• 4 مئی, 2024

حضرت حافظ عبدالعلیؓ

حضرت حافظ عبدالعلیؓ ۔ سرگودھا

حضرت حافظ عبدالعلی رضی اللہ عنہ ولد حضرت مولوی نظام الدین رضی اللہ قوم جٹ رانجھا پیشہ زمینداری موضع ادرحمہ ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازاً 1874ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کی توفیق سب سے پہلے آپ کے چچا حضرت مولوی شیر محمد رضی اللہ عنہ آف ہجن یکے از 313 صحابہ (بیعت:7؍ستمبر 1889ء۔ وفات:1904ء) کو نصیب ہوئی، جس کے بعد آپ کا گھرانہ بھی داخل احمدیت ہوگیا۔ آپ کے والد حضرت مولوی نظام الدین صاحبؓ  اور والدہ حضرت گوہر بی بی صاحبہؓ  بھی اصحاب احمد میں سے تھے۔ اسی طرح چھوٹے بھائی حضرت مولوی شیر علی رضی اللہ عنہ بھی سلسلہ احمدیہ کے ایک درخشندہ گوہر تھے۔

حضرت حافظ عبدالعلی رضی اللہ عنہ نے بفضلہٖ تعالیٰ ابتدائی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق پائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں چلے گئے جس کے بعد لاہور سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے مئی 1893ء میں بر موقع مباحثہ مابین حضرت مسیح موعود علیہ السلام و عبداللہ آتھم بمقام امرتسر بیعت کی توفیق پائی۔ بیعت کے چند دن بعد علی گڑھ ایف اے میں داخلے کے لیے چلے گئے۔ (الحکم 28؍جنوری 1943ء صفحہ8۔ رجسٹر روایات صحابہ نمبر3 صفحہ144) آپ اپنی بیان کردہ روایات میں فرماتے ہیں:
’’مباحثہ مذکورہ میں عاجز بھی شامل تھا۔ حضور کو اپنے دعاوی کے اثبات میں قرآن شریف کی آیات از بر یاد تھیں۔ پوری یاد تھیں۔ عاجز اور ایک اور حافظ کا یہ کام تھا کہ حضور کو سیپارہ، سورۃ اور رکوع کا پتہ عرض کردیں۔ غالباًقرآن شریف کھول کر وہ جگہ نکال کر پیش کردیتے۔ عاجز چند دن کے بعد علی گڑھ ایف۔ اے میں داخل ہونے کے لئے چلا گیا۔

ڈاکٹر مارٹن کلارک والے مقدمہ اقدام قتل میں ایک دفعہ حضور کپتان ڈگلس کے سامنے بمقام بٹالہ پیش تھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ حضور نے نماز پڑھنے کے لئے عدالت سے اجازت چاہی۔ عدالت نے اجازت دے دی۔ حضور بڑے خوش ہوئے اور فرمایا کہ عرصہ (غالباً بیس سال فرمایا) ہوا۔ مجھے ایک خواب آئی تھی کہ میں ایک بادشاہ یا حاکم کے روبرو پیش ہوں۔ نماز کا وقت آگیا۔ میں نے اس سے نماز کی اجازت چاہی۔ اس نے مجھے اجازت دے دی۔ آج وہ خواب میری پوری ہوئی۔ میں اس وقت موجود تھا۔ جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا۔

اسی مقدمہ کے دوران میں آپ گورداسپورہ بمع خدام تشریف رکھتے تھے علی احمد صاحب وکیل کی کوٹھی پر۔ آپ کے اردگرد بہت خدام بیٹھتے۔ آپ خلوت کو بہت پسند فرماتے۔ چھوٹی سی کوٹھی تھی۔ آپ خلوت کے حصول کے لئے چھوٹے کمروں میں تشریف لے جاتے۔

اسی مقدمہ میں ’’مارٹینو‘‘ (Martinow) مجسٹریٹ ضلع امرتسر نے آپ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔ اسی اثناء میں وہ مقدمہ عدالت ضلع گورداسپورہ میں قانونی بنا پر تبدیل ہوگیا۔ وارنٹ گرفتاری منسوخ ہوگئے۔ معمولی اطلاع نامہ کے ذریعہ اطلاع یابی ہوئی۔ آپ کو حالات معلوم ہوئے۔ آپ فرماتے کہ ’’راہ خدا میں ہم ہتھکڑی کو سونے کا کنگن خیال کرتے اور خوش ہوتے اور خوشی سے پہنتے‘‘۔ یہ ارشادات آپ نے نچلے گول کمرے میں فرمائے۔

آپ شام کا کھانا بمعہ خدام چھوٹی مسجد کے چھت پر تناول فرماتے۔ میں بھی کئی دفعہ پاس بیٹھنے کا شرف حاصل کرتا آپ تھوڑا سا کھانا کھاتے۔

ایک دفعہ موسم گرما میں ظہر سے پہلے تخلیہ میں چھوٹی مسجد میں حضور نے مجھ سے ایک کتاب (انگریزی) سنی۔ چند دن کے لئے ایسا ہوا۔ یہ کتاب کسی یہودی نے عیسائیت کے ردّ میں لکھی تھی۔ یہ غالباً 98ء کی بات ہے۔

آپ نہایت اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ بعد از نماز صبح سیر کے لئے باہر تشریف لائے۔ مرزانظام الدین صاحب کے مکان کے بڑے دروازے کے سامنے ایک چبوترہ تھا۔ وہاں آپ کا ایک غریب اور عاجز سا خادم بیٹھا ہوا تھا۔ نہایت معمولی اس کی پوشاک اور حالت تھی۔ آپ نے اس سے پوچھا۔ بخار کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا۔ حضور! بخار فلاں وقت ہوجاتا ہے۔ آپ خود اندر تشریف لے گئے۔ ایک گلاس دودھ اور ایک گولی کونین لے آئے اور اسے دونوں چیزیں استعمال کے لئے دے دیں۔

آپ کا اسوۂ حسنہ یہ تھا۔ ’’اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ‘‘ آپ مرزا نظام الدین وغیرہ سے اس لئے قطع تعلق رکھتے تھے کہ ان کا خدا کے ساتھ تعلق نہ تھا۔

میں بوقت خطبہ الہامیہ موجود تھا۔ حضور کی آواز اس وقت بدلی ہوئی تھی۔ ضلع سیالکوٹ کا ایک سید ملہم (خادم حضور) میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ فرشتے بھی سننے کے لئے موجود ہیں۔

ضلع شاہ پور سے ایک سکھ بمعہ اپنے لڑکے کے ’’مٹھہ ٹوانہ‘‘ موضع سے آیا۔ اس کے لڑکے کو غالباً تپ دق تھا۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دوا کرانے آیا تھا۔ اس کا باپ دعا کے لئے حاضر ہوتا۔ آپ دعا فرماتے۔ آپ کو الہاماً ایک نسخہ معلوم ہوا۔ جو اس پر معرفت حضرت مولوی صاحب استعمال ہوا اور وہ لڑکا شفایاب ہوگیا۔ وہ نسخہ اب تپ دق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ جلد3 صفحہ144-147)

یہی روایات الفضل 24؍جون 1942ء صفحہ3 پر شائع شدہ ہیں۔ آپ بفضلہٖ تعالیٰ 313 کبار صحابہ میں بھی شامل ہیں آپ کا نام اس فہرست میں 140 نمبر پر موجود ہے۔ آپ نے کچھ عرصہ حیدرآباد دکن میں بھی وکالت کی۔ 1928ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جلسہ سیرت النبیؐ کا آغاز فرمایا تو آپ نے بھی آنحضرتﷺ کے اخلاق مبارکہ کی اشاعت کے لیے سیرت رسولؐ پر انعامی مضامین کا مقابلہ کرایا چنانچہ آپ کی طرف سے اخبار الفضل میں یوں اعلان شائع شدہ ہے:

تین انعام نقد

پچاس روپے! پچیس روپے! دس روپے!

پہلا انعام اس غیر مسلم بھائی یا بہن کو دیا جائے گا جو حضرت رسول عربی محمد مصطفیٰﷺ کے: 1۔ پاک حالات زندگی 2۔ بنی نوع انسان پر احسانات 3۔ مخلوق خدا کے لیے بے نظیر قربانیاں۔ پر بہترین مضمون لکھ کر ہندوستان کے کسی مقام پر جلسہ منعقدہ 20؍جون میں سنائے، جس کی تصدیق مقامی جماعت احمدیہ کے امیر کریں اور اس مضمون کی نسبت حضرت خلیفۃ المسیح قادیان اپنے درجہ کے مضامین میں سب سے بہتر ہونے کی تصدیق فرمائیں۔ یہ مضمون کم از کم 16 صفحہ فل سکیپ کاغذ پر ہو۔

دوسرا انعام اس مسلمان بہن کو جو عنوانات بالا پر کم از کم 16 صفحے کا مضمون 20؍جون کے زنانہ جلسہ کے لیے قادیان بذریعہ رجسٹری حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بھیج دے یا اس جلسہ میں خود سنائے۔ بشرط تصدیق حضرت خلیفۃ المسیح دیا جائے گا۔

تیسرا انعام تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے کسی طالب علم کو جو کم از کم 12 صفحے کا مضمون مذکورہ بالا عنوانات پر لکھ کر جلسہ 20؍ جون میں سنائے۔ بشرط تصدیق حضرت خلیفۃ المسیح انعام دیا جائے گا۔

خاکسار حافظ عبدالعلی۔ وکیل ہائی کورٹ حیدرآباد دکن عقب کتب خانہ سرکاری۔

(الفضل 31؍جنوری 1928ء صفحہ1)

بعد ازاں آپ بلاک نمبر 9 سرگودھا شہر میں رہائش پذیر ہوگئے۔ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’….. سرگودھا شہر میں بھی مَیں بار ہا گیا۔ وہاں کے امیر حضرت حافظ مولوی عبدالعلی صاحبؓ  بی اے ایل ایل بی پلیڈر برادر حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ و ارضاہ تھے۔ سرگودھا میں علاوہ درس و تدریس کے حضرت حافظ صاحب سے علمی و روحانی مذاکرہ اور مجالست کا بھی موقع ملتا۔ حافظ صاحب اکثر یہ فرمایا کرتے کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت یا کلام سنائیں جس سے روحانیت اور قرب الٰہی میسر آئے اور وہ بات مختصر اور مطلب خیز ہو۔ حافظ صاحب کی اس فرمائش پر میں نے ان کی خدمت میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ شعر پیش کیا کہ

حریصِ غربت و عجزم ازاں روزے کہ دانستم
کہ جا در خاطرش باشد دلِ مجروح غربت را

یعنی میں اسی روز سے غربت اور عجز کا حریص رہتا ہوں جب سے مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ اس جانِ جہاں اور محبوب ازل کے دل میں ایسے ہی درد مند عاشق کے لئے جگہ ہے جس کا دل غربت و مسکینی سے مجروح ہو چکا ہو۔

حافظ صاحب اس شعر کو سن کر بہت خوش ہوئے اور جب کبھی بھی اس کے بعد میرے ساتھ ان کی ملاقات ہوتی تو اس شعر کا اور اس کے مطالب کا ضرور شوق کے ساتھ ذکر فرماتے اور اس کو بار بار پڑھتے اور روحانیت کے حصول کے لئے بہت ہی مفید نسخہ قرار دیتے اور اکثر فرماتے کہ یہ شعر تصوف کی جان ہے۔‘‘

(حیات قدسی صفحہ185-186)

آپ بفضلہ تعالیٰ موصی (وصیت نمبر 6374) تھے۔ آپ نے 18؍نومبر 1948ء کو وفات پائی اخبار الفضل نے لکھا:
’’یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برادر اکبر حضرت حافظ عبدالعلی صاحب بی اے ایل ایل بی مورخہ 18؍نومبر 1948ء بروز جمعرات اس دار فانی سے رحلت فرماگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے۔ احباب بلندی درجات کے لیے دعا فرمائیں۔‘‘

(الفضل 23؍نومبر 1948ء صفحہ3)

آپ کی اہلیہ کا نام حضرت دولت بی بی صاحبہ تھا، انہوں نے 1903ء میں بیعت کی۔ (الفضل 16؍جون 1943ء صفحہ 7) ان کی وفات 24؍دسمبر 1949ء کو ہوئی، آپ کے بیٹے مکرم عبدالمالک صاحب نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’میری والدہ (زوجہ حضرت حافظ عبدالعلی صاحب مرحوم) 24؍دسمبر کو نہایت مختصر سی علالت کے بعد دائمی اجل کو لبیک کہتی ہوئی اپنے مولائے حقیقی سے جا ملیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ احباب دعائے مغفرت فرما کر مشکور فرمائیں۔‘‘

(الفضل 17؍جنوری 1950ء صفحہ2)

آپ کی اولاد میں:

  1. غلام فاطمہ صاحبہ (وفات: 9؍دسمبر 1968ء) اہلیہ مخدوم بشیر احمد صاحب
  2. غلام حفصہ صاحبہ اہلیہ چوہدری نذیر احمد صاحب
  3. روشن بخت صاحبہ اہلیہ غلام احمد صاحب ضلعدار
  4. چوہدری عبدالمالک صاحب
  5. مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری علی اکبر صاحب سابق نائب ناظر تعلیم
  6. زیب النساء بیگم صاحبہ (وفات: 8؍ستمبر 2002ء) اہلیہ ڈاکٹر محمد سعید صاحب سرگودھا

(نوٹ: آپ کی تصویر آپ کی نواسی محترمہ فرخ دلدار صاحبہ اہلیہ کرنل دلدار احمد صاحب ٹوارنٹو، کینیڈا نے مہیا کی ہے، فجزاھا اللّٰہ احسن الجزاء)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ریجنل جلسہ سالانہ کمپالا ر یجن، یوگنڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2022