• 8 مئی, 2024

ایک دوسرے کی باتیں کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے باتیں کریں

الفضل آن لائن کے ایک قاری اور مضمون نگار مکرم کاشف احمد نے مجھے کچھ اقوال بھجوائے۔ ان میں سے ایک قول پاکستان کے مشہور سفر نامہ نگار، ادیب اور ناول نویس جناب مستنصر حسین تارڑ کا کچھ یوں تھا:
’’ہم ایک دوسرے کی باتیں کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے باتیں کریں۔‘‘

ایک دوسرے کی باتیں کرنے کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہاں دو طرح کی باتیں مراد ہیں:
کسی کے متعلق اچھے خیالات کا اظہار کرنا۔ اس کی خوبیوں کا ذکر کرنا۔ یہ تو اچھی بات ہے اور اس سے معاشرہ حسین ہوتا ہے۔

کسی کے متعلق بُری باتیں کرنا۔ اس کی برائیوں اور خامیوں کو بیان کرنا۔ جسے اسلامی تعلیم میں چغلی، غیبت، عیب جوئی کا نام دیا جا سکتا ہے اور ان کے ذیل میں آگے بہت سی بدیاں شامل ہوتی جاتی ہیں اور معاشرہ غیر اسلامی برائیوں کی لپیٹ میں آتا جاتا ہے۔ جس کی قرآن و احادیث میں ممانعت ملتی ہے۔ ایسا کرنے سے قطع تعلق جنم لیتا ہے۔ رشتہ داروں میں دوریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔

اسی کی طرف مذکورہ بالا قول میں کہا گیا کہ ایک دوسرے سے پیار محبت کی باتیں کریں۔ یہاں مغربی دنیا میں یہ تو خوبی ہے کہ کسی سے یہ غیبت،چغلی نہیں کرتے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی دنیا ہے۔ اپنی راہ لیتے ہیں بلکہ کسی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے لیکن اس کے نتیجہ میں معاشرہ سے بزرگ افراد و خواتین اکیلے رہ رہ کر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی سے بات کریں۔ میں روزانہ سیر کے لیے باہر نکلنے کا عادی ہوں۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ کوئی بزرگ انگریز یا خاتون Hello Hi کر کے کھڑے ہو کر باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ یہی کیفیت میں نے قبرستان میں بھی دیکھی ہے۔ خاکسار اپنے احمدیہ قبرستان میں دعا کرنے کے لیے جاتا ہے تو اس وقت کوئی دوست یا انگریز خاتون مل جائے تو وہ ضرور باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ بات کا آغاز وہ موسم سے کرتے ہیں اور یوں ان کا دل بہل جاتا ہے اور دوبارہ ترو تازہ ہو جاتے ہیں۔ گویا ایک دوسرے سے باتیں کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سامنے والے بندے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کوئی مشکل میں ہو یا صدمہ میں ہو یا پریشان ہو تو اس کو باتوں میں لگانے سے اس کا ہم و غم اور اداسی دور ہو جاتی ہے۔

اس کے بالمقابل ہمارے معاشرہ میں غیبت، چغل خوری بہت زیادہ ہے۔ ذرا سا کوئی انسان آنکھوں سے اوجھل ہو تو اس سے متعلق باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ بلکہ لطیفہ کے طور حقیقت پر مبنی ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں۔ کسی جگہ چند دوست بیٹھے چغلیاں کر رہے تھے جو ایک دوست کو اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ محفل چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے ہوئے حاضرین سے کہہ گئے کہ اچھا! میں تو چلتا ہوں۔ اب میری غیر موجودگی میں میرا گوشت کھالیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات آیت 13میں غیبت اور چغل خوری کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بلکہ سورۃ الہمزہ میں ہُمَزَۃٍ لمزةٍ کے الفاظ استعمال کر کے غیبت کرنے والوں کی ہلاکت کی دعا مانگی گئی ہے۔ سورۃ القلم میں چغلیاں کرنے والوں کی باتیں نہ ماننے کا ذکر ہے کیونکہ یہ خیر و بھلائی سے روکتے، حسد سے تجاوز کرنے والے اور سخت گناہ گار ہیں۔

زیر نظر اداریہ کے عنوان کا تعلق زبان سے ہے جس کے متعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أمسِكْ عليكَ لسانَكَ (ترمذی ابواب الزھد) کہ اپنی زبان کو روک رکھو۔ جہاں تک غیبت اور چغلخوری کا تعلق ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چغلخور کو دو مونہوں والا قرار دیا ہے (مسلم کتاب البرّ) اور اسے جنت میں جانے سے روکا اور فرمایا لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ (بخاری کتاب الاداب) کہ چغل خور جنت میں نہیں جا سکے گا اور ایک روایت میں قَتَّاتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ حتٰی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج ہوا تو میں نے ایک قوم کے ناخن تانبے کے دیکھے جن سے وہ اپنے چہروں کو نوچ رہے تھے۔ وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ غیبت کرنے والے اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔

غیبت کی تعریف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی کہ اپنے بھائی کا اس کی پیٹھ پیچھے اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہیں کرتا۔ عرض کیا گیا کہ اگر وہ بات جو کہی گئی ہے سچ ہو اور میرے بھائی میں وہ موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تُونے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تونے کہی ہے اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو یہ اس پر بہتان ہے۔

(حدیقۃ الصالحین از حضرت ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ819-820)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بد ظنی صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے۔ اس لیے تم اس سے بچو اور صدیق کے کمالات حاصل کرنے کے لیے دعائیں کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ247)

پھر فرمایا: ’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے (شکوے، شکایتیں کرنے کی عادت) ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا (الحجرات: 13) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کاروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو۔ یہ سب برے کام ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ653-654)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’پھر غیبت ایک گناہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے معاشرہ میں بد امنی کے سامان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس گندے فعل سے کراہت دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم تو آرام سے غیبت کر لیتے ہو۔ یہ سمجھتے ہو کہ کوئی بات نہیں، بات کرنی ہے کر لی۔ زبان کا مزا لینا ہے لے لیا۔ یا کسی کے خلاف زہر اگلنا ہے اگل دیا۔ لیکن یاد رکھو یہ ایسا مکروہ فعل ہے ایسی مکروہ چیز ہے جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا لیا اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے۔ غیبت یہی ہے کہ کسی کی برائی اس کے پیچھے بیان کی جائے۔ پس اگر اس شخص کی اصلاح چاہتے ہو جس کے بارہ میں تمہیں کوئی شکایت ہے تو علیحدگی میں اسے سمجھاؤ…… جن کو اس قسم کی بدظنیوں کی یا تجسس کی یا غیبت کی عادت ہے اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف کریں۔ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 5؍فروری 2010ء، تجسس، بدظنی اور غیبت سے اجتناب کریں۔صفحہ16-19)

پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اب بعض لوگ اس لیے تجسس کر رہے ہوتے ہیں مثلاً عمومی زندگی میں مزے لیتے ہیں۔ دفتروں میں کام کرنے والے ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں، یا دوسری کام کی جگہ کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بارہ میں کہ اس کی کوئی کمزوری نظر آئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں۔ تاکہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں۔ ان کے منظور نظر ہو جائیں۔ یا بعضوں کو یونہی بلا وجہ عادت ہوتی ہے۔ کسی سے بلا وجہ کا بیر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں تو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہو گا، ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لیے، دنیاوی چیز کے لیے، ذرا سی باتوں کا مزا لینے کے لیے اپنی جنت ضائع کرتا پھرے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر 2003ء روزنامہ الفضل 13؍اپریل 2004ء)

پس ہمیں چاہیے کہ سچے مومن بن جائیں جس سے ہم خود بھی امن میں ہوں اور دوسرے بھی امان میں آئیں۔ اپنے بزرگوں اور عزیز و اقارب کی خوبیوں کا تذکرہ کریں اور غیبت سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جلسہ قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2023