• 17 مئی, 2024

میرے جو ذکر ہیں وہ وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ، بابو میراں بخش صاحبؓ (یہ دونوں صحابی ہیں، اسماعیل صاحب بھی صحابی تھے، وہ بابو میراں بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ) بابو میراں بخش صاحب جو تین سو تیرہ کی فہرست میں شامل تھے، بیمار ہو گئے۔ اُن کے علاج کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں پورا ایک ماہ علاج کرایا اور اس عرصہ میں حضرت اقدس سے ملاقات ہوتی رہی۔ (یہ بیعت سے پہلے کی بات کر رہے ہیں ) کہتے ہیں تین رات خوابیں آئیں۔ آخری رات ایک ہیبتناک انسان تلوار ہاتھ میں لے کر سخت ڈراتا ہے کہ جلدی بیعت کرو۔ خیر انہوں نے صبح بیعت کر لی۔ بیعت کرنے کے بعد پھر جب اس کے علاج کے بعد وہاں سے رخصت ہوئے تو اُس کے بعد کہتے ہیں کہ پھر خط و کتابت سے ہمارا رابطہ رہا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 178۔ از روایات حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ)

حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرے گھر میں ایک بھینس تھی۔ اُس نے بچہ دیا۔ ہمارے گاؤں میں رسم ہے کہ پہلے روز کے دودھ کی کھیر پکا کر فتح علی شاہ کے خانقاہ پر (وہاں کوئی سید شاہ تھا، اُس کی خانقاہ پر) چڑھاتے تھے، (پیروں فقیروں کو پوجنے والوں کا یہی اصول ہوتا ہے) تو کہتے ہیں میری بیوی نے بھی کھیر پکائی اور میرے والد اور چچا کو دعوت کھانے کی دی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں کھائیں گے، وہ کافر ہو گیا ہے۔ (انہوں نے یعنی میاں سوہنے خان نے بیعت کر لی تھی، وہ کافر ہو گیا ہے اس لئے اس کے گھر کے جانور کی ہم کھیر نہیں کھائیں گے) میری بیوی نے مجھے کہا کہ مَیں نے کھیر کی دعوت کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں کھائیں گے، وہ کافر ہو گیاہے۔ اس روز کہیں باہر سے ایک حکیم آیا ہوا تھا۔ وہ ہمارے چچا صاحب کا دوست تھا۔ وہ ملنے آیا۔ مَیں نے کھیر برتن میں ڈال کر اُس حکیم کے آگے رکھ دی۔ اُس نے ختم دے کر کھا لی۔ (یعنی دعا پڑھ کے اُس نے کہا ٹھیک ہے۔ جو بھی ہو۔ دعا پڑھ کے اُس نے کھا لی) بہر حال اُس نے (یعنی حکیم صاحب نے) مجھے پوچھا کہ تم کو کیا سکھایا ہے۔ (یعنی بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا سکھایا ہے۔) مَیں نے عرض کیا کہ پانچ گانہ نماز پڑھو (یعنی پانچ وقت نماز پڑھو) درود شریف پڑھو اور مجھے سچا مہدی مانو۔ یہ باتیں بتائی ہیں۔ حکیم صاحب نے فرمایا کہ تم نے دریافت کرنا تھا کہ کس درود شریف پڑھنے سے یا کس آیتِ قرآنی پڑھنے سے زیارت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو جائے اور کس درود شریف پر آپ کا عمل ہے۔ مَیں نے اُسی روز حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا۔ جو حکیم صاحب نے سوال پوچھے تھے وہ لکھ دئیے۔ کہتے ہیں مَیں چشتیانہ فرقہ کا خادم تھا، جو ذکر پاک اپناس، یعنی اللّٰہ ہُو، اور ذکر لَا اِلٰہَ جسے چشتیہ خاندان میں ذکر سلطان الاذکار سمجھتے ہیں وہ کیا کرتا تھا۔ خیر جس قدر واقفیت تھی مَیں یہ پڑھتا تھا۔ مَیں نے اَور ان ذکروں کے علاوہ بھی جتنے وظیفے مجھے پتہ تھے، وہ بھی لکھ دئیے۔ (کل وظیفے لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج دئیے)۔ حضرت صاحب نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ میرا زمانہ ابتدائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ (یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا، وہ میرا زمانہ ہے) جو ذکر تم نے لکھے ہیں، یہ سب کرنے فضول ہیں، منع ہیں۔ اس زمانے میں یہ تاثیر نہیں کریں گے۔ میرے جو ذکر ہیں وہ وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔ یعنی سورۃ فاتحہ پڑھو، الحمد شریف، درود شریف پڑھو، استغفار بہت زیادہ کرو۔ لاحول پڑھو۔ یہ فیض رساں ہوں گے، ان سے فائدہ ہو گا۔ اور فرمایا کہ میرا کُل درود شریف پر عمل ہے۔ جتنے بھی درود شریف ہیں جو حدیث شریف میں آئے ہیں اُن پر میرا عمل ہے۔ اُن سب کو مَیں ٹھیک مانتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا کہ شرط یہ ہے کہ جس وقت درود شریف پڑھو، اگر تم سمجھتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے تو محبت رسولِ مقبول کی دل میں قائم کرو۔ اور محبت بچوں کی(یعنی ہر ایک کی) چھوڑ دو۔ ہر دوسری محبت کو چھوڑ دو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو سب سے زیادہ دل میں قائم کرو۔ کہتے ہیں مَیں نے درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ (اُس وقت کیونکہ غیر احمدیوں کا بھی اثر تھا) درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ (یہ ہزارہ درود شریف بھی ان کے ہاں ایک ہے جو تہجد کے وقت ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کے بعد پھر ان کے کچھ اپنے الفاظ ہیں۔ بہرحال اس کو یہ درود ہزارہ کہتے ہیں۔ کیونکہ نئے نئے احمدی تھے، کہتے ہیں یہ درود شریف مَیں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ درُود ہزارے کا مطلب ہے کہ ہزار دفعہ درود شریف تہجد کی نماز کے وقت۔ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اگر اُس کو پڑھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو جاتا ہے۔) بہر حال کہتے ہیں مَیں نے پڑھنا شروع کیا۔ تھوڑے ہی دن گزرے، خواب اور عالمِ شہود میں مرزا صاحب تشریف لائے اور مجھ کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر کر دیا۔ وہاں لوگ قطاریں باندھے کھڑے تھے اور سرورِ کائنات تختِ مبارک پر بیٹھے تھے۔ مگر ہم کو پچھلی سطر میں پچھلی لائن میں جگہ ملی۔ جناب مرزا صاحب نے بآواز بلند عرض کیا کہ اے سرورِ کائنات! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہم نے سوہنے خان کی بابت اچھا انتظام کر دیا۔ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جو کچھ سونے خان کی بابت انتظام کیا ہے، ہم نے منظور کیا ہے۔ کچہری میں حاضر رہے۔ (یعنی یہاں بیٹھے رہے۔) یہ اپنی خواب بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں اور چند بزرگوں کی مَیں نے وہاں زیارت کی۔ مرزا صاحب خواب میں اجازت لے کر مجھے وہاں اُس مجلس سے واپس لے آئے، اور میرے مکان پر چھوڑ آئے۔ جو بزرگ سابقین ولی اللہ گزر چکے ہیں، حضرت میراں جی سید بھنج شریف والوں نے مجھ کو خوابِ روحانی میں بیعت کر لیا۔ فرمایا، مرزا صاحب کا ہمارا ایک ہی روپ ہے۔ وہ مہدی اور ہم بھی مہدی۔ ایک بزرگ سلطان ریاست کپور تھلہ خواب میں اُن کی ملاقات ہوئی۔ وہ بزرگ کامل تھے۔ انہوں نے فرمایا وہ مہدی ہے اور عیسیٰ ہے۔ ہمارا اُن کا ایک ہی روپ ہے۔ (یہ اپنی خوابوں کا ذکر کر رہے ہیں) پھر کہتے ہیں کہ جب کرم دین کے ساتھ مرزا صاحب کا مقدمہ تھا تو میرے نزدیک یہاں پر یعنی اُن کے علاقے میں جہاں یہ رہتے تھے۔ اُس جگہ گاؤں میں، قصبہ میں احمدی کوئی نہیں تھا۔ تمام لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب اس مقدمے میں قید ہو جائیں گے۔ اُس وقت غم میں آ کر میاں حبیب الرحمٰن حاجی پور والے کے پاس پہنچا۔ حبیب الرحمٰن صاحب نے فرمایا کہ فکر مت کرو۔ درود شریف پڑھ کر دعا کرو۔ میں نے کثرت سے درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا۔ چند روز میں خواب میں ایک شخص ایک لڑکے کی لاش لے کر اور وہ لاش سات رومال میں لپٹی ہوئی تھی لے کے آیا اور میرے پاس رکھ دی۔ مَیں نے اُس کو کہا، یہ کیا ہے؟ اُس نے کہا دیکھ۔ مَیں نے اُس کے رومال اتارنے شروع کئے۔ جب چھیواں رومال اُتارا (یعنی کپڑا اُس لاش پر سے اُتارا) تو مَیں نے کہا یہ بندر کی شکل ہے جو مرزا کا مدعی ہے۔ (یعنی جس نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف دعویٰ کیا ہوا ہے) میں وہاں یعنی کوٹھے پر بیٹھا تھا، خواب میں اُس کو نیچے گرا دیا۔ (اُس مردہ لاش کو نیچے گراد یا۔) پھر کہتے ہیں میں نے یہ خواب لکھ کرحضرت مرزا صاحب کو بھیجا۔ حضور نے فرمایا کہ اسی طرح اس کا پردہ فاش ہو گا۔ (چنانچہ پردہ فاش بھی ہوا۔)

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 195 تا 199۔ از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 11؍جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022