• 14 جولائی, 2025

محبتوں میں پلے پوسے انسان کی کہانی، اپنی ہی زبانی (قسط۔دوئم آخر)

محبتوں میں پلے پوسے انسان کی کہانی، اپنی ہی زبانی
قسط۔دوئم آخر

18جون 2014ء برزوبدھ
حضور کی قرآن سے محبت

اس ملاقات میں، میں اپنا مقالہ ساتھ لے کر گیا تھا۔

حضورانور نے خاکسارکے بیٹھتے ہی فرمایا تمہارا نام Ban Ki-moon نہ رکھ دیں؟ اور ساتھ ہی مقالہ مجھ سے مانگ لیا۔اور دریافت فرمایا۔

تم نے عید ادھر ہی پڑھنی ہے؟

خاکسار کی طرف سے مثبت جواب پر فرمایا

پھر تم میرے ساتھ کھانا کھا لینا۔

خاکسار نے عرض کی کہ حضور! کچھ دن پہلے آصف باسط صاحب مجھے ملے تھے۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ تم نے جرمنی نہیں جانا۔ تم تو مون ہو۔ چاند کو نہیں دیکھیں گے تو عید کیسے کریں گے۔ لیکن حضور میرے چاند تو آپ ہیں۔ (حضور اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور اسکے بعد حضور نے یہ اشعار پڑھے)

جمال و حُسنِ قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا، ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے
بہارِ جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبادت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بستاں ہے

خاکسار: حضور آپ کو بہت شعر آتے ہیں نا؟

حضورانور: نہیں مجھے کہاں آتے ہیں۔

’’کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلّق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے‘‘

حضورانور: تم نے جو نظم پڑھی تھی حدیقۃ المہدی میں؟

وہ یاد ہے؟

خاکسار: جی۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ 2009ء میں جامعہ احمدیہ یوکے کو ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی تھی کہ حضور انور جامعہ کی پکنک میں جو حدیقۃ المہدی میں ہوئی تھی تشریف لائے تھے۔ حضورانور نے ایک سادہ سی شلوار قمیص پہن رکھی تھی جس کے اوپر ایک پٹھانی ٹوپی اور ایک سلیٹی رنگ کا کوٹ تھا۔حضور کے ساتھ ایک BBQ، شکار اور ایک محبت بڑی محفل سجانے کا موقع ملا تھا جہاں پر نظمیں، غزلیں اور طلباء کے تفریحی خاکے دیکھنے اور سننے کو ملے تھے۔ اس محفل میں خاکسار کو ایک غزل حضور انور کی خدمت میں پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ جب غزل مکمل پڑھ لی تو حضور انور نے فرمایا کہ ’’تم لوگ ثانیہ ثالثہ میں پہنچ گئے ہو۔ تم لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے وقت بھی ملتا ہے؟‘‘ خاکسار کے منہ سے بے احتیاطی میں نکل گیا کہ ’’آپ کی محبت کے لئے‘‘۔ دو تین سیکنڈ تو ہال میں انتہائی خاموشی تھی۔ لیکن پھر ایک دم حضور انور اور سب ہال میں بیٹھے احباب ہنسنے لگ گئے اور مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا ہو گیا ہے۔ ہاں یہ بھی ایک واقعہ ہے جو بہت سے دوست آج بھی ہمیشہ مجھے یاد کرواتے ہیں۔

کوئی دل چسپی نہیں

خاکسار: حضور جرمنی جیت گیا تھا۔

حضورانور: وہ واقعہ سنا ہے کرکٹ والا؟

خاکسار: نہیں۔

حضورانور: ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس آئے اور کہا کہ کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے۔ تب انہوں نے جواب دیا کہ جو میچ میں کھیل رہا ہوں نہ وہ اس سے بھی بڑا ہے۔

نیز فرمایا۔ سعد (حضور کا پوتا) کو بڑا پتہ ہے۔ وہ مجھے آ کر بتاتا تھا کتنا سکور ہوا ہے۔

گھٹنوں میں درد

خاکسارنے عرض کی کہ حضور! کچھ عرصہ پہلے میں نے خواب دیکھا تھا کہ حضور مجھے ڈھونڈرہے ہوتے ہیں۔ پھر میں حضور کو مل جاتا ہوں۔ تو حضور میرے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اپنی بازو میرے اوپر رکھ لیتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ میرے گھٹنوں میں درد ہو رہا ہے۔ اور گھٹنے دکھاتے ہیں۔

حضورانور: اچھا میرے گھٹنوں میں واقعی درد تھی۔ سچی خواب دیکھی ہے۔ لگتا ہے تمہاری خواب پوری ہونے کے لئے میرے گھٹنوں میں درد ہوگیا۔ اس پر میں اور حضور ہنسنے لگے۔ آج بھی جب میں یہ واقعہ پڑھتا ہوں تو عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایسی نہایت درجہ کی عاجزی۔ ہم آج کئی ممالک کے حکمران اور بادشاہ بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن اتنی عاجزی میں نے کسی میں نہیں دیکھی۔ خلیفہ وقت ! خدا کا چنا ہوا انسان آج کی دنیا میں یہ الفاظ کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حضور انور کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

خادم سلسلہ

اب چونکہ حضور انور کی دعاؤں سے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے میں مربی بن گیا تھا۔ جامعہ کے دوران خاکسار اپنے خطوط کے نیچے ہمیشہ طالب علم اور کلاس کا درجہ لکھ دیتا تھا۔ اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مربی بن کر خط کے نیچے کیا لکھنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں حضور انور سے راہنمائی لینا چاہی۔

خاکسار نے عرض کی کہ حضور! میں اپنے خط کے نیچے کیا لکھا کروں؟

فرمایا: خادم سلسلہ اور پھر brackets میں مربی۔

10ستمبر 2014ء بروز بدھ
ایک پریشانی

ایک خط میں خاکسار نے حضور انور سے اپنی ایک پریشانی کا اظہار کیا اور یہ لکھا کہ خاکسار کو پورا یقین ہے کہ اللہ مدد فرمائےگا۔ چنانچہ حضور انور کا جواب موصول ہوا۔

’’آپ کا خط ملا جس میں آپ نے اپنی پریشانی کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں ضرور مدد فرمائے گا۔ جب یہ پتہ ہے تو پھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں کہ بن خدا کوئی بھی ساتھی نہیں، تکلیف کے وقت اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام مشکلیں آسان کرے اور آپ کے لئے محض اپنےفضل سے تسکین اور راحت کے سامان پیدا فرمائے۔ آمین۔‘‘

فارغ وقت میں مطالعہ

فرمایا: تم بیٹھ کر اپنا مطالعہ کیا کرو۔ تفسیر پڑھا کرو۔ وہ محمود الحسن (آج کل وکالت تبشیر اسلام آباد میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں) مجھے کہہ رہا تھا کہ میں بیٹھا رہتا ہوں۔ کوئی کام نہیں ہوتا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ مطالعہ کیا کرو۔ اب اس کا خط آیا ہے کہ اسے لگتا ہےکہ اس کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ علم بعد میں کام آئے گا جب فیلڈ میں بھیجوں گا۔

خدا تعالیٰ کا رحم مانگنا چاہئے

خاکسار: خدا تعالیٰ کیوں ایک نعمت کو کسی سے لے لیتا ہے۔ جبکہ اس نے کچھ کیا نہیں ہوتا؟

فرمایا: کئی دفعہ پتہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک آدمی تھا جو غلط قتل کے الزام پر پکڑا گیا تھا۔ اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے انصاف چاہئے۔ تو اس کو معلوم نہیں تھا کہ پہلے اس نے کسی کو قتل کیا تھا جو اس کو یاد بھی نہیں تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ کا رحم مانگنا چاہئے۔

ایک تحفہ

ایک ملاقات میں خاکسار نے حضور انور سے ذکر کیا کہ جلد ایک آئی پیڈ خریدنے کا ارادہ ہے۔

فرمایا: تم نے آئی پیڈ کیا کرنا ہے؟

خاکسار: کتابیں پڑھنی ہیں۔

فرمایا: Kindle کیوں نہیں لیتے؟

خاکسار: وہ کافی slow ہے۔ حضورانور تھوڑی دیر سوچنے لگے۔ پھر حضورانور نے اپنا ہاتھ پیچھے کو کیا اور پچھلی الماری کے اوپر سے kindle ہاتھ میں پکڑ لیا۔

حضورانور: یہ لو Kindle۔ کتابیں ڈال کر بتانا کہ کتنا slow ہے۔ (مجھے اس وقت یقین نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اور سوچنا شروع ہو گیا کہ یہ کتنی مہنگی چیز ہے یہ میں کیسے لے سکتا ہوں)۔

فرمایا کئی دفعہ انسان صرف مانگتا ہے تو اسے مل جاتا ہے۔ (میں نے حضور انور سے Kindle پھر لے لیا)

خاکسار کتابیں ڈال کر اگلی ملاقات میں Kindle ساتھ لے کر گیا تھا اور حضور انورکی خدمت میں پیش کیا۔ حضور انور نے اپنے آئی پیڈ پر ایک کتاب کھول کر دونوں یعنی آئی پیڈ اور Kindle کا مقابلہ کیا جس سے یہ اندازہ لگا کہ دونوں کی سپیڈ تقریباً ایک ہی ہے۔

بعد میں ایک خط میں بھی حضور انور کا شکر ادا کیا جس کے جواب میں حضور نے لکھا کہ

’’میرا دیا ہوا Kindle شکر ہے کہ آپ کو پسند آگیا۔‘‘

10 مارچ 2015ء مؤرخہ منگل
گلے میں تکلیف

ایک خط میں خاکسار نے حضور انور سے اس بات کا ذکر کیا کہ گلے میں تکلیف ہے اور آواز بیٹھ گئی ہے۔ حضور انور کا جواب موصول ہوا۔

’’آپ کا خط ملا جس میں آپ نے لکھا ہے کہ آپ کا گلا بیٹھا ہوا ہے جس سے بولنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اللہ فضل فرمائے۔ آپ نمک کے گرم پانی سے غرارے کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا ئے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘

25 اپریل 2015ء بروز ہفتہ
خاکسار کا نکاح

آج حضور انور نے خاکسار کا نکاح پڑھانا تھا۔ اس جگہ خاکسار یہ بھی بیان کرنا چاہتا ہے کہ یہ رشتہ ہوا کیسے۔ یہ رشتہ ایک بہت با برکت رشتہ ہے۔ با برکت کیوں؟ کیوں کہ حضور انور نے خود ہی براہِ راست اس رشتہ کو جوڑا۔ حضور انور 2012ء میں جرمنی کے دورے پر تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ اس دوران خاکسار ابھی جامعہ یوکے میں زیرِ تعلیم تھا اور امتحانات جاری تھے۔ میرے والدین کی حضور انور سے ملاقات تھی۔ اور حضور انور نے ان سے فرمایا کہ ’’آپ لو گ سعید کا رشتہ کیوں نہیں کرتے‘‘۔ میرے والدین نے عرض کی کہ ہم لوگوں نے ابھی اس بارہ میں سوچا نہیں۔ تب حضور انور نے فرمایا کہ ’’آپ لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں اگر میں اسکا رشتہ کر دوں؟‘‘ میرے والدین نے عرض کی نہیں ہمیں کیوں اعتراض ہونا ہے۔ تب حضور انور نے ایک رشتہ تجویز فرمایا۔ بلکہ میرے والدین سے ملاقات کرنے سے پہلے حضور انور لڑکی سے مل چکے تھے۔ تب حضور نے لڑکی سے بھی پوچھ لیا کہ ’’جہاں پر میں کہوں گا رشتہ کر لو گی؟‘‘ جس پر لڑکی نے رضامندی کا اظہار کیا۔ حضور نے فرمایا ’’کہ وہ موٹا ہو یا کالا ہو جو بھی ہو لیکن وفادار ہوگا‘‘۔ بعد میں پھر دونوں خاندانوں کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ملوا دیا۔ خاکسار کو بھی بعد میں آخر پتہ لگ گیا کہ خاکسار کا رشتہ ہو گیا ہے۔ حضور انور کا فیصلہ تھا۔ مجھے قبول تھا۔ مجھے سوچنے کا بھی وقت نہ ملا۔ لیکن خلیفۂ وقت کے فیصلہ میں برکت تھی۔ اور وہ برکت آج بھی میرے ساتھ ساتھ ہے۔

بہرحال اب واپس نکاح کی طرف آتا ہوں۔ خاکسار بہت گھبرایا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ میرے ایک محترم کرم فرما مکرم محمد احمد صاحب (عملہ حفاظت) کو یہ گمان تھا کہ میں کچھ غلط ہی نہ کہہ دوں۔ آخر وہ نکاح فارم میں خاکسار کے گواہ بھی بنے۔ لیکن جب حضور انورنے نکاح پڑھانا شروع فرمایا تو ساری گھبراہٹ دور ہو گئی۔

نکاح کے الفاظ: ’’اس وقت میں چند نکاحوں کا اعلان کروں گا۔ پہلا نکاح عزیزہ زینب خان بنت مکرم مبارک احمد خان صاحب جرمنی کا ہے جو عزیزم سعید احمد رفیق مبلغ سلسلہ، مربی سلسلہ ابن مکرم رفیق احمد صاحب جرمنی کے ساتھ اڑھائی ہزار پاؤنڈ حق مہر پر طے پایا ہے۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ سعید احمد مون مربی سلسلہ ہیں اور یہ دونوں فریق اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی وفا کے ساتھ خلافت سے اپنا تعلق رکھنے والے ہیں۔ عزیزہ جرمنی میں ایک دفعہ اپنے والدین کے ساتھ مجھے ملنے آئیں اور رشتہ کی بات ہوئی تو وہیں میں نے ان کو یہ رشتہ تجویز کیا اور تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے وہیں کہا کہ ٹھیک ہے، ہم Consider کریں گے۔ اور چند دن میں ہی آپس میں دونوں کے رابطے ہوئے۔ دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رشتہ طے ہو گیا۔ کسی کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوا بلکہ حقیقت میں تو یہ کہنا چاہئے کہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر یہ رشتہ طے ہوا اور بڑے اخلاص سے دونوں طرفوں نے مظاہرہ کیا۔ جب میں نے کہا کہ یہ رشتہ کر لیں تو انہوں نے رشتہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کرے یہ قائم ہونے والا رشتہ آئندہ بھی ہمیشہ وفا کے ساتھ خلافت سے بھی تعلق رکھنے والا ہو اور آپس میں بھی اس کا محبت اور پیار کا تعلق ہو اور آئندہ ان کی نسلیں بھی نیک، وفا شعار اور جماعت کی خدمت گزار ہوں۔ مکرم مبارک احمد صاحب ظفر بچی کے وکیل ہیں۔

حضور انور نے فریقین میں ایجاب و قبول کروایا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 28 اپریل2017ء)

آج کے دن نکاح کے بعد حضور انور ملاقاتوں میں مصروف ہو گئے۔ چنانچہ ابھی ملاقاتیں ختم ہی ہوئی تھی کہ حضور نے یاد فرما لیا۔

اور فرمانے لگے۔ میں سوچ رہا تھا تمہاری کونسی خوبی بیان کروں۔ پھر میں نے سوچا وفادار ہو۔

’’بے وفاؤوں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں ہوں‘‘

حضورانور: کیوں ٹھیک کہا؟

خاکسار: حضور کوشش ہوتی ہے ہمیشہ کہ وفا کروں۔ کوئی ایسی غلطی نہ کروں جس سے حضور ناراض ہو جائیں۔

حضورانور: تم سے ناراض ہو کر میں نے کیا کرنا ہے۔

خاکسار عرض کرتا ہے کچھ دنوں بعد 24مئی 2015ء کو خاکسار کی دعوت ولیمہ تھی۔ میری زندگی کا سب سے اچھا دن۔ فیملی کے سارے لوگوں کو میں نے قطار میں کھڑا کر دیا تھا تاکہ جب حضور انور تشریف لائیں تو سب مصافحہ کر سکیں۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور انور تشریف لائے۔ سب سے پہلے خاکسار نے مصافحہ کیا اور حضور انور کے دست مبارک کا بوسہ لیا۔ اس کے بعد میں ساری فیملی کا تعارف کرواتا گیا اور سب کو شرف مصافحہ بھی ملتا گیا۔ یہاں تک کہ میرے بہنوئی کی باری آگئی۔

خاکسار: حضور یہ میرے داماد ہیں۔

خاکسار نے جب یہ جملہ بولا تو میرے ارد گرد کچھ سیکنڈ کے لئے ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ہاں شاید سب کے ذہن میں یہ بات کھٹکی کہ اس نے کیا بول دیا ہے؟ یہ جملہ بے دھیانی میں خاکسار کے منہ سے نکل گیا تھا۔ ایک دم سب ہنستے ہوئے نظر آئے۔ حضور بھی بہت کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔

حضورانور: داماد تم نے پہلے سے بنا رکھا ہے۔ بیٹی ابھی ہوئی ہی نہیں۔

حضور کے ساتھ میں بیت السبوح کے بڑے ہال کی طرف چلنے لگا جہاں پر دعوت ولیمہ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ پھر راستہ میں مجھے سمجھ آگیا کہ ہوا کیا تھا۔ خاکسار بہنوئی کا لفظ کہنا چاہتا تھا جبکہ داماد کہہ دیا۔

خاکسار: میرے ابو کے داماد ہیں۔ (ہال میں پہنچ کر سب کرسیوں پر بیٹھ گئے)

28 اپریل 2015ء بروز منگل
حضرت مسیح موعود ؑ کی کنگھی

خاکسار: حضور! وہ احمد صاحب نے بہت سے تبرکات جمع کئے ہوئے ہیں۔

حضورانور: اچھا۔

خاکسار: انہوں نے حضرت اماں جان ؓ کے کچھ برتن دکھائے تھے اور حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک جوتا۔ پھر حضرت مسیح موعود ؑ کے بال تھے۔ دکھاتے وقت ایک اخبار نیچے رکھا تھا تاکہ گر نہ جائیں۔ تو جب کھولا تو تین بال باہر گر گئے۔ اور ہم تین لوگ تھے (جو اس وقت ادھر موجود تھے)۔ تو میں نے کہا یہ نشان ہے۔ ہم تین لوگ ہیں اور بال بھی تین ہیں۔ پھر انہوں نے ہم کو وہ دے دئیے۔

حضورانور: میں نے وہ کنگھی دیکھائی تھی نا تمہیں؟

خاکسار: جی حضور۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضور انور نے کچھ مربیان کو حضرت مسیح موعود ؑ کی کنگھی دکھائی تھی۔ لیکن کیا کیفیت بیان کروں جب وہ کنگھی خاکسار کے ہاتھ میں تھی۔ کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ایک ایسی چیز ہے جو کسی نبی کے استعمال میں رہی ہو؟ اور جب وہ آپ کے ہاتھ میں ہو، توآپ کی کیا کیفیت ہو گی؟ خاکسار کے ہاتھ میں جب وہ کنگھی آئی تو یقین کرنا مشکل تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ انسان کسی اور دنیا میں ہے۔ نہایت خوبصورت تھی اور ایسے لگتا تھا کہ ابھی نئی بن کر آپکے سامنے پیش ہوئی ہے۔ وہ خوبصورت دندانوں کو جب انگلیاں لگی تو خیال آتا کہ یہ حضرت مسیح موعود ؑ کے بالوں سے مس ہوئی ہوگی۔ الحمد للّٰہ۔

تاجر اور قاضی کی مثال

خاکسار: حضورپچھلے خطبہ میں جو آپ نے تاجر اور قاضی والی مثال بیان فرمائی تھی وہ بہت اچھی تھی۔

فرمایا: اچھا یہی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق جوڑ لو؟

خاکسار: جی حضور کافی گہرا سبق تھا اس میں۔

حضور انور نے یہ والی مثال خاکسار کو متعدد مرتبہ سنائی ہے۔ خاکسار اس مثال کو اس جگہ لکھ دینا چاہتا ہے۔

’’حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تاجر کی مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس نے ایک بڑی رقم اپنے شہر کے قاضی کو امانت کے طور پر رکھوائی۔ وہ سفر پر جا رہا تھا کہ سفر سے واپسی پر لے لوں گا۔ جب واپس آیا اور اپنی رقم کی تھیلی مانگی تو قاضی صاحب نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے کوئی امانت نہیں رکھی اور نہ میں امانتیں رکھا کرتا ہوں۔ کیسی تھیلی اور کیسی امانت؟ تاجر نے بہت سی نشانیاں بتائیں لیکن قاضی انکاری تھا کہ میں نے تو کہہ دیا کہ امانتیں رکھا ہی نہیں کرتا۔ اس پر تاجر پریشان ہوا۔ آخر اسے کسی نے بتایا کہ بادشاہ فلاں دن اپنا دربار لگاتا ہے اور ہر شخص کی پہنچ اس تک ہوتی ہے۔ تم بھی جا کر اپنا معاملہ پیش کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ مگر کیونکہ اس کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا اس لئے بادشاہ نے کہا کہ بغیر ثبوت کے تو قاضی کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ ہاں بادشاہ نے خود ہی ایک صورت بتائی کہ فلاں دن میری سواری اور جلوس نکلے گا، شہر میں جائے گا تم اس دن قاضی کے قریب کھڑے ہو جانا کیونکہ سڑک پے بڑے بڑے لوگ استقبال کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ میں جب آؤں گا تو تم سے بے تکلفی سے باتیں کروں گا۔ تم بھی ایسے ظاہر کرنا جیسے میرے دوست ہو۔ ڈرنا نہیں کہ میں بادشاہ ہوں، کچھ ہو جائے گا۔ تم سے میں پوچھوں گا کہ بڑے عرصے سے ملے نہیں۔ تو تم بتانا کہ پہلے تو میں سفر پہ گیا ہوا تھا پھر واپس آیا تو ایک شخص کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی اس کا جھگڑا چل رہا ہے۔ وصولی کی کوشش میں ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ اس پر مَیں تمہیں وہیں قاضی کے سامنے ہی کہوں گاکہ اس جھگڑے کے حل کے لئے میرے پاس تم آ جاتے۔ پھر تم کہنا کہ اچھا اگر حل نہ نکلا تو میں آپ کے پاس آؤں گا۔ چنانچہ اس دن جب بادشاہ آیا۔ اس تاجر نے ایسا ہی کیا۔ سوال جواب ہوئے۔ قاضی بھی جو بادشاہ کے استقبال کے لئے موجود تھا کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا۔ جب بادشاہ کی سواری آگے چلی گئی تو قاضی صاحب تاجر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم ایک دن میرے پاس آئے تھے اور کسی امانت کا ذکر کیا تھا۔ میرا حافظہ کمزور ہے۔ کچھ نشانیاں بتاؤ۔ تو تاجر نے وہی نشانیاں جو پہلے بتائی تھیں دوبارہ بتا دیں۔ قاضی اب چونکہ بادشاہ کا رویہ اور سلوک دیکھ چکا تھا تو فوراً بولا یہ نشانیاں پہلے کیوں نہیں بتائیں۔ امانت میرے پاس محفوظ ہے۔ ابھی لا کر دیتا ہوں۔ جب ایک دنیوی بادشاہ جس کو محدود طاقت ہے اس کی دوستی انسان کویہ مقام دے سکتی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس سے ڈرتے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی دوستی کسی کو حاصل ہو اور دنیا اس کے قدموں پر نہ گر جائے۔‘‘

(از خطبات محمود جلد 17صفحہ 467تا470)

22جون 2015 بروز سوموار
رمضان المبارک

خاکسار: حضور آپ کے روزے کیسے جا رہے ہیں؟

حضورانور: اچھے جا رہے ہیں۔

خاکسار: آپ کیسے روزہ کھولتے ہیں؟

حضورانور: ایک چائے کا کپ پیتا ہوں۔ ساتھ میں ایک کھجور اور ایک بسکٹ۔ پھر نماز کے بعد کھانا کھاتا ہوں۔ سحری میں ٹھیک کھاتا ہوں۔ پہلے ایک روٹی کھاتا تھا۔ اب دو کھاتا ہوں۔ اور سالن بھی لے لیتا ہوں۔ تم سحری میں کیا کھاتے ہو؟

خاکسار: مبشر صاحب بناتے ہیں۔ پراٹھے ہوتے ہیں۔ (مبشر صاحب مسجد فضل کے کچن میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ جب ابھی پوسٹنگ کے بعد شادی نہیں ہوئی تھی تو مسجد فضل کے گیسٹ ہاؤس میں ہی رہائش تھی۔ مبشر صاحب نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ جو چیز بھی کھانا چاہتے تھے ہمیشہ بنا کر دیتے تھے)۔

فرمایا:اچھا۔

ساتھ میں انکو کہنا omlette بنا دیا کریں۔

ڈکشنری دیکھنے کی عادت

حضورانورنے فرمایا: مجھے سورۃ فاتحہ سناؤ؟

جس طرح نماز میں پڑھتے ہیں۔ (میں نے سورۃ فاتحہ سنائی) غَیر اور غِیر میں فرق ہے؟ مجھے وہ لغت دو۔ فیروز۔۔۔ (خاکسار نے الماری سےحضور انور کو فیروز اللغات دی)تمہیں عادت ہے ڈکشنری دیکھنے کی؟

خاکسارنے عرض کی۔حضور! تھوڑی بہت۔

خاکسار نے بہت دفعہ اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ جب بھی حضور انور کوئی خطبہ یاخطاب لکھ رہے ہوتے ہیں یا اور کوئی چیز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو کئی دفعہ ڈکشنری بھی کھول کر دیکھ لیتے ہیں۔ جہاں تک انگریزی کا تعلق ہے تو حضور انور کے پاس ایک چھوٹی سی الیکٹرانک ڈکشنری ہے جس کو استعمال فرماتے ہیں۔

09 جولائی2015ء بروز جمعرات
تمہارا بچہ ایک سال میں ہو گا

آج بھی حضور نے شفقت فرمائی اور اپنے پاس بلایا تھا۔ میں سلام کر کے حضور کے پاس بیٹھ گیا تھا۔

فرمایا: تمہارا بچہ ایک سال میں ہو گا۔

خاکسار: اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

اللہ تعالی نے اپنے خلیفہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری کی۔ خاکسار کی شادی 23مئی 2015 کو ہوئی تھی اور پورے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو ایک بیٹی سے نوازا۔ نہ ایک دن کم نہ ایک دن زیادہ بلکہ 23مئی 2016 حضور انور کے زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات پوری ہوئی۔ حضور انور نے خاکسار کی بیٹی کا نام عطیتہ الحٔی زہرا رکھا۔

روائتی انداز میں اذان

حضور سے اذان کے بارہ میں گفتگو ہو رہی تھی۔ حضور خاکسار کو بتا رہے تھے کہ ایک نئی اذان ایم ٹی اےپر لگائی گئی ہے۔

مجھے تو روائتی انداز اچھا لگتا ہے۔ جس طرح فیروز عالم صاحب کا ہے۔ تم بھی عرب انداز میں دیتے ہو۔ مجھے اذان سناؤ؟ نہیں پہلے تکبیر سناؤ۔ (اس پر میں نے تکبیر سنائی)

پھر فرمایا۔ اذان سناؤ روائتی انداز میں؟ حضور نے تھوڑی سی سنائی بھی کہ کس طرح پڑھنی ہے۔ لیکن میں نے جب شروع کی تو مجھ سے اس طرح ہوئی نہیں۔ تب میں نے ویسے ہی سنائی جس طرح میں ہمیشہ دیتا ہوں۔ یہ بھی کیا خوب دن تھا کہ حضور انور کی زبانِ مبارک سے اذان کا کچھ حصہ سننا نصیب ہوا۔

27ستمبر 2015ء بروز اتوار
بیت الفتوح میں حادثہ

کل مسجد بیت الفتوح سے ملحقہ کمپلیکس میں آگ لگ گئی۔ بہت بڑا حادثہ اور دردناک واقعہ تھا۔ خاکسار کی رہائش بھی وہاں پر ہی تھی۔ آگ کا جب معلوم ہوا تو بس باہر کے طرف بھاگے اور فون کے علاوہ کچھ نہ لیا۔ ابھی تک جو معلوم تھا ایسا ہی لگ رہا تھا کہ خاکسار کے کمرے میں کچھ نہ بچ سکا۔ پھر حضور انور جب نماز عشاء کے لئے تشریف لائے تو حضور انور کی نظر خاکسار پر پڑی۔ جلدی سے جا کر مصافحہ کیا۔

حضورانور نے دریافت فرمایا۔ سب کچھ جل گیا؟

جی۔ حضور

حضورانور: کتنے کپڑے تھے؟ ایک دو؟

کافی تھے۔ حضور

فرمایا۔ کوئی بات نہیں اور سامان مل جائے گا۔

خاکسار عرض کرتا ہےکہ وہ دن آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ جب ہماری آنکھوں کے سامنے آگ لگی ہوئی تھی لیکن ہم سامنے کھڑے کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ بظاہر شروع میں تو لگتا تھا کہ آگ جلد بجھ جائے گی۔ لیکن بہت دیر تک آگ کنٹرول میں نہیں آئی۔ لیکن اللہ نے رحم کیا اور اپنا فضل فرمایا۔ نقصان تو ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا اور نیا مسجد کا حصہ عطا فرمایا جس کا نقشہ ہم نے خود اپنی مرضی سے بنایا ہے (جو حصہ جل گیا وہ اس عمارت کے ساتھ بنا ہوا ملا تھا جو خریدی گئی تھی)۔ کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ معاذ اللہ ہم نے وقت کے امام کو نہ مانا ہوتا تو ایسے موقع پر ہمارا کیا حال ہوتا؟ احباب جماعت نے کس طرح ہمدردی دکھائی وہ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ بہرحال خاکسار کی جس کمرے میں رہائش تھی وہ کمرہ بچ گیا تھا اور آگ ادھر تک نہیں پہنچی تھی۔ اس طرح سے ہمارا سارا سامان بھی بچ گیا۔

ہالینڈ کی پارلیمنٹ سے خطاب

ہالینڈ کی پارلیمنٹ سے خطاب ایک تاریخی خطاب تھا۔ حضور انور کو ہالینڈ پارلیمنٹ میں بھی اسلام کا حقیقی پیغام دیا۔ چنانچہ اب جب حضور انور دورے سے واپس تشریف لے آئے ہوئے تھے اس کے بارہ میں بات کرنے کا موقع ملا۔

خاکسار نے عرض کی کہ حضور کا پارلیمنٹ کا خطاب بھی دیکھا تھا۔ وہ کافی بد تمیز ی سے بول رہے تھے۔ جب آپ اسے جواب دے رہے تھے اس وقت وہ آپ کی تصویر کھینچ کر tweet کر رہا تھا۔ پھر میں نے اسکو لکھا۔

فرمایا۔ جو تم نے اس کو لکھا تھا اس پر تو تمہیں نوبل پرائز ملنا چاہئے۔

خاکسار نے عرض کی کہ حضور! پہلے تو میں نے اسے لکھا تھا :

Pay attention to his Holiness. Dont play on twitter.

اس پر تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر دو دن بعد میں نے اسے دوبارہ لکھا۔ کہ

It was a great honour for the Dutch, that the Khalifa of Islam visited their parliament.

اس پر اس نے جواب دیا تھا کہ

Thank you for the appreciated visit & accepting some difficult questions, as only they lead to better answers & understanding

06دسمبر 2015 بروز اتوار
خود عمل کرنے والے بنیں

پہلے بیت الفتوح میں آگ کے حادثہ کے بارہ میں ذکر کر چکا ہوں۔ خاکسار کے پاس ایک نصائح والی ڈائری تھی جس میں جماعت کے بزرگان سے نصائح لکھواتا تھا۔ نیز خلیفہ رابع کا ایک قلم تھا جو خاکسار کی بڑی بہن نے خاکسار کو جامعہ کےداخلہ کے موقع پر بطور تحفہ دیا تھا۔ لیکن یہ دونوں چیزیں بیت الفتوح کے حادثہ میں جل گئیں۔ یہ چیزیں سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ ان کے کھونے کا دکھ تھا۔ اس لئے حضور کی خدمت میں لکھا جس کا جواب موصول ہوا۔

’’آپ کا خط ملا جس میں آپ نے بیت الفتوح کے حادثے میں اپنی ڈائریوں اور پن کے جلنے کا ذکر کیا ہے۔ آپ قرآن شریف کو لے لیں۔ اس کے مضامین تو ضائع نہیں ہوتے۔ اپنی نصیحتوں والی ڈائری کے جلنے کی فکر نہ کریں بلکہ خود عمل کرنے والے بنیں۔ نصائح کی تو اب شاید ضرورت نہ ہو۔

19سمبر 2015ء بروز ہفتہ
حمل کے دوران تلاوت

ایک خط میں حضور انور سے اِس بات کے بارہ میں دریافت کیا کہ جب ایک عورت حمل سے ہوتی ہے اور تلاوت کرتی ہے۔ تو کیا اس تلاوت کا اثر بچے پر بھی ہوتا ہے؟ اس کا جواب موصول ہوا۔

’’حمل کے دوران کی تلاوت کرنے کے بارہ میں آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے لیکن باپ کو بھی چاہیئے کہ بیٹھ کر تلاوت کرے۔‘‘

04جنوری 2016ء سوموار
Gout

حضورانور: پاؤں کو کیا ہوا ہے؟

خاکسار : gout ہو گیا ہے۔

تب حضور نے مجھے بتایا کہ حضور کو بھی 20 سال سے gout کی تکلیف ہے۔ اور کبھی gout ہو بھی جائے تو حضور انور پھر بھی نمازوں پر آتے ہیں۔ اس بات پر خاکسار بہت حیران ہوا۔ خاکسار نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دوبارہ کبھی ہوا تو خاکسار مسجد میں نماز نہیں چھوڑے گا۔ حضور نے یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اور حضور انور کے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ کو بھی gout تھا۔ خلیفہ ثانی تو نرم جوتی پہنتے تھے۔ اور وہ جوتی میں سوراخ کر لیتے تھے تاکہ جس جگہ پر Gout ہوا ہے اس پر دباؤ نہ پڑے۔ حضور بھی اب نرم جوتی پہنتے ہیں۔ اور لگاتار ایک دوائی کھاتے ہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے Gout ایک ایسی مرض ہے کہ اگر جسم میں Uric Acid کا لیول زیادہ ہوجائے تو چھوٹے جوڑوں میں سوجن ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے ہاتھ پاؤں یا انگلیاں ہلانے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بلکہ اگر پاؤں کے جوڑ پر ہو جائے تو چلنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔

حضورانور: گائے کے گوشت سے پرہیز کیا کرو۔

خاکسار: حضور میں گوشت نہیں کھاتا۔ (گائے کا گوشت کھانے سے Uric Acid کا لیول زیادہ ہوجاتا ہے)

ایک دفعہ جب حضور انور نماز کے لئے تشریف لائےتو حضور انور کے چلنے کے انداز سے خاکسار کو یہ گمان ہوا کہ شاید حضور انور کو gout کی تکلیف ہے۔ تب معلوم کرنےپر پتہ چلا کہ یہ بات ٹھیک تھی اور حضور انور کو واقعی gout کی تکلیف تھی۔ تب حضور انور کی خدمت میں لکھا کہ آپ کو gout ہوگیا ہے۔ مجھے آپ کے چلنے سے فورًا پتہ لگ گیا تھا۔ حضور انور آپ اپنا خیال رکھا کریں۔ دوائی با قاعدگی سے کھایا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد شفا دے۔ آمین۔ چنانچہ حضورانور کا جواب موصول ہوا کہ ’’جزاک اللہ نصیحت کا۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ انسان پریشانی کی حالت میں، فکر کی حالت میں حضورانور کی خدمت میں کوئی بات عرض کرتا ہے تو حضور انور کی یہ عادت ہے کہ کوئی مزاحیہ بات فرما دیتے ہیں جس سے اصل پریشانی بھول جاتی ہے اور چہرہ پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔

16جنوری 2016ء بروز ہفتہ
اطاعت میں برکت ہے

آج جامعہ احمدیہ کی تقریبِ تقسیمِ اسناد تھی۔ خاکسار بالکل تیا ر تھا کہ اس بابرکت تقریب میں شامل ہو۔ ابھی گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا کہ مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن مل گئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے نہیں جانا اور ادھر رہ کر نمازیں پڑھانی ہیں۔ جانے کا دل تو بہت کر رہا تھا لیکن اطاعت میں ہی برکت ہے۔

کچھ دن بعد میرے ایک مربی دوست مکرم رانا محمود الحسن صاحب کی ملاقات تھی۔ حضور انور نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو تقریب اسناد کی دعوت ملی تھی؟ انہوں نے عرض کیا جی حضور، ملی تھی۔ اور پھر فرمایا کہ مون کو تو نہیں ملی تھی۔ حضور انور کا خیال تھا کہ شاید خاکسار کو دعوت ہی نہیں ملی جس کی وجہ سے خاکسار مسجد فضل ہی میں رکا رہا تھا۔ یہ سن کر خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں خط لکھ دیا اور ساری بات واضح کر دی کہ خاکسار کیوں نہ جا سکا۔ چنانچہ حضور انور نے میرے خط پر لکھا کہ ’’اس خوشی میں آکر مجھے مل لو‘‘۔ الحمد للّٰہ کہ خاکسار کے اس کام پر حضور انور کو خوشی ہوئی۔

20جنوری 2016ء بروز بدھ
حضور کے ساتھ معانقہ

پھر خاکسار کی آج حضور انور سے ملاقات تھی۔ خاکسار حضور انور کے آفس میں داخل ہوا اور دست مبارک کا بوسہ لینے لگا کہ حضور انور نے خاکسار کو معانقہ کا شرف بخشا۔اس لمحے کیا ہو رہا تھا۔ اللہ کے چنیدہ انسان کے گلے لگ کریوںلگ رہاتھاکہ چاروں طرف سب کچھ رُک گیاہے۔ دل یہی چاہتا تھا کہ وقت یہیں رک جائے۔ جو تسلی حضور انور کے گلے لگانے سے ملی وہ کسی اور انسان کو لگانے سے کبھی نہیں ملے گی۔ پورے یقین سے یہ با ت کہہ سکتا ہوں۔

26ستمبر 2016ء بروز سوموار
مربی کے پاس Pen ہونا ضروری ہے

حضورانورنے خاکسار کے وزن کے حوالہ سے گفتگو کا آغاز فرمایا اور ہومیوپیتھک دوائی استعمال کرنے کو فرمایا۔ خاکسار کو ہومیوپیتھک دوائیوں کے نام بالکل یادنہیں رہتے۔ سوچنے لگ گیا کہ اب کیا کروں۔(لکھنا ہی سب سے بہتر تھا)

حضورانور نے پوچھا۔ pen نہیں ہے؟ مربی کو تو پین اپنے پاس رکھنا چاہئے۔ اس پر حضورانور نے خاکسار کو خود اپنے دست مبارک سے دوائی کا نام لکھ کر دیا۔

29نومبر 2016ء بروز منگل
حضور انور کا کینیڈا کا بابرکت دورہ

خاکسار نے حضورانور سے کینیڈا کے دورے کے بارہ میں ادب سے کئی سوال پوچھے اور میں نے عرض کی کہ حضور! میں نے کینیڈا کی کلاسیں بھی دیکھی تھیں۔ اس میں ایک لڑکے سے آپ پوچھ رہے تھے کہ مربی اور مبلغ کے کیا فرائض ہیں؟ جس پر وہ کہتا ہے کہ ایک مربی کو دو گھنٹے تہجد پڑھنی چاہئے۔ جس پر آپ نے فرمایا تھا کہ اب تو کر لو گے گرمیوں میں کیا کرو گے؟

پھر خاکسارنے حضورانور سے ان پلیٹس کے حوالے سے پوچھا کہ کیا واقعی Queen نے ان میں کھانا کھایا ہوا ہے؟

فرمایا کہتے تو یہی ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ اس کے اوپر ایک پلیٹ لا کررکھ دیتے تھے۔

حضور! اس میں ویسے کوئی خاص بات ہے۔؟

فرمایا۔ مجھے تو مٹی کے برتن بھی لا کر دیتے میں نے اس میں کھا لینا تھا۔

اختتام

اب خاکسار اس ڈائری کے اختتام پر پہنچ گیا ہے۔ خاکسار نے یہ باتیں خالصتاً اس نیت سے درج کی ہیں کہ لوگوں کوحضور انور کے مزاج سے آگائی ہو کہ حضور انورکس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تربیت فرماتے ہیں اور یہ کہ سب اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ آج بھی حضور انور کی شفقتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ خاکسار دعا کی درخواست بھی کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور انور کی باتوں اور ارشادات پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین۔

(سعید احمد رفیق۔ مربی سلسلہ اِسلام آباد،ٹلفورڈ)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022