• 18 مئی, 2024

آرٹیکل ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جاسکتے‘‘ پر موصول ہونے والے تبصرے (قسط اول)

آرٹیکل ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جاسکتے‘‘
پر موصول ہونے والے تبصرے
(قسط اول)

نوٹ از ایڈیٹر۔ ماں پر لکھے گئے آرٹیکل بعنوان ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘ پر قارئین کی آراء اور تبصرے مل رہے ہیں۔ ان کو محض اور محض صرف اس لئے من عن درج کیا جا رہا ہے کہ ماں کا مقام ہماری نوجوان نسل میں مزید اجاگر ہو۔ کسی قسم کی خود ستائی مقصود نہیں۔

  • مکرمہ بشریٰ نذیر افتاب۔ سسکاٹون، کینیڈا سے لکھتی ہیں :

مورخہ 12 فروری2022ء بروز ہفتہ کے روز نامہ الفضل آن لائن میں آپ کا اداریہ بعنوان ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘ پڑھا۔ بہت ہی جذباتی کر دینے والا اداریہ تھا۔ رب رحمان و منان کے بے پایاں فضل و احسانات کا انتہائی خوبصورت پیرائے میں ذکر کرنے کے بعد جس خوبصورت انداز اور دل کی گہرائیوں سے آپ نے ماں کی اپنے بچوں کے لئے بے لوث محبت،خدمت اور احسان کا ذکر کیا ہے اسے پڑھ کر خاکسار جذبات کی رو میں بہہ گئی ۔ میری طرح نہ جانے کتنے ہی اور قارئین الفضل اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے ہوں گے۔والدین کی خدمت ان کے ادب و احترام پر لکھنے کی بہت ضرورت ہے ، خاص طور پر مغربی ممالک میں پیدا ہونے والے بچے ،بعض اوقات اسی ماحول کے زیر اثر پروان چڑھنے کی وجہ سے والدین کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔آپ نےیہ اداریہ لکھ کر ہم سب کے جذبات کی خوب ترجمانی کی ہے۔مجھے محض خدا کے فضل سے دسمبر کا مہینہ اپنی بزرگ والدہ کے پاس گزارنے کا موقعہ ملا۔اس مختصر سے عرصے میں میری ماں ،میری جنت نے میرے اور میرے بچوں کے لئے خوب خوب دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام احمدی بھائی بہنوں کی ماؤں کو جو حیات ہیں صحت و سلامتی والی دراز عمروں سے نوازے اور جو اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں ان کونعمتوں والی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین

  • مکرمہ صدف علیم صدیقی ۔ریجائنا کینیڈا سے لکھتی ہیں:

آج کے الفضل میں آپکا اداریہ پڑھا ۔ ہمیشہ کی طرح آپ نے بہت خوبصورت موضوع کا انتخاب کیا۔ اور ایک تصویر کوجس خوبصورتی سے بیان کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بلاشبہ بعض قرض کبھی ادا نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ والدین اور خصوصا ماں کی محبت کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ،ناممکن بھی ہے۔ کس حد تک جا کر والدین اولاد کی خوشی کا سامان کرتے ہیں۔ امراء تو شاید اس کا احساس نہ کر سکیں لیکن غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین بھی حتی الواسع اپنی اولاد کی تمام تر ضروریات بلکہ خواہشات تک پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتنی ہی مائیں اپنی اولاد کا مستقبل بنانے کے لیے اپنی ہر قیمتی چیز گروی رکھ دیتی ہیں۔ اچھی خوراک سے اولاد کا شکم سیر کر کے اکثر خود بچے کھچے کھانے سے پیٹ بھر کر سجدہ شکر بجا لاتی ہیں۔الحمد للہ !کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی ایسے والدین عطاء کیے جنہوں نے ہم بہن بھائیوں کے لیے بے حد قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انکا قدر دان بنائے۔ آمین ۔ اس نفسانفسی کے دور میں جہاں واقعی رحمی رشتوں کے تقدس پامال ہو رہے ہیں اس موقع پر آپ نے بے حد عمدہ موضوع کا انتخاب کیا۔ اللہ کرے کہ اس اداریہ کو پڑھنے والے تمام خواتین و احباب والدین کے حقوق کی حفاظت کرنے والے بنیں اور بحیثیت اولاد اپنے فرائض پہچانیں اورانہیں پورا کریں۔ آمین اللّٰھم آمین

  • مکرمہ عائشہ چوہدری۔ جرمنی سے لکھتی ہیں :

بہترین اداریہ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو ہیں اور ماں کی یاد میں اور شدت آگئی ۔واقعی ہم ان کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے ۔ پہاڑوں کی اونچائی اور سمندروں کی گہرائی تو شائد کبھی کوئی ناپ ہی لے مگر ماں کی محبت کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ان کی محبت کا کچھ تھوڑا سا بھی قرضہ اتار سکیں۔

  • مکرمہ منصورہ فضل من۔ قادیان سے لکھتی ہیں :

ویسے تو آپکے تمام مضامین ہی بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن اس مضمون کو بس چشم تر کے ساتھ پڑھا سیدھا دل میں اترنے والا مضمون ہے، ماشاءاللّٰہ۔

  • مکرم نعمان احمد رحیم لکھتے ہیں :

آج کے اخبار میں اداریہ بعض قرض کبھی اتارے نہیں جا سکتے ،بہت ہی عمدہ عنوان ہے جس کا آپ نے آج کے نفسا نفسی کے دور میں انتخاب کر کے ماں کی عظمت اجاگر کی ہے۔ جزاکم اللہ۔

میں اکثر صبح سورج نکلنے کے ساتھ سورج کی کرنوں میں الفضل پڑھتا ہوں ۔ سورج کی ہلکی تپش اور الفضل کا نور بڑا حسین منظر پیش کرتا ہے۔ ماشاءاللہ سارے مضامین بہت ہی اچھے ہوتے ہیں علم و عرفان بڑھتا ہے۔

  • مکرم محمد زکریا۔ لائبیریا سے لکھتے ہیں :

بہت ہی پیارا مضمون ہے ۔ خصوصاً نوجوان نسل کے لئے جن کو اپنی جوانی کی عمر میں ماں کی ان قربانیوں کا احساس نہیں ہوتا۔اور جب وہ خود عمر کے اس حصہ میں پہنچتے ہیں جب ان کو ماں کی ان قربانیوں کا احساس ہوتا ہےتو اس وقت تک اس شفیق اور مہربان ماں کا پیارا وجود ان سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔ نوجوان نسل میں ماں کی شفقتوں اور قربانیوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے یہ بہت اہم آرٹیکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  • مکرم طاہر احمد – فن لینڈ سے لکھتے ہیں :

ابھی یہ اداریہ ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘ پڑھ کر جذبات اورخیالات جمع کرنے کی کوشش میں ہوں لیکن ساتھ ہی احساس ہوا کہ یہ مضمون جس ہستی کے گرد گھوم رہا ہے اس کے اظہار تشکر میں چند الفاظ نہ لکھے تو بے ادبی ہو گی۔ ’’ماں‘‘ ایک ایسا وجود ہے جس کے محض تلفظ کی ادائیگی سے ہی اپنائیت کی ایک ایسی کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ جس کا مقابلہ کوئی اور لفظ نہیں کر سکتا۔ آپ نے بجا لکھا کہ اس ہستی کا قرض کبھی ادا نہیں ہو سکتا لیکن یہ مضمون لکھ کر آپ نے لکھنے کا حق ضرور ادا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے والدین اور ماں کی خدمت اور ان کے لیے دعا کی توفیق دے اور جو اس نعمت سے محروم ہیں یا کھو چکے ہیں وہ ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا کرنے والے ہوں۔ آمین

  • مکرمہ صفیہ بشیر سامی۔لندن سے لکھتی ہیں :

تجھے اے ماں !بلاؤں کہاں سے

مدیر محترم !آپ نے صبح صبح رُلا دیا ،بلکہ بہت رُلا دیا یہ بہت جذباتی باتیں ہیں۔ ان پر اپنے آپ پر کنٹرول رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ماں تو بس ماں ہوتی ہے۔ وہ کسی کی بھی ماں ہو۔ ماں سے پیارا لفظ شائد کوئی اور ہو نہیں سکتا۔ ہماری مائیں اللہ جانتا ہے کیسے کیسے حالات سے گزر کر گئی ہیں ۔اپنی ماں اور سب کی ماؤں کو میرا سلام۔ اللہ سب کی ماؤں کو سلامت رکھے جو چلی گئی ہیں اللہ اُن کے درجات بلند فر مائے آمین

  • مکرمہ ناصرہ احمد ۔ کینیڈا سے لکھتی ہیں :

بہت اعلیٰ ، خوبصورت تحریر ماں کی عظمت پر پڑھنے کو ملی ۔ اللہ تعالیٰ کی عطاء کی ہوئی سب سے بڑی دُنیا کی نعمت ماں ہے اور اپنی ماؤں کی قربانیوں اور جانثاریوں کے ہم ہمیشہ قرض دار رہیں گے۔

بقول غالب

؎جان دی دی ہوئی اسی کی ہے
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

یہ حقیقت ہے کہ ماں کا رشتہ اور محبت ایسی مخصوص خُو شبو ہے جو سدا بہار ہے۔ ہمیشہ کی طرح آپ کا نوک قلم سوچ کے وسیع سمندر میں بہترین مضامین کی طرف رہنمائی کرتا دل و دماغ کو معطر کر گیا۔ فجزاکم اللّٰہ تعالیٰ

  • مکرم زاہد محمود لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ کا شکر تو کسی صورت ادا ہوہی نہیں سکتا۔ اللہ تو صرف محبت ہی محبت ہے۔ مرنے کے بعد تو سب سے خوش گھڑی وہی ہوگی جب ہمارے محبوب خدا کا دیدار ہمیں نصیب ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ آپ کے اداریہ نے ماضی کے بہت سے دریچے وا کردیئے۔ گو یہ دریچے کبھی بند نہیں ہوئے اور نہ ہوسکتے ہیں۔ بس اداریہ نے بہت سی گزری باتیں ایک فلم کی طرح چلادیں۔ جہاں اور باتیں یاد آئیں۔ ایک واقعہ یاد آیا۔ مجھے میری نانی جان مرحومہ نے پالا۔ جنہیں میں ہمیشہ «اماں» کے نام سے بلاتا تھا۔ میرے بچپن کی بات ہے کہ میں اماں کے ساتھ کہیں ملنے جارہا تھا راستہ میں ایک جگہ ریلوے کی پٹری عبور کرنی پڑتی تھی۔ میں اس جگہ پتھروں پر چل رہا تھا۔ اماں نے کہا کہ ’’دیکھو پتھر ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’اماں مجھے پتھروں پر چلنا پسند ہے‘‘۔ اماں نے بے ساختہ کہا ’’اللہ نہ کرے تمہیں کبھی پتھروں پر چلنا پڑے‘‘۔ جب بھی یہ بات یاد آتی ہے دل ان کے لئے محو دعا ہوجاتا ہے۔

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022