• 14 جولائی, 2025

موت کے بعد انسان کی کیا حالت ہوتی ہے؟

از روئے قرآن

۞ فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ

(السجدۃ: 18)

پس کوئی نفس نہیں جانتاکہ انکے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئ ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔

۞ اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَجَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ

(آل عمران: 137)

ترجمہ: ایسے ہی لوگوں کا صلہ پروردگار کی طرف سے بخشش اور باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ اور اچھے کام کرنے والوں کا یہی بدلہ ہے۔

۞ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ

(النساء: 14)

ترجمہ: (یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے

احادیث

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت گھیری گئی ہے ان باتوں سے جو نفس کو ناگوار ہیں اور جہنم گھیری گئی ہے نفس کی خواہشوں سے۔

(صحیح مسلم کتاب الجنة۔ وصفة نعمھا واھلھا)

سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کیلئے وہ نعمتیں تیار کی ہیں کہ جن کے بارہ میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی آدمی کے دل میں انکا تصور گزرا۔

(صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعمھا واھلھا)

ارشادات سیدنا ومولٰنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ

حضرت اقد س علیہ السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں دوسرے سوال کے جواب میں لکھا ’’سواس سوال کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ موت کے بعد جو کچھ انسان کی حالت ہوتی ہے درحقیقت وہ کوئی نئی حالت نہیں ہوتی۔ بلکہ وہی دنیا کی زندگی کی حالتیں زیادہ صفائی سے کھل جاتی ہیں۔ جو کچھ انسان کے عقائد اور اعمال کی کیفیت صالحہ یا غیر صالحہ ہوتی ہے۔ وہ اس جہان میں مخفی طور پر اس کے اندر ہوتی ہے اور اس کا تریاق یا زہر ایک چھپی ہوئی تاثیر انسانی وجود پر ڈالتا ہے۔ مگر آنے والے جہان میں ایسا نہیں رہے گا۔ بلکہ وہ تمام کیفیات کھلا کھلا اپنا چہرہ دکھلائیں گی۔ اس کا نمونہ عالم خواب میں پایا جاتا ہے کہ انسان کےبدن پر جس قسم کے مواد غالب ہوتے ہیں۔ عالم خواب میں اسی قسم کی جسمانی حالتیں نظر آتی ہیں۔ جب کوئی تیز تپ چڑھنے کو ہوتا ہے تو خواب میں اکثر آگ اور آگ کے شعلے نظر آتے ہیں اور بلغمی طریقوں اور ریزش اور زکام کے غلبہ میں انسان اپنے تئیں پانی میں دیکھتا ہے غرض جس طرح کی بیماریوں کیلئے بدن نے تیاری کی ہو وہ کیفیتیں تثمل کے طور پر خواب میں نظر آجاتی ہیں۔ پس خواب کے سلسلہ پر غور کرنے سے ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ عالم ثانی میں بھی یہی سنت اللہ ہے۔کیونکہ جس طرح خواب ہم میں ایک خاص تبدیلی پیدا کرکے روحانیات کو جسمانی طور پر تبدیل کر کے دکھلاتا ہے۔ اس عالم میں بھی یہی ہو گا اور اسی دن ہمارے اعمال اور اعمال کے نتائج جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے۔ اور جو کچھ ہم اس عالم سے مخفی طور پر ساتھ لے جائیں گے وہ سب اس دن ہمارے چہرہ پر نمودار نظر آئے گا۔ اور جیسا کہ انسان جو کچھ خواب میں طرح طرح کے تمثلات دیکھتا ہے اور کبھی گمان نہیں کرتا کہ یہ تمام تمثلات ہیں۔ بلکہ انہیں واقعی چیزیں یقین کرتا ہے۔ ایساہی اس عالم میں ہوگا بلکہ خدا تعالیٰ تمثلات کے ذریعہ سے اپنی نئی قدرت دکھائے گا۔ چونکہ وہ قدرت کامل ہے۔ پس اگر ہم تمثلات کا نام بھی نہ لیں اور یہ کہیں کہ وہ خدا کی قدرت سے ایک نئی پیدائش ہے تو یہ تقریر بہت درست اور واقعی اور صحیح ہے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ396تا397)

تین عالم

اول دنیا جسکا نام عالم کسب اور نشأۃ اولی ہے اسی دنیا میں انسان اکتساب نیکی یا بدی کا کرتا ہے اور اگرچہ عالم بعث میں نیکیوں کے واسطے ترقیات ہیں مگر وہ محض خدا کے فضل سے ہیں انسان کے کسب کو ان میں دخل نہیں۔

دوسرے عالم کا نام برزخ ہے۔ سو برزخ عربی لفظ ہے جو مرکب ہے زخ بر سے اس کے معنے یہ ہیں کہ طریق کسب اعمال ختم ہوگیا اور ایک مخفی حالت میں پڑگیا۔برزخ کی حالت وہ حالت ہے جب یہ ناپائیدار ترکیب انسانی تفرق پزیر ہوجاتی ہے اور روح الگ اور جسم الگ ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ جسم کسی گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے اور روح بھی ایک قسم کے گڑھے میں پڑجاتی ہے۔جس پر لفظ زخ دلالت کرتا ہے کیونکہ وہ افعال کسب خیر یا شر پر قادر نہیں ہوسکتی کہ جو جسم کے تعلقات سے اس سے صادر ہوسکتے تھے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ403)

غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے۔ یہی عالم برزخ میں نیک وبد کی جزا کا موجب ہو جاتا ہے۔ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بارہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا وہ دھویں سے بنایا گیا ہے غرض میں اس کوچہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہےخواہ نورانی خواہ ظلمانی۔ انسان کی یہ غلطی ہوگی اگر وہ ان نہایت باریک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرنا چاہے بلکہ جاننا چاہیئے کہ جیسا کہ آنکھ شیریں چیز کا مزہ نہیں بتلا سکتی۔ اور نہ زبان کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے۔ ایسا ہی وہ علوم معاد جو پاک مکاشفات سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ صرف عقل کے ذریعہ سے ان کا عقدہ حل نہیں ہوسکتا۔ خدائے تعالیٰ نے اس دنیا میں مجہولات کے جاننے کیلئے علیحدہ علیحدہ وسائل رکھے ہیں۔پس ہر ایک چیز کو اس کے ذریعہ سےڈھونڈو تب اسے پالوگے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد دس صفحہ405تا406)

اس جگہ ایک اور سوال ناواقفوں کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جس حالت میں تیسرا عالم جو عالم بعث ہے مدت دراز کے بعد آئے گا۔ تو اس صورت میں ہر ایک نیک وبد کیلئے عالم برزخ بطور حوالات کے ہواجو ایک امر عبث معلوم ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا سمجھنا سراسر غلطی ہے جو محض ناواقفی سے پیدا ہوتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں نیک وبد کی جزا کے لیے دو مقام پائے جاتے ہیں۔ ایک عالم برزخ جس میں مخفی طور پر ہر ایک شخص اپنی جزا پائے گا۔ برے لوگ مرنے کے بعد ہی جہنم میں داخل ہوں گے نیک لوگ مرنے کے بعد ہی جنت میں آرام پائیں گے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ407)

عالم معاد

سو جزاء سزا کی کاروائی تو بلاتوقف شروع ہوجاتی ہے۔اور دوزخی دوزخ میں اور بہشتی بہشت میں جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ایک اور تجلی اعلیٰ کا دن ہے جو خدا کی بڑی حکمت نے اس دن کے ظاہر کرنے کا تقاضا کیا ہے کیونکہ اسنے انسان کو پیدا کیاتا وہ اپنی خالقیت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر وہ سب کو ہلاک کرے گاتاکہ وہ اپنی قہاریت کے ساتھ شناخت کیا جائے۔اور پھرایک دن سب کو کامل زندگی بخش کر ایک میدان میں جمع کرے گا تاکہ وہ اپنی قادریت کے ساتھ پہچانا جائے۔

دوسرا دقیقہ معرفت جس کو عالم معاد کے متعلق قرآن شریف نے ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ عالم معاد میں وہ تمام امور جو دنیا میں روحانی تھے جسمانی طور پر متمثل ہونگے خواہ عالم معاد میں برزخ کا درجہ ہو یا عالم بعث کا درجہ۔ اس بارے میں جو کچھ خدایتعالے نے فرمایا اس میں سے ایک یہ آیت ہے۔

وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَاَضَلُّ سَبِیۡلًا یعنی جو اس جہان میں اندھا ہوگا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان کی روحانی نابینائ اس جہان میں جسمانی طور پر مشہود اور محسوس ہوگی۔

فاسق انسان دنیا کی زندگی میں ہواہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور ناکامیوں میں اس جہنم کی سوزشوں کا احساس کرتا ہے۔ پس جبکہ اپنی فانی شہوات سے دور ڈالا جائے گا۔ اور ہمیشہ کی ناامیدی طاری ہوگی۔ خدا تعالیٰ ان حسرتوں کو جسمانی آگ کے طور پر اس پر ظاہر کرے گا۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 408تا409)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ حقائق الفرقان میں فرماتے ہیں :
جنت کیا ہے: آدمی کی آنکھ ہے۔ کان ہیں زبان ہے مزہ ہے ٹٹولنا ہے۔ اللہ تعالی کیلئے جو ان باتوں کو ترک کرتا ہے اسے جنت ملتی ہے۔ اللہ کیلئے جو ہم قربان کریں اسکا نعم البدل جنت ہے۔

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ120)

جنت میں جانے کے اصول: جنت میں جانے کے کچھ اصول ہیں ان میں چند کل انبیاء و اولیاء میں مشترک ہیں منجملہ انکے ایک نفس کی بے انت خواہشوں کو روکنا۔ تین قسم کی خواہشیں ہیں۔

ایک مال کی خواہش ہے چنانچہ اسکے لئے انبیاء نے یہ قاعدہ بناییا

لَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ

(البقرہ: 189)

اس میں ملازم؛ پیشہ وغیرہ سب آگئے۔

دوم کان آنکھ زبان حسن کے بہت مشتاق ہیں۔حسین چیز کو دیکھنا۔اسکی خوشبو سونگھنا۔اسکی آواز سنناان تمام باتوں کی خواہش کا نام شہوت ہے

سوم غضب

اس کے متعلق بھی بڑی تعلیمیں ہیں۔ یعنی تم اپنے حال کو نہیں دیکھتے کہ خدا کے مقابلہ میں کیا کیا بغاوتیں کی ہیں پھر بھی اللہ تعالی اس پر گرفت نہیں فرماتا۔ وہ قادر ہوکر عفوکرتا ہے پس تم بھی درگزر کیا کرو۔ان تین امتحانوں میں پورے نہ نکلو گے تو جنت نصیب نہ ہوگی۔

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 350)

سیدنا حضرت مصلح موعود تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: خلاصہ یہ کہ جنت کی نعمتوں کے نام گو دنیا کی چیزوں جیسے رکھے گئے ہیں لیکن ان سے مراد بعض روحانی نعمتیں ہیں نہ کہ کوئی جسمانی اشیاء کجا یہ کہ وہی اشیاء جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ صحابہ کے کلام سے بھی اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں۔ لَیْسَ فِی الدُّنْیَا مِمَّا فِی الْجَنَّۃِ شَیْئًا اِلَّا الْاَسْمَاءَ۔ یعنی جو کچھ جنت میں ہےاس دنیا میں صرف انکے نام معلوم ہیں انکی حقیقت معلوم نہیں۔ غرض اخروی زندگی میں باغات اور نہروں اور پانی اور دودھ اورشراب اور شہد سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ بعض چیزیں ہونگی جو اس قسم کی روحانی تاثیرات پیدا کرینگی جو یہ دنیا کی اشیاء مادی جسم پر پیدا کرتی ہیں۔ سوائے شراب کے کہ اس کے سب خواص مراد نہیں بلکہ بعض خاص خواص مراد ہیں اور چونکہ اس کا نام استعمال کرنے سے دھوکہ لگ سکتا تھا قرآن کریم نے اخروی شراب اور دنیوی شراب کا فرق بالتفصیل بیان کر دیا وہ دھوکہ جو شراب کے نام سے لگ سکتا تھا یہ تھا کہ کیا وہ شراب بھی عقل پر پردہ ڈالنے والی ہوگی اور جسمانی نشہ کی سی کیفیت پیدا کرے گی۔ سو اس کا جواب یہ دیا کہ ان باتوں میں اس کو دنیوی شراب سے مشابہت نہ ہوگی بلکہ اس کی مشابہت اور لحاظ سے ہے اوروہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح شراب انسان کے دماغ پر اثر ڈال کر یکسوئی پیدا کر دیتی ہے وہ شراب بھی یکسوئی پیدا کردیگی اور اسے پی کر قلوب کلی طور پر خدا تعالی کی محبت میں مست اور مدہوش ہو جائیں گے۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب جنت کی نعماء بالکل اور قسم کی ہیں اور روحانی ہیں تو پھر دنیوی نام کیوں اختیار کئے گئے تو اسکا جواب یہ ہے کہ مذہب سب قسم کے لوگوں کے لئے ہوتا ہے مخالفوں کے لئےبھی اور ادنیٰ لوگوں کے لئے بھی اور اعلی قسم کے لوگوں کے لئےبھی۔ ان امور کے متعلق جن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو ضروری ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ میں کلام کیا جائے کہ ان میں مخالفوں کا بھی جواب آجائے اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی تسلی کا بھی وہ موجب ہو اور اعلی درجہ کے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں اس حکمت کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم نے اخروی نعماءکے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو سب قسم کے لوگوں کے لئے ان کی عقل اور اور درجہ کے بموجب تشفی کا موجب ہوں۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ244)

(لئیق احمد عامر)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022