• 12 مئی, 2025

عصرِ حاضر میں مذہب کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ۔ خدا تعالیٰ پر ایمان

’’خدا کے وجود کا پتہ دینے والے اور اس کے واحد لاشریک ہونے کا علملوگوں کو سکھلانے والے صرف انبیاءؑ ہیں‘‘ حضرت مسیح موعودؑ

مختلف تجزیے اور تحقیقات اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ دنیا میں خدا پر ایمان لانے والوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ اس سے بھی بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ بڑی عمر کے افراد کی نسبت نوجوان اس لہر سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ گویا مستقبل میں یہ چیلنج مزید سنگین صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ Pewforum کے تحت 2018ء میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق کوریا میں بڑی عمر کے افراد 63 فیصد اور ان کی اگلی نسل 39 فیصد مذہب سے وابستہ ہے، آسٹریلیا میں یہ شرح 43 فیصد بمقابلہ 66 فیصد اور جاپان میں 31 فیصد بمقابلہ 49 فیصد تھی۔ اسی طرح مذہب کی ضرورت، مذہبی پروگراموں میں شمولیت اور مذہب سے وابستگی کے معاملہ میں ہر خطۂ ارضی کم و بیش اسی صورتحال کا شکار نظر آتاہے۔

دوسری طرف مذہبی تحریکات کی شبانہ روز تگ و دو اورمختلف مذاہب اور تنظیموں کی طرف سے عبادت گاہوں اور معابد کی تعمیر اور تزئین وآرائش کے باوجود نئی نسل کو مذہب سے وابستہ رکھنے اور خدا پر ایمان کا عقیدہ راسخ کرنے کی کاوشیں کامیاب نہیں ہوپا رہیں

قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقدس کام انبیاء اور مرسلین کے سپرد کر رکھا ہے اور ان سے وابستگی ہی وہ عروہ وثقی ہے جس کے نتیجہ میں خدا پر ایمان کا عقیدہ قائم رہ سکتا ہے، خدا تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہوسکتا ہے اور خدا کی پہنچان اور عرفان انہی مقدس اساتذہ کی بدولت سیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔

امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’خدا کے وجود کا پتہ دینے والے اور اس کے واحد لاشریک ہونے کا علم لوگوں کو سکھلانے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں۔ اور اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں نہ آتے تو صراط مستقیم کا یقینی طور پر پانا ایک ممتنع اور محال امر تھا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 114)

اس فلسفہ اور حقیقت کو مزید وضاحت سے بیان کرتے ہوئے آپ ؑ نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ خدا پر ایمان رسولوں پر ایمان سے وابستہ ہے۔
’’خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے۔ اس میں راز یہ ہے کہ انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد اس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے۔ اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے جو اس پتھر پر ضرب توجہ لگا کر اس آگ کو باہر نکالتا ہے۔ پس ہرگز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے توحید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے۔ خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 131)

قرآن کریم پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء و مرسلین کے پیغا م میں ایک قدر مشترک نظرآتی ہے کہ وہ خدا کی پہچان اور خدا تعالیٰ کے عرفان کا مشن لے کر مبعوث ہوتے اور توحید کے پرچارک اور پرستار بن کر پورے خلوص اور جوش سے نوع انسان کواُن کے خالق و معبود کی طرف دعوت دیتے ہیں:۔

حضرت نوح علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یقیناً ہم نے نوح کو بھی اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ پس اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں۔ یقینا میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتاہوں۔

(الاعراف:60)

حضرت ابراہیم علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کیا تُو نے اس شخص پر غور کیا جس نے ابراہیم سے اس کے ربّ کے بارہ میں اس بات پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہت عطا کی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ اس نے کہا میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اورمارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا یقیناً اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تُو اسے مغرب سے لے آ، تو وہ جس نے کفر کیا تھا مبہوت ہوگیا۔ اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

(البقرہ:259)

حضرت لوط علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یقیناً میں تمہارے لئے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء:163 تا 164)

حضرت یوسف علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور میں نے اپنے آباء و اجداد ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی۔ ہمارے لئے ممکن نہ تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکو شریک ٹھہراتے۔ یہ اللہ کے فضل ہی سے تھا جو اس نے ہم پر اور (مومن) انسانوں پر کیا لیکن اکثر انسان شکر نہیں کرتے۔

(یوسف:39)

حضرت ہود علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور عاد کی طرف (ہم نے) ان کے بھائی ہود کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم تو محض افتراء کرنے والے ہو۔

(ہود:51 تا 58)

حضرت صالح علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارا اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اسی نے زمین سے تمہیں پروان چڑھایا اور تمہیں اس میں آباد کیا۔ پس اس سے استغفار کرتے رہو پھر اسی کی طرف توبہ کے ساتھ جھکو۔ یقیناً میرا ربّ قریب ہے (اور دعا) قبول کرنے والاہے۔

(ہود:62)

حضرت شعیب علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (ہم نے بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو۔ یقیناً میں تمہیں دولت مند پاتا ہوں اور میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

(ھود:85)

حضرت موسیٰ علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور موسیٰ نے کہا اے فرعون! میں یقینا تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے ایک رسول ہوں۔

(الاعراف:105)

حضرت سلیمان علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور اُس (یعنی سلیمان) نے اُسے اُس سے روکا جس کی وہ اللہ کے سوا عبادت کیا کرتی تھی۔ یقیناً وہ کافر قوم میں سےتھی۔
اسے کہا گیا: محل میں داخل ہوجا۔ پس جب اس نے اسے دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا۔ اُس (یعنی سلیمان) نے کہا یہ تو ایک ایسا محل ہے جو شیشوں سے جَڑا ہوا ہے۔ اس (ملکہ) نے کہا اے میرے ربّ! یقینا میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ اور (اب) میں سلیمان کے ساتھ اللہ، تمام جہانوں کے ربّ کی فرمانبردار ہوتی ہوں۔

(النمل:44-45)

حضرت الیاس علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور پیدا کرنے والوں میں سے سب سے بہترکو چھوڑ دیتے ہو۔
اللہ کو۔ جو تمہارا بھی ربّ ہے اور تمہارے پہلے آباء و اجداد کابھی۔

(الصّٰفٰت:126 تا 127)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
پس جب عیسیٰ نے اُن میں انکار (کا رجحان) محسوس کیا تو اس نے کہا کون اللہ کی طرف (بلانے میں) میرے انصار ہوں گے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور تُو گواہ بن جا کہ ہم فرمانبردار ہیں۔

(آل عمران:53)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ پس ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُسی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

(الاعراف:159)

خدا کی حقیقت صرف انبیاء کے ذریعہ منکشف ہوتی ہے۔

زمانے کے امام حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’انبیاء علیہم السلام دوسروں کے لئے کوشش کرتے ہیں لوگ سوتے ہیں اور وہ ان کے لئے جاگتے ہیں ۔ اور لوگ ہنستے ہیں اور وہ ان کے لئے روتے ہیں اور دنیا کی رہائی کے لئے ہر ایک مصیبت کو بخوشی اپنے پر وارد کر لیتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ تا خدا تعالیٰ کچھ ایسی تجلی فرماوے کہ لوگوں پر ثابت ہو جاوے کہ خدا موجود ہے اور مستعد دلوں پر اس کی ہستی اور اس کی توحید منکشف ہو جاوے تا کہ وہ نجات پائیں۔ پس وہ جانی دشمنوں کی ہمدردی میں مر رہتے ہیں۔ اور جب انتہا درجہ پر ان کا درد پہنچتا ہے اور ان کی درد ناک آہوں سے (جو مخلوق کی رہائی کے لئے ہوتی ہیں) آسمان پر ہو جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمک دکھلاتا ہے اور زبردست نشانوں کے ساتھ اپنی ہستی اور اپنی توحید لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ پس اس میں شک نہیں کہ توحید اور خدادانی کی متاع رسول کے دامن سے ہی دنیا کو ملتی ہے بغیر اس کے ہرگز نہیں مل سکتی…
پس میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار فاضہ اس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 119،118)

عصرِ حاضر میں درپیش اس چیلنج کا حل

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اب پھر وہی وقت ہے اور ویسا ہی زمانہ۔ پس اس وقت بھی خدا کی ہستی کا یقین اسی ذریعہ سے ہو گا جس ذریعہ سے ابتداء میں ہوا تھا۔ اسلام وہی اسلام ہے لہٰذا اس کی کامیابی اور سرسبزی کے بھی وہی ذریعے ہیں جو ابتداء میں تھے۔ اب بھی ضرورت ہے تو اس بات کی کہ خدا کے چہرہ نما ہیبت ناک اقتداری نشانات ظاہر ہوں اور یقین جانو کہ کوئی شخص گناہ سے پاک نہیں ہو سکتا۔ جب تک خدا تعالیٰ کی معرفت کامل نہ ہو۔ یہ گناہ اور طرح طرح کے معاصی جو چاروں طرف دنیا میں بھرے پڑے ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے صرف خشک ایمان کافی نہیں۔ کیا وہ خوف خدا جیسا کہ چاہئے دنیا میں موجود ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اصل میں انسان نفس امارہ کی زنجیروں میں ایسا جکڑا ہوا ہے جیسے کوئی چڑیا کا بچہ ایک شیر کے پنجے میں۔ جب تک اس نفس کے پنجے سے نجات نہ پا جاوے تب تک تبدیلی محال ہے اور گناہ سے بچنا مشکل۔ مگر دیکھو اگر ابھی ایک ہیبت ناک زلزلہ آجاوے اور درودیوار اور مکان کا چھت لرزنے لگے تو دلوں پر ایک ایسی ہیبت طاری ہو گی اور ایسا خوف دلوں پر چھاجائے گا کہ اس وقت گناہ کا خیال تک بھی دلوں میں نہ رہے گا۔ ایک خطرناک مہلک مرض کے وقت جو حالت انسان کی ہوتی ہے وہ امن اور آرام و آسائش کی زندگی میں ہرگز ممکن نہیں۔

انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ کی تجلیات اور زبردست نشانوں کا محتاج ہے ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسی راہ پیدا کر دے کہ انسان کا ایمان خدا تعالیٰ پر تازہ اور پختہ ہو جاوے اور صرف زبان تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ایمان کا اثر اس کی عملی حالت پر بھی ظاہر ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 589)

(انیس احمدندیم۔جاپان)

پچھلا پڑھیں

تنزانیہ کی جماعت دالونی میںمسجد کاافتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ