• 26 اپریل, 2024

خلاصہ اختتامی خطاب جلسۂ سالانہ برطانیہ مؤرخہ7؍اگست 2022ء

خلاصہ اختتامی خطاب جلسۂ سالانہ برطانیہ امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ7؍اگست 2022ء بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن ؍ہمپشئر یوکے
اللہ تعالیٰ کرے کہ اگلا جلسۂ سالانہ ہم مکمل طور پر آزادانہ ماحول میں پرانی رونقوں کے ساتھ دوبارہ منعقد کرسکیں اور اِس کے فیض سے سب فیض کی خواہش رکھنے والے فیض پانے والے بھی ہوں

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! اسلام نے مختلف لوگوں، طبقوں حتی کہ کُل مخلوق کے جو حقوق قائم کئے ہیں اُن میں سے کچھ کا ذکر مَیں نے 2019ء اور 2021ء کے جلسۂ سالانہ کی تقاریر میں کیا تھا  لیکن جس طرح  تفصیل سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم،  پھر آنحضرت صلی الله علیہ و سلم نے حقوق بیان اور قائم  نیز آپؐ کے غلام صادق علیہ السلام نے اِس زمانہ میں اِن کی تفصیل بیان فرمائی وہ سب اتنی زیادہ ہے کہ کئی گھنٹوں میں بھی اُن کا احاطہ نہیں ہو سکا، نہ ہو سکتا ہے۔

سو آج بھی مَیں بعض حقوق کا ذکر کروں گا

اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مذہب نے اِس تفصیل سے ہر طبقہ اور تمام مخلوق کے حقوق بیان نہیں کئے اور نہ ہی کسی انسانی قانون اور قواعدو ضوابط نے اِن کا احاطہ کیا ہے جس طرح اسلامی تعلیم میں بیان ہوئے ہیں۔ جب ایک انصاف پسند انسان اِن حقوق کی تفصیل پڑھتا اور سنتاہے تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حسن نکھرکے سامنے آتا اور بے اختیار اُس کے منہ سے نکلتا ہے کہ یہ تعلیم تو ایسی خوبصورت ہے کہ اِسے ہر ایک کو اپنانا چاہئے، الله تعالیٰ کی حمد انسان کرتا ہے ۔۔۔پس ہمارا کام ہے کہ اِس خوبصورت تعلیم کے حسن کو دنیا کو بتاتے چلے جائیں، نیک فطرت لوگوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کریں اور مخالفین اور بے جاء اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کریں۔

حقوق کی بات کرنے والی بڑی بڑی تنظیمیں افراط و تفریط کا شکار ہیں

آج جو حقوق مَیں بیان کرنے لگا ہوں اِن میں پہلا ذکرمردوں اور عورتوں کے حقوق کا ہے،آجکل اِن دونوں طبقوں کے حقوق اور برابری کی باتیں ہوتی ہیں، بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی اور یہ تنظیمیں افراط و تفریط کرنے والی ہیں۔ آجکل اگر عورتوں کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے تو کسی اصول و قاعدہ کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، عورتوں کو حقوق دینے کا نعرہ لگاتے ہیں تو اُن سے زبردستی اُن کی مذہبی آزادی اور اُس پر عمل کرنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ مرد سے حقوق لینے کی کوشش کرتے ہیں تو عورتوں، مردوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے حالات پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر جو حق دینا چاہتے ہیں اُن میں بھی سقم ہے پتا نہیں چلتا کہ کس طرح اِن پر عمل در آمد کروائیں۔

پس بے شمار باتیں جن پر نہ اِنہوں نے غور کیا اور نہ دیکھا

چنانچہ خود مانتے ہیں کہ مردوں، عورتوں کے برابری کے حقوق میں بین الاقوامی قانون اور عدالتیں بھی خاموش ہیں۔ پھر معاشی، معاشرتی رہن سہن، سہولیات اور رسم و رواج کی وجہ سے جو روکیں ہیں اُن کو کس طرح حل کرنا ہے یہ سب کچھ پتا نہیں۔ پس مرد، عورت برابر ہیں کا نعرہ لگا دیتے اور سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا، یہ دیکھتے ہی نہیں کہ اِس کی جزویات میں جا کر کن کن چیزوں کو دیکھنا، کن کن باتوں پر غورکرنانیز کس بارہ میں کس طرح کے قواعد و ضوابط اور قوانین بنانے ہیں۔ یہ خود ساختہ بغیر سوچے سمجھے کے برابری کے اصول معاشرہ میں سکون پیداکر رہے ہیں یا بد امنی، اِس بارہ میں کچھ نہیں سوچتے۔ گھروں کو جوڑ  یا تو ڑ رہے ہیں، اِس چیز کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگلی نسل کی تربیت اور اُنہیں بہترین انسان بنانے میں کردار ادایا اُن کو تباہ کر رہے ہیں۔

مردوں اور عورتوں کے حقوق کے بارہ میں اسلامی تعلیم

اِس کی تفصیلات تو بہت ہیں اور جب ہم اُس معاشرہ کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں  جب آنحضرتؐ مبعوث ہوئے اور قرآن کریم نازل ہؤا تو پھر اِس کی اہمیت اور واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورتوں کے حقوق بھی قائم فرمائے اور مردوں کے بھی، اُس زمانہ میں جب عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی اُن کے حقوق قائم فرمائے۔ پھر یہ بھی الله کا احسان ہے اِس زمانہ میں اُس نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے نکھار کو ہمارے سامنے پیش کرنے والا بھی مبعوث فرمایا۔

مرد اورعورت نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں

حضور انور ایدہ الله نے بحوالۂ قرآن کریم بات کا آغاز کرتے ہوئے سورۃ النّسآءکی آیت 2 کے تناظر میں بیان فرمایا۔ پس مرد اورعورت نفس واحدہ سے پیدا ہوئے، اِس لحاظ سے ایک ہی جنس ہیں۔ جب ایک ہی جنس ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے دماغ بھی ایک جیسے بنائے، احساسات بھی ایک ہی قسم کے رکھے اور جذبات بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔ یہ آیت نکاح کے شروع میں بھی پڑھی جاتی ہےیعنی شادی کے بندھن میں بندھتے وقت ہی یہ واضح کردیا جاتا ہے کہ یہ بندھن مضبوط تبھی ہو سکتا ہے جب مرد کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائےکہ بلحاظ احساس، جذبات، عقل اور حقوق عورت ومرد برابر ہیں۔ اِس لئے عورت کو کم تر نہ سمجھنا، اِسی طرح عورت کو بھی سمجھایا گیا ہے۔

اسلام نے عورت کو اُس وقت یہ مقام دلایا جب وہ بے حیثیت تھی

آنحضرتؐ کا ایک اپنا اسوہ یہ بھی ہے کہ آپؐ عورتوں سے بعض اہم امور میں مشورہ بھی لے لیا کرتے تھے، اُس سوسائٹی میں جہاں اسلام سے پہلے عورت کی کوئی اہمیت نہیں تھی مشورہ لینا تو ایک طرف اُس کو اپنی معمولی رائے دینے کا بھی حق نہیں تھا۔ اُس میں آپؐ کے اِس عمل نے عورتوں میں اتنی جرأت پیدا کردی تھی وہ مردوں کی بےجاء روک ٹوک کے سامنے بھی جواب دے دیا کرتی تھیں بلکہ دین کا علم بھی حاصل کرتیں اور بعض دینی معاملات میں صحابیات خلفاء کو بھی اپنی رائے دے دیا کرتی تھیں۔

پس اِس طرح اسلام حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے

پھر صرف میاں بیوی کو نصیحت نہیں کی کہ خدا کا خوف دل میں پیدا کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرو بلکہ یہ بھی نصیحت فرمائی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو، یہ وسیع تر حقوق کا تحفظ اور اِن کو قائم کرنا معاشرہ کے امن کی بھی ضمانت ہو گانیز ایک کے بعد دوسری نسل ایک دوسرے کے حقوق قائم کرنے والی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ مرد کو اُس کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ترکہ کے ایک حصہ کا حقدار قرار دیا تو عورت کو بھی محروم نہیں رکھا۔

آج عورت کے حق کا نعرہ لگانے والے اپنے گریبان میں دیکھیں

 اور اپنی تاریخ پر نظر رکھیں، اِن کی تاریخ اتنی پرانی نہیں جب یہ عورت کے حقوق پامال کرتے تھے، سینکڑوں سالوں کی باتیں نہیں پھر اسلام پر اعتراض کہ یہ حق نہیں دیتے، اِس کو ڈھٹائی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔

مرد و عورت اپنے فرائض کو سمجھیں اور ادا کریں تا کہ گھر جنت نظیر بنیں

حضور انور ایدہ الله نے ببابت سورۃ الاحزاب؍ آیت 36 ارشاد فرمایا! اِس آیت سے یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ اسلام کس طرح عورت و مرد کو برابری کا مقام دیتا ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اسلام مرد و عورت میں امتیازکرتا ہے، فرق کرتا ہے تو وہاں جہاں جسمانی ساخت اور گھریلو فرائض کا تعلق اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عورت اور مرد اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں اور ادا کریں تا کہ گھر جنت نظیر بنیں۔ اعتراض کرنے والوں کی جو اکثریت ہےاِن کے گھر اِس لئےبے اعتمادی اور فساد کی جگہ بنے ہوئے ہیں کہ اپنے فرائض کو بھول گئے ہیں، ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اور نتیجتًا بچوں کی تربیت پر بھی اثر پڑ رہا ہے، پس اگر ہم یہ حق ادا کرنے کی مثالیں قائم کرنے والے بن جائیں گے تو ایک حسین معاشرہ کانمونہ بن سکتے ہیں۔

پس یہ نمونہ ہے متبعین رسول اللهؐ کے لئے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہئے

گھریلو زندگی کے امن و سکون کو قائم رکھنے، بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اور اُن کا حق ادا کرنے کے بارہ میں حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔ رسول الله ؐ نے فرمایا! تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بہترین ہے اور مَیں اپنے اہل کے لئے تم سب میں سے بہترین ہوں۔ پھر عورت کی عزت اور اُس کے وجود کا حق قائم کرنے کے لئے آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا! عورتیں اور خوشبو میرے لئے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔

عورتوں کے حقوق کی اسلام جیسی حفاظت کسی دوسرے مذہب نے قطعًا نہیں کی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عورتوں کے حقوق کے بارہ میں بتاتے ہیں۔ فحشاء کے سواء باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔۔۔ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعًا نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا! وَلَھُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡھِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (البقرہ: 229) کہ جیسے مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ اِن بے چاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے اور ذلیل ترین خدمات اُن سے لیتے ، گالیاں دیتے، حقارت کی نظر سے دیکھتے اور پردے کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ اُن کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوندوں کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔

سوالی اور محروم کے حقوق

حضور انور ایدہ الله نےمعاشرہ کے ایک اور کمزور طبقہ (سوالی اور محروم) جس کا اسلام نے بڑی گہرائی سے حق قائم فرمایاہے کی بابت قرآن کریم اور آنحضرتؐ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں تفصیلی اسلامی تعلیمات بیان کیں نیز ارشاد فرمایا! عام سوالی اور محروم کی ضرورت کے لئے تو آپؐ کی یہ نصیحت ہےکہ اُس کا حق ادا کرواؤ لیکن ساتھ ہی امت کے افراد کو محنت اور غیرت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی فرمایا! کسی سے نہ مانگو، مانگنا اچھی بات نہیں۔ اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے، اونچا ہاتھ تو وہی ہے جو خرچ کر رہا ہو اور نیچا ہاتھ وہ ہے جو سوال کر رہا ہو۔

افسوس اُن لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتےہیں ۔ بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کر چڑ جاتے ہیں، کچھ مولویت کی رگ ہو تو اُس کوبجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے، اُس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا بلکہ حدیث شریف میں لَوْ اَتَاکَ رَاکِبًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی خواہ سائل سوار ہو کر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہئے اور قرآن شریف میں وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ (الضّحیٰ: 11) کا ارشاد آیا ہے کہ سائل کو مت جھڑک۔ ۔۔ پس یاد رکھو کہ سائل کو نہ جھڑکو کیونکہ اِس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے، اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلد ہی ناراض نہ ہو، یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اِس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنادے۔

یہ دو طبقوں کے حقوق ہیں جو مَیں نے آج بیان کئے

 اختتامی دعا سے قبل حضور انور ایدہ الله نے تلقین فرمائی۔ جہاں یہ باتیں ہماری علمی حالت بڑھانے والی ہوں وہاں عملی حالت کو بھی بہتر کرنے والی ہوں اور ہم اُن حقوق کے ادا کرنے والے بھی بنیں، معاشرے کی بنیادی اکائی جو گھرہے اُس کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں۔ اگر ہم میاں، بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرنے والے بنیں گے تو معاشرہ نہ صرف پُرامن رہے گا بلکہ گھریلو فضا پُرامن رہنے سے ایک مثالی معاشرہ کی مثالیں ہم قائم کرنے والے بن جائیں گے اور دنیا جب ہمارے نمونوں کو دیکھے گی تواپنے دنیاوی قوانین کو سوچنےاور وضع کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیم کو دیکھنے کی کوشش کرے گی۔ ۔۔ دنیا والے اپنے مفادات کے لئے حق قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اسلام بےلوث ہوکر حق قائم کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔ پس اِس تعلیم کا عملی نمونہ ہی ہمارے لئے اسلام کی حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروانے اور تبلیغ کے میدان کھولنے کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلامی تعلیم کی عملی مثال قائم کرتے ہوئے اِس زمانہ کےامام کے مشن کو پورا کرنے میں معاون و مددگار بن سکیں۔

رپورٹ حاضری جلسۂ سالانہ

اختتامی دعا کے بعد حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! اللہ تعالیٰ کے فضل سےکُل حاضری 26ہزار 649 ہے۔اِس میں11 ہزار862 مرد ، 10ہزار687عورتیں، ورکرز وغیرہ 2ہزار600 جبکہ چھوٹے بچوں کی تعداد 1500 ہےاور اِس سال الله تعالیٰ کے فضل سے 53ممالک نے بذریعہ لائیو اسٹریمنگ جلسۂ سالانہ یُوکے میں شمولیت اختیار کی ہے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطاب دوسرا دن جلسہ سالانہ برطانیہ مؤرخہ 6؍اگست 2022ء

اگلا پڑھیں

حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں