• 24 اپریل, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہور (قسط 2)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہور
قسط2

ارشاد برائے اٹلی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یوز آسف وہی ہے جس کو یسوع کہتے ہیں۔ اور آسف کے معنیٰ ہیں پراگندہ جماعتوں کو جمع کرنے والا۔ چونکہ مسیح علیہ السلام کا کام بھی بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنا تھا اور اہل کشمیر بہ اتفاق اہل تحقیق بنی اسرائیل ہی ہیں۔ اس لئے ان کا یہاں آنا ضروری تھا۔ اس کے علا وہ خود یوز آسف کا قصہ یورپ میں مشہور ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اٹلی میں اس نام پر ایک گرجا بھی بنایا گیا ہے اور ہر سال وہاں ایک میلہ بھی ہوتا ہے۔ اب اس قدر صرف کثیر سے ایک مذہبی عمارت کا بنانا اور پھر ہر سال اس پر ایک میلہ کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سرسری نگاہ سے دیکھی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ یوز آسف مسیح کا حواری تھا۔ ہم کہتے ہیں یہ بات سچی نہیں ہے۔ یوز آسف خود ہی مسیح تھا۔ اگر وہ حواری ہے تو یہ تمہارا فرض ہے کہ تم ثابت کرو کہ مسیح کے کسی حواری کا نام شہزادہ نبی ہو۔

(ملفوظات جلد دوم جدید ایڈیشن صفحہ162)

ارشاد برائے ہالینڈ

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یاد رکھو کہ فضائل بھی امراض متعدیہ کی طرح متعدی ہونے ضروری ہیں۔ مومن کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو اس درجہ پر پہنچائے کہ وہ متعدی ہو جائیں۔ کیونکہ کوئی عمدہ سے عمدہ بات قابل پذیرائی اور واجب التعمیل نہیں ہوسکتی جب تک اس کے اندر ایک چمک اور جذب نہ ہو۔ اس کی درخشانی دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور جذب ان کو کھینچ لاتا ہے اور پھر اس فعل کی اعلیٰ درجے کی خوبیاں خود بخود دوسرے کوعمل کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ دیکھو! حاتم کا نیک نام ہونا سخاوت کے باعث مشہور ہے۔ گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ خلوص سے تھی۔ ایسا ہی رستم و اسفند یار کی بہادری کے فسانے عام زبان زد ہیں اگر چہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ خلوص سے تھے۔ میرا ایمان اور مذہب یہ ہے کہ جب تک انسان سچا مومن نہیں بنتا اس کے نیکی کے کام خواہ کیسے ہی عظیم الشان ہوں لیکن وہ ریا کاری کے ملمع سے خالی نہیں ہوتے۔ لیکن چونکہ ان میں نیکی کی اصل موجود ہوتی ہے اور یہ وہ قابل قدر جو ہر ہے جو ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ اس لئے بایں ہمہ ملمع سازی و ریاکاری وہ عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔

خواجہ صاحب نے میرے پاس ایک نقل بیان کی تھی اور خود میں نے بھی اس قصہ کو پڑھا ہے کہ سر فلپ سڈنی ملکہ الزبتھ کے زمانے میں قلعہ زلفن ملک ہالینڈ کے محاصرے میں جب زخمی ہوا،تو اس وقت عین نزع کی تلخی اور شدت پیاس کے وقت جب اس کے لئے ایک پیالہ پانی کا جو وہاں بہت کمیاب تھا، مہیا کیا گیا تو اس کے پاس ایک اور زخمی سپاہی تھا جو نہایت پیاسا تھا۔ وہ سر فلپ سڈنی کی طرف حسرت اور طمع کے ساتھ دیکھنے لگا۔ سڈنی نے اس کی یہ خواہش دیکھ کر وہ پانی کا پیالہ خودنہ پیا بلکہ بطور ایثار یہ کہہ کر اس سپاہی کو دے دیا کہ ’’تیری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے‘‘ مرنے کے وقت بھی لوگ ریا کاری سے نہیں رکھتے۔ ایسے کام اکثر ریا کاروں سے ہو جاتے ہیں، جو اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ والے انسان ثابت کرنا یا دکھانا چاہتے ہیں۔ غرض کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ اس کی ساری باتیں بری حالت کی اچھی ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اچھی باتوں کی کیوں پیروی نہیں کرتے؟میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ اصل بات یہ ہے کہ انسان فطر تًاکسی بات کی پیروی نہیں کرتا جب تک کہ اس میں کمال کی مہک نہ ہو اور یہی ایک سر ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا ہے اور خاتم النبیین کے بعد مجد دین کے سلسلے کو جاری رکھا ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے عملی نمونہ کے ساتھ ایک جذب اور اثر کی قوت رکھتے ہیں اور نیکیوں کا کمال ان کے وجود میں نظر آتا ہے اس لئے کہ انسان بالطبع کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔ اگر انسان کی فطرت میں یہ قوت نہ ہوتی تو انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کی بھی ضرورت نہ رہتی۔

(ملفوظات جلد اول جدید ایڈیشن صفحہ196-198)

ارشادات برائے جرمنی

حضورؑ فرماتے ہیں:
ہمیں کئی بار اس آیت کی طرف توجہ ہوئی ہے اور اس میں سو چتے ہیں کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ (الانبياء: 97)۔ اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ ساری سلطنتیں، ریا ستیں اور حکومتیں ان سب کو یہ اپنے زیر کر لیں گے اور کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ ہو گی۔

دوسرے معنے یہ ہیں کہ حدب کے معنے ہیں بلندی، نسل کے معنے ہیں دوڑنا۔ یعنی بلندی پر سے دوڑ جاویں گے کُلْ عمومیت کے معنے رکھتا ہے یعنی ہر قسم کی بلندی کو کود جاویں گے۔ بلندی پر چڑھنا قوت اور جرات کو چاہتا ہے۔ نہایت بڑی بھاری اور آخری بلندی مذہب کی بلندی ہوتی ہے۔ سارے زنجیروں کو انسان توڑ سکتا ہے مگررسم اور مذہب کی ایک ایسی زنجیر ہوتی ہے کہ اس کو کوئی ہمت والا ہی توڑ سکتا ہے۔ سو ہمیں اس ربط سے یہ بھی ایک بشارت معلوم ہوتی ہے کہ وہ آخر کار اس مذہب اور رسم کی بلندی کو اپنی آزادی اور جرات سے پھلانگ جاویں گے اور آخر کار اسلام میں داخل ہوتے جاوینگے اور یہی ضال کے لفظ سے بھی ٹپکتا ہے اور اس امر کی بنیادی اینٹ قیصر جرمن نے چند دن ہوئے اپنا عقیدہ عیسویت کے متعلق ظاہر کر کے رکھ دی ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم جدید ایڈیشن صفحہ15-16)

پھر ذکر ہوا کہ بلاد یورپ اور امریکہ اور جرمن وغیرہ میں آج کل ایک عجیب تحریک پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ لوگ خود بخود ہی ان خیالات فاسدہ سے دست کش ہو تے جاتے ہیں اور ان کی تجویز ہے کہ ان تثلیت اور کفارہ کے بے دلیل خیالات کو مہذب دنیا سےاڑا کر با دلیل اور آزادی پسند خیالات نوجوانوں کے آگے پیش کئے جاویں۔

(ملفوظات جلد چہارم جدید ایڈیشن صفحہ354)

ارشادات برائے امریکہ وآسٹریلیا

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اب میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں۔ میں نے یہ بیان کیا ہے کہ دو بروز ہیں ایک اَلدَّجَّال کا دوسرا یا جوج ماجوج کا۔

اَلدَّجَّال کا بروز وہ ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کر ایک سلسلہ چلا جاتا تھا۔ جس قسم کی بد یاں اور شرارتیں مختلف طور پر مختلف وقتوں میں ظاہر ہوئیں آج ان سب کو جمع کر دیا گیا ہے اور ایک عجیب نظاره قدرت دکھایا ہے۔ چونکہ اب انسانی عمروں کا خاتمہ ہے اس لیے خاتمہ پر ایک بدیوں کا اور ایک نیکوں کا بروز بھی دکھایا۔

بدیوں کا بروز وہی ہے جس کو میں نے اَلدَّجَّال کہا ہے۔ تمام مکائد اور شرارتوں کا وہ مجموعہ ہے۔ اس آخری زمانہ میں ایک گروہ کو سفلی عقل اس قدر دی گئی ہے کہ تمام چھپی ہوئی چیزیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اس نے دو قسم کا دجل دکھا یا۔ ایک قسم کا حملہ نبوت پر کیا اور ایک خدا پر۔ نبوت پر تو یہ حملہ تھا کہ منشاء الٰہی کو بگاڑا اور دماغی طاقتوں کو انتہائی مدارج پر پہنچا کر الوہیت پر تصرف کرنے کے لیے خدا پر حملہ کیا۔ امراض مُزمنہ کے علاج کی طرف توجہ، اور ایک کا نطفہ لے کر رحم میں بذریہ کل ڈالنا۔ بارش برسانے کے آلات ایجاد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب امور اس قسم کے ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ الوہیت پر تصرف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ گروہ خود خدا بن رہا ہے اور دوسرا گروہ کسی اور انسان کو خدا بناتا ہے۔ جو کچھ آج کل یورپ اور امریکہ میں ہورہا ہے اس کی غرض کیا ہے۔ یہی کہ ایک آزادی اور حرص جو پیدا ہو گئی ہے اس کو پورے طور پر کام میں لا کر ربوبیت کے بھیدوں کو معلوم کر کے خدا سے آزاد ہو جاویں۔

غرض جان ڈالنے کے، مردوں کے زندہ کرنے کے، بارش برسانے کے تجربے کرتے ہیں۔ یہاں تک ہی محدودنہیں بلکہ ان کی تو کوشش یہ ہورہی ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے وہ سب ہمارے ہی قبضہ میں آ جاوے۔

(ملفوظات جلد اول جدید ایڈیشن صفحہ406)

پھر فرماتے ہیں:
علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے۔ دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے۔ صرف و نحو، طبعی، فلسفہ، ہیئت و طبابت پڑھنے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو، او امرالہٰی اور نواہی کو ہر وقت مدنظر رکھتا ہو۔ اپنے ہر فعل و قول کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے ر کھے۔ بلکہ بسا اوقات کیا عموماً دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلبگارد ہریہ منش ہو کر ہر قسم کے فسوق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آج دنیا کے سامنے ایک زبردست تجربہ موجود ہے۔ یورپ اور امریکہ باوجود یکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت کچھ قابل شرم ہے۔

(ملفوظات جلداول جدید ایڈیشن صفحہ384)

پھر حضورؑ فرماتے ہیں:
آج کل کے فلاسفروں نے مردوں کے واپس آنے کی بہت تحقیقات کی ہے۔ امریکہ میں ایک شخص کو مارکر دیکھا کہ آیا مرنے کے بعد شعور باقی رہتا ہے یا نہیں۔ اس شخص کو جس پر یہ تجربہ کر نا چاہا۔ کہہ دیا گیا کہ تم آنکھ کے اشارے سے بتا دینا مگر جب وہ ہلاک کیا گیا تو کچھ بھی نہ کر سکا کیونکہ یہ ایک سر الہٰی ہے جس کی تہہ تک کوئی نہیں بچ سکتا۔ انسان جب حد سے گزرتا ہے تو سر کی تلاش کی فکر میں ہوتا ہے مغربی دنیا میں جو زمینی تحقیقات میں لگی ہوئی ہے وہ ہر فلسفہ میں ادب سے دور نکل جاتی ہے اور انسانی حدود کو چھوڑ کر آگے قدم رکھنا چاہتی ہے مگر بے فائدہ۔ مختصر یہ کہ الله تعالیٰ نے ان امور کو جو ایمانیات سے متعلق ہیں نہ تو اس قدر چھپایا ہے کہ تکلف کی حدت تک پہنچ جا ئیں اور نہ اس قدر ظاہر کیا ہے کہ ایمان ایمان ہی نہ رہے اور کوئی فا ئد ہ اس پر مترتب نہ ہو سکے۔

(ملفوظات جلد دوم جدید ایڈیشن صفحہ479-480)

اس وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے حضور کوخبر دی گئی کہ ایک پادری صاحب بنام گرسفورڈ نے ایک کتاب اپنے زعم میں آپ کے دعاوی کی تردید میں لکھی ہے اس کا نام رکھا ہے ’’میرزا غلام احمد قادیان کا مسیح اور مہدی‘‘ مگر حضور کے دعوے اور دلائل کو خوب مفصل بیان کیا ہے اور اس کی اشاعت امریکہ میں بہت کی گئی ہے اس پر ذکر ہوتا رہا کہ الله تعالیٰ نے ایک اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے اس کی وہی مثال ہے کہ؎

عدو شود سبب خیرگر خدا خواہد

حضرت اقدسؑ نے فر مایا کہ:
پھر تو ہم کو بھی ضرور لکھنا چاہے جب انہوں نے بطور ہدیہ کے کتاب ہمیں بھیجی تو ہمیں بھی ہدیہ بھیجنا چاہیے یہ خدا کے کام ہیں۔ مخالفوں کی توجہ سے بہت کام بنتا ہے میں نے آزمایا ہے کہ جہاں مخالف ٹھوکر کھا تا ہے وہاں ہی ایک بڑی حکمت کی بات ہوتی ہے۔

(ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن صفحہ476)

6؍ اگست کی شام کو حضرت مسیح موعود ؑ تشریف لائے۔ پیر گولڑی کی اس پرفن کارروائی کا ذکر تھا جو اس نے اپنی کتاب سیف چشتیائی کی تالیف میں کی ہے اور جس کا راز اس کی اشاعت میں بالکل کھول دیا جاوے گا اور دنیا کو دکھایا جائے گا کہ کفن کھسوٹ مصنف بھی دنیا میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ کے مشہور مفتری مدعی الیاس ڈوئی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحب ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں ڈوئی نے اپنے مخالف قوموں، بادشاہوں اور سلطنتوں کی نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گے۔ اس پر حضرت اقدس ؑ کی رگ غیرت و حمیت دینی جوش میں آئی اور فرمایا:
’’مفتری کذاب اسلام کا خطرناک دشمن ہے۔ بہتر ہے اس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لیے بلا یا جاوے۔ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی سچا مذہب نہیں ہے اور اسلام ہی کی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے ہیں میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے افترا کی اس کو سزا دے۔ ’’غرض یہ قرار پایا کہ 7 اگست کو حضرت اقدسؑ ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت کریں۔ یہ خط انگریزی زبان میں ترجمہ ہوکر مختلف اخبارات میں بھی شائع ہو گا اور بھیجا جاوےگا۔’’

(ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن صفحہ107-108)

ایک شخص نے اپنی رؤیا سنائی جس میں یہ آیت تھی فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا (الروم: 31) فرمایا:- اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ اسلام فطرتی مذہب ہے انسان کی بناوٹ جس مذہب کو چاہتی ہے وہ اسلام ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ اسلام میں بناوٹ نہیں ہے۔ اس کے تمام اصول فطرت انسانی کے موافق ہیں۔ تثلیث اور کفارہ کی طرح نہیں ہیں جو سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ عیسائیوں نے خود مانا ہے کہ جہاں تثلیت نہیں گئی وہاں تو حید کا مطالبہ ہو گا۔ کیونکہ فطرت کے موافق تو حیدہی ہے اگر قرآن شریف نہ بھی ہوتا۔ تب بھی انسانی فطرت تو حید ہی کو مانتی۔ کیونکہ وہ باطنی شریعت کے موافق ہے ایسا ہی اسلام کی کل تعلیم باطنی شریعت کے موافق ہے برخلاف عیسائیوں کی تعلیم کے جو مخالف ہے۔ دیکھو حال ہی میں امریکہ میں طلاق کا قانون خلاف انجیل پاس کرنا پڑا۔ یہ دقت کیوں پیش آئی اس لئے کہ انجیل کی تعلیم فطرت کے موافق نہ تھی۔

(ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن صفحہ308)

امریکہ کے ایک انگریز کا اشتہا رسنا یا گیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ مسیح ؑ کی دو بارہ آمد وقت کا یہی وقت ہے۔ وہ كل نشانات پورے ہو گئے جو آمد ثانی کے پیش خیمہ تھے اور اس نے اس بیان کو بڑے بشپوں اور فلاسفروں کی شہادتوں سے قوی کیا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔ اصل میں ان کی یہ بات کہ مسیح ؑ کی آمد ثانی کا وقت یہی ہے۔ اور اس کے آنے کے تمام نشانات پورے ہو گئے ہیں بالکل ہمارے منشاء کے مطابق ہے اور راستی بھی اسی میں ہے ان کی وہ بات جو حق ہو اور جہاں تک وہ راستی کی حمایت میں ہوا سے رد نہ کرنا چاہیے۔ یہ لوگ ایک طرح سے ہماری خدمت کر رہے ہیں۔ اس ملک میں جہاں ہماری تبلیغ بڑی محنت اور صرف کثیر سے بھی پوری طرح سے کما حقہ نہیں پہنچ سکتی۔ وہاں یہ ہماری اس خدمت کو مفت اچھی طرح سے پورا کر رہے ہیں۔ انہوں نے وقت کی تشخیص تو بالکل راست کی ہے۔ مگر نتائج نکالنے میں سخت غلطی کرتے ہیں جو آنے والے کی انتظار آسمان سے کرتے ہیں۔

(ملفوظات جلد چہارم جدید ایڈیشن صفحہ240-241)

حضورؑ فرماتے ہیں:
اب ایک ہوا چل پڑی ہے جیسے ہمارے دلوں میں ڈالا ہے کہ مسیح مرگیا ویسے ہی اب ان کے (اہل یورپ و امریکہ کے) لوگوں کے دلوں میں ڈالا ہے۔ اخبار اور رسالے نکلتے ہیں اور مسیح کی امید لگ رہی ہے سب پکار رہے ہیں کہ یہی زمانہ ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم جدید ایڈیشن صفحہ309)

حضورؑ فرماتے ہیں:
پھر احادیث میں پڑھتے تھے کہ مہدی کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوگا اور جب تک یہ نشان پورا نہیں ہوا تھا اس وقت تک شور مچاتے تھے کہ یہ نشان پورا نہیں ہوا، لیکن اب ساری دنیا قریباً گواہ ہے کہ یہ نشان پورا ہوا۔ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی ہوا۔ اور دوسرے ممالک میں بھی پورا ہوا۔

(ملفوظات جلد چہارم جدید ایڈیشن صفحہ119)

حضورؑ فرماتے ہیں:
امریکہ سے جناب مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ ایک ڈاکٹر کی بیوی نے اپنے کسی عارضہ کے لیے دعا کی درخواست کی تھی آپ نے فرمایا:
اس کو جواب میں لکھا جاوے کہ اس میں شک نہیں کہ دعاؤں کی قبولیت پر ہمارا ایمان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے مگر دعاؤں کے اثر اور قبولیت کو توجہ کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے اور پھر حقوق کے لحاظ سے دعا کے لیے جوش پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کاحق سب پر غالب ہے اس وقت دنیا میں شرک پھیلا ہوا ہے اور ایک عاجز انسان کو الله تعالیٰ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اس لیے فطرتی طور پر ہماری توجہ اس طرف غالب ہورہی ہے کہ دنیا کو اس شرک سے نجات ملے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم ہو اس کے سوا دوسری طرف ہم تو جہ کر ہی نہیں سکتے۔ اور یہ بات ہمارے مقاصد اور کام سے دور ہے کہ اس کو چھوڑ کر دوسری طرف توجہ کریں بلکہ اس میں ایک قسم کی معصیت کا خطرہ ہوتا ہے۔

ہاں یہ میرا ایمان ہے کہ بیماروں یا مصیبت زدوں کے لیے توجہ کی جاوے تو اس کا اثر ضرور ہوتا ہے بلکہ ایک وقت یہ امر بطور نشان کے بھی مخالفوں کے سامنے پیش کیا گیا اور کوئی مقابلہ میں نہ آ یا اس وقت میری ساری توجہ اسی ایک امرکی طرف ہورہی ہے کہ یہ مخلوق پرستی دور ہو اور صلیب ٹوٹ جاوے اس لیے ہر کام کی طرف اس وقت میں توجہ نہیں کر سکتا۔ خدا نے مجھے اسی طرف متوجہ کر دیا ہے کہ یہ شرک جو پھیلا ہوا ہے اور حضرت عیسیٰؑ کو خدا بنا یا گیا ہے اس کو نیست و نابود کر دیا جاوے۔ یہ جوش سمندر کی طرح میرے دل میں ہے اسی لیے ڈوئی کو لکھا ہے کہ وہ مقابلہ کے لیے نکلے پس تم صبر کرو جب تک کہ ایک دعا کا فیصلہ ہو جاوے اس کے بعد ایسے امور کی طرف بھی الله تعالیٰ چاہے تو توجہ ہوسکتی ہے لیکن دعا کرانے والے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور الله تعالیٰ سے صلح کرے اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔ پس جہاں تک ممکن ہو تم اپنے آپ کو درست کرو اور یہ یقیناً سمجھ لو کہ انسان کا پرستار کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

مسیحؑ کی زندگی کے حالات پڑھوتو صاف معلوم ہوگا کہ وہ خدا نہیں ہے اس کو اپنی زندگی میں کس قدر کوفتیں اورکلفتیں اٹھانی پڑیں اور دعا کی عدم قبولیت کا کیسا برانمونہ اس کی زندگی میں دکھایا گیا ہے خصوصاً باغ والی دعا جوایسے اضطراب کی دعا ہے وہ بھی قبول نہ ہوئی اور وہ پیالہ ٹل نہ سکا۔ پس ایسی حالت میں مقد م یہ ہے کہ تم اپنی حالت کو درست کرو اور انسان کی پرستش چھوڑ کر حقیقی خدا کی پرستش کرو۔

(ملفوظات جلد پنجم جدید ایڈیشن صفحہ 244-245)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے۔ ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتہ لگتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً (البقرہ: 31)۔ خلیفہ کہتے ہیں جا نشین کو۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی۔ پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں۔

(ملفوظات جلد دہم- پرانا ایڈیشن صفحہ432)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

گفتگو کا سلیقہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2021