• 23 اپریل, 2024

قوتِ ارادی کیا چیز ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
عملی اصلاح میں جن تین باتوں کی ضرورت ہے اُن میں سب سے پہلی قوتِ ارادی ہے۔ یہ قوتِ ارادی کیا چیز ہے؟ ہم میں سے بعض کے نزدیک یہ عجیب بات ہو گی کہ قوتِ ارادی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اکثر یہ کہیں گے کہ قوّتِ ارادی کے جو اپنے الفاظ ہیں، اُن سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کسی کام کو کرنے کے مضبوط ارادے اور اُسے بجا لانے کی اور انجام دینے کی قوت ہے۔ یہاں یہ سوال اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ قوّتِ ارادی کیا چیز ہے؟ تو اس بارے میں واضح ہونا چاہئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے احسن رنگ میں اس کو بیان فرمایا ہے کہ قوتِ ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتا ہے۔ پس یہ بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے اور جب یہ بات اپنے سامنے رکھیں گے تو پھر ہی اس نہج پر سوچ سکتے ہیں کہ دین کے معاملے میں قوّتِ ارادی کیا چیز ہے؟

پس واضح ہو کہ دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے۔ اور جب ہم اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ عملی قوت ایمان کے بڑھنے سے بڑھتی ہے۔ اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان کے کام خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔ عملی مشکلات اس ایمان کی وجہ سے ہوا میں اُڑ جاتی ہیں اور آسانی سے انسان اُن پر قابو پا لیتا ہے۔ اور یہ صرف ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ عملاً اس کے نمونے ہم دیکھتے ہیں۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایمان سے پہلے کی عملی حالتوں اور ایمان کے بعد کی عملی حالتوں کے ایسے حیرت انگیز نمونے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ ایمان لائے وہ کون لوگ تھے؟ اُن کی عملی حالت کیا تھی؟ تاریخ ہمیں اس بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اُن ایمان لانے والوں میں چور بھی تھے۔ اُن میں ڈاکو بھی تھے۔ اُن میں فاسق و فاجر بھی تھے۔ اُن میں ایسے بھی تھے جو ماؤں سے نکاح بھی کر لیتے تھے، ماؤں کو ورثے میں بانٹنے والے بھی تھے۔ اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے والے بھی تھے۔ اُن میں جواری بھی تھے جو ہر وقت جؤا کھیلتے رہتے تھے۔ اُن میں شراب خور بھی تھے اور شراب کے ایسے رسیا کہ اس بارے میں اُن کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ شراب پینے کو ہی عزت سمجھتے تھے۔ ایک دوسرے پر شراب پینے پر فخر کرتے تھے کہ میں نے زیادہ پی ہے یا مَیں زیادہ پی سکتا ہوں۔ ایک شاعر اپنی بڑائی اور فخر اس بات پر ظاہر کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھی شراب پیتا ہوں۔ پانی کو تو ہاتھ ہی نہیں لگاتا۔ جواری اپنے جُوئے پر فخر کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ میں وہ ہوں جو اپنا تمام مال جُوئے میں لٹا دیتا ہوں اور پھر مال آتا ہے تو پھر اُسے جُوئے میں لٹا دیتا ہوں۔ شاید آج بڑے سے بڑا جواری بھی کھل کر یہ اعلان نہ کرتا ہو۔ بہر حال یہ حالت اُن کی اُس وقت تھی۔

پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اُن کی حالت کس طرح پلٹی، کیسا انقلاب اُن میں پیدا ہوا، کیسی قوتِ ارادی اس ایمان نے اُن میں پیدا کی؟ اس کے واقعات بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی جلدی اتنا عظیم انقلاب اُن میں پیدا ہو گیا؟ ایمان لاتے ہی اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب دین کی تعلیم پر عمل کے لئے ہم نے اپنے دل کو قوی اور مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کے خلاف اب ہم نے کوئی قدم نہیں اُٹھانا۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم ہمارے لئے حرفِ آخر ہے۔ اُن کا یہ فیصلہ اتنا مضبوط، اتنا پختہ اور اتنے زور کے ساتھ تھا کہ اُن کے اعمال کی کمزوریاں اُس فیصلے کے آگے ایک لمحے کے لئے بھی نہ ٹھہر سکیں۔ اُن کے حالات ایسے بدلے کہ وہ خطرناک سے خطرناک مصیبت اپنے پر وارد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور نہ صرف تیار ہوئے بلکہ اس قوتِ ارادی نے جو انہوں نے اپنے اندر پیدا کی، اُن کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دیا اور اُن سے دور کر دیا جس طرح ایک تیز سیلاب کا ریلا، تیز پانی کا ریلا جو ہے ایک تنکے کو بہا کر لے جاتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ443-444 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936)

(خطبہ جمعہ 17؍جنوری 2014ء)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 2023ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جنوری 2023