• 3 مئی, 2024

والفضل بالخيرات لا بزمان

والفضل بالخيرات لا بزمان
فضیلت نیکوں میں آگے بڑھ جانے سے عطا ہوتی ہے نہ کہ بلحاظ زمانی

مہدی آباد کے 9 بزرگ انصار شہداء نے جس شان سے تاج شہادت اپنے سروں پر سجایا ہے وہ قابل رشک ہے۔ صحرائے اعظم کے مکین، دھول اور صحرائی مٹی سے اٹے، بوسیدہ اور پیوندلگے لباس زیب تب رکھنے والے بادیہ نشین آنے والوں کے لئے جو معیار قائم کر کے گئے ہیں اس کا حصول ہر ایک کےلئے اتنا آسان نہیں۔ یہ درویش اک شان سے مسیح الزمان علیہ السلام کی بیعت میں آئے۔ وقتی جوش و جذبہ سے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر بعد از تحقیق قبول حق کی سعادت پائی۔ جب حق کھل گیا تو دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور یوں گویا ہوئے۔ جب کوئی سونے کی تلاش میں ہو اور وہ اسے مل جائے تو کیا پھر بھی وہ اسے حاصل کرنے میں رکا رہے گا؟

یہ آخرین اجتماعی طو رپر ایمان لائے اور اکھٹے ہی مقام شہادت پا کر انعام یافتہ لوگوں کی صف میں جا کھڑ ے ہوئے۔ ان کی قربانی کو خلیفہٴ وقت نے ’’اپنی مثال آپ‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں احمدیت کے چمکتے ستاروں کا خطاب عطا فرمایا۔ یہ سید الشہداء صاحبزادہ عبد اللطیف ؓ شہید کے نقش قدم پر چلنے والے اور آپ کی قائم مقامی کا حق ادا کرنے والے ٹھہرے۔

سانحہ مہدی آبا دنے پورے عالم احمدیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لاکھوں آنکھیں ان کے لئے اشکبار ہوئیں۔ درد رکھنے والا ہر دل ان کے لئے گداز ہوا۔ سب مومنین نے ان کی قربانی کو رشک کی نظر سے دیکھا۔ دشمنان احمدیت اور منافقین کے منہ بند ہوئے۔ جماعت احمدیہ برکینا فاسو میں اک غیر معمولی بیداری کی لہر اٹھی۔ بے شمار لوگوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ بہتوں نے اس واقعہ سے اپنے اندر تبدیلی محسوس کی اور بہتوں کے ایمانوں کی تازگی کا باعث بنا۔ بکثرت لوگوں نے اس سانحہ کو تجدید عہد بیعت کا موقع قرار دیا۔

(واقعہ شہادت کے متعلق برکینا فاسو کے احمدیوں کے جذبات کا ایک حصہ روزنامہ الفضل آن لائن لندن 2؍فروری 2023ء میں شائع ہو چکاہے۔)

مسابقین بالخیر

دنیا بھر سے اس بات کا اظہار بھی ہوا کہ بعد میں آنے والے ایمانوں میں اتنے پختہ ثابت ہوئے کہ سینکڑوں ہزاروں سے بہت آگے نکل گئے۔انہوں نے استقامت کےوہ نمونے دکھائے جنہیں قابل رشک اور قابل تقلید کہا جا سکتا ہے۔ زمانی لحاظ سے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ سے ایک صدی کے بعداحمدیت میں داخل ہوئے لیکن نمونہ وہ دکھایا جو صدیوں تک یادرکھا جائے گا۔

دنیا بھر سے احباب نے اس واقعہ شہادت پرا ظہار تعزیت کیا۔ اداروں اور افراد کی طرف سے قرار دادیں موصول ہوئیں۔ احمدی شعرا ء نے دلوں پر اثر کرنے والا کلام لکھا۔اس واقعہ پر مضامین شائع ہورہے ہیں۔اس قدر بیداری اور خاص توجہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی مقبول اعمال کوہی عطا ہو سکتی ہے۔

بے شک تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت میں قربانیوں کےایسے گلدستے سجے ہوئے ہیں جو تروتازہ اور سدا بہار ہیں۔ زمانے کی گرد ان کی اہمیت کم نہیں کر سکی اور نہ کبھی کر سکتی ہے۔ تاہم قربانیوں کے اس گلستان میں مہدی آباد کے ان قد آور پھولو ں کا اضافہ بہت ہی روح پرور ہے۔یہ ہمارے ایمانوں کو تازگی بخشنے کے لئے ہے۔ ہمیں خواب غفلت سے جگانے اور جھنجھوڑنے کے لئے ہے۔ یہ قربانی، سستیوں کو دور کرنے کے لئے بطور مہمیز کام آسکتی ہے۔

دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تازہ مثال

انسانوں کو عملی نمونہ کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی یہ تازہ مثال ایک عالی قدر نمونہ ہے جو ہمارے افریقن بھائیوں نے قائم کیا ہے۔انہوں نے نجات کی روشنی اس دنیا میں دیکھ لی اور مسکراتے ہوئے جانیں نچھاور کرگئے۔

سیدنا حضرت امیر الموٴمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍فروری 2023ء میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا درج ذیل اقتباس پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’یاد رکھو! نجات وہ چیز نہیں کہ مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اس دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔‘‘ ایمان میں ایسی مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کو اس کی روشنی ظاہر ہو جاتی ہے۔ ہر ظلمت کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان تیا رہو جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہمیں گزشتہ دنوں ہمارے برکینا فاسو کے شہید بھائیوں میں ملتی ہے۔‘‘

ان شہداء کے تازہ نمونے کی روشنی میں، ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم سب کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم ایک وقتی جوش سے نہیں بلکہ ایک زندہ قوم کی طرح اس قابل تقلید مثال کو مستقل اپنے سامنے رکھتے ہوئے اپنا اپنا جائزہ لینے والے بنیں۔ شہداء تو قربانی کرکے ا یک راہ عمل ہمیں عطا کر گئے سوال مگر یہ ہے کہ اس قربانی نے ہمارے ایمانوں کی کھیتی کے لئے کس قدر کھا دکا کام دیا ہے۔

ان کی قربانی تو چڑھے ہوئے روشن سورج کی مانند ہے۔ جب سورج چڑھتا ہے تو ظلمت بھاگ جاتی ہے۔ ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ رکے ہوئے کام رواں ہو جاتے ہیں۔ ہمیں واضح اور صاف نظر آنا شرو ع ہوجاتا ہے۔ مسافر دن کی روشنی میں اپنی منزل کا تعین زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔ ہم بھی تو راہ حق کے مسافر ہیں۔ ہم بھی تو دین حق کا عَلم لئے دنیا کو محمد رسول اللہﷺ کے جھنڈے تلے لانے کا عزم کر کے نکلے ہیں۔ یہ قربانی ہمارے لئے راستے متعین کرنے والی، کوششوں کو تیز تر کرنے والی اور سُرعت سے منزل کی طرف لے جانے والی ثابت ہونی چاہئے اگر ایسا ہے تو ہم حقیقی معنوں میں ان شہیدوں کے وارث کہلانے کے مستحق ٹھر سکتے ہیں۔

سیدنا حضرت امیر الموٴمنین ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’دشمن تو تمہیں اس لئے قتل کرتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ کرکے تمہاری جان لے کر عددی لحاظ سے بھی تمہیں کم اور کمزور کر دے۔ لیکن یاد رکھو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو ایک شخص یا چند اشخاص کا قتل جو خدا کے دین کے لئے ہو، جماعتوں کو مُردہ نہیں کرتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جو دونوں جہاں کا مالک ہے اگر ایک انسان یہاں مرتا ہے تو دوسرے جہان میں جب زندگی پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے۔ تو اللہ فرماتا ہے کہ ایک قتل سے جماعتیں مردہ نہیں ہو جایا کرتیں۔ بلکہ ایک شخص کی موت کئی اور مومنوں کی زندگی کے سامان کر جاتی ہے۔ ایک شہادت مومنوں کو خوفزدہ نہیں کرتی بلکہ ان میں وہ جوش ایمانی بھر دیتی ہے کہ ایمانی لحاظ سے کئی کمزوروں کوسستیوں سے نکال کر باہر لے آتی ہے۔ ایمان میں وہ زندگی کی حرارت پیدا کر دیتی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی بجائے کئی اور سینہ تان کر دشمن کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اے نادانو! تم سمجھتے ہو کہ ایک شخص کو مار کر تم نے ہمیں کمزور کر دیا ہے؟ تو سنو اس ایک شخص کی موت نے ہم میں وہ روح پھونک دی ہے جس نے ہمیں وہ زندگی عطا کی ہے، ہمیں اپنی قربانیوں کے قائم کرنے کا وہ فہم عطا کیا ہے جس سے ہم ایک نئے جوش اور جذبے سے دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 12؍ستمبر 2008ء)

قائم مقامی کا حق ادا کردیا

حضرت امیر المومنین اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تذکرة الشہادتین میں ایک رؤیا کا ذکر فرمایا آخر میں۔ اس کے بعد لکھا کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ یہ آپ نے اپنی رؤیا سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مجھے امید ہے کہ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر اس کا نمونہ دکھا دیا اور قائم مقامی کا حق ادا کر دیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20؍جنوری 2023ء)

مہدی آباد کی شہادتوں کے بعد دنیا بھر کے احمدیوں کی طرف سے دشمنان احمدیت کے لئے بزبان حال و قال یہی ردعمل سامنے آیا ہے کہ اے نادانوں! تم سمجھتے ہو کہ تم نے ان بزرگ انصار کو شہید کر کے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ تو سنو! ان کی شہادت نے ہم میں وہ روح پھونک دی ہے جس نے ہمیں زندگی عطا کی ہے۔ ہمیں قربانیوں کا فہم اور ادراک عطا کر دیا ہے۔

لمحہ فکریہ

ان شہادتوں اور ان کے نتیجہ میں پید اہونے والی بیداری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہمیں ہوشیار بھی رہنا ہے کہ کہیں یہ وقتی جوش نہ ہو۔ بلکہ حقیقی معنوں میں ہمارے اندر ایک انقلاب پید اکرنے والا ہو۔ وہی انقلاب جس کی طرف ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں بلاتے ہیں:
’’آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ مقبول دعاؤں کے لیے اپنی عبادتوں کو زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ اپنے بچوں کو بھی عبادت کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اس سے مزید فتوحات کی بھیک مانگیں۔ کتنے خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جن کو یہ سب کچھ حاصل ہو جائے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستا دیکھیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں گے، دین کو دنیا پر مقدم کریں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 30؍ستمبر 2022ء)

فتح کے وعدہ کے باوجود گریہ و زاری کی انتہاء

یقیناً اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ سے فتح و نصرت کے وعدے کر رکھے ہیں۔ اور ہمیں انہیں مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس دور کو نزدیک تر کرنے کے لئے ہمیں اپنے آقاو مولیٰﷺ کے نقش قدم پر چلنا ہے۔اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ نے تو اپنے وعدے پورے فرمانے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے عملوں کی وجہ سے ان کے پورا ہونے کا وقت دُور ہو جائے یا وہ کسی اَور کے ذریعہ سے، بعد میں آنے والے لوگوں کے ذریعہ سے پورے ہوں اور ہم محروم رہ جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا اسلام کی فتح کا وعدہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارا کون نبی ہو سکتا تھا اور ہے لیکن کیا اس کے باوجود جنگِ بدر کے موقع پر آپ کی گریہ و زاری، عجز، خوف، خشیت اور دعا ایک عظیم مقام پر نہیں پہنچی ہوئی تھی؟ اس قدر گریہ و زاری تھی کہ آپؐ کی چادر بار بار کندھے سے اتر جاتی تھی اور پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! فتح و نصرت کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے تو پھر آپؐ اس قدر بےچینی کا کیوں اظہار فرما رہے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ فتوحات میں بھی مخفی شرائط ہوتی ہیں اس لیے میرا کام نہایت تضرع سے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد مانگنا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ11)

(خطبہ جمعہ 30؍ستمبر 2022ء)

بعد میں آنے والی قومیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں

نیکی تقویٰ و طہارت اور ایمان میں ترقی کا میدان تو ایسا ہے جس کا تعلق حدود و قیود اور زمانے سے نہیں۔ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ قابل تعظیم تو وہی ہے جو تقویٰ میں زیادہ بڑھا ہو اہے۔جو حق الیقین کے مقام کو چھو لینے والا ہے۔اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں:
’’کیا ہماری قوت یقین بڑھ رہی ہے؟ کیا ہمارے دل روشن ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری دین کی طرف رغبت ہے؟ کیا ہم اسلامی احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟ ہم اپنی روحانی اور عملی حالتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟۔پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس تعلیم کے مطابق ہمارے عمل اور سوچیں ہیں۔ اگر نہیں تو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں بعد میں آنے والی قومیں ترقی کر کے ہم سے بہت آگے نہ نکل جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا کر اتنی دُور نہ چلی جائیں کہ ہمیں جب احساس ہو کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں، ہماری نسلیں پیچھے رہ رہی ہیں تو پھر دہائیاں ان فاصلوں کو پورا کرنے میں لگ جائیں۔ نسلوں کو اگلی نسلوں کو سنوارنے میں وقت لگ جائے۔ یہ دیکھیں کہ کہیں اس دنیا میں ڈوب کر ہماری نسلیں بہت پیچھے نہ چلی جائیں۔۔۔ جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں وہ بہرحال ادا کرنے فرض ہیں۔ نمازیں جو ہیں بہرحال ادا کرنی ضروری ہیں اور سمجھ کر ادا کرنی ضروری ہیں۔ پس یہ نہ ہو کہ ہماری نسلیں بہت پیچھے چلی جائیں اور نئے آنے والے ان انعامات کے وارث بن کر جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اپنے مقام کو ہم سے بہت بلند کر لیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 16؍اکتوبر 2015ء)

پیچھے رہنے والے
انعامات سے محروم ہو جایا کرتے ہیں

’’اپنی قوت یقین کو بڑھائیں اور دلوں کو روشن کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے پھر ان انعاموں کو حاصل کرنے والے بنیں۔ یہ نہ ہو کہ پیچھے رہنے سے ان انعاموں سے محروم ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق قائم ہوا ہے یہ کوشش کریں وہ کبھی نہ ٹوٹے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں اور جماعت کا ایک فعّال اور مضبوط حصہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ہمیشہ وارث بنتے چلے جائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 16؍اکتوبر 2015ء)

اللہ کرے ہم مسابقت بالخیر میں لگے رہیں۔ زمانی لحاظ سے پہلے آنے کو وجہ فخر اور بعد میں آنے کو وجہ کمتری خیال نہ کریں۔ بلکہ یہ جان لیں کہ الفضل بالخیرات لا بزمان۔ کہ فضیلت اور بڑھائی، مراتب اور فیوض نیکیوں میں سبقت لے جانے سے، ایمان کو ہر چیز پر فوقیت دینے سے عطا ہوا کرتے ہیں نہ کہ زمانی لحاظ سے پہلے یا بعد میں آنے سے۔ آج زمانی لحاظ سے بعد میں آنے والے بے مثال قربانی کی وجہ سے ’’احمدیت کے چمکتے ستاروں‘‘ کا خطاب پا کر ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے ہیں۔ آج افریقہ ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ان شہداء کا قائمقام بن جائے۔ ان کی قربانیوں کو زندہ او ر اپنے لئے بطور نمونہ ہمیشہ سامنے رکھنے والاہو۔

(چوہدری نعیم احمد باجوہ۔ پرنسپل جامعۃ المبشرین برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

جلسہ قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2023