ہیں۔

صلاۃ التسبیح کی بابت مروی احادیث سے یہ بات تو قطیعت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضورﷺ نے خود اس نماز کو کبھی ادا نہیں کیا اور نہ ہی خلفائے راشدین سے اس نماز کے پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے مبعوث ہونے والے حضور ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس نماز کے پڑھنے کی کوئی روایت ہمیں نہیں ملتی۔

لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص یہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنا چاہئےجسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص ایک ایسے وقت میں نماز پڑھ رہا تھا جس وقت نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا۔ أَرَأَیْتَ الَّذِیْ یَنْھَی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔

باقی جہاں تک فقہ احمدیہ کی عبارت کا تعلق ہے تو فقہ احمدیہ میں کئی ایسی باتیں شامل ہو گئی ہیں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ اسی لئے فقہ احمدیہ کی نظر ثانی کروائی جا رہی ہے۔ جب فقہ احمدیہ کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع ہو گا تو ان شاء اللہ اس عبارت کو بھی ٹھیک کر دیا جائے گا۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ سورۃ النساء کی آیت 16 اور 17 کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو مختلف تفاسیر بیان فرمائی ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 19 جولائی 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ قرآن کریم کسی ایک زمانہ یا ایک قوم کیلئے نازل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک تمام دنیا کی راہنمائی کیلئے نازل فرمایا ہے اور ہر زمانہ میں وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو اس زمانہ کے حالات کے مطابق اس سے مسائل کے استنباط کا علم بھی عطاء فرماتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَمَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ (الحجر: 22) یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے (غیر محدود) خزانے ہیں۔ لیکن ہم اسے (ہر زمانہ میں اس کی ضرورت کے مطابق) ایک معین اندازہ کے مطابق نازل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ سے کئے گئے وعدہ کے مطابق آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانہ میں دین محمدی کی تجدید اور دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا اور اسی قرآنی بشارت کے مطابق آپ کو قرآنی علوم اور اس کے روحانی معارف سے وافر حصہ عطاء فرمایا۔ اور پھر آپؑ کے وسیلہ اور برکت سے آپؑ کے بعد جاری ہونے والی خلافت کی مسند پر متمکن ہونے والے ہر فرد کو علوم قرآنی سے نوازا۔ ان وجودوں نے اپنے اپنے دور میں، اُس زمانہ کے حالات کے مطابق خدا تعالیٰ سے علم پا کر اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کریم کے معارف دنیا کیلئے بیان فرمائے۔

آنحضورﷺ نے قرآن کریم کے مختلف متن اور مختلف بطون ہونے کی جو بشارت دی ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ سے علم لدنی کا فیض پانے والے لوگ مختلف زمانوں میں اس سے ایسے مسائل اور علوم کا استنباط کرتے رہیں گے جس کے نتیجہ میں یہ کتاب ہر زمانہ میں ترو تازہ رہے گی۔

آپ نے اپنے خط میں جن آیات کا ذکر کیا ہے، حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سب نے اپنے اپنے خداداد علم کے نتیجہ میں ان آیات کی تفسیر بیان فرمائی ہے۔ جس کے مطابق ان آیات سے معاشرہ میں پائی جانے والی مختلف قسم کی برائیوں کا استنباط کر کے ان کی شناعت بیان کی اور اپنے متبعین کو ان برائیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات سے ایسے ناپسندیدہ افعال اور بُرے اخلاق کی باتیں مراد لی ہیں، جن کا تعلق جھگڑا فساد جیسے قبیح امور سے ہے۔ اورآج سے ستر اسی سال قبل ایسے مرد و خواتین جو اپنے گرد و نواح میں بلا وجہ جھگڑا فساد کی فضاء پیدا کرتے تھے، اخلاقاً بہت بُرے سمجھے جاتے تھے اور اُس زمانہ میں مردوں کی مردوں اور عورتوں کی عورتوں کے ساتھ جنسی بے راہ روی معاشرہ میں عام نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اُس زمانہ میں ان آیات میں بیان ناپسندیدہ افعال کی وہی تشریح فرمائی جو اُس زمانہ میں عام طور پر شناعت کے دائرہ میں داخل تھی۔

اور اب اس نئے زمانہ میں مرد و خواتین کی اس قسم کی جنسی بے راہ روی جسے Gay Movement کہا جاتا ہے، معاشرہ میں عام ہو رہی ہے، اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس زمانہ کے حالات کے مطابق قرآن کریم کی ان آیات کی یہ تشریح فرمائی ہے اور ان آیات میں بیان بُرائی سے موجودہ زمانہ میں پھیلنے والی جنسی بے راہ روی مراد لی ہے۔

قرآن فہمی کے معاملہ میں اس قسم کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں بلکہ حضور ﷺ نے اپنی امت میں پائے جانے والے اس قسم کے علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجہ میں قرآن کریم سے مختلف قسم کے استدلال کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔

سوال:۔ ایک عرب خاتون نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ نکاح کے فوراً بعدقبل اس کے کہ خاوند بیوی کو چھوئے، رشتہ ختم ہوجانے کی صورت میں اس عورت پر کوئی عدت ہے۔ نیز ایسی صورت میں یہ عورت اپنے اس پہلے خاوند سے شادی کر سکتی ہے جس سے اسے طلاق بتہ ہو چکی ہے؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 جولائی 2020ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ نکاح کے بعد اور میاں بیوی میں تعلقات قائم ہونے سے قبل ہونے والی طلاق میں عورت پر کوئی عدت نہیں جیسا کہ قرآن کریم اس بارہ میں واضح طور پر فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَکَحۡتُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوۡھُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡھُنَّ فَمَا لَکُمۡ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ عِدَّۃٍ تَعۡتَدُّوۡنَہَا ۚ فَمَتِّعُوۡھُنَّ وَ سَرِّحُوۡھُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا (الاحزاب: 50) یعنی اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے شادی کرو، پھر ان کو ان کے چھونے سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کوئی حق نہیں کہ ان سے عدت کا مطالبہ کرو، پس (چاہئے کہ) ان کو کچھ دنیوی نفع پہنچا دو اور ان کو عمدگی کے ساتھ رخصت کر دو۔

آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ عورت اپنے پہلے خاوندسے جس سے اسے طلاق بتہ ہو چکی ہے رجوع نہیں کر سکتی، کیونکہ طلاق بتہ کی صورت میں دوسرے خاوند کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم ہونا ضروری ہیں۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک عورت جسے اپنے خاوند سے طلاق بتہ ہو چکی تھی اس نے کسی دوسرے شخص سے شادی کی اور شادی کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس دوسرے خاوند کے تعلقات زوجیت قائم نہ کر سکنے کی شکایت کی۔ جس پر حضور ﷺ نے اس عورت کو فرمایا کہ شاید تم اپنے پہلے خاوند کے پاس لوٹنا چاہتی ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ یہ دوسرا خاوند تمہارے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ کر لے۔

(صحیح بخاری کتاب الطلاق بَاب مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ)

ایسی صورت میں یہ بات مد نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ طلاق بتہ کے بعد دوسرے شخص سے اس غرض سے شادی کرنا کہ اس سے طلاق لے کر پہلے خاوند کے ساتھ رجوع کیا جا سکے، یا وہ مرد اس عورت سے اس غرض سے شادی کرے کہ شادی کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا تا کہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کی طرف لوٹ سکے، تو اس قسم کی منصوبہ بندی کو شریعت نے نہایت ناپسند فرمایا ہے اور اس قسم کی شادی کرنے اور کروانے والے مرد و عورت پر آنحضور ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔

(سنن ترمذی کتاب النکاح بَاب الْمُحِلِّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ)

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز بسلسلہ یوم خلافت، بواکے ریجن آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2022