• 2 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 28)

قرآنی انبیاء
ذوالقرنین حصہ دوم
قسط 28

حصہ اول اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں: https://www.alfazlonline.org/01/11/2022/71603

یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خورس کو جو ذوالقرنین تھا مسیح کہا گیا ہے اور مسیح موعود کو ذوالقرنین۔ ذوالقرنین کے حالات کے مشابہ حالات آخری زمانہ میں بھی ایک مثیل ذوالقرنین کے لئے مقدر ہیں اس لئے اس واقعہ کو قرآن کریم میں بطورپیشگوئی بیان کیاگیاہے۔

ذوالقرنین کے متعلق قرآن کریم صرف ایک جگہ سورہ کہف کی اٹھارہ آیات میں ذکر ملتا ہے جو کہ اس سورہ کی آیت نمبر 84 تا 102 ہیں۔ ان آیات میں ایک صاحب الہام تاریخی شخصیت کا ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح ذوالقرنین کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی ذوالقرنین کا لقب عطا فرمایا ہے۔ اس لئے اس موضوع کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ میں اس صاحب الہام تاریخی شخصیت کا ذکر کیا جا چکاہے اب دوسرے حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذوالقرنین ہونے کا بیان کیاجا رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَیَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۴﴾اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَاٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا ﴿ۙ۸۵﴾فَاَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۸۶﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّوَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَاِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا ﴿۸۷﴾قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا﴿۸۸﴾وَاَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَسَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۹﴾ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۰﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَطۡلُعُ عَلٰی قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلۡ لَّہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہَا سِتۡرًا ﴿ۙ۹۱﴾کَذٰلِکَ ؕ وَقَدۡ اَحَطۡنَا بِمَا لَدَیۡہِ خُبۡرًا ﴿۹۲﴾ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۳﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ بَیۡنَ السَّدَّیۡنِ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا قَوۡمًا ۙ لَّا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ قَوۡلًا ﴿۹۴﴾قَالُوۡا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِنَّ یَاۡجُوۡجَ وَمَاۡجُوۡجَ مُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَہَلۡ نَجۡعَلُ لَکَ خَرۡجًا عَلٰۤی اَنۡ تَجۡعَلَ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَہُمۡ سَدًّا ﴿۹۵﴾قَالَ مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ اَجۡعَلۡ بَیۡنَکُمۡ وَبَیۡنَہُمۡ رَدۡمًا ﴿ۙ۹۶﴾اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا﴿ؕ۹۷﴾فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ یَّظۡہَرُوۡہُ وَمَا اسۡتَطَاعُوۡا لَہٗ نَقۡبًا ﴿۹۸﴾قَالَ ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَکَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا﴿ؕ۹۹﴾وَتَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا﴿ۙ۱۰۰﴾وَّعَرَضۡنَا جَہَنَّمَ یَوۡمَئِذٍ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ عَرۡضَا ۣ﴿۱۰۱﴾ۙالَّذِیۡنَ کَانَتۡ اَعۡیُنُہُمۡ فِیۡ غِطَـآءٍ عَنۡ ذِکۡرِیۡ وَکَانُوۡا لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَمۡعًا ﴿۱۰۲﴾

(الکہف: 84-102)

اور وہ تجھ سے ذوالقرنین کے متعلق بھی سوال کرتے ہیں تو (انہیں) کہہ (کہ) میں ضرور اس کے متعلق کچھ ذکر تمہارے سامنے کروں گا۔ ہم نے یقیناً اسے زمین میں حکومت بخشی تھی اور ہم نے اسے ہر ایک چیز (کے حصول) کا ذریعہ عطا کیا تھا۔ تب وہ ایک راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کے مقام پر پہنچا تو اس نے ایسا پایا کہ (گویا) وہ ایک گدلے چشمے میں ڈوب رہا ہے اور اس نے اس کے پاس کچھ لوگ (آباد) پائے (اس پر) ہم نے (اسے) کہا (کہ) اے ذوالقرنین! تجھے اجازت ہے کہ ان کو عذاب دے یا ان کے بارہ میں حسن سلوک سے کام لے۔ اس نے کہا (ہاں میں ایسا ہی کروں گا اور) جو ظلم کرے گا اسے تو ہم ضرور سزا دیں گے۔ پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت سزا دے گا اور جو ایمان لائے گا اور نیک (اور مناسب حال) عمل کرے گا اس کے لئے (خدا کے ہاں اس کے اعمال کے بدلہ میں) اچھا انجام (مقدر) ہے اور ہم (بھی) ضرور اس کے لئے اپنے حکم سے آسانی والی بات کہیں گے۔ پھر وہ ایک راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے نکلنے کے مقام پر پہنچا تو اس نے اسے ایسے لوگوں پر چڑھتا پایا، جن کے لئے ہم نے (ان کے اور) اس (سورج) کے درمیان کوئی پردہ نہیں بنایا تھا۔ (یہ واقعہ ٹھیک) اسی طرح ہے اور ہم نے اس کے تمام حالات کا خوب پتا رکھا ہوا ہے۔ پھر وہ ایک راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ’تو اس نے ان کے ورے کچھ ایسے لوگ پائے جو بمشکل اس کی بات سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا (کہ) اے ذوالقرنین! یاجوج و ماجوج یقیناً اس ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں پس کیا ہم (لوگ) آپ کے لئے کچھ خراج اس شرط پر مقرر کر دیں کہ آپ ہمارے درمیان اور ان کے درمیان ایک روک بنا دیں۔ اس نے کہا (کہ) اس (قسم کے کاموں) کے متعلق میرے رب نے جو طاقت مجھے بخشی ہے وہ (دشمنوں کے سامانوں سے) بہت بہتر ہے اس لئے تم مجھے مقدور بھر مدد دو تا کہ میں تمہارے درمیان اور ان کے درمیان ایک روک بنادوں۔ تم مجھے لوہے کے ٹکڑے دو (چنانچہ وہ روک تیار ہونے لگی) یہاں تک کہ جب اس نے (پہاڑی کی) ان (دونوں) چوٹیوں کے درمیان برابری پیدا کر دی۔ تو اس نے (ان سے) کہا (کہ اب اس پر آگ) دھونکو۔ حتیٰ کہ جب اس نے اسے (بالکل) آگ (کی طرح) کر دیا تو (ان سے) کہا (کہ اب) مجھے (گلا ہوا) تانبا (لا) دو‘ تا کہ میں (اسے) اس پر ڈال دوں۔ پس (جب وہ دیوار تیار ہو گئی تو) وہ (یعنی یاجوج ماجوج) اس پر چڑھ نہ سکے، اور نہ اس میں کوئی سوراخ کرسکے۔ (اس پر) اس نے کہا (کہ) یہ (کام محض) میرے رب کے خاص احسان سے (ہوا) ہے پھر جب (عالمگیر عذاب کے متعلق) میرے رب کا وعدہ (پورا ہونے پر) آئے گا تو وہ اس (روک) کو (توڑ کر) زمین سے پیوست شدہ ایک ٹیلہ بنا دے گا اور میرے رب کا وعدہ (ضرور) پورا ہو کر رہنے والا ہے اور (جب اس کے پورا ہونے کا وقت آئے گا تو) اُس وقت ہم انہیں ایک دوسرے کے خلاف جوش سے حملہ آور ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور بگل بجایا جائے گا تب ہم ان (سب) کو اکٹھا کر دیں گے اور ہم اس دن جہنم کو کافروں کے بالکل سامنے لے آئیں گے۔ (وہ کافر) جن کی آنکھیں میرے ذکر (یعنی قرآن کریم) کی طرف سے (غفلت کے) پردہ میں تھیں اور وہ سننے کی طاقت (بھی) نہیں رکھتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اَلْقَرْنُ مِنَ الْقَوْمِ سَيَّدُهُمْ: قرن سردار کے معنی میں بھی آتا ہے اور قَرْن سو برس کو بھی کہتے ہیں۔ یہ امر صاحبِ قاموس اللغة نے بھی لکھا ہے۔ یہ معنی بہ نسبت اور معنوں کے جو زمانہ کے متعلق اہلِ لُغت نے کئے ہیں۔ بہت صحیح ہیں… اب ہم اپنے عہدِ مبارک میں جو دیکھتے ہیں۔ تو اس میں ایک امامِ ہمام اور مہدی آخر الزّمان عیسیٰ دوران کو پاتے ہیں کہ وہ بلحاظ اس معنے قرن کے جس میں سو برس قرن کے معنی لئے گئے ہیں ذوالقرنین ہے۔ جیسے ہمارے نقشہ سے ظاہر ہے اور اس قدر دونوں صدیوں کو اس ذوالقرنین نے لیا ہے کہ ایک سعادت مند کو اعتراض کا موقع نہیں رہتا بلکہ حیرت اور یقین ہوتا ہے۔ کہ یہ کیسی آیة بیّنہ اور دلیلِ نیّر اس امام کیلئے ہے اور اس ذوالقرنین نے بھی نہایت مستحکم دیوار دعاؤں اور حجج و دلائلِ نیرّہ کی بلکہ یوں کہیں کہ مسئلہ وفاتِ مسیح اور ابطالِ الوہیت مسیح کی بنا دی ہے کہ اب ممکن ہی نہیں کہ یا جوج ماجوج ہماری جنّت اسلام پر حملہ کر سکے اور کبھی اس میں داخل ہو سکے۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء عن الاسلام والمسلمین۔

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ34-35)

سنہ پیدائش حضرت صاحب مسیح موعود و مہدی 1839ء

عمر حضرت صاحبسنہ عیسویکس سنہ کی ایک صدی کا اختتام اور دوسرے سنہ کا آغاز ہوا۔
118415600 یہود
818472600 رومی
918481900بکرمی
1318521900 عیسوی انطاکیہ
1418532600 بنونضر
1618551900 جولین عیسوی
2318621900 ہسپانی
2718661800 مکابیز
2918682300مٹانک سائیکل
3118701900 اکشن
3418731900 اکتیسی
3618752000 صوریہ
4018791800 تباہی یروشلم
4318821300 ہجری
علیٰ صاحبها التحیّة والسلام
4518841600 ڈایوکلیشن
4618853900 ابراہیمی
4818876600 جولین
4918882200 مقدونی
5118902000 صدونیہ
5218925900 منڈین
5318924700 قسطنطنیہ ملکی
5518941300 فصلی
5618951600 صعودی
5918984700 سکندری
6119001900 عیسوی
6319027500 یونانی منڈین
6919084700 انطاقیہ مذہبی
5118901300فصلی الٰہی
5318921300فصلی
5418931300بنگلہ
418431900 بروسٹہ
611900196085300 آریہ

(نور الدين طبع ثالث صفحه 189 و190)

(نوٹ: کتاب نور الدین سے مندرجہ بالا نقشہ نقل بمطابق اصل ہے۔ بعد کی تحقیق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا سن ولادت 1835ء ثابت ہو چکا ہے اس لئے سن ولادت 1839ء کی بجائے 1835ء اور اسی کے مطابق دی ہوئی عمر میں ہر جگہ 04 سال کا اضافہ سمجھا جائے۔ سید عبد الحئی)

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ35-36)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ذوالقرنین کے ذکر میں ایک اورحکمت بھی ہے اور وہ یہ کہ ذوالقرنین فارس کا بادشاہ تھا۔ پس اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کی پیدائش ایک فارسی نسل کے انسان کے ذریعہ سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو اس کے نیک بندے ہوں جب ان کے کسی نیک فعل کے ثانوی ردعمل کے طور پر کوئی بدی پیداہو تووہ انہی کی اولاد یاہموطن یا مثل کے ذریعہ سے اس بدی کو دور کرواتاہے کہ اس کے نیک بندے کے نام سے ایک دور کا عیب بھی منسوب نہ ہو۔ پس ذوالقرنین کا ذکر اس جگہ اس لئے کیا گیا تااس خبر کو بطور پیشگوئی بیان کر کے ایک دوسرے ذوالقرنین کی خبر دی جاسکے جو فارسی الاصل ہوگااور یاجوج ماجوج کا مقابلہ کر کے اس کے زور کو توڑے گااور اس طرح پہلے ذوالقرنین پر سے الزام کو دور کر ے گا اور ذوالقرنین کا نام اس وجہ سے پائے گا کہ اللہ تعالیٰ اسے دو قوتوں کا وارث بنائے گا۔ ایک مہدویت کی قوت اور ایک مسیحیت کی قوت۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کا وارث ہونے کی وجہ سے مہدی کہلائے گا اور حضرت مسیحؑ کی صفات کو اخذ کرنے کی وجہ سے مسیح کہلائے گا۔ جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ ’’لا مهدي إلا عيسیٰ‘‘ پس ان دونوں قوتوں کے حاصل ہونے کے سبب اس کا نام ذوالقرنین ہو گا۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ وہ بعض پیشگوئیوں کے مطابق دوصدیوں کو پائے گا۔ یعنی ایک صدی کے خاتمہ پر وہ خداتعالیٰ سے الہام پائے گااور دوسری صدی کے شروع ہونے پر اپنا کام ختم کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھایا جائے گا۔ اسی کی طرف حدیث ابن ماجہ میں اشارہ ہے کہ ’’لا مهدي إلا عيسیٰ‘‘ یعنی آنے والاموعود ذوالقرنین ہو گا من جہت مہدی اور من جہت عیسیٰ ہوگا’’

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ493-494)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدّس کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کارسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کے بھی صفات ہوں کیونکہ سورہ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وحی تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے: قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ (الکہف: 87) پس اس وحی الٰہی کی رُو سے کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء اِس اُمت کے لئے ذوالقرنین مَیں ہوں اور قرآن شریف میں مثالی طور پر میری نسبت پیشگوئی موجود ہے مگر اُن کے لئے جو فراست رکھتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو دو صدیوں کو پانے والا ہو اور میری نسبت یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے جس قدر اپنے اپنے طور پر صدیوں کی تقسیم کر رکھی ہے ان تمام تقسیموں کے لحاظ سے جب دیکھا جائے تو ظاہرہوگا کہ میں نے ہرایک قوم کی 2 صدیوں کو پالیا ہے۔ میری عمراس وقت تخمیناً 67سال ہے پس ظاہر ہے کہ اس حساب سے جیسا کہ میں نے 2 ہجری صدیوں کو پالیا ہے۔ ایسا ہی 2عیسائی صدیوں کو بھی پالیا ہے اور ایسا ہی 2 ہندی صدیوں کو بھی جن کا سن بکرماجیت سے شروع ہوتا ہے اور میں نے جہاں تک ممکن تھا قدیم زمانہ کے تمام ممالک شرقی اور غربی کی مقرر شدہ صدیوں کو ملاحظہ کیا ہے کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے 2 صدیاں میں نے نہ پائی ہوں اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا۔ غرض بموجب نص وحی الٰہی کے مَیں ذوالقرنین ہوں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورہ کہف میں ذوالقرنین کے قِصّہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنی کھولے ہیں۔ مَیں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے وہ گزشتہ سے متعلق ہیں اور یہ آئندہ کے متعلق اور قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے اور ذوالقرنین کا قِصّہ مسیح موعود کے زمانہ کیلئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف کی عبارت یہ ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا (الکہف: 84) (حاشیہ میں آیا ہے کہ: یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذو القرنین کا ذکر صرف گزشتہ زمانہ سے وابستہ نہیں بلکہ آئندہ زمانہ میں بھی ایک ذوالقرنین آنے والا ہے اور گزشتہ کا ذکر تو ایک تھوڑی سی بات ہے۔ منہ) یہ لوگ تجھ سے ذوالقرنین کاحال دریافت کرتے ہیں۔ ان کو کہو کہ میں ابھی تھوڑا سا تذکرہ ذوالقرنین کا تم کو سناؤں گا اور پھر بعد اس کے فرمایا: إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (الکہف: 85)۔ یعنی ہم اس کو یعنی مسیح موعود کو جو ذوالقرنین بھی کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا اور ہم ہر طرح سے سازو سامان اس کو دے دیں گے اور اُس کی کارروائیوں کو سہل اور آسان کرد یں گے۔ یاد رہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ حصص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: ألم نجعل لك سهولةً في كلّ أمرٍ یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیر ے لئے آسانی نہیں کردی۔ یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیر ے لئے میسر نہیں کر دیئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لئے وہ سامان تبلیغ اوراشاعت حق کے میسر کر دیئے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے۔ تمام قوموں کی آمد و رفت کی راہیں کھولی گئیں۔ طے مسافرت کے لئے وہ آسانیاں کردی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کو س کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں۔ ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا۔ کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہوگئیں یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں 10 سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا اور پھر ان کے شائع کرنے کے اس قدر حیرت انگیز سامان نکل آئے ہیں کہ ایک تحریر صرف چالیس دن میں تمام دنیا کی آبادی میں شائع ہوسکتی ہے اور اس زمانہ سے پہلے ایک شخص بشرطیکہ اس کی عمر بھی لمبی ہو سو برس تک بھی اس وسیع اشاعت پر قادر نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: فَاَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۸۶﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّوَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَاِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا ﴿۸۷﴾قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا﴿۸۸﴾وَاَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَسَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۹﴾ (الکہف: 86 – 89) یعنی جب ذو القرنین کو جو مسیح موعود ہے ہر ایک طرح کے سامان دیئے جائیں گے۔ پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا۔ یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوگیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا۔ نہ اُن کے مقابل پر آفتاب ہوگا جس سے وہ روشنی پا سکیں اور نہ اُن کے پاس پانی صاف ہوگا جس کو وہ پیویں یعنی ان کی علمی و عملی حالت نہایت خراب ہوگی اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے۔ تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو اِن کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کے لئے بددُعا کرے (جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے) یا اُن کے ساتھ حسن سلوک کا شیوہ اختیار کرے تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جو اب دے گا کہ ہم اُسی کو سزا دلانا چاہتے ہیں جو ظالم ہو۔ وہ دنیا میں بھی ہماری بد دُعا سے سزا یاب ہو گا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا۔ لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو نیک بدلہ دیا جائے گا اور اس کو انہیں کاموں کی بجاآوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہوسکتے ہیں۔ غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گاجبکہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے اور آفتابِ صداقت اُن کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بدبودارچشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے بدبو دار عقائد اور اعمال اُن میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور وہی ان کا پانی ہوگا جس کو وہ پیتے ہوں گے اور روشنی کانام و نشان نہیں ہوگاتاریکی میں پڑے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آج کل ہے جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۰﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَطۡلُعُ عَلٰی قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلۡ لَّہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہَا سِتۡرًا ﴿ۙ۹۱﴾کَذٰلِکَ ؕ وَقَدۡ اَحَطۡنَا بِمَا لَدَیۡہِ خُبۡرًا ﴿۹۲﴾ (الکہف: 90 – 92) یعنی پھر ذوالقرنین جو مسیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی ممالک مشرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کا آفتاب نکلتا ہے اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پر آفتاب نکلا ہے جن کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے ہوں گے اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہوگا جس کو ہم خوب جانتے ہیں مگر وہ لوگ قبول نہیں کریں گے اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے۔ نہ گھر نہ سایہ دار درخت نہ کپڑے جو گرمی سے بچا سکیں اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا اُن کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا۔ یہ اُن لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو اُن کے سامنے موجود ہے اور اُس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چمڑا اُن کا جل جائے اوررنگ سیاہ ہو جائے اور آنکھوں کی روشنی بھی جاتی رہے۔

(حاشیہ میں فرمایا: اس جگہ خداتعالیٰ کو یہ ظاہرکر نا مقصود ہے کہ مسیح موعود کے وقت تین گر وہ ہوں گے۔ ایک گروہ تفریط کی راہ لے گا۔ جو روشنی کو بالکل کھو بیٹھے گا اور دوسرا گروہ افراط کی راہ اختیار کرے گا جو تواضع اور انکسار اور فروتنی سے روشنی سے فائدہ نہیں اٹھائے گا بلکہ خیرہ طبع ہوکر مقابلہ کرنے والے کی طرح روحانی دھوپ کے سامنے محض برہنہ ہونے کی حالت میں کھڑا ہوگا۔ مگر تیسر اگر وہ میانہ حالت میں ہوگا۔ وہ مسیح موعود سے چاہیں گے کہ کسی طرح یا جوج ماجوج کے حملوں سے بچ جائیں اور یاجوج ماجوج، اجیج کے لفظ سے نکلا ہے۔ یعنی وہ قوم جو آگ کے استعمال کرنے میں ماہر ہے۔ منہ)

اس تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے تین قسم کا دورہ ہوگا۔ اوّل اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں۔ دو سرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہوگا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں۔ یعنی ادب سے اور حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے نرے ظاہر پرست ہیں گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں۔ یہ ان مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اور حسن ظن سے کام نہ لیا اس لئے سعادت سے محروم رہ گئے۔ بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۳﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ بَیۡنَ السَّدَّیۡنِ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا قَوۡمًا ۙ لَّا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ قَوۡلًا ﴿۹۴﴾قَالُوۡا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِنَّ یَاۡجُوۡجَ وَمَاۡجُوۡجَ مُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَہَلۡ نَجۡعَلُ لَکَ خَرۡجًا عَلٰۤی اَنۡ تَجۡعَلَ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَہُمۡ سَدًّا ﴿۹۵﴾قَالَ مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ اَجۡعَلۡ بَیۡنَکُمۡ وَبَیۡنَہُمۡ رَدۡمًا ﴿ۙ۹۶﴾اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا﴿ؕ۹۷﴾فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ یَّظۡہَرُوۡہُ وَمَا اسۡتَطَاعُوۡا لَہٗ نَقۡبًا ﴿۹۸﴾قَالَ ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَکَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا﴿ؕ۹۹﴾وَتَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا﴿ۙ۱۰۰﴾وَّعَرَضۡنَا جَہَنَّمَ یَوۡمَئِذٍ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ عَرۡضَا ۣ﴿۱۰۱﴾ۙالَّذِیۡنَ کَانَتۡ اَعۡیُنُہُمۡ فِیۡ غِطَـآءٍ عَنۡ ذِکۡرِیۡ وَکَانُوۡا لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَمۡعًا ﴿۱۰۲﴾٪اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعۡتَدۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا ﴿۱۰۳﴾

(الکہف: 93-103)

پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا اور جب وہ ایک ایسے موقعہ پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسانازک زمانہ پائے گا جس کو بَيْنَ السَّدَّيْنِ کہنا چاہیئے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ۔ مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جب کہ دو طرفہ خوف میں لوگ پڑے ہوں گے اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھائے گی تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اُس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے اور بباعث غلط عقائد مشکل سے اُس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا لیکن آخر کار سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے اور یہ تیسری قوم ہے جو مسیح موعود کی ہدایات سے فیض یاب ہوں گے تب وہ اس کو کہیں گے کہ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچا رکھا ہے پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کردیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنادیں۔ وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی طاقت کے موافق کرو تا مَیں تم میں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں۔ یعنی ایسے طور پر اُن پر حجت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پرحملہ نہ کرسکیں۔ لوہے کی سلیں مجھے لادو تا آمد و رفت کی راہوں کو بند کیا جائے یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو اور اس طرح پر خود لوہے کی سِل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں۔ یعنی محبت الٰہی اس قدر اپنے اندر بھڑکاؤ کہ خود الٰہی رنگ اختیار کرو۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ سے کمال محبت کی یہی علامت ہے کہ محب میں ظلی طور پر الٰہی صفات پیدا ہو جائیں اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعویٰٔ محبت جھوٹ ہے۔ محبت کاملہ کی مثال بعینہ لوہے کی وہ حالت ہے جب کہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اُس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے۔ پس اگرچہ وہ اپنی اصلیت میں لوہا ہے آگ نہیں ہے مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کر گئی ہے اس لئے آگ کے صفات اُس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے۔ آگ کی طرح اس میں روشنی ہے۔ پس محبت الٰہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے اور اگر اسلام اس حقیقت تک پہنچانہ سکتا تو وہ کچھ چیز نہ تھا لیکن اسلام اس حقیقت تک پہنچاتا ہے۔ اوّل انسان کو چاہیئے کہ لوہے کی طرح اپنی استقامت اور ایمانی مضبوطی میں بن جائے کیونکہ اگر ایمانی حالت خس و خاشاک کی طرح ہے تو آگ اُس کو چھوتے ہی بھسم کردے گی۔ پھر کیونکر وہ آگ کا مظہر بن سکتا ہے۔ افسوس بعض نادانوں نے عبودیّت کے اُس تعلق کو جو ربوبیّت کے ساتھ ہے جس سے ظلّی طور پر صفاتِ الٰہیہ بندہ میں پیدا ہوتے ہیں نہ سمجھ کر میری اس وحی من اللہ پراعتراض کیاہے کہ إنَّما أمرك إذا أردتَ شيئاً أن تقول له كُنْ فيكون یعنی تیری یہ بات ہے کہ جب تو ایک بات کو کہے کہ ہو جاتو وہ ہو جاتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے اور اس کی تصدیق اکابر صوفیہ اسلام کر چکے ہیں جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی نے بھی فتوح الغیب میں یہی لکھا ہے اور عجیب تر یہ کہ سید عبد القادر جیلانی نے بھی یہی آیت پیش کی ہے۔ افسوس لوگوں نے صرف رسمی ایمان پر کفایت کرلی ہے اور پوری معرفت کی طلب ان کے نزدیک کفر ہے اور خیال کرتے ہیں کہ یہی ہمارے لئے کافی ہے حالانکہ وہ کچھ بھی چیز نہیں اور اس سے منکر ہیں کہ کسی سے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کامکالمہ مخاطبہ یقینی اور واقعی طور پر ہوسکتا ہے۔ ہاں اس قدر اُن کا خیال ہے کہ دلوں میں القا تو ہوتا ہے مگر نہیں معلوم کہ وہ القا شیطانی ہے یا رحمانی ہے اور نہیں سمجھتے کہ ایسے القا سے ایمانی حالت کو فائدہ کیا ہوا اور کونسی ترقی ہوئی بلکہ ایسا القا تو ایک سخت ابتلا ہے جس میں معصیت کااندیشہ یا ایمان جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اگر ایسی مشتبہ وحی میں جو نہیں معلوم شیطان سے ہے یا رحمان سے ہے کسی کو تاکیدی حکم ہو کہ یہ کام کر تو اگر اس نے وہ کام نہ کیا اس خیال سے کہ شاید یہ شیطان نے حکم دیا ہے اور دراصل وہ خدا کا حکم تھا تو یہ انحراف موجب معصیت ہوا اور اگر اُس حکم کو بجا لایا اور اصل میں شیطان کی طرف سے وہ حکم تھا تو اس سے ایمان گیا۔ پس ایسے الہام پانے والوں سے وہ لوگ اچھے رہے جو ایسے خطرناک الہامات سے جن میں شیطان بھی حصہ دار ہوسکتا ہے۔ محروم ہیں۔ ایسے عقیدہ کی حالت میں عقل بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ممکن ہے کہ کوئی الہام الٰہی ایسا ہو جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا تھا جس کی تعمیل میں اس کے بچہ کی جان خطرہ میں پڑتی تھی یا جیسا کہ خضر علیہ السلام کا الہام تھا جس نے بظاہر حال ایک نفس زکیہ کا ناحق خون کیا اورچونکہ ایسے امور بظاہر شریعت کے برخلاف ہیں اس لئے شیطانی دخل کے احتمال سے کون ان پر عمل کرے گا اور بوجہ عدم تعمیل معصیت میں گرے گا اور ممکن ہے کہ شیطان لعین کوئی ایساحکم دے کہ بظاہر شریعت کے مخالف معلوم نہ ہو اور دراصل بہت فتنہ اور تباہی کا موجب ہو یا پوشیدہ طورپر ایسے امور ہوں جو موجب سلبِ ایمان ہوں۔ پس ایسے مکالمہ مخاطبہ سے فائدہ کیا ہوا۔ پھر آیاتِ متذکرہ بالا کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یاجوج ماجوج سے ڈرتی ہے کہے گا کہ مجھے تانبا لادو کہ مَیں اس کو پگھلا کر اُس دیوار پر انڈیل دوں گا۔ پھر بعد اس کے یاجوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں یا اس میں سوراخ کرسکیں۔ یاد رہے کہ لوہا اگرچہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کرلیتا ہے مگر مشکل سے پگھلتا ہے مگر تانبا جلد پگھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے۔ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ کہ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ کر پگھل جائیں کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے لیکن انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ اول استقامت میں لوہے کی طرح ہو اور پھر وہ لوہا خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑ لے اور پھر دل پگھل کر اس لوہے پر پڑ ے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے۔ سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کیلئے سدِّ سکندری ہیں اور شیطانی رُوح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اورنہ اس میں سوراخ کرسکتی ہے اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہوگا اور اس کاہاتھ یہ سب کچھ کرے گا۔ انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا اور جب قیامت کے دن نزدیک آجائیں گے تو پھر دوبارہ فتنہ برپا ہو جائے گا یہ خدا کا وعدہ ہے اور پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرماکر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مددکے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کردے گا اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اوروہ دن بڑے سخت ہوں گے اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کردے گا اور جو لوگ کفر پر اصرار کرتے ہیں وہ اسی دنیا میں بباعث طرح طرح کی بلائوں کے دوزخ کامنہ دیکھ لیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری کلام سے پردہ میں تھیں اور جن کے کان میرے حکم کو سن نہیں سکتے تھے کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امر سہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم ان کی ضیافت کے لئے اِسی دنیا میں جہنم کو نمودار کردیں گے۔ یعنی بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے اور یہ سب نشان اس کے مسیح موعود کی سچائی پر گواہی دیں گے۔ اُس کریم کے فضل کو دیکھو کہ یہ انعامات اِس مُشتِ خاک پر ہیں جس کو مخالف کافر اور دجّال کہتے ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ118-126)

(مرزا خلیل احمد بیگ۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

بیت البصیر مہدی آباد میں جماعت احمدیہ کا جلسہ سیرۃ النبی ؐ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 نومبر 2022