• 25 اپریل, 2024

ڈینگی بخار سے متعلق اہم معلومات اور بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

تعارف

ڈینگی بخار ایک مخصوص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہونے والے وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ڈینگی بخار ملکی اور بین الاقوامی سطح پر صحت عامہ کا ایک بہت سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ عام طور پر یہ بیماری خطِ سرطان (گرم) یا نیم گرم علاقوں میں واقع شہروں اور دیہاتوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ڈینگی اور کورونا کی ملتی جلتی علامات مرض کی تشخیص (پہچان) اور علاج میں مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران W.H.O. (World Health Organization) کو رپورٹ ہونے والے ڈینگی کے کیسز کی تعداد میں 8 گنا اضافہ ہواہے۔ جبکہ سال 2000ء میں 430 سے 505 کیسز تھے۔ 2010ء میں 2.4 ملین سے زیادہ اور 2019ء میں 5.2 ملین تک پہنچ گئے۔ سال 2000ء اور 2015ء کے درمیان رپورٹ شدہ اموات 960 سے بڑھ کر 4032 ہو گئیں۔

ڈینگی کی تقسیم اور پھیلاؤ

1970ء سے پہلے صرف 9 ممالک کو ڈینگی کی شدید وبا کا سامنا تھا۔ اب یہ بیماری ڈبلیو ایچ او (W.H.O.) کے افریقہ، امریکہ، مشرقی بحیرہ روم، جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی بحرالکاہل کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی بحرالکاہل کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔یورپ سمیت نئے علاقوں میں بیماری کے پھیلنے سے نہ صرف کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ 2010ء میں پہلی بار فرانس اور کروشیا میں مقامی ٹرانسمیشن کی اطلاع ملی اور 3 دیگر یورپی ممالک میں درآمدی کیسز کا پتہ چلا۔ 2012ء میں پرتگال کے مادیرا جزائر پر ڈینگی کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں 2000ء سے زیادہ کیسز سامنے آئے اور پرتگال اور یورپ کے 10 دیگر ممالک میں درآمدی کیسز کا پتہ چلا۔ 2020ء میں ڈینگی نے کئی ممالک کو متاثر کیا۔ جس میں بنگلہ دیش، برازیل، کوک آئی لینڈ، ایکواڈور، انڈیا، انڈونیشیا، مالدیپ، موریطانیہ، مایوٹے (Fr)، نیپال، سنگاپور، سری لنکا، سوڈان، تھائی لینڈ وغیرہ میں کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

رواں سالوں میں جبکہ COVID-19 کی وبائی بیماری ساری دنیاپر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او (W.H.O.) نے اس اہم مدت کے دوران ویکٹر یعنی مختلف حشرات کے واسطہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے ڈینگی اور دیگر Arboviral (آتھرو پوڈا کے ذریعے پھیلنے والا وائرس)بیماریوں کی روک تھام، ان کا پتہ لگانے اور ان کے علاج کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ COVID-19 اور ڈینگی کی وبا کے مشترکہ اثرات خطرے میں پڑنے والی آبادیوں کے لیے ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔

ڈینگی کیسے پھیلتا ہے؟

ڈینگی پھیلانے والا مچھر ایڈیِز ایجپٹی (Aedes Aegypti) ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ مچھر 10 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں پرورش پاتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ درجۂ حرارت میں مر جاتا ہے۔

ایڈیِز (Aedes) مادہ مچھر کے کاٹنے سےڈینگی کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ نر سے ملاپ کےبعد مادہ مچھرکو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے۔ جس سےڈینگی کاوائرس انسان میں سرایت کر جاتا ہے۔ایسے شخص کو اگر دوسرا عام مچھر بھی کاٹ لے تو وہ عام مچھر بھی دوسرے انسانوں کو ڈینگی پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔

ایڈیِز ایجپٹی (Aedes Aegypti) مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے اورعموماً گھروں میں اس طرح کا ماحول انہیں میسر آجاتا ہے۔

ڈینگی بخار کی علامات

اس مرض کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ جسم دردخصوصاً کمر ،ٹانگوں اورجوڑوں میں درد، آنکھوں کے پیچھے درد ، شدید سر درد اور کمزوری کا احساس شامل ہیں۔اس کے علاوہ مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہوتی ہے۔بیماری کی شدید صورت میں جسم پر سرخ نشان پڑ جاتے ہیں اور مسوڑھوں یا ناک سے خون بھی آ سکتا ہے۔بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

  • بخار عموماً 2 سے 7 دن تک جاری رہتا ہے اور درجہ حرارت 104Fسے 106Fتک جاسکتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ مریض کے ناک ، مسوڑھوں یا کسی اور حصے سے خون بہنا شروع ہو سکتاہے ۔ تاہم اکثر صورتوں میں بخار کے کم ہوتے ہی تمام علامات بتدریج ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں لیکن شدید حملے کی صورت میں مریض کی حالت بخار کے چنددن بعد ہی انتہائی خراب ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بلڈپریشر گرجاتاہے اور مریض Shock کی حالت میں جاسکتا ہے اور 12 سے 24 گھنٹے کے اندر اندر اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے مریض کی جان فوراً اور مناسب طبی امداد ملنے کی صورت میں بچائی جا سکتی ہے۔
  • ماہرین کے مطابق ملیریا، ڈینگی اور کووڈ کی علامات مشترکہ ہوسکتی ہیں جس کے باعث مرض کی تشخیص اور علاج دونوں میں مشکل پیش آ سکتی ہے ۔، بخار، اسہال ، قے، سردرد اور جوڑوں میں درد ان بیماریوں کی علامات میں شامل ہیں تاہم کھانسی، ذائقہ اور کسی چیز کی خوشبو یا بدبو سے محرومی اور گلے میں درد جیسی اضافی علامات کورونا کی تشخیص کا باعث بن سکتی ہیں۔ جب کہ ڈینگی کی عام

علامات میں اچانک تیز بخار ، قے، متلی ، جسم میں شدید درد، پلیٹلیٹس (Platelets) میں کمی اورجلد پر سرخ دھبے/دانے وغیرہ شامل ہیں۔

ڈینگی، ملیریا اور کورونا کی علامات میں فرق کیسے کیا جائے؟

  • ڈینگی کی عام علامات میں اچانک تیز بخار ، قے ،متلی ،جسم میں شدید درد ، پلیٹلیٹس (Platelets) میں کمی اورجلد پر سرخ دھبے /دانے وغیرہ شامل ہیں۔
  • ملیریا کی علامات میں بخار میں کپکپی طاری ہونا ،سردی لگنا ،سر درد اورقے شامل ہے اور پسینہ آنا، نیز تھکاوٹ بھی ملیریا کی علامات ہیں۔
  • کورونا کی علامات میں بخار ، خشک کھانسی، تھکاوٹ کے ساتھ درد، سر درد کے ساتھ گلے میں درد ، اسہال، سانس لینے میں دشواری جیسی علامات شامل ہیں۔
  • طبی ماہرین کے مطابق اگر کسی شخص کا بخار 2 سے 3 دن کے دوران بھی کم نہ ہو تو اسے چاہیےکہ اپنے معالج سے فوری رابطہ کرے۔

ڈینگی کی تصدیق کیسے ہو؟

ڈینگی بخار کی نشاندہی ایف بی سی فار ڈینگی( FBC for Dengue) سے اور بخار کے ابتدائی چار دنوں میں تصدیق این ایس ون اینٹی جن ٹیسٹ (NS1 Antigen Test) یا ڈینگی وائرس پی سی آر ٹیسٹ (Dengue Virus PCR Test) نامی خون کے تجزیوں سے ہوتی ہے ۔سرکاری ہسپتال عموماً این ایس ون ٹیسٹ (NS-1) کرتے ہیں ۔جبکہ پی سی آر ٹیسٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے عام طور پر نہیں کیا جاتا۔ بخار کے ابتدائی چار روز بعد عام طور پر IgM اور IgG بلڈ ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

ڈینگی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟

  1. ڈینگی کے مریض کو جتنی جلد ممکن ہو مچھر دانی یا جالی لگا ہوا بستر مہیا کرنا چاہیئے جس پر اُسے زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے۔
  2. مریض کو پانی وافر مقدار میں استعمال کروایا جائے۔ پانی کے علاوہ پھلوں کے جوس، او آر ایس وغیرہ پی سکتے ہیں۔ تاہم عام مشروبات کوک، پیپسی وغیرہ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔
  3. مریض کاعلاج ڈاکٹر کے مشورہ سے کیا جانا چاہیے۔
  4. مریض کا ٹمپر یچر 102Fسے کم رکھیں ۔اس کےلئے مریض کو صرف پیراسٹامول دی جائے۔ مگر ایک بالغ آدمی 02 گولیاں 24 گھنٹے میں 4 مرتبہ سے زیادہ نہ لے ۔ خون پتلاکرنے والی ادویات اسپرین، بروفن اور بخار کو کم کرنے والی ایسی دیگر ادویات کے استعمال سے اجتناب کریں۔
  5. مریض کو ایف بی سی (FBC) ٹیسٹ دہرائے جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کو کتنی مرتبہ دہرانا ہے ۔اس بات کا تعین مریض کے خون کے پہلے ٹیسٹ کے بعد خون میں سفید خلیوں یعنی وائٹ بلڈ سیلز (White Blood Cells) ، پلیٹلیٹس (Platelets) اور ہیماٹوکرٹ (Hematocrit) کی مقدار سے کیا جاتا ہے۔ان ٹیسٹوں کو دہرانے سے آغاز میں سیٹ کیے گئے لیولز کے حساب سےآپ کا معالج علاج کا تعین کرے گا۔
  6. ڈینگی کا مریض مچھر بھگاؤ لوشن ضرور استعمال کرے۔تاکہ مچھر اسے نہ کاٹ سکے اور ڈینگی کے مرض کا پھیلاؤ محدود رہے۔
  7. ہومیو پیتھک ادویات:

درج ذیل ادویات بھی بطور علاج مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔

1. Aconite+ Arsenic Alb 200
2. Typhoidinum + Pyrogenium 200

باری باری ہفتہ میں ایک بار
(3دن کے وقفہ سے)


3. Bryonia + Rhus tox+ Ipecac+
China+ Eupatorium 30

ملاکردن میں 2بار صبح اور شام


4. Echinacea-Q

کھانے کے بعد 10قطرے چند گھونٹ پانی ملا کر دن میں
2 بار صبح اور شام

8۔ اگر دوران علاج مریض کو مندرجہ ذیل علامات میں سے کوئی بھی علامت ظاہر ہو تو فور اًڈاکٹر سے رجوع کریں۔ تیز بخار ہونا، جسم میں شدید درد، بھوک نہ لگنا، آنکھوں کے پیچھے شدید درد ہونا، پانچویں یا ساتویں دن جلد پر خارش، بخار ختم ہونے کے بعد سرخ دھبوں کا نمودار ہونا، ناک یا مسوڑھوں سے خون آنا، بار بار الٹی آنا، کالاپاخانہ آنا، غنودگی کا شکار ہونا، لگاتار کراہنا، پیٹ میں درد ہونا،بہت زیادہ پیاس لگنا (منہ خشک ہونا) ، رنگت پیلی ہوجانا،سانس میں دشواری ہونا۔

ڈینگی سے کیسے بچا جائے؟

1۔مچھروں کے کاٹنے سےمحفوظ رہیں

  • ڈینگی بخار کا مچھر عموماً دن میں کاٹتا ہے اور عام طور پر طلوع آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت زیادہ نمودار ہوتاہے۔ اپنےآپ کو ان کے کاٹنے سے بچائیں۔
  • پوری آستین اور لمبی شلوار یا پینٹ پہنیں جو ٹخنوں کو ڈھانپ سکے۔
  • مچھر بھگانے کے تمام دیگر طریقے مثلاً سلگنے والی کوائل، میٹ، سپرے، مچھر بھگاؤ تیل اور لوشن وغیرہ استعمال کریں۔
  • مچھر دانی کا استعمال خاص کر متاثرہ افراد اور وہ تمام افراد جنہیں دن میں آرام کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً بچے، حاملہ خواتین اور عمر رسیدہ افراد کے لئے ضروری ہے۔

2۔مچھروں کی افزائش کی روک تھام

  • مچھر عام طور پرکھڑے پانی اور گھروں کے گرد کچرے کے ڈھیروں میں افزائش پاتے ہیں ۔ لہٰذا اپنے گھروں کے اندر یا باہر پانی کو کھڑا/ جمع نہ ہونے دیں اس طرح کچرے کوبھی باقاعدگی سے اٹھواتے رہیں۔
  • روم کولر وغیرہ سے پانی خارج کردیں۔ اسی طرح پانی کی بالٹی، ڈرم ، ٹینکی اور دوسرے برتنوں کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھیں۔
  • تلف شدہ اشیاء یا برتن جن میں پانی ٹھہرنے کا خدشہ ہو مثلاً پانی کی استعمال شدہ بوتلیں، پلاسٹک، بیگ، ٹین، ٹائرز وغیرہ کو اکٹھا کرکے مناسب طریق سے ٹھکانے لگا دیں۔
  • ایئرکنڈیشنر سے خارج ہونے والے پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔
  • بارش کا پانی کسی بھی جگہ زیادہ وقت کے لئے جمع نہ ہونے دیا جائے۔
  • ہفتے میں 2 سے 3 بار گھر ، دفاتر اور دکانوں میں صفائی کرکے مچھر مار سپرے کروایا جائے۔ خصوصی طور پر کونوں کھدروں اور فرنیچر کے نیچے سپرے لازمی کروایا جائے۔ گھر کے پردوں کو بھی مچھر مار ادویات سے سپرے کریں اور سپرے کے بعد دروازے ایک گھنٹے کے لئے بند رکھیں۔
  • گھر میں جڑی بوٹی ’’حرمل‘‘ کی دھونی دینے سے ہر قسم کے کیڑے مکوڑے اور مچھر وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔

3۔ہومیو پیتھک ادویات بطور حفظ ماتقدم

  • ہفتہ میں ایک بار Dengue Fever -200
  • ملا کر دن میں ایک بار Bryonia + Rhustox+ Ipecac+ China+ Eupatorium 30

ڈینگی کے بارے میں کچھ مفروضے اور حقائق

ڈینگی ایک متعدی مرض ہے؟

یہ بات صرف مفروضہ ہے کیونکہ ڈینگی مچھروں کے ذریعے ہی پھیلتا ہے یہ کسی فرد سے براہِ راست نہیں لگ سکتا۔

تاہم اگر کوئی عام مچھر کسی ڈینگی کے مریض کو کاٹے تو اس میں بھی ڈینگی وائرس منتقل ہو جاتا ہے اور یہ مچھر ایک ڈینگی مچھر جتنا ہی موذی ثابت ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کو خاص طور پر مچھر دانیوں میں رکھا جاتا ہے۔

پلیٹ لیٹس (Platelets) میں کمی کا مطلب ڈینگی ہے؟

یہ بات صرف مفروضہ ہے۔ اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ متعدد عارضے ہیں جو اسی قسم کی تصویر پیش کرتے ہیں۔

تاہم کیونکہ ڈینگی بخار ہمارے ہاں وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے، اس لیے پلیٹ لیٹس میں کمی کے حوالے سے ایک حد تک شک کرنا صحیح ہے۔

پلیٹ لیٹس کی مقدار کم ہونے کے باوجود زیادہ تر مریضوں میں اس کی ٹرانسفیوژن یعنی انہیں مصنوعی طور پر پلیٹ لیٹس نہیں دی جاتیں۔

ٹرانسفیوژن صرف مندرجہ ذیل صورتوں میں دی جاتی ہے:

  1. جب ان کی تعداد 10 ہزار سے کم ہو جائے
  2. جب پلیٹ لیٹس کی تعداد 10 سے 20 ہزار کے درمیان ہو اور جسم کے کسی حصے سے خون آنے لگے۔
  3. جسم کے کسی بھی حصہ سے بہت زیادہ خون آنے لگے چاہے پلیٹ لیٹس کی مقدار جتنی بھی ہو۔

ڈینگی زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے؟

نہیں، یہ غلط ہے۔ ڈینگی وائرس کی چار مختلف اقسام ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اگر کسی کو ایک قسم کا ڈینگی وائرس حملہ آور ہوا ہے تو اس بات کا امکان کم ہو گا کہ وہ شخص دوبارہ اسی قسم کے وائرس کا شکار ہو۔تاہم ساتھ ہی ڈینگی وائرس کی کسی دوسری اور زیادہ خطرناک قسم کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

ڈینگی پر قابو پانے کے طریقے

  • اس بیماری پر قابو پانے کے لئے ڈینگی بخار میں مبتلا کرنے والے مچھروں کا خاتمہ ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے۔لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔
  • ان مچھروں کی افزائش زیادہ تر گھروں میں پانی جمع کرکے رکھنے والے برتنوں مثلاًپانی کے مٹکوں، پودوں کے گملوں، پانی کی ٹینکیوں ، واٹر کولر ، ٹین کے کنستر ، استعمال شدہ ٹائر اور وہ تمام کنٹینرز جہاں بارش کا پانی جمع ہو جائے وہاں تیزی سے ہوتی ہے ۔
  • ان مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لئے ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے طریقے اپنانے ہوں گے مثلًا گھریلو کچرے کا مناسب بندوبست، جمع شدہ صاف پانی کو مچھروں سے بچانا یعنی تمام پانی کی ٹینکیوں، گھڑوں اور دوسرے برتنوں کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھنا۔ نیز مچھر مار دواؤں کا چھڑکاؤ خاص کر جہاں ڈینگی بخار کا وائرس پھیلانے والا مچھر افزائش پاسکتا ہے ۔ خصوصاً گھروں کے اندر تاریک اور ٹھنڈی جگہیں جہاں مچھر کاٹنے کے بعد آرام کرتا ہے۔
  • مچھر دانیوں کا استعمال بھی ان سے بچاؤ کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ ڈینگی بخار کے مریض کو تو لازماً مچھر دانی کے اندر رکھا جائے۔
  • یہ بہت ضرور ی ہے کہ ان انفرادی احتیاطوں کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں فضائی سپرے بھی کیا جاتا رہے ۔
  • صفائی کو قائم رکھ کر اگر مچھروں کی افزائش کا ماحول ہی ختم کر دیا جائے تو اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے اور اکثر ترقی یافتہ ممالک نے اسی طرح اس مرض پر قابو پایا ہے۔

(ڈاکٹر محمد احمد اشرف)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 12؍نومبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 نومبر 2021