• 25 جون, 2025

حضرت مولانا ملک غلام فرید صا حبؓ مرحوم

مبلغین برطانیہ کا تعارف
حضرت مولانا ملک غلام فرید صاحبؓ مرحوم

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ بلاشبہ ان اصحاب احمد میں شامل ہیں جو احمدیت کے ماتھے کا جھو مرتھے۔ شمع احمدیت کے پروانے تھے۔ وہ مسیح پاک کی صداقت کا نشان تھے۔ ان کے وجودوں میں مسیح پاکؑ کی مسیحائی کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ یہ تبدیلی جو ان کے دلوں میں پیدا ہوئی یہ اس مسیح کا اعجاز تھا جودلوں کی سر زمین میں محبت الٰہی کے بیج بونے آیا تھا۔ اس صدی میں مسیح پاک ؑ کے ہاتھ سے جو دل صاف ہوئے یا جن دلوں کو خداتعالیٰ نے مسیح پاک ؑ کے انصار و اعوان کے طورپر چنا انہیں دلوں میں سے ایک دل حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے سینے میں دھڑک رہا تھا۔

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کی ولادت

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ حضرت ملک نور الدین صاحب کی اہلیہ اول کے بطن سے تھے۔ آپ کی پیدائش 1896ء میں کنجاہ ضلع گجرات میں ہوئی تھی اور مشہور بزرگ صوفی بابا فرید گنج شکر ؒ کے ساتھ عقیدت کی بنا پر آپ کا نام غلام فرید رکھا گیا تھا۔ 13 فروری 1975ء کو آپ کی والدہ صاحبہ (بعمر 75سال) کے انتقال کے بعد آپ کے والد صاحب نے محترمہ بیگم بی بی صاحبہ سے شادی کرلی۔ ان کے بطن سے 1909ء میں ملک عبد الرحمٰن صاحب پیدا ہوئے۔ شادی ہونے پر والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کرلی۔ اور انہوں نے ان دونوں بھائیوں کی اور والد ماجد کے بھتیجے ملک بشیر علی صاحب کی پرورش کی۔

والد صاحب کی بیعت

حضرت ملک غلام فرید صاحب ؓاپنے والد ماجد کی بیعت اور زیارت کا شرف حاصل ہونے کا تذکرہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب اراضی کے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں گجرات شہر جایا کرتے تھے۔ منڈی میں کھانے کی دکانیں تھیں۔ وہا ں کھانے کے لئے جاتےتھے۔ منڈی میں ہی الٰہی بخش صاحب اور ان کے بیٹے رحیم بخش صاحب کی دکان ’’الٰہی بخش رحیم بخش تاجران کتب‘‘ کے نام سے تھی۔ وہاں بھی جاتے ہوں گے۔ چنانچہ وہاں آپ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ یا ’’ازالہ اوہام‘‘ دیکھی۔ اور اس کا تھوڑا عرصہ مطالعہ کر کے ان صاحبان سے جو صحابی تھے، دریافت کیا کہ یہ کس کی تصنیف ہے اور کہا کہ مجھے تو یہ نبی معلوم ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ حضرت مرزا صاحب کی تصنیف ہے۔ جن کادعویٰ مہدی اور مسیح ہو نے کا ہے۔ چنانچہ والد صاحب نے بیعت کر لی۔ سال والد صاحب بھول گئے آ پ بتاتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم میں بہ مقدمہ کرم دین تشریف لائے میں نے اس وقت یعنی 1903ء میں بیعت کی تھی۔‘‘ آپ کے والد ماجد اپنے خاندان میں اولین احمدی تھے۔

جب حضرت ملک نور الدین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کی توآپ کے اقارب نے آپ کو گھر سے نکال دیا اور میل جول بند کر کے بائیکاٹ کر دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ نے آپ کو تجویز پیش کی کہ آپ اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم دلائیں۔ حضرت ملک غلام فرید صاحب نے اپنے وطن کنجاہ میں تعلیم پائی اور پھر مزید تعلیم کے لئے مشن سکول گجرات میں داخل ہوئے۔ لیکن جلد اس مدرسہ کو خیر باد کہہ کر آپ تعلیم کی خاطر قادیان چلے گئے۔

دیگر حالات

محترم ملک غلام فرید صا حبؓ حصول تعلیم کے لئے 1909ء میں قادیان آئے۔ آپ کو ایک بہت بڑی سعادت یہ حاصل ہوئی کہ آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی صحبت میں ایک بہت بڑا وقت گزارا۔ آپ بیان کرتے ہیں:
’’مجھے بچپن سے ہی قرآن کریم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اور اس شوق کو میں نے حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے درسوں کو نوٹ کر کے پورا کیا حضور کے میں ایسے درسوں میں بھی شامل ہوتا تھا جس میں کسی اور لڑکے کو شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔‘‘

اپریل 1909ء میں قادیان آئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے تو اس وقت تعلیم الاسلام اسکول کے ہیڈ ماسٹر مولوی صدر الدین صاحب ، مدرسہ احمدیہ کے بھی افسر اعلیٰ تھے انہوں نے آپ کے والد صاحب کہا کہ مدرسہ دینیات میں پڑھائی کا انتظام اچھا نہیں۔ آپ اپنے بچے کوہا ئی سکول میں داخل کرائیں۔ جہاں کا فی دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ والد صاحب نے کہا کہ بچے سے ہی پوچھ لیجئے۔ میں نے اصرار سے کہا کہ میں مدرسہ احمدیہ میں ہی داخل ہوں گا۔ چنانچہ میرا مدرسہ احمدیہ میں داخلہ ہوا۔ پرائیوٹ طور پر آپ نے حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری سے بھی قرآن کریم کے ایک حصہ کا ترجمہ پڑھا۔ حضر ت ملک صاحب ؓ نے ایم۔ اے انگلش میں کامیابی حاصل کی ۔

حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ نے آپ کا نکاح محترمہ نواب بیگم صاحبہ ہمشیرہ محترم شیخ فضل صاحب بٹالوی سے مبلغ ایک ہزار روپے حق مہر 28فروری 1920ء کو پڑھا۔ ا ن کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ملک صاحب ؓ کو چھ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔ جن کے اسماء حسب ذیل ہیں:

1) مکرم ملک مبا رک احمد صاحب (وفات1979ء) 2) مکرم ملک منصور احمد صاحب 3) مکرم میجر ریٹا ئر ڈ ملک محمود احمد صاحب (وفات 1982ء) 4) مکرم ملک مبشر احمد صاحب (مینیجنگ ڈائر یکٹر سیمنٹ فیکٹری لاہور) 5) کرنل ریٹائرڈ مکرم ملک منور احمد لاہور 6) مکرم پروفیسر ڈاکٹر ملک کرشن احمد صاحب (امریکہ ) 7) مکرمہ زاہدہ بیگم صاحبہ مرحومہ 8) مکرمہ راشدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم جری اللہ خان صاحب (ایڈو وکیٹ سپریم کورٹ پاکستان، مقیم لاہور) 9) مکرمہ منصورہ بیگم صاحبہ والدہ مکرم عامر ملک صاحب (جرمنی)

حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی فکر مندی حضرت ملک صاحب کے متعلق: محترم حضرت ملک صلاح الدین صاحب مؤ لف ’’اصحاب احمد‘‘ تالیف فرماتے ہیں ’’خاکسار مولف نے لاہور جانے پر حضرت ملک صاحب کے پاس ان کے نام سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا ایک قلمی مکتوب دیکھا تھا۔ جس میں ان کو دل کی تکلیف ہوجانے پر فکر مندی کا اظہار فرمایا تھا اور پانچ صد روپیہ بھجواتے ہوئے خاص توجہ سے علاج کرانے کا ارشاد فرمایا تھا اور غالباً اس میں یہ بھی رقم فرمایا تھا کہ علاج کےلئے حضور مزید اخراجات دیں گے۔ آ پ کے فرزند ملک منور احمد صاحب اس علالت کے بارے بیان کرتے ہیں کہ حضوؓر نے ارشاد فرمایا تھا کہ آپ بہت سے ماہر ڈاکٹر وں سے مشورہ کریں۔ خصو صا ً فلاں جرمن ڈاکٹر سے اور حضوؓر نے اپنی جلسہ سالانہ کی تقریر میں خاص طور پر آپ کی صحت کے لئے دعا کی تحریک کی اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو جو ربوہ سے باہر تھیں۔ خود دعا کے لئے تحریر کیا۔ یہ بھی لکھا کہ قرآن مجید انگریزی کاکام کر نے کےلئے میرے پاس صرف یہی شخص ہیں۔ حاجی ملک بشیر احمد صاحب آف نیووے کراچی، والد صاحب کے لئے کراچی سے ایک ڈاکٹر کولے کر آئے اور آپ کا معائنہ کروایا اور اصرار کیاکہ آپ میرے ساتھ کراچی چلیں۔ والد صاحب نے کہا کہ میں حضوؓر کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا۔ ملک بشیر احمد صاحب نے ربوہ پہنچ کر اجازت چاہی۔ حضور نے نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس امر کو پسند کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ آپ ملک غلام فرید صاحب کو ضرور اپنے ساتھ کراچی لے جائیں اور ان کا علاج کرائیں۔ یہ آپ کا مجھ پر احسان ہوگا۔ چنانچہ والد صا حب مولوی محمد احمد جلیل صاحب کی معیت میں ملک بشیر احمد صاحب کے ہاں کئی ماہ مقیم رہے اور علاج کے ساتھ قرآن مجید کا کام بھی جاری رہا۔‘‘

حضرت ملک غلام فرید صاحب کی دینی خدمات

حضرت ملک غلام فرید صاحب کی دینی خدمات اور آپ کے زندگی وقف کرنے کے سلسلہ میں آپ کے دادا بہت پہلے نشاند ہی کر چکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد محترم کو رؤیاکے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ اس ضمن میں حضرت ملک صاحب کے برادر مکرم ملک عبد الرحیم صاحب تحریر کرتے ہیں: ‘‘ہمارے دادا جان ملک الٰہی بخش صاحب صوفی مزاج اور بہت دیندار شخص تھے۔ جس کی گواہی کنجاہ کےبھی بہت لوگ دیتے ہیں۔ ایک روز دادا جان نے والد صاحب، ملک نواب الدین صاحب، ملک غلام فرید صاحب اور ملک بشیر علی صاحب کو بلوا کر والد صاحب سے کہا :

’’نور دینا! غلام فرید تیرا لڑکا دیندار ہوگا۔‘‘ اس کےکچھ عرصہ بعد دادا جان نے بیعت کر لی۔‘‘

حضرت ملک غلام فرید صاحب بیان کرتے ہیں کہ: ’’ایک دفعہ والد صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ مجھے چھری سے ذبح کرنے لگے ہیں۔اتنے میں وہ بیدار ہوگئے۔‘‘

حضرت ملک صلاح الدین صاحب مرحوم بیان فرماتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر یوں ظاہر ہوئی کہ: ’’حضرت ملک صاحب نے 1916ء میں اپنی زندگی خدمت اسلام و احمدیت کے لئے وقف کی ۔ بی اے کرنے کے بعد اس نیت سے گورنمنٹ کالج میں کسی اور مضمون میں داخلہ لیا کہ اس کے بعد واپس قادیان پہنچ کر خدمات بجالائیں گے۔ حضرت مصلح مو عود ؓکی خواہش تھی کہ آپ ایم اے انگلش کریں۔ حضرت ملک صاحب کو حضورؓ کی اس منشا کا علم نہ ہوسکا تھا۔ اس سلسلہ میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ تا ہم حضورؓ کی شفقت اور مہربانی اور جماعت کے بزرگوں حضرت قاضی امیر حسین شاہ صاحب ؓ، حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓ اور حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ کی سفارش پر حضورؓنے معاف فرمادیا۔ حضرت ملک صاحب نے ایم اے انگریزی کیا۔ وقف کا عہد اس سے پہلے کیا ہوا تھا اسے حضرت امام جماعت کی خواہش کے تابع عمر بھر نبھایا۔‘‘

حضرت ملک صاحب کی خدمات سلسلہ ان گنت ہیں لیکن آپ کی خدمات کو دو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1) میدان تبلیغ میں آپ کی خدمات 2) قلمی خدمات۔

میدان تبلیغ

جرمنی میں اولین مبشر ومجاہد حضرت مولوی مبارک علی صاحب بنگالی تھے۔ دوسرے مبشر و مجاہد کے طور پر حضرت ملک صاحب کو بھجوایا گیا جہاں آپ نے بھر پور خدمات سرانجام دیں ۔تا ہم مسجد احمدیہ تعمیر کرنے کےلئے جتنی رقم مطلوب تھی اس کی توفیق اس وقت جماعت احمدیہ کو نہیں تھی۔ چنانچہ حضوؓر کی ہدایات پر مسجد کا پلاٹ فروخت کر کے عارضی طور پر اس مشن کو بند کردیا گیا اور ہر دو مبشرین کو احمدیہ مشن انگلستان میں مقرر کر دیا گیا اور یہ رقم مسجد فضل لندن کے قیام و تعمیر میں صرف ہوئی۔ جرمنی مشن بند ہو جانے کے بعد حضرت ملک صاحب کا تبادلہ انگلستان 1924ء تا 1928ء) میں کردیا گیا۔

1924ء میں ویمبلے کا نفرنس بابت مذاہب عالم منعقد ہونے والی تھی۔ جس کا دعوت نامہ قبول کرکے حضوؓر ایک وفد کے ساتھ وہاں تشریف لئے گئے۔ آپؓ کا مضمون ابھرتے ہوئے نوجوان خادم دین حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحبؓ نے پڑھا۔ مضمون کی اور پڑھنے والے دونوں کی تعریف ہوئی۔ حضوؓر نے یہ دعوت نامہ قبول فرمایا تھا تاکہ یورپ کے حالات کا آپؓ مطالعہ فرماسکیں اور اس جائزہ کی روشنی میں آپؓ تبلیغی منصوبہ بنائیں۔ حضوؓر نے مسجد فضل لندن کی بنیاد بھی رکھی اور انچارج مبلغ لندن حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب اور حضرت ملک صاحب نے اس مرکز تثلیث میں اولین موذن کے طور پر صدائے اذان بلند کرنے کی سعادت پائی۔ ویسٹ منسٹر گزٹ کے نمائندے کو مسٹر ملک سیکرٹری مسجد نے بتایا کہ امیر فیصل کی غیر حاضری نے قدرتاً طبائع میں ملال پیدا کیا اور افتتاح کے سلسلہ میں یہ لکھا کہ:
’’سب سے اچھا اور دیکھنے کے قابل وہ موقعہ تھا جب موذن نے منارے پر چڑھ کر اذان دی۔ اذان دن میں پانچ دفعہ دی جاتی ہے جسکا مطلب ہے کہ خدا بہت بڑا ہے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے۔ وہی عبادت کے لائق ہے اور صبح کی اذان میں یہ زائد کہا جاتا ہے کہ نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘

اسی زمانہ میں ملک صاحب کے خطوط اور مضامین انگلستان کے اعلیٰ اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ ان میں اسلام کے بارے میں چھپنے والی غلط باتوں کی تردید کی جاتی تھی۔

آپ کی ابتدائی قلمی خدمات انگلستان میں شروع ہوئیں۔ جب مذہبی امور کے متعلق مختصر مدلل خطوط یا تردیدی جواب آپ سپرد قلم کرتے تھے اور وہاں کے اعلیٰ پایہ کے روزنامے انہیں شائع کرتے تھے۔ گویا زبان وغیرہ کے لحاظ سے وہ ان کے معیا ر کے مطابق ہوتے تھے۔ انگلستان سے واپسی کے بعد آپ کی قلمی خدمات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پہلے آپ پندرہ روزہ انگریزی ’’سن رائیز‘‘ کے اور پھر انگریزی ماہنامہ ’’ریویو آف ریلجینز‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حضرت ملک صاحب کی قلمی خدمات حسب ذیل ہیں:
1) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے تربیتی اور تبلیغی ضروریات کے پیش نظر ایک پندرہ روزہ انگریزی اخبار جاری فرمایا اور اسکانام sunrise رکھا۔ یہ رسالہ حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے (سابق مبلغ امریکہ) کی ادارت میں دسمبر 1926ء میں جاری ہوا 1928ء کے وسط میں حضرت ملک غلام فرید صاحب ؓ ایم۔ اے اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حضرت ملک صاحب نے فروری 1932ء تک اس رسالہ کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے۔
2) انگریزی ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز کی ادارت حضرت ملک فرید صاحب ؓکو بھی نصیب ہو ئی اور 1932ء سے ستمبر 1938ء تک اس رسالے کی ادارت کے فرائض آپ نے سر انجام دیئے۔
3) ترجمہ و تفسیر القرآن انگریزی۔

حضرت ملک صاحبؓ کی خدمت جلیلہ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے 30جنوری 1956ء کو ملک صاحب کو رقم فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس کام میں آپ کے ساتھ ہو اور روح القدس سے نصرت فرمائے۔ اور آپ کے دل و دماغ میں روشنی پیدا کرے جوآج قرآنی علوم کی تفسیر کے لئے ضروری ہے۔‘‘

تعلیم الاسلام کالج کے از سر نو 1944ء میں قیام پر اس کی منیجنگ کمیٹی کے سیکرٹری پھر ترجمہ و تفسیر القرآن کمیٹی کے آپ ممبر مقرر ہوئے۔ محترم ملک صاحب کی درد مندانہ دعائیں 1943ء میں کوئی اٹھائیس سال کے بعد پورا ہونی شروع ہوئیں اور 1969ء تک گویا چھبیس سال میں پوری ہوئیں۔ مسلسل محنت اور مساعی کے بعد آخر حضرت ملک صاحب کے وقت قرآن کی آخری جلد کی اشاعت پر 22 مارچ 1963ء کو پانچ جلدوں میں تفسیر مکمل ہوئی۔ تفسیر القرآن انگریزی کی آخری جلد 1963ء میں منظر عام پر آنے کے بعد حضرت ملک غلام فرید صاحب اس کوشش میں جُت گئے اور1969ء میں ایک مختصر جلد بھی سلسلہ کی طرف سے One Volume Commentry کے نام سے شائع ہوئی۔

قرآن کریم کو انگریزی ترجمہ میں مکمل کرنے کے لئے آپ نے دن رات محنت شاقہ کی۔ پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مولانا شیر علی ؓکے ساتھ مل کر اور بعد میں سالہا سال اکیلے ہی آپ نے نہایت عمدہ ترجمہ مع مختصر تفسیر مرتب کرنے کی توفیق پائی۔

حضرت ملک غلام فرید صاحب کو 1929ء یا 1928ء میں دورہ کے لئے ملک بنگال میں خدمت کرنے کی توفیق ملی جہاں پر آپ نے مختلف جگہ پر متعدد لیکچر وں کے ذریعہ اور ملاقاتوں سے مسلم سیاسی رہنماؤں تک حضوؓر کے نظریات پہنچائے۔ آپ نے واپس قادیان پہنچ کر حضور انور ؓکو اپنے دورہ کے بارے میں آگاہ کیا۔ 1938ء آپ نے ایک خدمت نصرت گرلز ہائی سکول کے مینیجر کی حیثیت سے سر انجام دی۔ 1945ء میں ’’مجلس مذہب و سائنس‘‘ کا قیام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے فرمایا: جس کے انگریزی حصہ کے ایڈیٹر محترم ملک غلام فرید صاحب ؓ مقرر کئے گئے۔ اس مجلس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ جماعت میں اعلیٰ علمی تحقیق کا ذوق پیدا کیا جائے۔

وصال

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ 7جنوری 1977ء بروز جمعہ 79سال کی عمر میں رحلت فرماکر اپنے مولا حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کی وفات کے تذکرہ میں یہ بھی ارشادفرمایا کہ ’’ ۔ ۔ ۔ دوستوں کو چاہیے کہ احمدیت کے ایسے بزرگ اور فدائی کی نماز جنازہ میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوں۔ جہاں ہمیں اپنے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور جانے والے بھائی کے لئے بھی دعا کا خاص موقع ملتا ہے۔‘‘

(ماخوذ از کتاب مبشرین احمد،مصنفہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)

(ندیم احمد بٹ۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اگست 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 15 اگست 2020ء