• 7 مئی, 2025

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 13)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط13

ارشاد ات برائے سرینگر کشمیر

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
* یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحے کا ہوتا کہ سب اسے پڑھ لیں۔ اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے جو واقعات صحیحہ کی بنا پر ثابت ہو گئی ہے۔ اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کر لے۔ اس قسم کا اشتہار ہو جو بہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جاوے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ90 ایڈیشن 2016ء)

* حضرت اقدسؑ نے اس چٹھی کے ذریعہ ڈاکٹر ڈوئی کو دعوت کی ہے کہ:۔
اب فیصلہ کا طریق آسان ہے۔ اس قدر مسلمانوں کے ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مسیح موعود جس کا ڈاکٹر ڈوئی انتظار کرتا ہے آ گیا ہے وہ میں ہوں۔ پس میرے ساتھ مقابلہ کر کے یہ فیصلہ ہوسکتا ہے کہ کون کا ذب اور مفتری ہے۔ ڈاکٹر ڈوئی اپنے مریدوں میں سے ایک ہزار آدمی کے دستخط دے کر ایک قسم اس طرح شائع کر دے کہ ہم دونوں میں سے جو کاذب اور مفتری ہے وہ راست باز اور صادق سے پہلے ہلاک ہو جاوے۔ پس پھر کاذب کی موت خود ایک نشان ہوجاوے گا۔

یہ خلاصہ ہے اس چٹھی کا جس میں اور بھی بہت سے حقائق ہیں۔ حضرت اقدسؑ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ثابت کر دیا جاوے کہ یہ غلط خیال ہے کہ تلوار کبھی مذہب کا فیصلہ نہیں کر سکتی یعنی مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے ضمن میں حضرت مسیح کی موت اور آپ کی قبر پر بحث کی ہے اور ان واقعات کی بنا پر جو انجیل میں درج ہوئے ہیں ثابت کیا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے، بلکہ وہاں سے بچ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشمیر میں آ کر فوت ہوئے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ111 ایڈیشن 2016ء)

* مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے ایک خط سنایا جو کہ سٹریٹ سیٹلمنٹ سے آیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر سے ایک پرانا صحیفہ ایک پادری بنام فداہنمس نے حاصل کیا ہے جو کہ دو ہزار سال کا ہے اس میں مسیح کی آمد اور اس کے منجی ہونے کی پیشگوئی ہے حضرت اقدس نے فر مایا کہ:۔
بعض وقت پادری لوگ عیسوی مذہب کی عظمت دل نشین کرانے کے واسطے ایسی مصنوعات سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ اگر اس صحیفہ میں تثلیت کا ذکر ہوتوسمجھنا چاہیے کہ مصنوعی ہے کیونکہ خودعیسویت کی ابتدا میں تثلیث کا عقیدہ نہ تھا یہ بعد میں وضع ہواہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ366-367 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
* نماز سے کوئی بیس یا پچیس منٹ پیشتر میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خریدی ہے کہ اپنی جماعت کی میتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام مقبرہ بہشتی ہے یعنی جو اس میں دفن ہوگا وہ بہشتی ہوگا۔

پھر اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسر صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پرانی انجیلیں وہاں سے نکلی ہیں میں نے تجویز کی کہ کچھ آدی وہاں جاویں تو وہ انجیلیں لاویں تو ایک کتاب ان پرلکھی جاوے۔ یہ سن کر مولوی مبارک علی صاحب تیار ہوئے کہ میں جاتا ہوں۔ مگر اس مقبر بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جاوے میں نے کہا کہ خلیفہ نور الدین کو بھی ساتھ بھیج دو۔

یہ خواب ہے جو حضرت نے سنایا اور فرمایا کہ:۔
اس سے پیشتر میں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہو سوخدا نے آج اس کی تائید کر دی اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اراده کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کر کے لائے گا وہ قطعی بہشتی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ389 ایڈیشن 2016ء)

* مغرب کی نماز با جماعت ادا کر کے حضرت اقدس حسب معمول مسجد مبارک کے شمال ومغربی گوشہ میں بیٹھ گئے فجر کی خواب پر حضرت اقدس اور اصحاب کبار ذکر کرتے رہے فر مایا کہ:۔
کشمیر میں مسیح کی قبر معلوم ہونے سے بہت قریب ہی فیصلہ ہو جا تا ہے اور سب جھگڑے طے ہو جاتے ہیں اگر فراست نہ بھی ہو تو بھی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ آسان بات کونسی ہے۔ اب آسمان پر جانے کو کون سمجھے جو باتیں قرین قیاس ہوتی ہیں وہی صحیح نکلتی ہیں آج تک خدا کے اعلام سے اس کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوا تھا۔ (مگر اب خود ہی اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا) اب تخم ریزی تو ہوئی ہے امید ہے کہ کچھ اور امور بھی ظاہر ہوں گے عادت اللہ اسی طرح ہے یہ خواب بالکل سچا ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح کی آمیزش نہیں ہے۔ مجھے اس وقت خواب میں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا عظیم الشان کام ہے جیسے کسی کولڑائی پر جانا ہوتا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہماری فراست نے خطا نہیں کی۔ یہ عقده اللہ تعالیٰ حل کر دے تو صد ہا برسوں کا کام ایک ساعت میں ہو جا تا ہے اور عیسائیوں اور ان مولویوں کے گھروں میں ماتم پڑ جاوے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ390 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
* پھر کہتے ہیں کہ سیدنا المسیح کی توہین کرتے ہیں۔ بھلا سوچو تو کہ ہم اگر اپنے پیغمبر سے ان جھوٹے اعتراضات جونافہمی اور کورچشمی سے کر کے مسیح کو آسمان پر زندہ بٹھا کر آنحضرت پر کئے جاتے ہیں ان کے دور کر نے کے واسطےمسیح کی اصل حقیقت کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں؟ ہم اگر کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں بلکہ مر گئے ہیں جیسے دوسرے انبیا بھی مر گئے ہیں تو ان لوگوں کے نزدیک تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہوئی۔ ہم تو خدا کے بلائے بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فرشتے آسمان پر کہتے ہیں۔ افتراء کر نا تو ہمیں آتا نہیں اور نہ ہی افتراء خدا کو پیارا ہے۔ اب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جس طرح آنحضرت کی کسر شان اور ہتک کی گئی۔ ضرور ہے کہ اس کا بدلہ لے لیا جاوے اور آنحضرت ؐکے نور اور جلال کو دوباره از سرنو تازہ و شاداب کر کے دکھا یا جاوے اور یہ اس مسیح کے بت کے ٹوٹنے اور اس کی موت کے ثابت ہونے میں ہے۔ پس ہم خدا کے منشاء اور ارادے کے مطابق کرتے ہیں اب ان کی لڑائی ہم سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔

ان لوگوں نے تو حضرت مسیحؑ کو خاصہ خدا بنایا ہوا ہے اور پھر کہلاتے ہیں مؤحد۔ ان کا اعتقاد ہے کہ وہ زندہ ہے قائم ہے عَلَی السَّمَآء۔ خالق، رازق، غیب دان، محیی،ممیت ہے۔ بھلا اب بتاؤ کہ اگر یہ صفات خدا کی نہیں تو کس کی ہیں؟ بشریت تو ان صفات کی حامل ہوسکتی نہیں۔ خدائی میں فرق ہی کیا رہا؟ یہ تو عیسائیوں کومددد ے رہے ہیں۔ پورے نہیں نیم عیسائی تو ضرور۔اگر ہم ان کے عقائدردیہ کی تردید نہ کریں تو کیا کریں؟ پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اسلام، آنحضرت، خدا تعالیٰ کی طرف سے پاک نبی اور قرآن شریف خدا کا کلام برحق نہیں اور حضرت مسیحؑ زند ہ نہیں بلکہ مر کر کشمیر سرینگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں۔ یہی سچاعقیدہ ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ13-14 ایڈیشن 2016ء)

* بعض عیسائی اخباروں نے مسیح ؑ کی قبرواقعہ کشمیر کے متعلق ظاہر کیا ہے کہ یہ قبرمسیح کی نہیں بلکہ ان کے کسی حواری کی ہے۔ اس تذکرہ پر آپ نے فرمایا کہ:۔
اب تو ان لوگوں نے خود اقرار کر لیا ہے کہ اس قبر کے ساتھ مسیحؑ کا تعلق ضرور ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے کسی حواری کی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ مسیحؑ کی ہے۔ اب اس قبر کے متعلق یہ تاریخی صحیح شہادت ہے کہ وہ شخص جو اس میں مدفون ہے وہ شہزادہ نبی تھا اور قریباً انیس سو برس سے مدفون ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ یہ شخص مسیحؑ کا حواری تھا اب ان پر ہی سوال ہوتا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ مسیحؑ کا کوئی حواری شہزادہ نبی کے نام سے بھی مشہور تھا۔ اور وہ اسی طرف آیا تھا اور یہ یقیناً ثابت نہیں ہوسکتا۔ پس اس صورت میں بجز اس کے ماننے کے کہ یہ مسیح علیہ السلام کی ہی قبر ہے اور کوئی چارہ نہیں۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ200 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
* اسی طرح پر یہود کے بڑے بڑے مولوی فقیہ اور فریسی کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح آئے انہوں نے بھی انکار کیا۔ یا در کھوحق میں ایک خوشبو ہوتی ہے اور وہ خود بخود پھیل جاتی ہے اور خدا اس کی حمایت کرتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا تھا۔ اس وقت میں اکیلا تھا اور کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا،مگر اب پچاس ہزار سے بھی زیادہ انسان اس سلسلہ میں شامل ہیں اور اطراف عالم میں اس دعویٰ کا شور مچ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ اگر ساتھ نہ ہوتا اور اس کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا تو اس کی تائید کیونکر ہوسکتی تھی اور یہ سلسلہ قائم کیونکر رہ سکتا تھا؟

اور پھر یہ نہیں کہ اس طریق میں سب کو خوش کیا گیا تھا ؟ نہیں بلکہ سب سے مخالفت اور سب کو ناراض کیا گیا۔ عیسائی الگ ناراض اور سب سے بڑھ کر ناراض ہیں، جبکہ ان کو سنایا گیا کہ صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کرنے آیا ہوں اور ان کو دعوت کی گئی کہ تمہارا یسوع مسیح جس کو تم نے خدا بنایا ہے اور جس کی صلیبی موت پر جو تمہارے نزدیک لعنتی موت ہے تمہاری نجات منحصر ہے وہ ایک عاجز انسان تھا اور وہ کشمیر میں مرا پڑا ہے۔ عیسائی اگر ناراض تھے تو اور کسی قوم کے ساتھ بھی صلح نہ رہی۔ آریوں کے ساتھ الگ مخالفت جبکہ ان کے نیوگ، تناسخ اور دوسرے معتقدات کی ایسی تردید کی گئی کہ جس کا جواب ان سے کبھی نہ ہو سکے گا۔ اور آخر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بین نشان کے ساتھ ان پر حجت پوری کی۔ اور اگر باہر والے ناراض تھے تو مسلمان ہی خوش ہوتے، مگر تم دیکھ لو کہ ان لوگوں کی جب غلطیاں نکالی گئیں ان کے مشائخ، پیرزادوں مولویوں اور دوسرے لوگوں کی بدعتوں اور مشرکانہ رسومات کو ظاہر کیا گیا اور ان کے خانہ ساز عقائد کو کھولا گیا تو یہ سب سے بڑھ کر دشمن ثابت ہوئے۔ اب ان سب لوگوں کی مخالفت کے ہوتے ہوئے اس سلسلہ کا ترقی کرنا اور دن بدن بڑھنا بتاؤ خدا کی تائید کے بغیر ہو سکتا ہے؟ کیا انسانی منصوبوں سے عظیم الشان سلسلہ چل سکتا ہے؟

(ملفوظات جلد3 صفحہ56 ایڈیشن 2016ء)

* مسیح کی قبر واقع کشمیر کا ذکر تھا۔ اس کے متعلق کو کچھ فرمایا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت سے شواہد اور دلائل سے یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام ہی کی قبر ہے۔ اور یہاں نہ صرف ان کی قبر ہی ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے بعض دوستوں کی قبریں بھی اسی جگہ ہیں۔ اول یوسف آسف کا نام ہی اس پر دلالت کرتا ہے اس کے علاوہ چونکہ وہ اپنے وطن میں باغی ٹھہرائے گئے تھے۔ اس لئے اس گورنمنٹ کےتحت حکومت میں کسی جگہ رہ یہ نہ سکتے تھے۔ پس اللہ تعالےٰ نے ان پر رحم کرکے پسند کیا کہ شام جیسا سرد ملک ہی ان کے لئے تجویز کیا جہاں وہ ہجرت کر کے آگئے س یہودیوں کی دس تباه شده قومیں جن کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ وہ بھی چونکہ یہاں ہی آباد تھیں۔ اس لئے اس فرض تبلیغ کو ادا کرنے کے لئے بھی یہاں ان کا آنا ضروری تھا۔ اور پھر یہاں کے دیہات اور دوسری چیزوں کے نام بھی بلادشام کے بعض دیہات وغیرہ سے ملتے جلتے ہیں۔

(اس موقعہ مفتی محمدصادق صاحب نے عرض کی حضور کاشیر کا لفظ خوو موجود ہے۔ یہ لفظ اصل میں کاشیرہے۔ م تو ہم لوگ ملالیتے ہیں۔ اصل کشمیری کاشیر بولتے ہیں اور کاشیر کہلاتے ہیں۔ اور آشیر عبرانی زبان میں ملک شام کا نام ہے اور ک بمعنے مانندیعنی شام کی مانند۔ پھر اور بہت سے نام ہیں)

حضرت نے فرمایا کہ وہ سب نام جمع کر دتاکہ ان کا حوالہ کسی جگہ دیا جاوے۔

اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ
اکمال الدین جو پرانی کتاب ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انیس سو برس کا ایک نبی ہے۔ پھر کشمیریوں کے رسم ورواج وغیرہ یہودیوں سے ملتے ہیں۔ برنیر فرانسیسی سیاح نے بھی ان کو بنی اسرائیل ہی لکھا ہے۔ اس کے علاوہ تھوما حواری کا ہندوستان میں آنا ثابت ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ39-40 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
* ہم جب مسیح کی موت کے لئے آیت فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ (المائدہ: 118) پیش کرتے ہیں تو اس پر اعترض ہوتاہے مسیح اگر واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے تھے تو پھران کو بجائے فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کے یہ کہنا چاہیے تھا کہ جب تونے مجھے کشمیر پہنچا دیا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اعتراض ایک سفطہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پرسے زندہ ا ترے آئے اور موقعہ پاکر وہ وہاں سے کثیر چلے آئے۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کا حال تو پوچھانہیں۔ وہ تو ان کی اپنی امت کاحال پوچھتا ہے۔ مخالف تو بدستور کا فرکذاب تھے۔

دوسرے یہاں سے مسیح علیہ السلام نے اپنے جواب میں یہ بھی فرمایا ہے مَا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ (المائدہ: 118) میں جب تک ان میں تھا۔ یہ نہیں کہا مَا دُمۡتُ فِیۡٓ اَرْضِھِمْ۔ مَا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ لفظ تقاضا کرتا ہے کہ جہاں سے مسیح جائیں وہاں ان کے حواری بھی جائیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کا ایک مامور ومرسل ایک سخت حادثہ موت سے بچایا جاوے اور پھردہ خدا تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کرے اور اس کے پیرو اورحواری اسے بالکل تنہا چھوڑ دیں اور اس کا پیچھانہ کریں۔نہیں بلکہ وہ بھی ان کے پاس یہاں آئے۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دفعہ ہی سارے نہ آئے ہوں بلکہ متفرق طور پر آگئے ہوں۔ چنانچہ تھوما کا تو ہندوستان میں آناثابت ہی ہے اورخود عیسائیوں نے مان لیا ہے۔ اس قسم کی ہجرت کے لئے خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی نظیر موجود ہے۔ حالانکہ مکہ میں آپؐ کے وفادار اور جاں نثار خدام موجود تھے۔ لیکن جب آپؐ نے ہجرت کی توصرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے لیا۔ مگر اس کے بعد جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو دوسرے اصحاب بھی یکے بعد دیگرے وہیں جا پہنچنے۔ لکھا ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے نکلے اور غارمیں جا کر پوشیدہ ہوئے تو دشمن بھی تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے۔ ان کی آہٹ پاکرحضرت ابوبکرؓ گھبرائے تو الله تعالیٰ نے وحی کی اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ (التوبہ: 40) کہتے ہیں کہ وہ نیچے اتر کر اس کو دیکھنے بھی گئے مگر خدا تعالےٰکی قدرت ہے کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک نے کہا کہ یہ جالا تو (آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی) پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔ اس لئے وہ واپس چلے آئے۔ یہی وجہ ہے جو اکثر اکابرعنکبوت سے محبت کرتے آئے ہیں۔

غرض جیسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے باوجود ایک گروہ کثیر کے اس وقت ابوبکرؓ ہی کو ساتھ لینا پسند کیا اسی طرح پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صرف تھو ما کو ساتھ لے لیا۔ اور چلے آئے۔پس جب حواری ان کے ساتھ تھے تو پھر کوئی اعتراض نہیں رہتا۔

دوسرا سوال اس پر یہ کرتے ہیں کہ جب کہ وہ 87 سال تک زندہ رہے تو ان کی قوم نے ترقی کیوں نہ کی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں ترقی کی ہوگی لیکن حوادث روزگار نے ہلاک کر دیا ہو گا۔ کشمیر میں اکثر زلزلے اور سیلاب آتے رہتے ہیں۔ مدت دراز کے بعد قوم بگڑگئی۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک قوم تھی۔ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ (المومنون: 51) کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ وہ شام ہی میں تھا۔ میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط ہے۔ قرآن شریف خود اس کے مخالف ہے اس لئے کہ اٰوَی لفظ تو اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں ایک مصیبت کے بعد نجات ملے پناہ دی جاوے۔ یہ بات اس رومی سلطنت میں رہ کر انہیں کب حاصل ہو سکتی تھی۔ وہ تو وہاں رہ سکتے ہی نہ تھے۔ اس لئے لازمی طور پر انہوں نے ہجرت کی۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ40-42 ایڈیشن 1984ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

نیشنل یوم امن پر امن مارچ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 دسمبر 2021