اس دنیا میں لوگ مختلف قسم کے خوفوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں بڑے خوف جو بیان کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں بیماری کا خوف، بڑھاپے کا خوف، موت کا خوف، بھوک اور غربت کا خوف، بے عزتی اور ذلت کا خوف، کسی کی محبت کھو دینے کاخوف، اور اس کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے بہت سے خوف۔ ایک بہت ہی عام خوف یہ بھی ہوتا ہےکہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ پھر آجکل کے حالات میں جنگ کے خطرہ اور خوف سے بھی دنیا دوچار ہے۔ خوف کے کیا محرکات ہیں، اس کے نقصانات اور اس سے نجات کیسے ممکن ہے میں اپنے مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کروں گی۔
خوف دراصل انسان کی کامیابی کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ انسان کی کارکردگی کو محدود کر دیتا ہے اور اسکی تخلیقی صلاحیتوں کا دشمن ہے۔ خوف اور خطرے میں فرق یہ ہے کہ خطرہ واقعی درپیش ہوسکتا ہے اور اس سے بچنے کے لئے مناسب حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے لیکن خوف ایک خیالی اور تصوراتی چیز ہے جو انسان کی نفسیات پر طاری ہوتا ہے۔ اگر خوف حد سے بڑھ جائے تو یہ مختلف ذہنی بیماریوں مثلاً obsession میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ Obsession کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی سوچ صرف ایک جگہ آکر اٹک جاتی ہے اور انسان کی روز مرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بعض خوف نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان پر نفسیاتی طریقہ علاج سے بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیدائشی طور پر صرف تین خوف انسان کی جبلت میں موجود ہوتے ہیں اور وہ بلند آوازوں کا خوف، بلندی سے گرنے کا خوف ، اور سانس بند ہونے کا خوف ہیں۔ ان کے علاوہ باقی تمام خوف اردگرد کے لوگ، معاشرہ اور دنیا کے یا ہمارے خود کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ بچپن میں بچوں کو ڈرانے کےلئے مائیں کچھ خوف پیدا کرتی ہیں۔ میڈیا سے بھی ہم بہت سے خوف لیتے ہیں۔ خوف کے دیگر محرکات میں جرم و گناہ اور کم علمی ہے۔ جرم کرکے انسان خوف کا شکار رہتا ہے۔ دینی و دنیوی علوم سیکھنے سے خوف کم ہوتا جاتا ہے۔ علم بڑھانے کے لئے کوشش کے ساتھ ساتھ علم نافع میں اضافے کی دعائیں بھی کرتے رہنا چاہیئے۔ خوف کا ایک تعلق دنیا اور اس سے جڑی خواہشات کے ساتھ بھی ہے۔ جب ہم اپنے دنیاوی رشتوں کی محبت میں حد اعتدال سے آگے نکل جائیں تو ان سے بچھڑنے کا خوف بڑھ جائے گا۔ اسی طرح مال ودولت سے حد سے زیادہ محبت کریں گے تو اس کے کھونے کا بھی ڈر لگا رہے گا۔ اگر انسان اللہ کی رضا پر راضی ہوجائے تو انسان خوف کا شکار نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مخلوق کی بجائے خالق کا خوف اس کی قربت اور محبت کا باعث ہو تا ہے جو تمام خوفوں سے نجات دیتا ہے۔ اگر چیزوں کے خالق اور مالک کے ساتھ انسان کی دوستی اور قربت بڑھ جائے یعنی وہ جس سے ہروقت دوسری چیزیں حاصل ہوسکتی ہوں تو یہی چیز انسان کو غموں سے بھی نجات دیتی ہے۔ جوں جوں اللہ کی قربت کا احساس بڑھتا ہے دنیا کی نعمتیں اور تعلقات اس کے مقابل پر عارضی اور حقیر ہوتے جاتے ہیں۔ اور کھوئی ہوئی چیزوں پر صبر اگر خا لصتا ً اللہ کی رضا کےلئے ہوجائے تو اللہ تعالیٰ تسکین عطا کرتا ہے۔
قرآن کریم میں خوف اور حزن کے الفاظ اکثر آیات میں اکٹھے استعمال ہوئے ہیں۔ لغت میں خوف کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں کہ
’’کسی آئندہ وقت میں کسی نا پسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کے خیال سے جو طبیعت پر گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اسے خوف کے نام سے موسوم کرتے ہیں‘‘۔ جبکہ حزن کے معنے غم و اندوہ کے ہیں اور خوشی کے متضاد معنے دیتا ہے یعنی غمگینی،۔ نیز لکھا ہے ’’زمانہ ماضی میں کسی نا پسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے جو طبیعت میں افسوس پیدا ہوتا ہے اسے حزن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں‘‘ (تاج) اور مفردات راغب کے مطابق حزن دل کی وہ بے قراری ہے جو غم کی وجہ سے لا حق ہوتی ہےاور اس کے بالمقابل فرح کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اور خوف اور حزن میں یہ فرق ہے کہ خوف آئندہ زمانے کے متعلق ہوتا ہے اور حزن کسی گزشتہ واقعہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ347)
قرآن مجید میں لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ کا جو محاورہ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ مومنوں اور اللہ کے پیاروں کو کبھی خوف درپیش نہیں ہوتا بلکہ ان پر بھی مشکل وقت اور آزمائشیں آتی ہیں لیکن کوئی خوف انکو مغلوب نہیں کر سکتا۔ اللہ انکا محافظ اور نگران ہوتا ہے اور وہ کوئی چیز کھو کر ایسا غم نہیں کرتے کہ گویا وہ ہاتھ سے جاتی رہی۔ چیزوں کا خالق اور مالک انکا دوست ہوتا ہے اسلئے غیراللہ کا خوف ان پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ آجکل کے حالات میں جہاں جنگ کا خطرہ دنیا کے سروں پر منڈلارہا ہے وہاں اسلام اور قرآن کے حقیقی پیروکاروں کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ وہ ان خطرات سے بچائے جائیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
وہ جو رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار
آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اس بارہ میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ ذیل میں دی گئی مختلف قرآنی آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کون سے لوگ خوف اور حزن کا شکار نہیں ہوں گے۔
اللہ کی ہدایت کی پیروی کرنے والوں ، اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں پر کوئی خوف نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 39) ہم نے کہا اس میں سے تم سب کے سب نکل جاؤ۔ پس جب کبھی بھی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئی تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ کوئی غم کریں گے۔
وَمَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَمُنۡذِرِیۡنَ ۚ فَمَنۡ اٰمَنَ وَاَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (الانعام: 49) اور ہم پیغمبر نہیں بھیجتے مگر اس حیثیت میں کہ وہ بشارت دینے والے اور انذار کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس جو ایمان لے آئے اور اصلاح کرے تو ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ کوئی غم کریں گے۔
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡن (الاعراف: 36) اے ابنائے آدم! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھتے ہوں تو جو بھی تقویٰ اختیار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔
اوپر کی تینوں آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں ایسے لوگ بھیجتا رہے گا جو لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلاتے رہیں گے۔ پھر جو لوگ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی پیروی کریں گے انکی ایمانی قوت کی وجہ سے ان کے دلوں کو اطمینان نصیب ہوگا، وہ اسی دنیا میں جنت میں آجائیں گے۔ نہ ان کے دلوں میں آئندہ کے نقصانات کا ڈر رہے گا اور نہ پچھلے نقصانات پر غمگین ہوں گے۔
اللہ، یوم آخرت پر ایمان لانے والوں اور عمل صالح بجالانے والوں پر کوئی خوف نہیں
پھر ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 63) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ جو یہودی ہیں اور نصاریٰ اور دیگر الٰہی کتب کے ماننے والے جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، اور نیک اعمال بجا لائے ان سب کے لئے اُن کا اجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غم کریں گے
اس آیت میں دراصل یہ خوشخبری ہے کہ نجات حاصل کرنے کا دروازہ سب کےلئے کھلا ہے۔ اور یہ کہ صرف منہ سے ایمان لانا اور اپنے آپ کو یہود، نصٰریٰ یا کسی اور مذہب سے وابستہ کرنا کافی نہیں جب تک دل سے اسلام قبول کرکےاللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہ ہو اور اعمال صالحہ نہ بجالائے جائیں۔ ایمان کی ابتدا ایمان باللہ سے ہوتی ہے اور اسکی انتہا یوم آخرت پر ایمان ہےاور باقی تمام اعمال اسی کے اندر آجاتے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ خواہ کسی مذہب کے پیرو ہوں اگر ان تک پیغام حق نہیں پہنچا یا پہنچانے والا قائل نہیں کرسکااور وہ اپنے اپنے دائرے میں اللہ اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہیں تو انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ گویا یہ فتویٰ دینا کسی کا کام نہیں کہ سب اہل کتاب جہنمی ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے ساتھ جو بھی سلوک فرمائے۔
(اردو ترجمتہ القرآن کلاس)
اللہ کے کامل فرمانبرداروں اور عمدہ رنگ میں نیکی بجا لانے والوں پر کوئی خوف نہیں
بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 113) نہیں نہیں، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے۔ اور اُن (لوگوں) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت مسیح موعو د علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اسکے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اسکی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خداتعالیٰ کے لئے قائم ہوجاوے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اسکی راہ میں لگا دیوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خداتعالیٰ کا ہوجاوے۔ ’’اعتقادی‘‘ طور پر اسطرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعا لیٰ کی شناخت اور اسکی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اسکی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور ’’عملی‘‘ طور پر اسطرح سے کہ خالصاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہرایک قوت سے متعلق اور ہر ایک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجالاوے مگر ایسے ذوق وشوق وحضور سے کہ گویاوہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرے کو دیکھ رہا ہے۔ پھر بقیہ ترجمہ آیت کا یہ ہےکہ جس کی اعتقادی وعملی صفائی ایسی محبت ذاتی پر مبنی ہو اور ایسے طبعی جوش سے اعمال حسنہ اس سے صادر ہوں وہی ہے جو عنداللہ مستحق اجر ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم رکھتے ہیں یعنی ایسے لوگوں کےلئے نجات نقد موجود ہے کیوں کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان لا کر اس سے موافقت تامہ ہوگئی اور ارادہ اس کا خداتعالی ٰ کے ارادہ سے ہمرنگ ہوگیا اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر گئی اور جمیع اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذّذ اور احتظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگے تو یہی وہ کیفیت ہے جس کو فلاح اور نجات اور رستگاری سے موسوم کرنا چاہیےاور عالم آخرت میں جو کچھ نجات کے متعلق مشہود ومحسوس ہوگا وہ درحقیقت اسی کیفیت راسخہ کے اظلال و آثار ہیں جو اس جہان میں جسمانی طور پر ظاہر ہوجائیں گے۔ مطلب یہ کہ بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہوجاتی ہے اور جہنمی عذاب کی جڑھ بھی اسی جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ58-59)
خالص ہوکر اللہ کی راہ میں مال خرچنے والوں پر کوئی خوف نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 263) ۔وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر جو وہ خرچ کرتے ہیں اُس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے، اُن کا اجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور اُن پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے.
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 275)۔ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی، تو ان کے لئے ان کا اجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 278)۔ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور انہوں نے نمازکو قائم کیا اور زکوٰۃ دی ’ا ُن کے لئے اُن کا اجر اُن کے ربّ کے پاس ہے۔ اور اُن پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
دنیا میں جولوگ دولت جمع کرتے ہیں انکو ہروقت اپنی دولت کے ضائع ہونے کا خوف بھی رہتا ہے۔ لیکن وہ جو خالص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئے خرچ کرتے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں کہ انکا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے اسلئے انکو قطعاً اس کے ضائع ہونے کا کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا۔
اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں پر کوئی خوف نہیں
فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَیَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (اٰل عمران: 171)۔ بہت خوش ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے اُنہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔
اولیاء اللہ پر کوئی خوف نہ ہوگا
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (یونس: 63)۔ سنو کہ یقیناً اللہ کے دوست ہی ہیں جن پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ لا خوف علیھم کے معنے سمجھنے میں لوگوں نے غلطی کھائی ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر کوئی خوف نہیں آتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ خطرات درپیش ہونے کے باوجود وہ اپنے نفس کے متعلق یقین رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور ولا ھم یحزنون کے یہ معنے بیان فرمائے کہ ’’انکو ماضی کا بھی صدمہ نہ ہوگا‘‘۔ اس فقرہ میں اسطرف اشارہ فرمایا ہے کہ اولیاءاللہ کو اللہ تعالیٰ ان غلطیوں کے صدمات سے بھی محفوظ رکھتاہے جو اعلیٰ مقامات کے حصول سے پہلے وہ کر چکے ہوں۔ کیا ہی محفوظ مقام ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت آئندہ اور ماضی کا ذمہ نہیں لے سکتی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس سے تعلق پیدا کرکے انسان کامل چین پا سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ اسی طرف سب سے کم توجہ کرتے ہیں اور اپنے دردوں کا علاج ان دروازوں سے تلاش کرتے ہیں جہاں سے سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بعض جگہ جو انبیاء کی نسبت خوف اور حزن کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس جگہ خوف اور حزن ان کی اپنی ذات کے متعلق نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کی نسبت ہوتا ہے۔ اور دوسروں کی نسبت خوف اور حزن کا پیدا ہونا عذاب نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ یہ تو ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے کہ انسان دوسروں کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھے‘‘
(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ99-100)
اس سے اگلی آیت میں اولیاءاللہ کی تعریف یہ بتائی: الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ تقویٰ پر عمل پیرا تھے۔ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (یونس: 65-64)۔ اُن کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
دراصل وہ جنہیں اللہ تعالی ٰ کی دوستی اور قرب نصیب ہوجائےان کےلئے اس عارضی دنیا میں کسی چیز کو کھو دینا یا دنیا کے ہم و غم بے معنی ہو جاتے ہیں۔ وہ توکل کے اس مقام پر ہوتے ہیں کہ نہ انہیں مستقبل کی کسی ناکامی، نقصان یا تنگی رزق کا خوف ہوتا ہے اور نہ گزشتہ کوتاہیوں کی وجہ سے حزن وملال ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اس پر خدا تعالیٰ کے فضل واحسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہوجا تا ہےاور خدا تعالیٰ اسکولعنتی زندگی سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اسکا خاتمہ بالخیر کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہے خدا تعالیٰ اس کی ساری مرادیں پوری کر دیتا ہے ، اسے نا مراد نہیں رکھتا‘‘۔
(الحکم جلد نمبر8 مورخہ 10مارچ 1904 صفحہ5)
اللہ کی راہ میں استقامت اختیار کرنے والوں پر کوئی خوف نہ ہوگا
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (الاحقاف: 14) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے پھر (اس پر) استقامت اختیار کی تو نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
رَبُّنَا اللّٰہ کہنا دراصل توحید اور ایمان کا اقرار کرنا ہے۔ اور ثم استقامو میں اس استقامت کا ذکر ہے جو اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف اور مشکلات پر مومن اختیار کرتے ہیں۔ ۔ ہر قسم کے مصائب اور حوادث کی آندھیاں جن مومنوں کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکیں انہیں کےلئے یہ خوشخبری ہے کہ انہیں نہ کسی آئندہ بات کا خوف ہوگااور نہ کسی گزشتہ کوتاہی پر غمگین ہوں گے۔
خلافت کے قیام کے ذریعے خوف کا امن میں بدلنا
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور: 56)۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ خلافت عطا کرنے، دین کو تمکنت بخشنے، خوف کی حالت کو امن میں بدلنے اور توحید کے قیام کا جو دائمی وعدہ فرمایا ہے وہ ایمان، اعمال صالحہ اور توحید کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دینے کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ وعدہ سب سے پہلے خلافت راشدہ کے وقت بڑی شان سے پورا ہوا۔ جب حضور ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی فتنوں نے سر اٹھایا اور کمزور ایمان کے لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہوگئی اور مسلمانوں کو ہر طرف سے فتنوں نے گھیر لیا ۔ پھر خلافت کی برکت سے ان فتنوں کا سر کچلا گیا۔ دین کو تمکنت نصیب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔ اور اسلام ترقی کرتا چلا گیا۔ مسلمانوں نے جب تک اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا انہیں خلافت راشدہ کی نعمت میسر رہی اور جب مسلمانوں میں نا اتفاقی اور انتشار پیدا ہوگیا، اطاعت اور فرمانبرداری کی روح ختم ہوگئی تو یہ نعمت ان سے چھن گئی۔ اور حضور ﷺ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق ظالم حکمرانوں کا لمبا دور شروع ہوگیا اور مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی حالت ابتر ہوگئی۔
پھر چودہ سو سال کے بعد مسیح موعود کی آمد کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ میں خلافت کے قیام کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح ا لاولؓ کو منصب خلافت پر متمکن فرمایا۔ ایک بار پھر خوف اور حزن امن میں بدلا۔ اور جماعت احمدیہ خدمت اسلام کے سفر پر آگے بڑھتی رہی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر ایک بار پھر جماعت کی کڑی آزمائش ہوئی مگر خدا تعالیٰ نے اس آزمائش میں بھی جماعت کو نہ صرف سرخرو کیا بلکہ ایسے موعود خلیفہ سے نوازا جس کے باون سالہ دور میں جماعت کو غیر معمولی ترقیات نصیب ہوئیں۔ پھر خلافت ثالثہ، رابعہ اور خامسہ کے انتخاب کے موقع پر ہم نے خدا کی نصرت اور تائید کے نظارے دیکھے۔ اور ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ جماعت احمدیہ کے تمام خلفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی تائید ونصرت شامل رہی۔ پس اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ انعام ہمیشہ ہمارے پاس رہے اور اسلام احمدیت ترقی کی شاہراہوں پہ گامزن رہے تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور خلیفہ وقت کی دل وجان سے اطاعت کرنی ہوگی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ارشاد پر اپنے اس مضمون کو ختم کرتی ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں۔
’’میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو۔ قرآن کریم تمہارا دستورالعمل ہو ۔ باہم کوئی تنازع نہ ہو کیوں کہ تنازعہ فیضان الٰہی کو روکتا ہے۔ موسیٰ کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول اللہ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔ اسلئے چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں وہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھوکہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو وحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہےاور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ لیکن جوشکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ (ابراہیم: 8)‘‘
(خطبات نور صفحہ131)
خوف سے آزاد ہونا بہت بڑی نعمت ہے جسے صاحب نعمت ہی سمجھ سکتاہے۔ اور اصل زندگی وہی گزارتے ہیں جو خوف اور خواہش سے آزاد ہوچکے ہوں۔ اللّٰہمّ استر عوراتنا واٰمن روعاتنا۔
(مسند احمد، حدیث نمبر 1099)
اے اللہ! تو ہماری کمزوریوں کو چھپا دے اور گھبراہٹ اور ڈر والے ماحول کو ختم کر کے اطمینان کا، چین کا، امن کا ماحول بنا دے. آمین
(طیبہ مبارکہ رضوان۔ ناروے)