• 3 مئی, 2024

کمال ہے نا!!

ہمارے موتی، ہمارے ہیرے جو ان کو بھائے، کمال ہے نا!
ہمارے دشمن ہمارے نقشِ قدم پہ آئے، کمال ہے نا!

وہ سات رنگوں کی ساری دنیا جو ہم سے چھینی گئی تھی ناحق
تو ہم نے قوسِ قزح سے اپنےیہ رنگ پائے، کمال ہے نا!

ہماری راہوں پہ بو کے کانٹے، بچھا کے پتھر وہ ہنس رہے تھے
تو ہم بھی ان کی ہنسی پہ ہنس کر جو چل کے آئے، کمال ہے نا!

کبھی تو یوں بھی ہؤا تھا، لوگو! وہ سارے دیپک بجھا گئے تھے
سو ہم نے اپنے لہو سے تازہ دیے جلائے، کمال ہے نا!

ہمارا صبر و قرار دیکھو! ہماری ہمت کی داد بھی دو !
ہم اپنے ہاتھوں جَوان لاشے اُٹھا کےلائے، کمال ہے نا!

ہمیں بظاہر ذلیل و رسوا جو کر رہے تھے وہ لوگ سارے
خود اپنے فتووں کی، اپنے لفظوں کی زد میں آئے، کمال ہے نا!

تمہی نے معبد گرا دیے تھے، تمہی نے پہرے بڑھا دیے تھے
ہمارے لب پر درود ہی تھا، نہیں تھی ہائے، کمال ہے نا!

تمہی نے آگیں لگائیں جا جا، تمہی تھے قاتل، تمہی ستمگر
جلوس ہم نے نہیں نکالے، نہ شہر ڈھائے، کمال ہے نا!

فراؔز! ہم پر عنایتیں ہیں، یہ ساری وحدت کی برکتیں ہیں
وگرنہ اپنی الگ تھیں سوچیں، الگ تھی رائے، کمال ہے نا!

(اطہر حفیظ فراؔز)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات