• 21 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری

نمائش اور مسجد کے گردونواح کا معائنہ

ناشتے کے بعد ہم تیار ہوئے اور پہلے پہر مسجد واپس لوٹے جہاں لوکل جماعت نے ایک دفتر کا انتظام کیا ہوا تھا جس میں مکرم ماجد صاحب، مکرم مبارک ظفر صاحب اور خاکسار کو Zion قیام کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔سہ پہر ایک بجے حضور انور نے ایک خاص نمائش کا دورہ فرمایا جو مسجد میں لگائی گئی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور الیگزینڈر ڈوئی کے مابین مباہلہ کے چیلنج کے حوالہ سے تھی۔

اس نمائش کے انعقاد کے لیے ایک عمیق تحقیق کی گئی تھی جس کا کچھ حصہ نوادرات پر مشتمل تھا جبکہ کچھ حصہ ڈیجیٹل تھا۔ مکرم انور خان صاحب اور ان کے بیٹے مکرم امجد خان صاحب کو حضور انور کو نمائش کا تعارف کروانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس نمائش میں بتایا گیا تھا کہ ڈوئی کون تھا اور اس نے کب اور کیوں زائن شہر کی بنیاد رکھی۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط بھی شامل کیا گیا تھا جس میں آپ نے ڈوئی کو تنبیہ فرمائی جو ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہوئی تھی۔ اس نمائش میں ایک سو ساٹھ سے زائد اخباروں کے ڈیجیٹل ریکارڈ بھی شامل تھے۔ جن میں مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج پورے امریکہ اور پوری دنیا میں شائع کیے گئے تھے۔ ایک اخبار کا اصل تراشا بھی، جو مباہلہ کی عبارت تھا دکھایا گیا تھا۔ اس نمائش میں سات فٹ چوڑا ایک فریم معروف Boston Herald کی سرخی Great is Mirza Ghulam Ahmad, the Messiah کا بھی آویزاں کیا گیا تھا جس کی تصدیق بوسٹن پبلک لائبریری نے کی تھی اور انہوں نے ہی مہیا کیا تھا۔

نیز اس نمائش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زرد رنگ کا کوٹ بھی رکھا گیا تھا۔ ایک نوجوان خادم عزیز م ابراہیم اعجاز بھی موجود تھے جو اس نمائش کے اہم ترین محققین میں سے تھے۔ ریسرچ کا تجربہ اور اس نمائش کو آخری مراحل تک ڈھالنا اور پھر اس نمائش میں حضور انور کا بنفس نفیس شامل ہونا یہ سب کچھ اس کے لیے بہت ایمان افروز تھا۔ بعد ازاں ابراہیم صاحب نے مجھے بتایا کہ:
’’میں الفاظ میں اس لمحے کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جب حضور انور زائن میں نمائش کے معائنہ کے لیے تشریف لائے۔ میں گزشتہ سات ماہ سے اس لمحہ کے بارے میں سوچ رہا تھا، مستقل ان خیالات میں ڈوبا ہوا تھا کہ آیا ہم کوئی ایسی چیز پیش کر سکیں گے یا نہیں، جو ہمارے امام کو خوشی پہنچا سکے۔ اس لمحہ حضور انور کا مبارک چہرہ دیکھنا ایسا تھا جس نے میری ساری پریشانی اور فکر کو دور کر دیا۔‘‘

حضور انور کے ایک تبصرے کا ذکر کرتے ہوئے مکرم ابراہیم صاحب نے بتایا کہ:
’’جب حضور انور زائن اور ڈوئی کے متعلق نمائش کے حصہ میں پہنچے تو میں نے حضور انور کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جیسا کہ فرعون کے جسم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام )کی سچائی کے ایک نشان کو محفوظ کر لیا تھا اسی طرح یہ ڈوئی سے متعلق نوادرات محفوظ کرنا بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا ایک نشان ہے۔ یہ سننے پر مجھے یاد آیا کہ کس طرح اس نمائش کی پہلی میٹنگ میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا ڈوئی کے نوادرات کی نمائش ایک ایسے شخص کی شہرت کا باعث بنے گی جسے اللہ نے ذلت اور رسوائی کا نشان بنایا۔ یوں اس تبصرے نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور باعث تسکین بنا جب حضور انور نے فرعون کا ذکر فرمایا اور اس گہرے اور پر حکمت نقطے نےہمارے علم میں اضافہ بھی فرمایا اور ایسی جملہ پریشانیوں کو دور کر دیا۔‘‘

نمائش کے معائنہ کے بعد، حضور انور باہر تشریف لائے اور نقاب کشائی فرمائی جس کے ساتھ ہی مسجد فتح عظیم کا افتتاح ہوا اور بعد ازاں دعا کروائی۔ حضور انور نے ایک مینار کی سنگِ بنیاد بھی رکھی جو مسجد میں تعمیر ہونا تھا جو ان شاء اللّٰہ اس طرز پر بنے گا جیسا کہ قادیان میں مینارۃ المسیح ہے۔ بعد ازاں حضور انور نے مسجد کے باقی حصوں کا معائنہ فرمایا جس کے بعد آپ نے مسجد میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر کی امامت فرمائی۔

ایک معجزانہ حفاظت

انٹرویو کے بعد حضور انور نے فیملی ملاقاتوں کا آغاز فرمایا جس میں آپ نے قریبی جماعتوں کے احباب سے ملاقات فرمائی۔ ایسے احباب کو ترجیح دی گئی جو حضور انور سے قبل ازیں کبھی نہیں ملے تھے یا کئی سالوں سے شرف ملاقات نہ پایا تھا۔ جب ملاقاتیں چل رہی تھیں تو میری ملاقات ایک نوجوان مربی صاحب سے ہوئی جن کا نام عزیزم مصور احمد تھا۔ آپ کا تقرر ایک سال قبل El Paso کی جماعت میں ہوا تھا جو US-Mexico کے بارڈر پر ہے۔

میں نے سنا تھا کہ چند ماہ قبل ان پر ایک حملہ ہوا تھا لیکن جسمانی طور پر خدا کا شکر ہے کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی El Paso میں تقرری کے فورا ًبعد ہی جب ابھی ان کی اہلیہ Texas نہیں پہنچی تھیں ان پر ایک آدمی نے متعدد بارفائرکیے، جبکہ وہ اپنی کار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی طرح وہ گولیاں ان کو نہیں لگیں اور وہ گاڑی سمیت فرار ہونے میں کامیاب تو ہو گئے مگر وہ شخص متواتر ان کی گاڑی پر فائر کرتا رہا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا خیال تھا کہ ان کا وقت آ چکا ہے لیکن وہ بھاگتے رہے یہاں تک کہ وہ ایک محفوظ مقام پر پہنچ گئے۔ اگرچہ ان پر حملہ ہوا تھا لیکن ان کو ایک رات کے لیے جیل میں رکھا گیا کیونکہ پولیس تفتیش کر رہی تھی کہ کیا معاملہ ہے۔ بعد ازاں پولیس نے انہیں بتایا کہ ایک ڈرگ ڈیلر نے ان پر گولی چلائی ہے جس نے ایک دوسرے ڈرگ ڈیلر کو قتل کر دیا تھا اور مصور صاحب کو دیکھنے پر ان پر بھی گولی چلا دی شاید اس خیال سے کہ وہ اس جرم کے گواہ بن گئے ہیں یا اس خیال سے کہ شاید وہ دوسرے فریق کے سہولت کار ہیں۔ یہ ایک دل دہلا دینے والا اور رونگٹے کھڑےکر دینے والا واقعہ تھا۔

میں نے مکرم مصور صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے ان حالات میں کیسے گزارا کیا اور کیا اب سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے؟جواب میں مصور صاحب کہنے لگے جو ہوا وہ بھلانے میں مجھے کئی ماہ لگے اور میرے بالکل ٹھیک ہونے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ میرے لیے حضور انور کی محبت، توجہ اور دعائیں ہیں۔ اس واقعہ کے بعد حضور انور نے ازراہِ شفقت مجھے فون کیا اور بتایا کہ کئی ایسے مواقع ہوتے ہیں جب کوئی انسان محض اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی وجہ سے زندہ ہوتا ہے اور جو میرے ساتھ ہوا وہ اس کی ایک مثال ہے۔چنانچہ حضور انور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اللہ تعالی سے اپنا تعلق مزید پختہ کروں اور مجھے اپنی حفظ و امان میں رکھنے پر اس کا شکریہ ادا کروں۔

مصور صاحب نے مزید کہا کہ:
’’حضور انور نے کچھ ہلکے پھلکے تبصرے ایسے بھی فرمائے جن کی وجہ سے مجھے بہت اچھا محسوس ہوا۔ آپ نے مجھے آئندہ کے لیے ہدایات سے بھی نوازا اور یہ بھی کہ کس طرح آگے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘

مصور صاحب مجھے یہ سب کچھ بتا رہے تھے اور آپ نے اپنے سات ماہ کے بیٹے کو اٹھایا ہوا تھا۔ میں شاید اس بات کا پورا ادراک نہیں رکھتا تھا کہ وہ کس قدر خوف اور شدید پریشانی سے گزرے ہوں گے۔ مگر ماشاءاللّٰہ، یہ نوجوان مربی سلسلہ اور ان کی فیملی نہایت صبر اور حوصلے میں تھے۔ انہوں نے کسی دوسرے محفوظ مقام پر تبادلہ کی درخواست نہ کی بلکہ اسلام کا پیغام اسی جگہ پھیلاتے رہے جہاں ان پر حملہ ہوا تھا۔

انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ حضور انور کی محبت نے انہیں آگے بڑھنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس دورہ کے دوران میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ حضور انور جب مصور صاحب کو کھڑے ہوئے دیکھتے یا پاس سے گزرتے تو نہایت محبت اور شفقت سے ان کو ملاقات کا شرف بخشتے اور ان کے بیٹے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھی سے برکت بخشتے۔

(حضور انور کا دورہٴ امریکہ ستمبر- اکتوبر 2022ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 2023ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جنوری 2023