• 4 مئی, 2024

عورتوں سے مصافحہ کرنا

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ

(الاحزاب: 22)

یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے۔

نیز اسی طرح فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ

(آل عمران: 32)

یعنی (اے رسول!) تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

آج کل کے اس دور میں نا محرم عورتوں سے مصافہ کرنے یا ہاتھ ملانے کوبرا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لیے کامل نمونہ ہیں غیر محرم عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں عورتوں سے بیعت لینے کا ذکر آتا ہے کہ ’’اے رسول! ان سے مختلف باتوں پر بیعت لے‘‘ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنِّیْ لَا اُصَافِحُ النِّسَآءَ (سنن نسائی) کہ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ  بیان فرماتی ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی زبانی بیعت لیا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی غیر محرم کے ہاتھ کو مس نہیں کیا سوائے ایسی عورت کے جو آپ کی بیوی ہوںِ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت یہ بیان فرمائی ہے کہ نا محرم سے مصافحہ کرنا میری سنت نہیں ہے۔ چنانچہ ہم جو آپ کے امتی ہونے کے دعویدار ہیں ہمارا فرض ہے کہ آپ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے عورتوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔

اسی طرح آیت کریمہ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ کے مطابق ہر نبی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے امت اس کی اولاد ہوتے ہیں نبی سے عورتوں کا پردہ نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ

(الحجرات: 2)

یعنی اپنے آپ کو اور اپنی رائے کو اللہ اور رسول پر فوقیت نہ دو اور اپنی رائے اور عمل کو آپﷺ کی رائے سے آگے نہ کرو۔

نامحرم عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت کسی آیت اور نہ کسی حدیث سے ہمیں ملتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہمارے لئے قابل اعتبار اور واجب الاتباع ہے اور اگر افراد امت غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کریں گے تو وہ آپ کے نمونے کی پیروی کرنے کی بجائے آپ کے نمونے کی نافرمانی کر رہے ہوں گے۔

نبی خواہ تشریعی ہو یا غیر تشریعی اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے فیصلوں کا انکار کفر ہے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
ہمارے سید و مولیٰ افضل الانبیاء خیر الاصفیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقوی دیکھئے کہ وہ ان عورتوں کے ہاتھ سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے تھے جو پاک دامن اور نیک بخت ہوتی تھیں۔ اور بیعت کرنے کے لیے آتی تھیں۔ بلکہ دور بٹھا کر صرف زبانی تلقین توبہ کرتے تھے۔ مگر کون عقلمند اور پرہیزگار ایسے شخص کو پاک باطن سمجھے گا جو جوان عورتوں کے چھونے سے پرہیز نہیں کرتا۔

(نور القرآن، روحانی خزائن جلد9 صفحہ449)

حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
ایک دفعہ ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفا خانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے۔ اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے۔ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے حضرت صاحب نے فرمایا: ’’کہ یہ تو جائز نہیں ہے۔آپ کو عذر کر دینا چاہئے۔ کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں‘‘

(سیرت المہدی جلد اول صفحہ263)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں شرعی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ مردوں کو غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہ کرنا چاہئے ۔۔۔ کیونکہ ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا یا کم از کم ہمارے نزدیک نہیں دیتا۔ اور جب ہم اس مذہب کو مانتے ہیں تو ہمارا فرض ہے سچائی اور دیانتداری سے مانیں۔

(خطبات محمود جلد11 صفحہ424)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا کہ کیا کوئی عورت اپنے خاوند کے بھائیوں، کزن یا اپنے کزن سے ہاتھ ملا کر السلام علیکم کر سکتی ہے؟ جس کے جواب میں حضورؒ نے فرمایا ہے ہاتھ ملانا ایک ایسی عادت ہے جو مغربی معاشرے کی وجہ سے ہمارے ہاں رواج پکڑ گئی ہے اور اس میں تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ احتیاط برتی جائے گھر میں بزرگ ہوتے ہیں ان کے بچے ہوتے ہیں بزرگ انکو پیار سے گلے سے لگاتا ہے بعض دفعہ سر پہ ہاتھ پھیرتا ہے کسی کے ذہن میں وہم و گمان بھی نہیں گزر سکتا ہے کہ اس تعلق میں کسی قسم کی قباحت ہے اور یہ ہمارے ملک میں خصوصا ًگھر کے بزرگوں کے پاس جا کے سر کو آگے کرنا یہ رواج پایا جاتا ہے اس کی کیا سند ہے یہ میں نہیں جانتا۔ مگر جس رنگ میں یہ رائج ہے کبھی سے کوئی بدی پھیلتی ہوئی ہمیں نظر نہیں آتی۔ مگر جس کا یہ ذکر کر رہے ہیں گھر میں کزن وغیرہ ہو اور ان سے ہاتھ ملاتے پھریں اس سے بہت بدیاں پھیل سکتی ہیں۔ اور یہ آغاز ہے خلا ملا کا۔ اس لیے میرے نزدیک تو اس کو سختی سے منع کرنا چاہئے سختی سے اسے روکنا چاہئے اس رسم کو اگر رواج دینگے تو معاشرے میں بہت سی بدیاں پیدا ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔

(مجلس عرفان الفضل 5؍اکتوبر 2002ء صفحہ3)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے تمام خلفاء کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ غیر محرم عورت سے مصافحہ نہیں کرتے اور اسے جائز نہیں سمجھتے تھے خواہ وہ آپس میں رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔

البتہ حقیقی باپ بیٹی اور حقیقی بہن بھائی باہمی ایسے رشتے ہیں جن میں ایک دوسرے کی نسبت جذبات میں محبت اور حیا پائی جاتی ہے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی بابت غلط خیالات پیدا نہیں ہوتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑتے اسے چومتے اور اپنی نشست پر بٹھا دیتے۔

(سنن ابن داؤد)

ان ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اختیار کریں۔اور نا محرم عورتوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کریں اور اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی اس پھیلتی ہوئی بدی سے بچانے کی کوشش کرتے رہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

’’مردوں سے غیر ضروری باتیں کرنے اور بے جا بے تکلفی سے بھی مردوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ ہاتھ ملائیں۔ احمدی عورتوں کو اپنا مقام پہچاننا چاہئے اور اگلے کو ایسا موقع نہیں دینا چاہئے اور ان کو بتا دینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں عورت مرد سے سلام نہیں کرتی یعنی ہاتھ نہیں ملاتے‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ آئرلینڈ 18ستمبر 2010ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اکتوبر 2010ء)

(شیراز احمد)

پچھلا پڑھیں

ریجنل جلسہ سالانہ کمپالا ر یجن، یوگنڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2022