• 3 مئی, 2024

حضرت قریشی دوست محمد جہلمیؓ

حضرت قریشی دوست محمد جہلمیؓ۔ نیروبی (کینیا)

حضرت قریشی دوست محمد رضی اللہ عنہ ولد خیر محمد صاحب اصل میں جہلم کے رہنے والے تھے۔ آپ ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ تھے۔ 1901ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضور علیہ السلام کے سفر جہلم 1903ء کے موقع پر پھر بیعت کا شرف حاصل کیا چنانچہ اس موقع پر بیعت کنندگان کی فہرست میں آپ کا نام یوں درج ہے:126۔ دوست محمد ولد خیر محمد خیاط۔ جہلم (بدر 23-30؍جنوری 1903ء صفحہ14) بعد ازاں آپ اپنے کاروبار کے سلسلے میں کینیا (مشرقی افریقہ) چلے گئے اور نیروبی میں رہائش اختیار کی اور پھر ساری زندگی وہیں گزاری۔ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ آپ کا روایت کردہ بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہرت تو پنجاب میں بہت تھی۔ ان کے دعویٰ اور امام مہدی ہونے کا تذکرہ بالعموم رہتا۔ جہلم بھی حضور کسی موقع پر تشریف لے گئے۔ میں ان دنوں جہلم میں تھا، اپنے کسی کام کے سلسلہ میں لاہور آیا تو ان دنوں مسافر مسجدوں میں جہاں جگہ ملتی سو جاتے اور اپنا کچھ وقت گزار لیتے۔ جس مسجد میں میرا قیام تھا وہاں کے مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ذکر چھیڑا اور اس ذکر میں اس نے کہا کہ ’’مرزا کے ہاتھوں کو کوڑھ ہوگیا ہے۔‘‘ اور بھی کچھ بد زبانی کی۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ لاہور تو آئے ہوئے ہیں قادیان بھی ہو آئیں، وہاں چل کر مرزا صاحب کو بھی دیکھ لیں گے کیا ان کے ہاتھوں کو کوڑھ ہوگیا ہے وغیرہ۔ آخر قادیان روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر مسجد میں نماز پڑھنے لگے۔ حضور بھی مسجد میں تشریف لے آئے اور بعد نماز مسجد میں آپ تشریف فرما ہوئے اور کچھ تقریر بھی فرمائی۔ اسی دوران حضور اپنے ہاتھ کو بھی ہلاتے، کبھی اونچا کرتے اور کبھی نیچا جیسا بعض اوقات مقرر ہاتھوں کو ہلاتا ہے۔ ہماری توجہ حضور کے ہاتھوں کی طرف رہی جو بہت صاف اور پیارے نظر آئے۔ بعد میں جب حضور جانے لگے تو حضور سے مصافحہ بھی کیا اور لاہور کا قصہ بھی سنایا جس پر پھر حضور نے ہاتھ دکھائے۔ ہماری تو تسلی ہوگئی کہ لاہور کا مولوی جھوٹ بولتا تھا۔ ہر طرح حضور تو صاف ستھرے ہاتھوں والے نظر آئے۔ حضور کو دیکھ کر اور آپ کی تقریر کو سن کر بالآخر قادیان کے قیام میں ہی بیعت بھی کر لی۔‘‘

(کیفیات زندگی از مولانا شیخ مبارک احمد صفحہ61-62)

آپ کے بھائی حضرت قریشی شیر محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ’’خاکسار کے خاندان میں سے سب سے پہلے خاکسار کے حقیقی بھائی دوست محمد صاحب مرحوم کو حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ آپ نے 1901ء میں بیعت کی تھی۔ آپ کے بیعت کرنے کے بعد خاکسار کو بھی شوق پیدا ہوا کہ معلوم کیا جائے وہ کون سے حضرت ہیں جنہوں نے مسیح موعود ہو نے کا دعویٰ کیا ہے اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح سے حضرت اقدس کو دیکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ عالم الغیب ہے اس نے بھی ہمارے دل کی خواہش کو اس طرح سے پورا کر دیا کہ ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مولوی کرم دین سکنہ بھیں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہوا تھا۔ چنانچہ حضور بمع خدام جہلم تشریف لائے ….. اس وقت تقریباً دو ہزار لوگوں نے بیعت کی تھی جن میں سے خاکسار کو بھی یہ شرف حاصل ہوا۔ پھر دوسرے یا تیسرے روز حضور واپس تشریف لے گئے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ جلد1 صفحہ185-186)

جلسہ سالانہ 1905ء کے موقع پر بھی دونوں بھائی قادیان حاضر ہوئے تھے۔ حضرت قریشی دوست محمد صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی محب اور مخلص احمدی تھے۔ کینیا جانے کے بعد پردیس میں آباد ہونے کی مشکلات اپنی جگہ پر لیکن خدمت سلسلہ میں آپ نے کبھی کوئی کمی نہیں دکھائی۔ نیروبی میں آپ کی دکان ہی جماعت کا مرکز تھی۔ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ اپنی تقرری کے بعد پہلی مرتبہ کینیا پہنچنے کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خاکسار کو وہ دن آج بھی یاد ہے کہ جب پہلی مرتبہ خاکسار 1934ء میں نیروبی پہنچا تو حضرت سید معراج الدین صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ نیروبی اپنی کار میں ان ہی کی دکان پر انڈین بازار میں مجھے چھوڑ گئے ….. حضرت بھائی دوست محمد صاحب مرحوم بہت خاموش اور نیک بزرگ تھے۔ ان کی دکان اپنوں اور غیراز جماعت احباب کا مرجع تھی۔ مخالفین، غیر از جماعت ان کی نیک عادات کی وجہ سے وہاں جمع ہوجاتے، تبلیغ کا راستہ بھی کُھل جاتا اور دینی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔‘‘

(الفضل 2؍جون 1967ء صفحہ4)

آپ کے بھائی حضرت قریشی شیر محمد صاحبؓ (وفات: 1969ء) اور قریشی عبدالرحمان صاحب (وفات: 1967ء) بھی آپ کے ساتھ نیروبی میں کاروبار میں شریک تھے۔ آپ نے مئی 1935ء میں نیروبی میں وفات پائی اور آپ نیروبی میں ہی واقع احمدیہ قبرستان میں مدفون ہیں۔ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ (جو اُن دنوں نیروبی میں تھے) نے آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا:
’’بھائی دوست محمد صاحب مرحوم و مغفور ان چیدہ بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی غلامی اختیار کی جبکہ لوگوں کی دشمنی حد اعتدال سے تجاوز کر چکی تھی، جب نام نہاد علماء اسلام اس نیکی اور صداقت کے مجسمے کی توہین و تذلیل اور بربادی و ہلاکت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ……

آپ اس ملک میں اس وقت آئے جب یہ نیا نیا آباد ہو رہا تھا۔ آپ نے نیروبی میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ جس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ نے دولتِ ایمان سے مالا مال کیا اسی طرح دنیاوی دولت سے بھی حصہ وافر عطا فرمایا۔ اُن دنوں افریقہ میں احمدیوں کی تعداد نہایت قلیل تھی اور نیروبی میں تو معدودے چند ہی احمدی تھے، نہ کوئی احمدیوں کی مسجد تھی اور نہ کوئی باقاعدہ جماعت۔ آپ نے اس وقت اپنی دوکان کو احمدیت کا مرکز بنا دیا۔

آپ حد درجہ مہمان نواز اور فراخ دل تھے۔ آپ کا دروازہ ہر ایک کے لیے ہمیشہ کھلا تھا،مروّت کا مادہ آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ نے کبھی کسی سائل کے سوال کو ردّ نہ کیا بلکہ متعدد بار یہاں کے ان لوگوں کی بڑی بڑی رقموں سے مالی امداد کی جو آج کل احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ احمدیت کی محبت آپ کے رگ و ریشہ میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ تبلیغ احمدیت کے میدان میں آپ ہمیشہ سابقین میں سے تھے اور اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کیا کرتے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر پروانہ وار فدا تھے اور آپ کا ذکر ایسے الفاظ میں کرتے جن سے انتہائی محبت اور عشق کا رنگ ٹپکتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ مقامی معاندینِ احمدیت آئے دن اشتہاروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف نہایت دریدہ دہنی اور گندہ دہانی اختیار کرتے …. ان اشتہارات سے آپ کو بہت صدمہ پہنچتا۔ اپنی معلومات کی بنا پر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی موت کا باعث یہی مخالفین حق اور معاندین سلسلہ ہوئے۔ چنانچہ موت سے ایک روز قبل آپ نے دشمنانِ سلسلہ کا ایک اشتہار دیکھا، اس میں نہایت دل آزار الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں بے ہودہ گوئی کی گئی تھی۔ ہمارے اس محترم بھائی نے انتہائی صدمے کے عالم میں کہا ’’اب تو یہ دکھ نہیں سہا جاتا۔‘‘ …..

مجھے جب کبھی اپنے اس بزرگ بھائی کی صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ ملتا، ایک خاص لطف اور سرور حاصل ہوتا اور جو قلبی کیفیت آپ کی صحبت میں بیٹھنے سے مجھ پر طاری ہوتی، مَیں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میرا باطن آپ کی تپش باطن سے ایک نا معلوم طریق پر متاثر ہوتا۔ آپ نہایت کم گو مگر بہت خوش خلق تھے۔ آپ کی صحبت میں گذرے ہوئے لمحات زیادتی ایمان کا موجب ہوتے۔‘‘

(الفضل 25؍فروری 1936ء صفحہ8)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2023