• 8 جولائی, 2025

چیف گیسٹ!

کبھی کبھی ہماری کجیوں میں ماضی کے ایسے لمحات آتے ہیں جو رُ لاجاتے ہیں اور کبھی کبھی بہت خوبصورت مسکراہٹیں دے جاتے ہیں۔ ایک بہت ہی پُرانی قریباً 35 سالہ پُرانی کُجی میں سے واقعہ سُناتی ہوں۔

جلینگھم میرے کزن کے بیٹے کی شادی میں ہمیں شمولیت کے لئے دعوت نامہ ملا تھا، صبح جا کر شام کو واپس آنا تھا، بڑی سخت سردیوں کے چھوٹے چھوٹے دن تھے، سامی صاحب مرحوم لمبی ڈرائیو سے بہت گھبراتے تھے اس لئے جلینگھم جانا تو اُن کے لئے بہت بڑی بات تھی، سو ہم نے ٹرین پر جانے کا پروگرام بنایا اور سچ بات تو یہ بھی تھی کہ ہمیں ریل کا سفر مفت پڑتا تھا کیونکہ سامی صاحب ریلوے کے ملازم تھے اور ریلوے اسٹیشن بھی ہمارے گھر کے بہت قریب تھا اس لئے کوئی زیادہ دشواری نہیں تھی۔

ہمارے ساتھ ہماری چھوٹی بیٹی سارہ بھی تھی۔ جانے سے پہلے ہم نے جہاں جانا تھا وہاں کی ساری معلومات لے لیں اور جن کے گھر جانا تھا اُن کو بھی کہہ دیا کہ اگر کوئی ہمیں اسٹیشن پر لینے آ جائے تو اچھا ہے ورنہ ہم ٹیکسی لےکر خود ہی پہنچ جائیں گے۔

جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو اچانک سامی صاحب نے دیکھا کہ ایک احمدی لڑکا بھی ہمارے قریب ہی بیٹھا ہوا ہے۔ سامی صاحب نے اُس کو پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو ؟ اُس کا جواب تھا جلینگھم۔

اب اس وقت مجھے یہ تو یاد نہیں کہ وہ شادی پر جا رہا تھا یا کسی کو ملنے۔ ہاں مگر جا پہلی مرتبہ ہی تھا یعنی ہماری طرح ہی تھوڑا گھبرایا ہوا سا۔

جلینگھم کونسا دور ہے جیسے ہی ہماری ٹرین اسٹیشن پر رُکی تو سامنے ہی ہم نے ایک سوٹیڈ بوٹیڈ صاحب کو کھڑے دیکھا۔ ہمارے نیچے اُترتے ہی اُ نہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ لندن سے آئے ہیں ؟ ہم نے جواب دیا جی ہاں ہم شادی پر لندن سے آئے ہیں تو وہ ایک دم بولے میں آپ کو ہی لینے آیا ہوں اور یہ کہ ہم سب نے بھی شادی پر ہی جانا ہے اور ساتھ سامی صاحب کے ہاتھ میں جو بیگ تھا اُنہوں نے اِن کے ہاتھ سے لینا چاہا۔ جو سامی صاحب اُن کو نہیں دینا چاہ رہے تھے کہ وہ خود ہی اُٹھا لیں گے مگر اُن صاحب نے زبر دستی بیگ اُن کے ہاتھ سے لے لیا اور کہا آپ ہمارے مہمان ہیں۔ وہ صاحب بھی سامی صاحب کی عمر کے ہی ہونگے وہ کہنے لگے کہ پہلے آپ ہمارے گھر چلیں کھانا کھا کر پھر وہاں چلتے ہیں ویسے ہم نے بھی شادی پر تو جانا ہی ہے۔

دل میں میں اپنی بھابی کو بہت دعائیں دے رہی تھی کہ اتنی مصروفیت کے باوجود اُ نہوں نے ہمارا اتنا خیال رکھا کہ اسٹیشن پر کسی کو بھیج دیا۔ پر میں نے دل میں کہا اگر کسی کو بھیجنا ہی تھا تو کسی بچے کو بھیج دیتیں بھلا اِن کو کیوں؟ اور پھر وہ اپنے گھر لے کر جانے کے لئے بھی بہت اصرار کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ کھانا تو ہم وہیں جا کر کھائیں گے مگر ہاں واپسی پر ہم آپ کے گھر ضرور جائیں گے۔ شادی ہال میں جب ہم پہنچے تو انہوں نے اپنی بیٹی اور بیوی سے ہمیں ملوایا اور اُن سے کہا یہ مہمان لندن سے آئے ہیں میں اُن ماں بیٹی کو پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ ظاہر ہے وہاں میرے رشتے دار اور جماعت کے کافی لوگ تھے جن سے میں مل رہی تھی مگر سب سے زیادہ جو آؤ بھگت کرنے والی فیملی تھی وہ اُن صاحب کی ہی تھی جو ہمیں اسٹیشن سے لےکر آ ئے تھے اور ہماری خصوصی آؤ بھگت ہو رہی تھی میں اور میری بیٹی بہت حیران ہو رہے تھے کہ بات کیا ہے مگر ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اُنہوں نے ایسٹ لنڈن کی جماعت کی باتیں شروع کر دیں ہم قریباً آٹھ سال وہاں رہ کر حال ہی میں دوسری جگہ منتقل ہوئے تھے سو اُن کی ہر بات کا جواب ہمارے پاس موجود تھا۔ یہ بات بھی میری سمجھ سے باہر تھی کہ اس وقت یہ مجھ سے ایسٹ لندن کی معلومات کیوں لے رہی ہیں؟

اُدھر وہ ماں بیٹی بھی بہت حیران تھیں کہ آپ ان سب کو کیسے جانتی ہیں۔ مَیں نے بتایا کہ یہ سب میرے رشتہ دار ہیں مگر اُن بچاروں کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ معا ملہ کیاہے؟ قریباً ڈیڑھ دو گھنٹوں کے بعد ہماری خاطر داری میں کمی آ گئی۔ دونوں ماں بیٹیوں میں سے ایک غائب تھیں۔ کھانا کھا کر لوگ ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔

سامی صاحب آئے تو کہتے ہیں۔ بھئی! آج میری تو بہت خاطر مدارات ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جو صاحب ہمیں لےکر آئے تھے سب سے میرا تعارف کروا رہے تھے کھانے میں بھی مجھے ہی خاص مہمان کی طرح پیش آرہے تھے۔ جب کہ میں اِن میزبان کو ہی نہیں جانتا باقی تو سب میرے جاننے والے ہیں اور قریباً زیادہ تر لنڈن سے ہی ہیں بھلا میرا اتنا تعارف کیوں؟ سامی کہتے ہیں مگر تھوڑی دیر ہوئی اُ ن کو کوئی بلا کر لے گیا ہے نظر نہیں آئے۔ اچھا چلو! اب واپس چلتے ہیں؟ میں نےکہا میں بھابی سے پوچھتی ہوں اور اُن کو بتا کر چلتے ہیں۔ میں نے اپنی بھابی سے رخصت چاہی کہ رات ہو جائے گی اس لئے اب ہمیں چلنا چاہئے۔ اُس نے کہا فکر نہ کرو آپ کو کوئی اسٹیشن تک چھوڑ آئے گا۔ میں نے کہا نہیں جن صاحب کو آپ نے صبح ہمیں لینے کے لئے بھیجا تھا وہی ہمیں چھوڑ دیں گے۔ وہ حیران ہو کر بولیں ’’ہائیں‘‘ میں نے تو کسی کو نہیں بھیجا۔ شرمندہ ہوں کوئی فارغ ہی نہیں تھا۔ پوچھنے لگیں آپ کو کون لے کر آیا ہے؟ میرا جواب تھا کہ میں تو نہیں جانتی وہ کون ہیں جب میں نے ساری بات بتائی تو حیران تو بہت ہوئیں مگر شادی میں کافی مصروف تھیں۔ اتنی دیر میں دیکھا کہ وہ ماں بیٹیاں بھی آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہی تھیں لگ رہا تھا ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ اُن کی بیٹی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ہمارے گھر کوئی مہمان آئے ہیں ہم لوگ گھر جارہے ہیں مگر اسٹیشن پر میں ہی آپ کو چھوڑ کر آؤں گی آپ انتظار کریں میں ابھی تھوڑی دیر تک آتی ہوں۔ ہم نے کہا کوئی بات نہیں ہم آپ کا انتظار کریں گے۔ ہم تو اس مروت میں تھے کہ صبح سے ان لوگوں نے ہمارے لئے اتنی بھاگ دوڑ کی ہے تو خیر ہے تھوڑے لیٹ بھی ہو گئے تو کوئی بات نہیں لیکن ہم ان کے گھر ضرور جائیں گے۔

واپسی کے لئے اُن کی بیٹی ہمیں لینے آئی تو راز کھلا کہ ماجرا کیا ہے۔ ایسٹ لندن سے کسی نو احمدی فیملی نے ایک دو بچوں کے ساتھ ٹرین سے ہی اُن کے گھر آنا تھا۔ بد قسمتی سے اُن کی ٹرین لیٹ ہوگئی ہماری ٹرین پہلے آ گئی اس طرح سے ہم اَن جانے میں چیف گیسٹ بن گئے اور وہ مہمان بچارے دو ڈھائی گھنٹے اسٹیشن پر بیٹھے رہے گھر والے تو ہماری خاطر مدارت میں لگے ہوئے تھے کوئی گھر ہوتا تو اُن کا فون سنتا (اُن دنوں ابھی موبائل فون نہیں ہوتے تھے) وہ بچارے تھک ہار کر واپس جانے ولے تھے کہ کسی طرح ان کے ساتھ اُن کا رابطہ ہو گیا۔

واپسی پر اُن کی بیٹی ہمیں اپنے گھر لے کر گئی اور ہمیں اسٹیشن تک بھی چھوڑا مگر اب وہ پہلے والی گرم جوشی ختم ہوچکی تھی اُن کے مہمان تھکے ہارے کھانا کھا رہے تھے۔ دل میں تھوڑے ہم بھی شرمندہ تھے اور وہ بھی چُپ چُپ تھے۔

اس واقعہ سے اتنا ضرور ہوا کہ ہمیں ایک بہت ہی اچھی فیملی کے ساتھ ملنا ہوا اس واقعہ کو بہت عرصہ گزر چکا ہے۔ سامی صاحب اور وہ ہمارے مہربان میزبان بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اللہ ان دونوں کی مغفرت فر مائے۔ مگر کبھی جلسہ یا اور کوئی بھی جماعتی تقریب ہوتی ہے تو ہم بہت گرم جوشی اور محبت سے ہلکی سی مسکراہٹ سے ملتے ہیں۔ سچ یاد آیا اسٹیشن سے اُترنے کے بعد اس خوشی میں کہ ہمیں کوئی لینے آ گیا ہے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا کہ وہ بچارا لڑکا کہاں گیا جس کو تھوڑی دیر پہلے دل میں ہم اپنا سہارا بنائے بیٹھے تھے۔

مَیں نے یہ جو لکھا ہے محض ایک دلچسپی کے لئے ہے شائد کہ آپ سب کے لبوں پر تھوڑی سی مسکراہٹ لا سکوں۔ یہ یاد مجھے بہت عزیز بھی ہے اور بہت میٹھی بھی کہ ہم بھی مفت میں چیف گیسٹ بن گئے۔

(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو مسجدوں کی رونقیں مستقل قائم کرنی ہوں گی