• 24 اپریل, 2024

آٹھویں اور نویں شرط بیعت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آٹھویں شرط یہ ہے کہ ’’یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پراسلام کی زندگی۔ مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اُس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا ہے‘‘۔

(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد3 صفحہ10تا12)

پس آپ کا مقصد دنیا کی اصلاح کرنا ہے اور ہم جو ماننے والے ہیں، ہمیں ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر نویں شرط یہ ہے: ’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور و ہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اﷲ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالیٰ شانہٗ)۔ ……

پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمددی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔ وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا (الدھر: 9) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفّار ہی ہوتے تھے۔ اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔ میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں: ’’مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔ میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی‘‘۔ فرماتے ہیں ’’مَیں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اُٹھتا ہے تو چار قدم گرتا ہے، لیکن مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کردے گا۔ اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ219۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اُس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو۔ اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ …… بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ11-12)

(خطبہ جمعہ23 ؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

گفتگو کا سلیقہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2021