• 12 مئی, 2025

حضرت مسیح موعودؑ کے عقیدت مند۔برصغیر کےدو نامورصحافی مولوی عبدالقدوس قدسی دہلوی۔مولوی عبد الرحمٰن راسخ دہلوی

انیسویں صدی کے آخری عشروں میں جن اصحاب نے اردو ادب اور اردو صحافت کے حوالے سے نام کمایا ہے ان میں مولوی عبد القدوس قدسی دہلوی اور مولوی عبد الرحمٰن راسخ دہلوی بھی شامل ہیں، نام سے ظاہر ہے کہ دونوں کا تعلق دہلی سے تھا اور دونوں آپس میں کزن تھے، مولوی عبدالرحمٰن راسخ مولوی عبدالقدوس قدسی کے ماموں زاد بھائی تھے۔ دونوں اچھے شاعر تھے اور دونوں اردو صحافت کے ساتھ بھی وابستہ تھے۔ مولوی عبد القدوس قدسی نے دہلی سے یکم مارچ 1885ء کو اخبار ’’صحیفہ قدسی‘‘ کا اجراء کیا، آپ کے تعارف میں لکھا ہے۔

’’اس اخبار کے مالک و ایڈیٹر مولانا قد سی صاحب ہیں جو وقائع نگاری میں یدِطولی رکھتے ہیں، نظم و نثر میں مولانا صاحب شہرہ آفاق ہیں۔ قدسی صاحب کی لیاقت و قابلیت محتاجِ بیان نہیں، آپ کی عبارت برجستہ اور رنگین اور خیالات پاکیزہ ہیں۔ حالانکہ ابھی کچھ عرصہ نہیں گزرا کہ اس اخبار نے اُن اخبارات کے ساتھ جو عمر طبعی کو پہنچ کر پیر نابالغ کہلاتے ہیں، ہمسری کا دعوی ٰپیدا کر لیا ہے بلکہ ایک دو قدم ان سے بڑھ کر چلتا ہے۔ اس اخبار کی قدر و منزلت بدرجہ اولیٰ سمجھی جاتی ہے۔‘‘

(اختر شہنشاہی صفحہ 168،167 تالیف حاجی سید محمد اشرف۔ بار اوّل جون 1888ء مطبع اختر پریس میں لکھنؤ)

مولوی عبد الرحمٰن راسخ (ولادت: 1863ء – وفات: 1907ء) کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، دینی تعلیم بھی اچھی تھی۔ آپ کو نظم و نثر میں ملکہ حاصل تھا، بہت جلد اہل علم طبقہ میں جانے جانے لگے۔ اُس زمانہ کے بعض اخبارات مثلاًخیر خواہ عالم ، افضل الاخبار اور دہلی پنچ و غیره کی ادارت بھی سنبھالی۔ 1893ء میں دہلی سے ماہنامہ ’’گلدستہ‘‘ جاری کیا جس میں ہندوستان کے نامی شعراء کی عمدہ غزلیں اور نظمیں چھپتی تھیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’دیوان راسخ‘‘ اور ’’کلیات راسخ‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے۔ مثنوی مولانا روم کی شرح پر آپ کی کتاب ’’کتاب مرقوم‘‘ بھی آن لائن دستیاب ہے۔ اکتوبر 1907ء میں وفات پائی۔ آپ کی وفات پر قدسی نے آپ کے مختصر ذکر خیر کے ساتھ قطعات بھی کہے۔

(ماہنا مہ ’’مخزن‘‘ لاہوردسمبر 1907 صفحہ 60)

یہ دونوں صاحبان (قد سی صاحب اور راسخ صاحب) گو کہ احمدی نہیں تھے لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقیدت و اخلاص رکھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ حضرت چودھری رستم علی ؓکے ایک خط کے جواب میں اپنے ایک مکتوب محررہ 30دسمبر 1886ء میں تحریر فرمایا۔

’’سردار کی بات بالکل فضول اور دروغ معلوم ہوتی ہے۔ ’’صحیفہ قدسی‘‘ بہت مدت سے میرے پاس آتا ہے اور اس کا ایڈیٹر ایک دوست آدمی ہے۔ اُس میں مجال نہیں کہ کوئی مخالف مضمون چھپے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 489)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ اس کے نیچے نوٹ میں لکھتے ہیں۔
’’صحیفہ قد سی کے ایڈیٹر مولوی عبدالقدوس قدسی مرحوم تھے اور فی الحقیقت حضرت اقدس سے ان کو محبت و اخلاص تھا۔ مقدمہ کرم دین میں وہ بطور گواہ پیش ہوئے۔الحکم کے خریدارتھے۔‘‘

مولا نا راسخ مرحوم بھی قادیان حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہو چکے تھے، حضرت پیر سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔
’’سر ساوہ سے سہارنپور سات کوس ہے، وہاں گیا۔ اسٹیشن پر ایک صاحب امیر کبیر کی عالی شان کوٹھی اور باغیچہ ہے…… ایک دفعہ وہ دارالامان معہ مولوی عبدالرحمن صاحب راسخ دہلوی متوفیٰ گئے تھے ، ان مولوی عبدالرحمٰن صاحب سے بھی میرا اس وقت تعارف اور ملاقات تھی کہ جب میں بھی پڑھتا تھا اور یہ بھی پڑھتے تھے، مولوی صاحب کے ہاتھ میں درد تھا یہ زیادہ بول نہیں سکتے تھے اسی واسطے دوسرے صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں بار بارحاضر ہوتے تھے اور یہ حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ حسن عقیدت رکھتے تھے… جب دہلی میں مولوی محمد بشیر متوفی سے مباحثہ تھاتب بھی برابر اس مخالفت میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے … جناب مفتی محمد صادق صاحب نے ایک …. تقرير دار الامان میں کی تھی جس کو سن کر مولوی راسخ بھی اور یہ صاحب بھی جن کا ذکر ہو رہا ہے عش عش کر گئے۔‘‘

(تذکرة المہدی صفحہ 18،19)

پچھلا پڑھیں

تنزانیہ کی جماعت دالونی میںمسجد کاافتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ