• 2 مئی, 2024

مسجد میرا میکہ!

حدیقة النساء
مسجد میرا میکہ!

ہم امریکہ میں رہتے ہیں، اس پردیس میں جہاں ہم پر تربیت اولاد جیسی بھاری ذمہ داری ہے وہاں اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کی جدائی بھی ہے۔ ہم نے ان دونوں مسائل کا حل اپنے پیارے امام کی والدہ حضرت آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کے الفاظ میں ڈھونڈ ا، جو ہم نے آپ کے نام پرآنے والے مصباح نمبر میں پڑھے تھے۔ یاد رہے !حضرت آپا ناصرہ بیگم صاحبہ وہ ہستی ہیں جو ایک نبی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی ہیں، جو ایک خلیفہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں، دو خلفاء یعنی حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بہن ہیں اور ایک خلیفہ یعنی حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ماں ہیں۔ اس تمام تعارف کے بعد ان کی اور ان کے کہے گئے الفاظ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اب ہم واپس اپنی داستان کی طرف آتے ہیں۔ کہ ہم نے ان کے ایسے کون سے الفاظ پڑھے؟ جس میں ہمیں اپنے دونوں مسائل کا حل نظر آیا۔ کچھ اس طرح ہے کہ آپ سے، ایک عورت نے پاکستان سے باہر رہنے والے افراد کے لئے مشورہ طلب کیا کہ اس ماحول میں اولاد کی تربیت کیسے کی جائے کہ ان پر باہر کا ماحول اثرانداز نہ ہو؟ آپ یعنی حضرت آپا جان ناصرہ بیگم صاحبہ نے فرمایا ’’بچوں کو بیت (یعنی مسجد) سے جوڑ دو‘‘

اب جب ہم اس ملک میں ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کی فکر لاحق ہوتی ہےاور جو ہمارا خیال ہے کہ ہم جیسی ہر ماں کو لاحق ہے۔ تو ہمیں حضرت آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کی نصیحت یاد آتی ہے اور ہم مسجد کی طرف بھاگتے ہیں اور پوری کوشش کرتےہیں کہ ہم اپنے بچوں کو مسجد سے جوڑ دیں، اس سے نماز ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بعد میں ہمارے بچے اپنے احمدی دوستوں سے مل اور کھیل بھی لیتے ہیں اور ہم اپنی احمدی بہنوں سے ملاقات بھی کر لیتی ہیں۔ جس سے ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں سے دوری کا احساس بھی کم ہو جاتا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

ایک روز ہم نماز کے بعد اپنی کچھ بہنوں کے پاس مسجد میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے اورہمارے بچے، ہمارے اردگرد مسجد میں ہی کھیل رہے تھے، ہماری ایک بہت ہی پیاری باجی نصرت ہیں، کہنے لگی ’’آنسہ! دیکھو ہمارے بچے مسجد میں آ کر ایسے کھیل رہے ہیں جیسے نانکے آئے ہوتے ہیں ان کو کسی کا کوئی ڈر نہیں‘‘ ان کے الفاظ سن کر ہمارے اندر کی سب اداسیاں جاتی رہی اور ہم بولے ’’باجی آپ نے سچ کہا کہ ’’یہ مسجد ہمارا میکہ ہی تو ہے‘‘ جو اس پیارے رب کا گھر ہے جو ستر مائوں سے بڑھ کر ہم سے پیار کرتا ہےاور اس کا گھر واقعی ہمارا میکہ ہے جہاں ہمارے بچوں کو کسی کا کوئی ڈر نہیں۔‘‘ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو ہمیشہ مسجد سے جوڑے رکھے، آمین۔

اب کچھ روز قبل رمضان گزرا ہے۔ ہماری مسجد میں نماز عصر، پھر درس القرآن، پھر افطاری، پھر نماز مغرب، پھر کھانا، پھر نماز عشاء اور پھر تراویح کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بہت سی مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر مسجد آتی رہی۔ اس خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ تلخ باتیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ عصر تا نماز تراویح ایک لمبا وقت ہوتا تھا ایسے میں بعض اوقات بچے اور بعض اوقات ما ئیں، اپنے کمسن بچوں کو مسلسل کنٹرول کرتے کرتے تھک جاتی تھی۔ اور چونکہ ماؤں کو خود بھی نماز پڑھنی ہوتی تھی۔ بعض وقت سات سال سے بھی کم عمر کے بچے دوران نماز کھیلنے میں مصروف ہو جاتے تھے۔ ایسے میں بعض خواتین نے ایسے بچوں کی مائوں کو بہت ڈانٹا۔ اور ہم ان روتی مائوں کی ساری سچویشن یعنی مجبوری سمجھنے کے باوجود کچھ نہ کر پاتے۔ اپنے آپ کو انتہائی بےبس محسوس کرتے اور چاہتے کہ ان کے لئے کچھ کریں، لیکن کیا کریں؟ ایسے میں ہماری سوچ اس رَحۡمَۃَ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتی کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نماز شروع کرتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ دیر سے ختم کروں، مگر کسی بچے کے رونے کی آواز کان میں پڑ جاتی ہے تو نماز مختصر کر دیتا ہوں۔یہ بچے پر بھی رحم ہے اورماں پر بھی (بخاری کتاب الصلوة جلد اول حدیث 669 صفحہ456) اس بات میں ہمیں یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مختصر کس کے لئے کرتے تھے؟ کہ کیا نمازیوں پر رحم کی خاطر؟ یا اس لئے مختصر فرماتے تھے کہ بچے اور ماں کو تکلیف نہ ہو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس مومن کی نماز معراج تک پہنچی ہوئی ہو سکتی ہے؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ڈسٹرب نہیں ہوئی تو ہماری کیوں اتنی جلدی ڈسٹرب ہو جاتی ہے؟ اور ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں؟ کہ بچے، بچے ہی ہوتے ہیں، وہ معصوم ہوتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو مسجد کے آداب سکھانے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو نماز پڑھنی سکھانی ہے۔ لیکن جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کرنے کا فرمایا ہے کیا اس کی کمر کے اوپر سجدہ کے دوران بچے نہیں چڑھتے تھے؟ (ابوداوٴد کتاب الادب) اور پھر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یا ان کی ماوٴں کو کبھی بھی تکلیف دہ کلمات سے نوازا تھا؟ پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں پیارے نبی نے چھوٹے بچوں کی ماوٴں کو قصوروار ٹھہرایا ہو۔ یہ سب سوچنے اور سمجھنے کی باتیں ہیں۔ کہ ہمارا دین سختی یا جبر کا دین نہیں۔ ہمارا دین پیار اور محبت سے نصیحت کرنے کا دین ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے۔ لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ (الغاشیہ: 23) یعنی ’’تو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا‘‘ اس لئے اس بات کواچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ داروغہ بننے کی اجازت توپیارے رب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کونہیں دی تو ہم کون ہوتے ہیں؟ ہمیں اپنی حدود کو پہچاننا چاہئے اور ان کو پار نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی بچے سے کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو بھی ہمیں وسعت حوصلہ دکھانا چاہئے، تا کہ ہمارے بچے مساجد سے جڑے رہیں ورنہ ہم بہت سے بچوں کو مساجد اور دین سے دور کرنے والے ہوں گے، اور ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ جو ماں اپنے بچے کوآج کل کے دور میں مسجد لائی ہے وہ اپنے بچے کی تربیت کی فکرمند ہے تو لائی ہے؟ اس پر یہ بدظنی نہیں کرنی چاہئے کہ خدا نخواستہ وہ اپنے بچے سے لاپرواہ ہے۔ بہرحال جو بچے مسجد آتے ہیں وہ بچے ان بچوں سے بہت بہتر ہیں جو مسجد نہیں آتے۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چل کر اپنی اولاد وں کی نیک تربیت کرنے والے ہوں۔ اور اپنی نئی نسلوں کو مسجدوں کے ساتھ جوڑنے والے ہوں۔آمین۔

(آنسہ محمود بقاپوری۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز بسلسلہ یوم خلافت، بواکے ریجن آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2022