• 26 اپریل, 2024

میری زندگی میں الفضل کا خوبصورت کردار

میری عمر اس وقت چھ سات سال تھی جب میرے بھائی جان ڈاکٹر محمد حفیظ خان (حال ٹورنٹو، کینیڈا) کی شادی قادیان دارالامان میں حضرت بھائی مرزا برکت علی صحابی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر کے ساتھ طے پائی۔ اباجی، ڈاکٹر حبیب اللہ خان نے اپنے اکثر غیراحمدی رشتہ داروں کو اس تقریبِ سعید میں مدعو کیا تھاکہ اس بہانے قادیان آ کر یہاں کا ماحول دیکھیں۔ اُن مدعووین میں ابا جی کے ایک قریبی رشتہ دار مولوی مدد علی صاحب جو وزیر آباد میں احمدیت کے معاند بھی شامل تھے۔ مو صوف ہائی اسکول میں عربی کے ٹیچر تھے، انہیں اپنے علم پر بڑامان تھا۔ دو تین دن قادیان میں ٹھہرے، اس دوران ‘‘الفضل’’ میں بھائی جان کی شادی کی خبر شائع ہو ئی۔

مولوی موصوف نے ابا جی سے الفضل کا شمارہ لیا۔ اعلان کے الفاظ کی شستگی اور دعا کی درخواست سے جل بھن گئے۔ یہ کہتے ہو ئے کہ ‘‘دیکھتا ہوں تمہارے خلیفہ اور تمہاری دعائیں کیسے قبول ہو تی ہیں،میں پیشگو ئی کر تا ہوں، یہ شادی مہینہ بھی نہیں چلے گی’’۔مولوی نے اتنا شورو غوغا مچایا تھا، کہ یہ واقعہ میری یاد داشت میں اب تک نقش ہے۔ الفضل کا شمارہ جس رعونت کے ساتھ انہوں نے طے کر کے اپنے تھیلے میں گھسیڑا، اس سے ان کی احمدیت سے تعصب کی غمازی ہو تی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احباب کی دعاؤں کے طفیل اب اس شادی سے آٹھ کُنبے جرمنی، امریکہ اور کینیڈا میں پھیلے جماعت کی دعاؤں کی قبو لیت کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔پارٹیشن کے بعدہم اپنے گا ؤں چک سان، ضلع گوجرانوالہ اپنے آبائی گھر آگئے، ابا جی افریقہ سے 1948ء میں پیشگی ریٹائرمنٹ لے کر ہم سے آ ملے۔ ڈاک کا انتظام ٹھیک نہیں تھا، ڈاکخانہ گاؤں سے تین میل ایک پرا ئمری سکول میں تھا ۔ہلکارہ گاؤں میں نمبر دار کے پاس ڈاک پہنچا جا یا کر تا تھا، کبھی الفضل ملتا کبھی نہ ملتا۔ جب ملتا تو الفضل پر گا لیاں اوربُرے الفاظ لکھے ہو تے۔ ابا جی لا حول اور دعائیں اوریہ مصرعہ خوش الہانی سے پڑھتے ہوئے

’’حضور کا یہ خط ہے جو میرے نام آیا!‘‘

الفضل کھولتےاور اس کے مضامین میں گم ہو جا تے۔ نمازِ عصر کے بعد جب ہم قرآنِ کریم پڑھنے بیٹھتے، تو ابا جی ہمیں الفضل میں سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی صحت اور دوسری اہم خبریں پڑھ کر سنا تے۔ میں کچھ کچھ اردو الفاظ اُٹھا نے لگا تھا۔ مجھ سے دو تین پیرے سنتے اور مطلب بتاتے۔ ان میں حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات کے علاوہ، تربیتی مضامین اور جماعتی اور ملکی خبریں ہو تیں۔جب ہم 1952ءمیں گکھڑ منڈی منتقل ہو ئےتویہاں ڈاک کا نظام کچھ ٹھیک تھا۔ یہاں میں کلاس ششم کا طالب علم تھا، ہماری مسجد تھی، باقاعدہ باجماعت نمازیں ادا ہو تیں، صبح کی نماز کے بعد تفسیرِکبیر اور عصر کے بعد ملفوظات کا درس معمول تھا۔ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ الفضل سے پڑھ کر سنایا جا تا۔ہم بچے نماز سے پہلے مسجد میں پہنچ کر الماری میں الفضل کے گزشتہ شماروں سے استفادہ کرتے۔1953ء کےفسادات کے دوران جب الفضل پرپا بندی لگا دی گئی۔اگر چہ یہ ہماری رگ جان کاٹ دینے کی کو شش تھی مگر دشمن ’’ الفضل ‘‘سے ہمارا رابطہ کاٹنے میں نا کام رہے، یہ روحانی پانی مسجد کی الماری میں الفضل کے گزشتہ شماروں کے کوزوں میں ذخیرہ ہمارے کام آتارہا۔ عام جہازی قدو کاٹھ کے اخبارات سے ممتاز اس چار ورقہ اخبار کے ہرصفحے پر زندہ مذہب کی زندہ حقیقتوں کو اجاگر کر تے ہو ئے زندہ مضامین ہماری روحانی اشتہا بجھاتے اورحضرت مسیح مو عودؑ اور خلیفۂ وقت کے صدا بہار ارشادات جماعت کی ہر لمحہ رہنمائی کر تے رہے۔ تعصب اور ڈھٹائی نے جوالفضل کے سیلِ رواں کو روکنے کے لئے جتنے بند باندھے تھے، جماعت کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے طفیل چند مہینوں میں تحلیل ہو کر بہہ گئے، اور سلسلۂ احمدیت کا شجر اس روحانی مائیدہ سے پھر سے مستفید ہو نے لگا۔

وقفِ زندگی اور الفضل

انہی دنوں حضرت مصلح موعودؓ کے وقفِ زندگی کے موضوع پر تین چار خطبات الفضل میں چھپے، جنہوں نے احمدی والدین کے ذہنوں میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ان خطبات کے سننے کے بعد ابّا جی مرحوم کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس بات سے کیجیئے ابا جی کئی دن بے تاب سے رہے، ایسا لگتا تھا کہ آپ کے ذہن پرکچھ بو جھ ہے۔ آخر ایک دن مجھے اپنے پاس بلا یا اور کہا۔ شریف بیٹے! تم نے حضرت صاحب کے خطبات سنے اور پڑھے ہیں۔میری خواہش ہے تم اپنی زند گی وقف کر دو۔پہلے تمہارا بھائی منیر وقفِ زندگی تھا، شہید ہو کر اللہ کے پاس چلا گیا۔تمہارے دونوں بڑے بھائی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ تم ہو جو ابھی پڑھ رہے ہو۔ اگر تم زندگی وقف کر دو تو مجھے بڑی خوشی ہو گی۔ میرا ‘‘ہاں’’ میں جواب سن کر بہت خوش ہو ئے اور فوراًحضرت صاحبؓ کی خدمت میں منظوری کے لئے عریضہ لکھا اور جب حضورسے منظوری آئی تو مسجد میں مٹھائی بانٹی اور بار بار خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔اور پھر مجھ سے وصیت کر وائی، الفضل کا وہ پرچہ جس میں میری وصیت کا اعلان ہوا، میں نے ایک عر صے تک سنبھالے رکھا، امریکہ آنے کی اَکھاڑ پچھاڑ میں کہیں گم ہو گیا۔

یہاں تحدیث نعمت کے طور پر بیان کر تا چلوں، جب میں 1963 میں تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرر مقرر ہوا اور محترم سید میر مسعود احمد مر حوم سے تعارف ہوا تو اپنے مخصوص دھیمے انداز میں مسکراتے ہو ئے فرمانے لگے ‘‘تواچھا آپ ہیں محمد شریف، آپ کے والد صاحب کا نام ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب ہے نا اور آپ گکھڑ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں’’، میرا ہاں میں جواب سن کر فرمایا کہ ‘‘جامعہ سے فراغت کے بعد میری پہلی تعیناتی دفتر دیوان وکالت تحریکِ جدید میں ہو ئی تھی۔ اور میرا سب سے پہلا کام نئے واقفین کے نام رجسٹر میں اندراج کرنا تھا۔ مجھے یاد ہے آپ کے نام کا اندراج میں نے سب سے پہلے کیا تھا‘‘۔اللہ تعالیٰ میر صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین

دنیاداروں کے لئے تو اپنے بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے پر لگا دینے کا خیال ایک امتحان سے کم نہیں ہو تا۔ قربان جائیں اس جماعت کے جو خدا تعالیٰ کی رضا جو ئی کی خاطر خلیفۂ وقت کے ایک اشارے پر اپنا تن من دھن اسلام کی خدمت میں نچھاور کر نے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتی ہے خلیفۂ وقت کے ادنیٰ سے اشارے پر اپنے ہو نہارنوجوان بچوں کو خدمتِ دین کے لئے خلیفہ کے قدموں میں لاڈالتی ہے، الحمد للہ میں بھی ان خوش نصیب بچوں میں شامل ہوں۔ اس جذبے میں جماعت کی الفضل کے ذریعے بتدریج تر بیت کابڑا دخل ہے۔ منظوری کی اطلاع کے بعد ابا جی مجھے مسلسل باقاعدہ الفضل پڑھنے کی تلقین کرتے رہتے۔ اور اکثر کو ئی اہم مضمون مجھ سے پڑھواکر سنتے۔ مشکل مقامات پر میری راہنمائی فرماتے۔

فضل عمر ہوسٹل میں الفضل

میڑک کے بعد کچھ ایسے حالات پیدا ہو ئے کہ ارادہ تو جامعہ میں داخلے کا تھا، مگر جامعہ میں چھٹیوں کے باعث حضرت مو لانا ابو العطا جالندھری پر نسپل جامعہ کی تحریک پر تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوا اور فضل عمر ہو سٹل میں رہا۔ ہو سٹل کے common room میں جہاں دوسرے ملکی اخبارمہیا ہو تے وہاں طلباء کی روحانی تسکین کے لئے الفضل بھی نیوز سٹینڈ پر مہیا ہوتا۔میں اور کئی لڑکے باقاعدہ الفضل کے قاری تھے، ابا جی مر حوم بھی اپنے خطوط میں الفضل پڑھنے کی تحریک کرتے رہتے۔

لاہور میں رہائش کے دوران الفضل کی دستیابی

بی ایس سی اور ایم ایس سی کے دوران میں لاہور چار سال رہا۔ نمازِ جمعہ کے لئے مسجد احمدیہ بیرون دہلی گیٹ جاتا جہاں نماز کے بعد میری طرح کئی لوگ الفضل کا مطالعہ کرتے۔ مربی صاحب کے پاس تو ایک ہی پر چہ آتا، مگر کئی احباب سارے ہفتے کے اخبار اکھٹے کر کے ہماری طرح کے قاریوں کے لئے مسجد لے آ تے۔ اس طرح ربوہ سے تعلیمی اغراض سے دوری کا مداوا الفضل کا مطالعہ کر دیتا۔

میرے افعال و کردار کی تر بیت حضور کے ارشادات کرتے رہے۔ اور میری تربیت اور رہنمائی میں الفضل میں شائع ہو نے والے مضامین نے بڑا کر دار ادا کیا۔ ہمیشہ میرے پیشِ نظر رہا کہ میں وقفِ زندگی ہوں، ایک فرشتہ میری نگرانی کر رہا ہے کہ میں اپنے فرائضِ منصبی میں کو تا ہی نہ کروں اور وہ فرشتہ ‘‘الفضل اخبار’’ تھا۔ تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ بی ایس سی کے نتائج کے مطا بق مجھے اسلامیہ کالج سے میڈل اور role of honor دیا گیا، الحمدُ للہ۔

حضرت مسیح مو عود علیہ اسلام کا درجِ ذیل ارشاد ہمیشہ میرے مدّنظر رہا ’’میں ان مسلمانوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علومِ جدیدہ کے مخالف ہیں۔ وہ در اصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہو ئی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بد ظن کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سا ئنس اسلام سے با لکل متزاد چیزیں ہیں۔ کیونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کر نے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علومِ جدیدہ کاپڑھنا ہی جا ئز نہیں۔ ان کی روح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کر تی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ43)

الفضل دفتر کی دراز میں

بھلے وقتوں کی بات ہے جب اردو سائنس بورڈ والے، مختلف شعبوں میں ماہر سائنس دانوں کو ان کے علم سے متعلق اردو میں کتب لکھنے کی دعوت دیا کر تے تھے ۔ اس وقت کے بورڈ کے چیئر مین اشفاق احمد خان صاحب نے 1991ء میں مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے پاکستان میں پا ئے جانے والے سانپوں پر کتاب کا مسودہ لکھ کر بھجوا دیا۔ شرائط طے کر نے کے سلسلے میں اشفاق صاحب سے ان کے دفتر لاہورمیں جاکر ملا۔ کتاب کا کیا سائز ہو گا، اس پر بات کر تے ہوئے خان صاحب نے اپنی میز کی پہلی دراز کھولی اور اس میں سے الفضل کا تازہ شمارہ نکال کر میز پر پھیلا دیا اوردوہرا کر کے کہا’’آپ کے اخبار الفضل کے دوہرے سائزکے مطابق ہم کتاب چھا پیں گے‘‘۔ اللہ کے فضل سے الفضل نے میری جگہ جگہ رہنمائی کی۔

الفضل تاریخ کے جھروکے سے

یہ قدرتی بات ہے جب کوئی کسی روشنی میں زندگی کا سفر طے کررہا ہوتا ہے، تو کبھی نہ کبھی اس کی نظرروشنی کا منبع جا ننے کے لئے پیچھے اُٹھ جاتی ہے۔ الفضل کا ماضی شاندار اور مستقبل تابناک ہے، کیونکہ یہ چشمۂ رواں 18 جون 1913ء بروز بدھ اپنے بانی کی معصوم مستجاب دعا ‘‘میں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجزو انکسار دعا کر تا ہوں کہ…اللہ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔ تحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے…اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اورآنے والی نسلوں کے لئے بھی اس کو مفید بنا اور بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔…ہزاروں لاکھوں کوسیر اب کرتا ہوا اب دنیا کے دوسرے ممالک کو سیراب کر رہا ہے۔ گو الفضل کے ما تھے کا خوبصورت جھومر آیتِ مبارکہ یقیناً فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔دنیا داروں کے خود ساختہ قوائد و قوانین نے چھین لیا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت الفضل کی دن دو گنی اور رات چو گنی ترقی سے ثابت ہے۔ خدائی فضل ہمیشہ الفضل کے ساتھ رہا ہے، اور رہےگا! انشا اللہ تعالیٰ

آخر پر بانی الفضل حضرت مصلح موعودؓ کے دو مختصر مگر اہم ارشادات نذر قارئین ہیں۔

’’آج لوگوں کے نزدیک الفضل کوئی قیمتی چیز نہیں مگر وہ دن آرہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہو گی لیکن کو تاہ بین نگا ہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے۔‘‘

(الفضل 28 مارچ 1946ء)

’’اخبار قوم کی زند گی کی علامت ہو تا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبارکے مطا لعہ کی عادت ڈالنی چا ہئے اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کر نے کی تو فیق بخشے۔‘‘

(الفضل 31 دسمبر 1954ء)

(پروفیسر محمد شریف خان۔فلاڈلفیاامریکہ)

پچھلا پڑھیں

تنزانیہ کی جماعت دالونی میںمسجد کاافتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ