• 21 جولائی, 2025

تکبر کے نقصانات

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی خصوصیات اور صفات کا مالک بنایا ہے جس کو اپنے صحیح وقت پر استعمال کیا جائے تو اس کے بے شمارفوائد اسے حاصل ہوسکتے ہیں لیکن اگر ان کو غلط جگہ استعمال کیا جائے یا حد اعتدال سے نکلا جائے تو وہی چیز نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اپنے اندر ایک عجیب رنگ رکھتی ہیں جن کے رنگ میں ڈھل کر انسان قرب الہیٰ کی منازل طے کر سکتا ہے۔ اسی لیے تو فرمایا صِبْغَةَ اللّٰهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً (البقرة: 139) کہ اللہ کی صفات اختیار کرو اور کون بہتر ہے جو اللہ کی صفات اختیار کرے۔

انہیں صفات میں ایک صفت بزرگی بھی ہے ۔جب انسان خالص اور خالص اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے اور اس کی بزرگی ظاہر کرنے کے لیے آیت وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحى: 12) کے تحت اپنی بزرگی ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن جاتا ہے اور لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (إِبراهيم: 8) کہ اگر تم شکر کرو گے تومیں اور بڑھاوں گا کا وارث بنتا ہے۔ لیکن جب انسان یہ سب فضل اپنی ہی کاوشوں کی وجہ سے حاصل شدہ خیال کرتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنے لگ جاتا ہے تو یہ تکبر کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بجائے اس کے غضب کا اہل ٹھہرتا ہے۔ تکبر عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے غرور کرنا ،اپنے آپ کو بڑا جاننا اور بزرگ ظاہر کرنا وغیرہ۔

تکبر کی اقسام

حضرت مسیح موعود ؑ تکبر کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’تکبر کئی قسم کا ہوتا ہے کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے تو اسکے یہی معنے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے او اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے۔ کبھی زبان سے نکلتا ہے اور کبھی اس کا اظہار سر سے ہوتا ہے کبھی ہاتھ اور پاؤں سے بھی ثابت ہوتا ہے غرضیکہ تکبر کے کئی چشمے ہیں … بعض وقت یہ تکبر دولت سے پیدا ہوتا ہے ۔دولتمند متکبر دوسروں کو کنگال سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کون جو میرا مقابلہ کرے۔ بعض اوقات خاندان اور ذات کا تکبر ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ میری ذات بڑی ہے اور یہ چھوٹی ذات کا ہے … بعض وقت تکبر علم سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص غلط بولتا ہے تو یہ جھٹ اس کا عیب پکڑتا ہے اور شور مچاتا ہے کہ اس کو تو ایک لفظ بھی صحیح بولنا نہیں آتا۔ غرض مختلف قسمیں تکبر کی ہو تی ہیں اور یہ سب کی سب انسان کو نیکیوں سے محروم کردیتی ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے سے روک دیتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ613,614)

فرمایا ’’یہ تکبر کئی طرح پر ہوتا ہے کبھی دولت کے سبب سے ،کبھی علم کے سبب سے کبھی حسن کے سبب سے کبھی نسب کے سبب سے۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر3 صفحہ609)

قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات ملتی ہیں جن میں تکبر کا ذکر ملتا ہے۔ جب ہم تمام آیات پر غور کرتے ہیں تو ہر جگہ یہی سبق ملتا ہے کہ تکبر کرنے والا ہدایت سے دور ہوتا ہے اور اس کے دل پر مہر کر دی جاتی ہے۔ جنت کے دروازے اس پر بند ہوجاتے ہیں اور جہنم اس کا مقدر ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِيْنَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (الزمر: 73) کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازوں مىں داخل ہو جاؤ اُس مىں لمبے عرصہ تک رہنے والے ہو پس تکبر کرنے والوں کا کىا ہى برا ٹھکانہ ہے۔

سب سے پہلا گنا ہ تکبر ہی تھا جو کہ ابلیس نے کیا اور اس کی وجہ سے تا قیامت دھتکارا گیا ۔حضرت آدم علیہ السلام کو ابلیس کا سجدہ نہ کرنا تکبر کی وجہ سے ہی تھا کیونکہ اس نے یہی کہا کہ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ (الأَعراف: 13) میں اس سے بہتر ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کونسا انسان بہتر ہے اور عزت تو سب اللہ کے لیے ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (فاطر: 11) یعنی اللہ ہى کے تصرّف مىں سب عزت ہے۔ اور عزت دی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی جاتی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کسی انسان کی عزت لوگوں کے دلوں میں بیٹھا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون: 9) یعنی عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہی ہے۔ مومنین وہی ہیں جو اپنے اندر عاجزی پیدا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو اور اس کے فضلوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے اسی لیے ایک موقع پر فرمایا ہے کہ إِذَا تَوَاضَعَ العَبدُ رَفَعَهُ اللّٰهُ إِلٰى السَمَاءِ السَابِعَة کہ جب انسان عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے درجات ساتویں آسمان تک بلند کردیتا ہے۔

اسی طرح بعض دفعہ اپنےعہدے کا تکبر ہے۔ انسان سمجھتا ہے جو بات اس نے کہی ہے وہی ٹھیک ہے وہ کسی کی رائے کو سننا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ متکبر انسان پر مہر لگ جاتی ہے كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (مومن: 36) یعنی اسى طرح اللہ ہر متکبر (اور) سخت جابر کے دل پر مہر لگا دىتا ہےکیونکہ وہ کسی کی رائے کو سننا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ کے خالص اورنیک بندے اپنے علم پر کبھی ناز نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی سنتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم الكلمة الحكمة ضالة المؤمن, حيثما وجدها , فهو احق بها (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الحکمۃ) حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے، پر عمل کرتے ہیں۔

روز مرہ کی زندگی میں یہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ متکبر انسان میں بعض دوسری اخلاقی بیماریاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ جیسا کہ جب ایک انسان متکبر ہوگا تو وہ اپنے لیے کوئی چھوٹا کام کرنا ناپسند کرے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ کام کروں گا تو میری عزت میں فرق آجائے گا۔ جب اس میں کام کی عادت نہیں رہتی تو آہستہ آستہ سستی اور کاہلی اس کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ سستی کی وجہ سے جب اس کے سپر د کام کیا جاتا ہے تو وہ کام وقت پر نہیں کر سکتا او ر جب اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارہ میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنی جھوٹی عزت کو بچانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اور آہستہ آہستہ جھوٹ اس کی پکی عادت بن جاتی ہے۔ اس کے ساتھ متکبر آدمی اپنی جھوٹی عزت کو بچانے کے لیے بد دیانت بھی ہوجاتا ہے۔ اپنی جھوٹی عزت کے لیے وہ کسی حد تک جاتا ہے۔ دھوکہ دہی اور بددیانتی شروع کر دیتا ہے۔ پس وہ ا ٓہستہ آہستہ اخلاقی بیماریوں میں دہنستا چلا جاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’تکبر بہت خطر ناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہوجاوے اس کے لیے روحانی موت ہے۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔متکبر شیطان کا بھائی ہوجاتا ہے ۔اس لیے کہ تکبر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار عاجزی ،فروتنی اس میں پائی جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ437)

پھر فرمایا
’’بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبر اور ناز کرتے ہیں بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی ان میں نبی اور رسول آئے تھے لیکن کیا ان کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔جب اس کی حالت بدل گئی ۔۔۔۔ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کےدائرہ سے خارج کردیا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ145)

نیز فرمایا:
’’امرأ کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں اس لیے بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیں ہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں…خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لیے عجز ضروری ہے جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہوگا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو ،خواہ ریاست کے لحاظ سے، خواہ مال کے لحاظ سے، خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے،تو اسی قدر پیچھے رہ جاویگا۔اسی قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں۔بہت ہی کم ہیں جو ان سے نجات پاتے ہیں ۔امارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔ امیر آدمی کو ئی غریب سے غریب اور ادنیٰ آدمی السلام علیکم کہے تو اسے مخاطب کرنا اور وعلیکم السلام کہنا اس کو عار معلوم ہوتا ہے اور خیال گذرتا ہے کہ یہ حقیر اور ذلیل آدمی کب اس قابل ہوتا ہے کہ ہمیں مخاطب کرے‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ88)

اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں صاف طور پر بیان کرتا ہے کہ خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 29) کہ انسان کمزور پىدا کىا گىا ہے۔ پس اپنی حالت کو جانتے ہوئے بھی تکبر کرنا بے وقوفی کا کام ہی ہے۔ قرآن کریم میں حکم ہے کہ فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم: 33) پس اپنے آپ کو (ىونہى) پاک نہ ٹھہراىا کرو وہى ہے جو سب سے زىادہ جانتا ہے کہ متقى کون ہے۔پس اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اپنے آپ کو تو پاک وہی ٹھہرایے گا جو اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھے گا۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہمیشہ دعا میں لگا رہے ۔نہ کہ اس کے برعکس اپنی بڑھائی بیان کرتا پھرے۔

رسول اللہ ﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ مَا نَقَصَت صَدَقَۃ مِن مَال وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبدَاً بِعَفوااِلا عِزاًوَمَا تَوَاضَعَ اَحَدُ لِلّٰہِ اِلاَ رَفَعَہُ اللّٰہُ

(حدیقۃ الصالحین 758)

صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کابندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے ۔جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :۔
’’ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کردے اور اسکے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اورہنر دےدے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ وحشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ وہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جاپڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے ۔ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال او رقوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزأ سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کردے …

وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے ۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ۔ ایسانہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبرٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے نہیں سننا چاہتا اورمنہ پھیر لیتاہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے او رہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے ماموراورمرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پا ؤ ……‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ402,403)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اندر عاجزی اور فروتنی پیدا کرنے کی توفیق عطأ کرے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن سکیں۔ آمین

(مبارک احمد منیر ۔ مبلغ سلسلہ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

پہلا اردوکیمپ، سال 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2021