• 26 اپریل, 2024

سمندر ہماری سوچ سے زیادہ گہرا اور وسیع ہے

ہمارا سمندر پوری زمین کے 70فیصد حصہ پر قابض ہے۔حضرت انسان اب تک تمام سمندر کے صرف 5فیصد زیر آب حصے کو ہی دریافت کر سکا ہے۔ باقی کے 95فیصد سمندر میں کیا ہے اور وہاں کون سی مخلوق پائی جاتی ہے یہ ہم نہیں جانتے۔ 12 افراد اب تک چاند پر چہل قدمی کر چکے ہیں لیکن سمندر کے سب سے گہرے حصے ’’میریانا ٹرینچ‘‘ تک صرف 4 افراد ہی پہنچ سکے ہیں۔سمندر کی گہرائی تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پانی کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔نیز وہاں تک سورج کی روشنی پہنچ نہیں پاتی اور درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے۔ پانی کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ خلاء میں لوگوں کو بھیجنا سمندر کی گہرائی میں بھیجنے کی نسبت آسان ہے۔ پانی کا یہ دباؤ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے سر پہ 50 جمبو جیٹ رکھ دیے جائیں۔ زمین پر رہتے ہوئے عام حالات میں ہم اپنے اوپر جو دباؤ محسوس کرتے ہیں سمندر کے سب سے گہرے حصے میں وہ ایک ہزار گنا تک ہوتا ہے۔ لاکھوں میل دور خلاء میں موجود سیاروں کے نقشے بنانا آسان ہے لیکن سمندر کا مکمل نقشہ ابھی تک نہیں بنایا جا سکا۔ خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا سیاروں کے نقشے بنانے کے لیے ریڈیو ویو کا استعمال کرتا ہے لیکن اس طریقے سے سمندر کا نقشہ بنانا ممکن نہیں۔ کئی ٹرلین گیلن پانی کی موجود گی میں ریڈیو ویو کام نہیں کرتیں۔سمندر کی اپنی ایک مخصوص آواز ہوتی ہے جسے Bloop کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے یہ آواز 1997ء میں ریکارڈ کی۔ کم فریکوئسنی کی یہ آواز بہت تیز ہے اور ہیبت ناک ہے۔

سمندر کے پاتال میں جھلیں اور دریا بھی موجود ہیں۔سننے میں عجیب لگتا ہے کہ سمندر کے اندر دریا اور جھیلیں کیسے ہو سکتی ہیں۔؟ لیکن یہ ممکن ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کے اندر ہی بہت زیادہ نمکین پانی اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کا تعامل پانی کو بہت زیادہ کثیف بنا دیتا ہے۔ ارد گرد موجود پانی کی نسبت جہاں اس کی مقدار زیادہ ہو اس پانی کا اپنا بہاؤ دریا اور جھیل کی طرح سمندر کے اندر ہوتا ہے۔اسی طرح سمندر کے اندر ہی آبشاریں بھی پائی جاتی ہیں۔

دنیا کا سب سے لمبا پہاڑی سلسلہ بھی سمندر کے اندر ہی ہے جسے The Mid-Ocean Ridge کہا جاتا ہے جس کی لمبائی تقریباً 40 ہزار میل ہے۔ اب تک اس پہاڑی سلسلہ کے صرف ایک فیصد حصہ پر ہی تحقیق ہو پائی ہے۔اس کے مقابلہ میں ہم مریخ کے پہاڑی سلسلوں اور اس کی سطح کے بارے میں زیادہ تفصیلی معلومات رکھتے ہیں جو ہماری زمین سے 397 ملین کلومیٹر دور ہے۔ اب تک دریافت ہوئے سب سے گہرے سمندری مقام Challenger Deep میں زمین پر موجود سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کو رکھ دیا جائے تو نہ صرف اس میں ڈوب جائے گا بلکہ دو کلومیٹر جگہ ابھی بھی باقی ہوگی۔ یعنی آپ کو پہاڑ کی چوٹی سے پانی کی سطح تک پہنچنے کے لیے مزید دوکلومیٹر اوپر جانا پڑے گا۔ بحرالکاہل جسے پیسفک اوشین کہاجاتا ہے ہمارے سمندر کا سب سے بڑا حصہ ہےجو انڈونیشیا سے لے کر کولمبیا تک 12300 میل بنتا ہے۔ یہ فاصلہ چاندکے قطر سے پانچ گنا زیاد ہے، اس کا مطلب ہے کہ پانچ چاند ایک قطار میں بحرالکاہل میں رکھے جا سکتے ہیں۔

دنیا کے تمام جانداروں کا 94فیصد آبی حیات پر مشتمل ہے۔لیکن ابھی تک سمندری حیات کا ایک تہائی حصہ انسانی نظروں سے اوجھل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن عجیب و غریب قسم کی سمندری مخلوق دریافت ہوتی رہتی ہے۔انتہائی گہرائی میں جہاں انسان کا پہنچنا تقریباً نا ممکن ہے وہاں بھی مختلف انواع کی مخلوق پائی جاتی ہیں۔کورل ان میں سے ایک ہے، اس کا نا تو دماغ ہوتا ہے نہ ہی منہ اور نا ہی یہ آنکھیں رکھتی ہیں یہ بس ایک پتھر کی طرح ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا شمار سمندری حیات میں ہوتا ہے۔حالیہ تحقیق کے مطابق ہمارا سمندر سب سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتا ہے جس کا اندازہ 50 سے 80 فیصد تک ہے۔ زیر آب موجود الجی نامی پودا سب سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ سونامی میں بننے والی لہریں 100 فٹ تک بلند ہو سکتی ہیں لیکن سمندر میں زیر آب بننے والی لہریں 800 فٹ تک بلند ہوتی ہیں۔ زمین کے 80فیصد آتش فشاں سمندر میں زیر آب موجود ہیں۔جیلی فش کا شمار زمین کے سب سے قدیم باسیوں میں سے ہے جو 100 ملین سال سے زمین پر آباد ہیں۔ یعنی جس وقت زمین پر ڈائنوسارس کا راج تھا جیلی فش تب سے سمندروں میں موجود ہے۔

بغیر کسی اضافی آلات کے سمندری کی گہرائی میں جانے کا ریکارڈ ہربرٹ نیشے کے پاس ہے جو ایک سانس میں 214 میٹر تک کی گہرائی میں پہنچے۔ 332 میٹر تک گہرائی میں اسکوبا ڈائیونگ کا عالمی ریکارڈ احمد گابر کے پاس ہے۔ 500 میٹر کی گہرائی میں دنیا کے سب سے بڑے جانور بلیو وہیل کا بسیرا ہوتا ہے۔ اتنی ہی گہرائی میں امریکی ایٹمی آب دوز ’’سی ولف‘‘ بھی کہیں زیر آب تیر رہی ہوتی ہے۔ 550 میٹر کی گہرائی تک ایپمرر پینگوئین غوطہ لگا سکتی ہیں اور یہاں سے وہ مقام شروع ہوتا ہے جہاں پانی کا دباؤ ناقابل برداشت ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 830 میٹر کی گہرائی میں دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ بھی ڈوب جائے گی۔ 1000 میٹر گہرائی سے ہم اس حصے میں داخل ہو جائیں گے جسے The Scary Zone کہا جاتا ہے۔ اس مقام سے آگے سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، یہاں سے سمندر کا تاریک ترین مقام شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں پانی کا دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ کوئی انسان اس مقام پر بغیر کسی مضبوط بیرونی حفاظتی خول کے زندہ نہیں رہ سکتا پانی کے بے پناہ دباؤ سے پچک کر فوراً موت واقع ہو جائے گی۔ سمندری کچھوے 1280 میٹر گہرائی تک جا سکتے ہیں۔ 1800 میٹر کے بعد ہم Grand Canyon کے گہرے ترین مقام تک پہنچ جائیں گے۔2000 میٹر کی گہرائی میں سمندر کی عجیب و غریب اور خوفناک آبی حیات پائی جاتی ہیں جن میں Black Dragonfish بھی ہے۔ 2250 میٹر گہرائی وہ مقام ہے جہاں سپرم وہیل بمشکل پہنچ پاتی ہیں۔ 3800 میٹر وہ گہرائی جہاں ٹائی ٹینک اپنی باقیات کے ساتھ موجود ہے۔ 4000 میٹر سے The Abyssal Zone شروع ہوتا ہے۔ یہاں پر پانی کا دباؤ ایک انچ پر 11000 پاؤنڈ کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں پر فنگ ٹوتھ، اینگلر فش اور وائپر فش پائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں نہایت خوفناک معلوم ہوتی ہیں۔ 4791 میٹر کی گہرائی میں دوسری جنگ عظیم کے سب سے بڑے بحری جہاز بسمارک کی باقیات ہیں جو دوران جنگ غرق ہو گیا تھا۔ 6000 میٹر کی گہرائی میں ہم The Hadal Zone میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر پانی کا دباؤ ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کے سر پر 50 جمبوجیٹ رکھ دیے جائیں۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ اتنا دباؤ ہونے کے باوجود یہاں پر مختلف انواع کی آبی حیات کا وجود ہے۔ 6500 میٹر کی گہرائی وہ مقام ہے جہاں DSV Alvin نامی تحقیقی آب دوز جا سکتی ہے۔ ٹائی ٹینک کی تلاش کا سہرا اسی آب دوز کے سر ہے۔8848 میٹر گہرائی پر ہم ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر پہنچ جائیں گے۔ 10898 میٹر کی گہرائی وہ مقام ہے جہاں 2012ء میں جیمز کیمرون نامی مہم جو Deep Challenger مشن کے تحت پہنچے تھے۔ اس کے باوجود وہ 1960ء میں بنایا گیا ڈان واش اور جیکس پکارڈ کا گہرے ترین مقام تک پہنچنے کا ریکارڈ نا توڑ سکے جو 10916 میٹر تک گہرائی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اس مقام تک پہنچنے میں انہیں 5 گھنٹے لگے اور وہ وہاں صرف 20 منٹ ہی ٹھہر سکے۔پانی کے بے پناہ دباؤ کی وجہ سے آب دوز کی کھڑکی میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں جس پر انہیں واپس سطح پر جانا پڑا۔ 10994 میٹر کی گہرائی وہ مقام ہے جو اب تک کھوجا جا سکا ہے۔ اسے چیلنجر ڈیپ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جگہ گوام آئی لینڈ سے تین سو کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔

سمندر کے یہ مقامات جو حضرت انسان نے اب تک دریافت کیے ہیں پورے سمندر کا صرف 5فیصد ہے۔عین ممکن ہے کہ جو 95فیصد سمندر ہماری نظروں سے اوجھل ہے اس میں چیلنجر ڈیپ سے بھی زیادہ گہرے مقامات ہوں اور ان میں ایسی آبی حیات پائی جاتی ہوں جو ہم نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

پہلا اردوکیمپ، سال 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2021