16،اکتوبر 1922ء دوشنبہ (سوموار)
مطابق 24صفر1341 ہجری
صفحہ اول پر حضرت مصلح موعودؓ کی صحت سے متعلق اطلاع درج ہے نیز 13 اکتوبر قادیان میں بعد نمازِ جمعہ انجمن ارشاد کے اجلاس کی مختصر رپورٹ شائع ہوئی ہے۔یہ اجلاس زیرِ صدارت مولوی رحیم بخش صاحب(مولاناعبدالرحیم درد)منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مولوی غلام نبی صاحب مصری،مولوی ظہور حسین صاحب اور میاں منورالدین صاحب نے تقاریر کیں۔
صفحہ اول ودوم پر حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ کی حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی مدح میں کہی ہوئی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔
دوسرے صفحہ پر حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی تحریر کردہ ’’رپورٹ صیغہ لنگر خانہ‘‘ شائع ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں دورانِ ہفتہ آمدہ مہمانان کے اسماء، خرچ اجناس اوردیگر اخراجات کی تفصیل کا ذکر ہے۔
صفحہ نمبر3 اور4 پر اداریہ شائع ہوا ہے جس میں اولاً ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے کے طریق کے بارے میں تحریر ہے کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک لیکچر میں جو بریڈلا ہال لاہور میں ایک بہت بڑے مجمع میں دیا۔ہندو مسلم اتحاد کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے اور خطرات سے بچانے کے لیے اور تجاویز کے علاوہ یہ بھی فرمایا تھا کہ ہندو مسلمانوں میں جہاں کہیں فساد ہو اس کی تحقیقات کرنے پر جس فریق کی زیادتی ثابت ہو اُسی فریق کے لوگ اپنے ہم مذہب مفسدوں سے نفرت کا اظہار کریں تو آئندہ کے لیے ہندو مسلمانوں کے فسادرک سکتے ہیں۔‘‘
گزشتہ ایام میں جب موپلوں کا فساد رونما ہوا اور ہندوؤں میں اس سے کھلبلی مچ گئی تو اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح نے مذکورہ بالا تجویز کو دہراتے ہوئے مسلمانوں کی نسبت فرمایا۔ ’’موپلوں کی جو کارروائی ہے اس پر زور سے اعتراض کر نا چاہیے اور دنیا میں ظاہر کرنا چاہیے کہ ان کا فعل خلافِ شریعت ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’یہ طریق درست نہیں کہ اگر کسی سے جرم ہو تو اس کو نظر انداز کیا جائے اور نہ صرف نظر انداز کیا جائے بلکہ مجرموں کی تائید اور ہمدردی کی جائے اس طرح جرم سے نفرت نہیں رہتی۔۔۔‘‘ یہ درست ہے کہ یہی وہ طریق ہے جس پر عمل کرنے سے ہندو مسلمانوں کے فسادات اتحاد کی بنیادوں کو متزلزل نہیں کر سکتے۔‘‘
چنانچہ اخبار نے اس بارہ میں مسلمانوں کےبعض دیگر علماء کے تائیدی حوالہ جات کے ساتھ اس امر کا ذکر کیا ہے۔
اسی طرح مذکورہ اداریہ میں ’’مسیحِ موعود کی مسیحِ ناصری سے ایک اورمماثلت‘‘ کے زیرِ عنوان یہ مماثلت بیان کی گئی ہے کہ غیر ہمیں مرزائی یا قادیانی کے نام سے پکارتے ہیں۔بعینہ اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کے متبعین کو عیسائی،مسیحی یا نصرانی کے ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے۔
اسی اداریہ میں ’’قرآنی صداقت کا اعتراف‘‘ کے عنوان سے یہ ذکر کیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل تو آریہ صاحبان یہ اعتراض کیاکرتے تھے کہ قرآنِ کریم میں کوئی خوبی نہیں ہے لیکن بالآخر اب انہیں بھی قرآنِ کریم میں خوبیاں نظر آنی شروع ہو گئی ہیں۔الفضل اس بارہ میں حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’5اکتوبر 1922ء کے اخبار آریہ گزٹ لاہور کے صفحہ5 پر زیرِ عنوان ’’وید امرت اور قربِ الٰہی‘‘ ایک وید منتر درج ہے۔جس کی تشریح میں صاحبِ مضمون ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اس منتر میں وہی تعلیم دی گئی ہے جو حضرت محمد ﷺ نے قرآن شریف میں دی تھی کہ وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔‘‘ آریہ گزٹ کے اس اخبار سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ آریہ سماج کا قدیم خیال جو جو قرآنِ کریم کے متعلق تھا وہ درست نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ اگر ان کے مسلمات کے مطابق مان لیا جائے کہ قرآن کریم آنحضرت ﷺ کی تصنیف ہے تو اس سے وید کی بے نظیری باطل ہوئی جاتی ہے کیونکہ اس صورت میں خدا کے کلام سے انسان کا کلام لگّا کھاتا نظر آتا ہے۔مگر ہم یہاں بحث کے رنگ کو چھوڑ کر کہتے ہیں کہ اگر ضد و تعصب سے پاک ہو کر اور جانبداری اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر قرآنِ کریم کو دیکھا جائے تو دنیا کو قرآنِ کریم میں ایک ہی آیت نہیں بے شمار آیتیں نظر آئیں گی۔جن میں معارف و حقائق کے دریا بہہ رہے ہیں۔‘‘
(صفحہ5-7 حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 29ستمبر 1922ء شائع ہوا۔)
صفحہ نمبر7تا10 پر ’’دشمن کا حربہ دشمن ہی پر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خلافت کے اواخر میں خداتعالیٰ کی جانب سے قائم کردہ سلسلۂ خلافت کو مٹانے کی غرض سے لاہور سےا یک ٹریکٹ گمنام طور پر ’’اظہارِ حق نمبر1‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس کا جواب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ارشاد پر انجمن انصاراللہ کی جانب سے ’’رسالہ خلافتِ احمدیہ وضمیمہ خلافتِ احمدیہ‘‘ کے نام سے قادیان سے شائع ہوا۔ اس ٹریکٹ کے صرف دو نمبر لاہور سے نکل کر رہ گئے۔مذکورہ ٹریکٹ تاریخ و حقیقت اختلاف غیر مبائعین پر بخوبی روشنی ڈالنے والا ہے۔اس لیے اخبار الفضل کے اس آرٹیکل میں اس کو من و عن شائع کیا گیا۔ان دونوں ٹریکٹس میں جس قدر اتہامات اور بہتانات خلافتِ اولیٰ اور خلافتِ ثانیہ اور دیگر بزرگانِ سلسلہ پر لگائے گئے ان کے دندان شکن جوابات ان ٹریکٹس کے جوابات میں جماعت کی جانب سے دیئے گئے۔
دوسرامقصد مخالفین کے ان اعتراضات کو بعینہٖ اسی طرح شائع کرنے کا یہ تھا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ اس بات کا مشاہدہ کر لے کہ ایک وقت دشمنانِ خلافت نے خلافتِ حقہ احمدیہ اسلامیہ کو مٹانے کی غرض سے جو ا عتراضات کیے اور جن تحفظات کا اظہار کیا۔ قریباً نو سال بعد ہی خداتعالیٰ نے خلافت کے ساتھ فعلی شہادات کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ نو سال قبل فتنہ کی غرض سے پھیلائے گئے گمنام ٹریکٹس محض دھوکہ دہی اور سادہ لوح افراد کو بہکانے کی خاطر تھے۔چنانچہ اس وجہ سے اس آرٹیکل میں مذکورہ ٹریکٹ کا پہلا حصہ ’’اظہارِ حق نمبر1‘‘ شائع کیا گیا۔
(م م محمود)