• 5 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 24)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط 24

ا رشاد برائے ثور

ضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ اسی طرح پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا انتخاب تھا۔ اس وقت آپ کے پاس ستر اسی صحابہ موجود تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس ہی تھے، مگر آپ نے ان سب میں سے حضرت ابوبکرؓ ہی کو منتخب کیا۔ اس میں سر کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اس کا فہم خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کشف اور الہام سے بتا دیا تھا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی ہیں۔

حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اس ساعت عسر میں آپ کے ساتھ ہوئے۔ یہ وقت خطرنا ک آزمائش کا تھا۔ حضرت مسیح ؑپر جب اس قسم کا وقت آیا،تو ان کے شاگردان کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے سامنے ہی لعنت بھی کی مگر صحابہ کرام ؓمیں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا۔ غرض حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غار ثور کہتے ہیں۔ آپ جا چھپے۔ شریر کفار جو آپ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے، تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آ پہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا بھی نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اورہم پکڑے جاویں گے۔ اس وقت آپ نے فرمایا۔ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبة: 40) کچھ غم نہ کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یہ فر ما یا اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا –مَعَناَ میں آپ دونوں شریک۔ یعنی تیرے اور میرے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک پلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا اور دوسرے پر حضرت صدیق ؓ کو اس وقت دونوں ابتلا ء میں ہیں۔ کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے۔دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہورہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو۔ کیونکہ نشان پا یہاں تک ہی آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو گا۔ مکڑی نے جا لاتنا ہوا ہے، کبوتر نے انڈے دئے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آواز یں اندرپہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور دیوانے کی طرح بڑھے آئے ہیں،لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا۔ یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں آپ نے زبان ہی سے فرمایا۔ کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں۔ اشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہردشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ الله تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے۔ ابو بکر صدیق کی شجاعت کے لئے ایک دوسرا گواہ اس واقعہ کے سوا اور بھی ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ341-342 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے حدیبیہ

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ صحابہ ؓ کا مذہب یہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر اپنی معرفت اور ایمان میں ترقی دیکھتے تھے اور وہ اس قدر عاشق تھے کہ اگر آنحضرتؐ سفر کو جاتے اور پیشگوئی کے طور پر کہہ دیتے کہ فلاں منزل پر نماز جمع کریں گے اور ان کو موقع مل جاتا تو وہ خواہ کچھ بھی ہوتا ضرور جمع کر لیتے۔ اور خود آنحضرتؐ ہی کی طرف دیکھو کہ آپ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے کس قدر مشتاق تھے۔ ہم کو کوئی بتائے کہ آپ حد یبیہ کی طرف کیوں گئے کیا کوئی وقت ان کو بتایا گیا تھا اور کسی میعاد سے اطلاع دی گئی تھی پھر کیا بات تھی؟ یہی وجہ تھی کہ آپؐ چاہتے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو جائے یہ ایک بار یک سر اور دقیق معرفت کا نکتہ ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ انبیاء اور اہل اللہ کیوں پیشگوئیوں کے پورا کرنے اور ہونے کی ایک غیر معمولی رغبت اور تحریک اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ402-403 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ منہاج نبوت کو دیکھا جاوے توصریح نظر آتا ہے کہ انبیاؤوں سے اجتہادوں میں غلطیاں ہوتی ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم ابھی نہیں مروگے کہ میں واپس آ جاؤں گا تو یہ آپ کا اجتہاد تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے آنے سے یہ مراد نہ تھی بلکہ دوسرے کا آنا تھا اور ممکن ہے کہ الیاس کا بھی یہ خیال ہو کہ میں ہی واپس آؤں گا اسی طرح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کا سفر کیا تو حضرت عمرؓ کوا بتلاآ یا خود آنحضرتؐ کا اجتہاد اس طرف دلالت کرتا تھا کہ ہم فتح کر لیویں گے مگر وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا اسی طرح ایک دفعہ آپ نے کہا کہ میں نے سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی مگر یہ بات درست نہ نکلی کیونکہ یہ آپ کا اجتہاد تھا خدا پر یہ امر لازم نہ تھا کہ ہر ایک بار یک امر آپ کو بتا دیوے پس بحث مباحثہ میں اول مخالف سے منہاج نبوت کو قبول کروا کر اس کے دستخط کروا لینے چاہئیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ338-339 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ پیشگوئیوں کے ہمیشہ دو حصے ہوا کرتے ہیں اور آدمؑ سے اس وقت تک یہی تقسیم چلی آرہی ہے کہ ایک حصہ متشابہات کا ہوا کرتا ہے اور ایک حصہ بینات کا۔ اب حدیبیہ کے واقعات کو دیکھا جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو سب سے بڑھ کر ہے مگرعلم کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ آپ کا سفر کرنا دلالت کرتا تھا کہ آپ کی رائے اسی طرف تھی کہ فتح ہوگی۔نبی کی اجتہادی غلطی عار نہیں ہوا کرتی۔ اصل صورت جو معاملہ کی ہوتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے اور انسان اور خدا میں یہی تو فرق ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ145 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقعہ ملا۔ اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں تو ان میں صد ہا مسلمان ہو گئے جب تک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ سنی تھیں ان میں اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپ کے حسن و جمال پر ان کو اطلاع نہ پانے دیتی تھی اور جیسا دوسرے لوگ کذاب کہتے تھے (معاذ اللہ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور ان فیوض و برکات سے بے نصیب تھے جو آپ لے کر آئے تھے اس لیے کہ دور تھے لیکن جب وہ حجاب اٹھ گیا اور پاس آ کر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہ میں داخل ہوگئے۔ اسی طرح پر بہتوں کی بدنصیبی کا اب بھی یہی باعث ہے۔ جب ان سے پوچھا جاوے کہ تم نے ان کے دعویٰ اور دلائل کو کہاں تک سمجھا ہے تو بجز چند بہتانوں اور افتراؤں کے کچھ نہیں کہتے جو بعض مفتری سنادیتے ہیں اور وہ ان کو سچ مان لیتے ہیں اور خود کوشش نہیں کرتے کہ یہاں آ کر خود تحقیق کریں اور ہماری صحبت میں رہ کر دیکھیں۔ اس سے ان کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں اور وہ حق کو نہیں پا سکتے لیکن اگر وہ تقویٰ سے کام لیتے تو کوئی گناہ نہ تھا کہ وہ آ کر ہم سے ملتے جلتے رہتے اور ہماری باتیں سنتے رہتے حالانکہ عیسائیوں اور ہندوؤں سے بھی تو ملتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے ہیں ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں پھر کونسا امر مانع تھا جو ہمارے پاس آنے سے انہوں نے پرہیز کیا۔

غرض یہ بڑی ہی بدنصیبی ہے اور انسان اس کے سبب محروم ہوجاتا ہے اسی و اسطے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبة: 119) اس میں بڑا نکتہ معرفت یہی ہے کہ چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لیے ایک راستباز کی صحبت میں رہ کر انسان راستبازی سیکھتا ہے اور اس کے پاس انفاس کا اندر ہی اندر اثر ہونے لگتا ہے جو اس کو خدا تعالیٰ پر ایک سچایقین اور بصیرت عطا کرتا ہے اس صحبت میں صدق دل سے رہ کر وہ خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات کو دیکھتا ہے جو ایمان کے بڑھانے کے زریعے ہیں۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ371-372 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے ایران، فارس اور روم

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ غرض قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کا پہلا معجزه اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسرا معجزه قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگو ئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورہ تحریم اور سوره نور میں کتنی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدرغیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوملی ہیں کیا اس وقت جبکہ ساری قوم آپ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ
سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّ بُرَ (القمر: 46) چھوٹی بات ہوسکتی تھی۔ اسباب کے لحاظ سے تو ایسافتویٰ دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر آپ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے (ہیں) اور آخر اسی طرح وقوع میں آتا ہے پھر تیرہ سو سال کے بعد قائم ہونے والے سلسلہ کی اور اس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لانظیر ہیں دنیا کی کسی کتاب کی پیشگوئیوں کو پیش کروکیا مسیح کی پیشگو ئیاں ان کا مقابلہ کرسکتی ہیں جہاں صرف اتناہی ہے کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے آندھیاں آئیں گی مرغ با نگ دے گا وغیرہ وغیرہ۔

اس قسم کی معمولی باتیں تو ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے اور یہ حوادثات ہمیشہ ہی ہوتے رہتے ہیں پھر اس میں غیب گوئی کی قوت کہاں سے ثابت ہو۔ اس کے مقابلہ میں قرآن شریف کی پیشگوئی دیکھو الٓمّٓ۔ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔ فِىۡٓ اَدۡنَى الۡاَرۡضِ وَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِهِمۡ سَيَغۡلِبُوۡنَ۔ فِىۡ بِضۡعِ سِنِيۡنَؕ لِلّٰهِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَمِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَيَوۡمَٮِٕذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ (الروم: 2تا5) میں اللہ بہت جانے والا ہوں۔ رومی اپنی سرحد میں اہل فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بہت ہی جلد چند سال میں يقيناً غالب ہونے والے ہیں پہلے اور آئندہ آنے والے واقعات کا علم اور ان کے اسباب اللہ ہی کے ہاتھ ہیں جس دن رومی غالب ہوں گے وہی دن ہو گا جب مومن بھی خوشی کریں گے۔

اب غور کر کے دیکھو کہ ایسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے ایسے وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزور اور ضعیف حالت خود خطرہ میں تھی نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر يَوۡمَٮِٕذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے؛ چنانچہ جس طرح یہ پیش گوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہوگئی ادھر رومی غالب ہوئے اور ادھرمسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اسی طرح سورۂ يوسف میں اٰیٰتٌ لِّسَّآئِلِیْنَ کہہ کر اس سارے قصہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے بطور پیشگوئی بیان فرمایا ہے۔

غرض جہاں تک دیکھا جاوے قرآن شریف کی پیشگو ئیاں بڑے اعلیٰ درجہ پر واقع ہوئی ہیں اور کوئی کتاب اس رنگ میں ان پیشگوئیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پیشگو ئیاں یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں پوری ہوگئی تھیں بلکہ ان کا سلسلہ برابر جاری ہے، چنانچہ بہت سی پیشگوئیاں تھیں جو اب پوری ہورہی ہیں اور بہت ابھی باقی ہیں جوآئندہ پوری ہوں گی۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ381-383 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ آنحضرت کے زمانہ میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصر روم جو کہ عیسائی تھادر اصل موٴحد تھا اور مسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا۔ اور جب اس کے سامنے مسیح کا وہ ذکر جو قرآن میں درج ہے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرے نزدیک مسیح کا درجہ اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں جو قرآن نے بتلایا ہے۔ حدیث میں بھی اس کی گواہی بخاری میں موجود ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ وہی کام ہے جو کہ توریت میں ہے اور اس کی حیثیت نبوت سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ الٓمّٓ۔ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔ فِىۡٓ اَدۡنَى الۡاَرۡضِ وَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِهِمۡ سَيَغۡلِبُوۡنَ۔ فِىۡ بِضۡعِ سِنِيۡنَؕ لِلّٰهِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَمِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَيَوۡمَٮِٕذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ (الروم: 2تا5) یعنی روم اب مغلوب ہو گیا ہے مگر تھوڑے عرصہ میں (9 سال میں) پھر غالب ہو گا۔ عیسائی لوگ نہایت شرارت سے کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐنے دونوں طاقتوں کا اندازہ کر لیا تھا اور پھر فراست سے یہ پیشگوئی کر دی تھی۔

ہم کہتے ہیں کہ اسی طرح مسیح بھی بیماروں کو دیکھ کر انداز ہ کر لیا کرتا تھا جو اچھے ہونے کے قابل نظر آتے تھے ان کا سلب امراض کر دیتا۔ اس طرح تو سارے معجزات ان کے ہاتھ سے جاتے ہیں۔

يَوۡمَٮِٕذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ اس دن مومنوں کو دو خوشیاں ہوں گی ایک تو جنگ بدر کی فتح دوسرے روم والی پیشگوئی کے پورا ہو نے کی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ298-299 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

تنتیسواں جلسہ سالانہ نیوزی لینڈ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2022