• 25 اپریل, 2024

اسلامی حدود و تعزیرات کی روشنی میں زنا، زنا بالجبر اور قذف کی حقیقت

اسلامی حدود و تعزیرات کی روشنی میں
 زنا ، زنا بالجبر اور قذف کی حقیقت

دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں جس میں سزا کا نظام موجود نہ ہو۔کیونکہ سزاؤں سے جرائم کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے۔  اسلامی تعلیمات جس طرح ہر دیگر معاملہ میں   اپنے اندر ایک توازن ، اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی روح رکھتی ہے اسی طرح اس کے نظام حدود و تعزیرات میں بھی اعلیٰ درجہ کی حکمت اور توازن پایا جاتا ہے۔ اور یہ نظام بنی نوع انسان کیلئے باعث برکت و رحمت ہے جو لوگوں کی جان ومال، عزت و آبروکا محافظ ہے۔ اگر انسان اسلامی قانون حدود و تعزیرات کے سلسلہ میں بیان تعلیمات کا پابند ہو جائے تو معاشرہ میں عدل و انصاف، امن و آشتی کی فضاء قائم ہو جائے۔ دنیوی قوانین میں پائی جانے والی سزائیں انسان کی خود ساختہ ہیں اور ان کے اپنے ذہنوں کی پیداوار ہے جبکہ اسلامی سزائیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺکی تشکیل فرمودہ ہیں۔

قرآن کریم اور سنت نبویﷺمیں جن جرائم کی سزائیں بیان کی گئی ہیں انہیں درج  ذیل تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:۔

1۔ حدود 2۔ تعزیرات 3۔ جنایات (قصاص اور دیت)

حدود، تعزیرات اور قصاص و دیت میں باہمی فرق یہ ہے کہ حدود خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہیں، جنہیں قرآن کریم نے بیان فرما دیا کہ ان جرائم کی یہ یہ سزا ہو گی۔ چنانچہ ان جرائم کے ثابت ہو جانے پر ان سزاؤں میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ چوری، زنا بالرضا (اور فقہاء سلف کے نزدیک زنا بالجبر) نیز کسی  پر جھوٹا الزام لگانا وغیرہ۔

 جنایات افراد کا حق ہیں، جن میں قصاص، دیت، کفارہ اور فدیہ وغیرہ کی صورت میں سزائیں ہوتی ہیں یا مختلف صورتوں میں ان میں  تخفیف یا معافی ہو سکتی ہے۔ مثلاً قتل کی سزا، زخم لگانے کی سزا  وغیرہ۔

  جبکہ تعزیرات اللہ تعالیٰ کا بھی حق ہیں اور افراد کا بھی حق ہیں۔ان میں شرعاً سزائیں مقرر نہیں اوران میں فیصلہ اور سزاکا حق اللہ تعالیٰ نے حکومت کے نمائندوں یعنی اولو الامر کو دیا ہے کہ وہ زمان و مکان، اشخاص کے حالات و واقعات اور جرائم کی نوعیت کو سامنے رکھ کر  ان کی سزا کا فیصلہ کریں۔ زنا بالجبر کو بعض فقہاء و علماء نے تعزیرات میں شامل کیا ہے۔ جس کی تفصیل ان شاء اللہ اگلے صفحات میں آئے گی۔

اسلام اور دیگر قوانین کی سزاؤں میں ایک اور بڑا نمایاں فرق یہ ہے کہ اسلام نے جتنی بڑی سزا عائد کی اسی نیت سے اتنی ہی بڑی احتیاطیں اختیا رکرنے کا حکم دیا کہ خواہ کتنے ہی مجرم سزا پانے سے بچ جائیں کوئی معصوم سزا نہ پا سکے اس سلسلہ میں چار موقعہ کے گواہوں کی شرط اور ایسی حالت میں ان کا واقعہ جرم کو دیکھنا کہ کسی لحاظ سے ان کو شک کا فائدہ نہ دیا جاسکے اور ان سب گواہوں کا اپنے سابقہ کردار کے لحاظ سے ایسا معیاری صاحب اخلاق ہونا کہ صرف ان کا  سچا ہونا ہی ثابت نہ ہو بلکہ انتہائی مہذب ہونا بھی ثابت ہو۔ یہ تمام احتیاطیں اس بات کی قطعی ضمانت دیتی ہیں کہ کوئی معصوم انسان ناکردہ گناہ کی بناء پر  نہ مارا جائے۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اسلام کا قانون شہادت بھی اتنا سخت ہے کہ اس کی مثال کسی دنیاوی قانون شہادت میں نہیں ملتی ۔مثلاً بظاہر اگر ایک گواہ سچا بھی ہو لیکن اس حد تک مہذب نہ ہو کہ پبلک جگہوں میں پیشاب وغیرہ سے پرہیز کرے تو خواہ گزرنے والوں کی طرف اس کی پیٹھ ہی کیوں نہ ہو ، اسلامی قانون شہادت کی رو سے ایسا شخص اس قابل  نہیں کہ اس کی گواہی قبول کی جائے۔ پس اسلام نے وقوعہ جرم سے قبل اس کے انسداد کیلئے جو وسیع تعلیم دی اور جس پاکیزہ سوسائٹی کا قیام کیا۔ صرف اسی پراکتفاء نہیں بلکہ وقوعہ جرم کے بعد بھی جو احتیاطیں اختیار کرنے کا حکم دیا ان کی روشنی میں سوائے اس کے کہ کوئی شخص قطعی طور پر بے حیاء اور دلیر ہو چکا ہو اور سوسائٹی کیلئے خطرہ بن گیا ہو  کسی کا اسلامی حد کے تحت سزا پانا شاذ واقعہ ہو گا۔ کیونکہ ہر ممکن احتیاط اس بات کی اختیار کی گئی ہے کہ سزا کم سے کم مواقع پر ملے۔ لیکن جب ملے تو اس رنگ میں ملے کہ جرائم کی شدید حوصلہ شکنی کرنے والی ہو۔

اس مختصر تمہید کے بعد اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف واپس آتا ہوں۔ علماء و فقہاء کے نزدیک زنا (جو فریقین کی باہمی رضامندی سے ہو رہا ہو) کے ارتکاب کا جرم یا تو گواہیوں (جو پوری شرائط کے مطابق چار ہوں) سے ثابت ہوتا ہے، یا زانی کے اپنے اقرار سے۔ حضرت عمر ؓ کے مطابق حمل سے بھی زنا کا ارتکاب ثابت ہو تا ہے،اگر اس عورت کا نہ خاوند ہو اور نہ ہی اس کا کوئی مالک ہو۔ فقہاء اربعہ میں سے حضرت امام مالکؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ جبکہ دیگر علماء و فقہاء جن میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام شافعیؒ بھی شامل ہیں کو اس سے اختلاف ہے اور ان کے نزدیک صرف گواہیوں یا  اقرار سے ہی حد زنا قائم ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ زنا کی حد قائم کرنے کیلئے  بہت زیادہ تجسس اور  تفتیش کرنے کی بھی اجازت نہیں۔

فریقین کی باہمی رضامندی سے ہونے والے زنا میں اسلامی سزا اور اس کا طریق کار

قرآن کریم میں  باہمی رضامندی  کے ساتھ کئے جانے والے زنا کے ثابت ہو جانے پرایسے زنا کی سزا کے بارہ میں نیز محصنین پر زنا کا الزام لگانے اور اس کے ثبوت کیلئے چار گواہ پیش نہ کر سکنے پر الزام لگانے والوں کی سزا کے بارہ میں، اسی طرح خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر زنا کے الزام لگانے اور ان کے پاس اپنے حق میں گواہ نہ ہونے  کی صورت میں لعان کے طریق کار کی بابت سورۃ النور میں بڑی واضح تعلیم بیان ہوئی ہے۔

باہمی رضامندی سے کئے جانے والے زنا کے ثابت ہو جانے پر فریقین کو سو سو کوڑوں کی سزا کا حکم ہے، جس میں کسی قسم کی نرمی نہ برتنے اور اس سزا کو مومنوں کے ایک گروہ کے مشاہدہ کرنے کا حکم بھی شامل ہے۔اسی طرح اس قسم کے زنا کا کسی پر الزام لگا کر اس کو ثابت نہ کر سکنے والوں کیلئے یہ حکم ہے کہ الزام لگانے والوں میں سے ہر ایک کو اسی اسی کوڑے لگائے جائیں، ان کی آئندہ کبھی بھی گواہی قبول نہ کی جائے اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ بد کردار ہیں۔

قرآن کریم میں مذکور  زنا کی سزا کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

بعض وقت انسان مار کھانے سے درست ہوتا ہے اور بعض وقت مار دیکھنے سے۔ زنا کی سزا کیلئے بھی خدا نے کہا ہے کہ لوگوں کو دکھا کر دی جائے۔ (البدر جلد 1 شمارہ نمبر 6،5

مؤرخہ 28 نومبر تا 05 دسمبر 1902ء  صفحہ35)

اسی طرح قذف یعنی جھوٹے الزام کی تہمت لگانے والے کے بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور اس تہمت کے ثابت کرنے کیلئے چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی درے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ آپ ہی بد کار ہیں۔

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ318)

 یہ دونوں (زنا اور جھوٹے الزام کی) سزائیں  اسلامی اصطلاح میں حد کہلاتی ہیں۔

اس پہلے قسم (یعنی باہمی رضامندی سے کئے گئے) زنا کے بارہ میں احادیث نبویہﷺمیں بھی بہت سی تفصیلات مندرج ہیں۔

حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخص کے زنا  کا ارتکاب کرنے کے بعد اسے اقرار کرنے  پر آمادہ کرنے والے کو حضورﷺنے نصیحت فرمائی کہ اگر تم اس معاملہ کی پردہ پوشی کرتے تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر تھا۔ چنانچہ  حضور ﷺ نے حضرت ماعز اسلمی ؓ کے معاملہ میں ان  کے گارڈین حضرت ہزال ؓ کو یہی نصیحت فرمائی تھی۔

   (سنن ابی داؤد کتاب الحدود بَاب فِي السَّتْرِ عَلَى أَهْلِ الْحُدُودِ)

مختلف احادیث کی روشنی میں علماء نے زنا کا اقرار کرنے والے کو اس اقرار سے رجوع کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرنے کی تلقین کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ تا کہ اسے جہاں تک ہو سکے حد کے نفاذ  سے بچایا جاسکے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے اسلم قبیلہ کے ایک آدمی کو اس کے ارتکاب زنا کے اقرار پر توبہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے پردہ میں چھپے رہنے کی تلقین فرمائی۔(موطا امام مالک کتاب الحدود باب الرجم) اسی طرح حضورﷺنے حضرت ماعز اسلمیؓ اور غامدیہ قبیلہ کی عورت  کے اقرار کے وقت ان سے منہ پھیر کر انہیں بار بار اس اقرار سے باز رہنے کے مواقع فراہم کئے۔

 (صحیح مسلم کتاب الحدود باب من اعترف علی نفسہ بالزنی)

گویا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور نیک اور بزرگ ہستیوں کا یہی اسوہ ہے کہ اس ناپسندیدہ فعل کا ارتکاب کرنے والے کو وہ یہی تلقین کرتے ہیں کہ وہ خاموشی اختیار کرے اور ادھر ادھر لوگوں میں اپنے اس ناپسندیدہ فعل کو پھیلانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکے اور اسی سے اپنی اس غلطی کی معافی طلب کرے۔

پھر اگر کوئی زانی  اقرار کرنے کے بعد سزا کے دوران اپنے اقرار سے رجوع کر لے تو اس کی سزا ختم کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ حضورﷺنے حضرت ماعز اسلمی ؓ کے معاملہ میں ان کو سزا  ملنے کے وقت سزا کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے سزا سے  بھاگنے کی کوشش  پر صحابہ  سے فرمایا کہ پھر تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا، شاید کہ وہ توبہ کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب رجم ماعز بن مالک)

احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی حد کا مستوجب اپنے گناہ کا ایک آدھ مرتبہ اقرار کر کے خاموش ہو جائے یا توبہ استغفار کی تلقین سے اپنے مزید اقرار سے باز آجائے تو اس پر بھی حد قائم نہیں ہو گی۔ چنانچہ  ایک شخص نےحضورﷺکے پاس آ کر اقرار کیا کہ اس نےحد والے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس لئے اس پر حد قائم کی جائے۔ حضورﷺنے اس سے اس (گناہ) کے متعلق نہیں پوچھا، پھر نماز کا وقت آگیا تو اس آدمی نے حضورﷺکے ساتھ نماز پڑھی جب رسول اللہﷺنماز سے فارغ ہوئے تو وہ آدمی پھر آپ کے سامنے کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں حد والے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں، اس لئے آپ کتاب اللہ کی حد مجھ پر قائم کریں۔  آپ نے فرمایا کیا  تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟اس نے کہا جی  پڑھی ہے، آپ نے فرمایا کہ اللہ نے تیرے گناہ کو اور تیری حد کو بخش دیا ۔ پھر اس کے بعد اس شخص نے اپنے اقرار کا اعادہ نہ کیا تو حضورﷺنے اس پر حد قائم نہ فرمائی۔

(صحیح بخاری کتاب الحدودبَاب إِذَا أَقَرَّ بِالْحَدِّ وَلَمْ يُبَيِّنْ هَلْ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْتُرَ عَلَيْهِ)

پھر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی  کسی دوسرے کے ساتھ زنا کے ارتکاب کا اقرار کرتا ہے تو صرف اقرار کرنے والے پر حد قائم ہو گی، فریق ثانی سے اس بارہ میں کوئی جواب طلبی نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ حضرت ماعز اسلمیؓ کے معاملہ میں باوجود اس کے کہ حضورﷺکے دریافت کرنے پر حضرت ماعز اسلمی ؓ نے حضورﷺکو بتا دیا تھا  کہ انہوں نے فلاں عورت سے زنا کیا ہے۔ حضورﷺنے صرف حضرت ماعز اسلمی ؓ پر حد قائم فرمائی اور اس عورت سے کسی قسم کی جواب دہی نہیں فرمائی۔

 (سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب رجم ماعز بن مالک)

البتہ اگر فریقین کا معاملہ  ایک مقدمہ کی صورت میں عدالت میں پیش   ہو تو پھر اقرار کرنے والے پر حد زنا لگے گی اور دوسرے فریق سے جس پر زنا کے الزام کی اشاعت ہو چکی ہے، اس لئے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ بہتان ہو تو بہتان لگانے والے کو قذف یعنی جھوٹے بہتان کی بھی سزا اسی کوڑے لگائے جائیں۔ چنانچہ سنن ابی داؤد کی حضرت ابن عباس سے مروی روایت سے ثابت ہے کہ حضورﷺنے زنا کا اقرار کرنے والے کو پہلے سو کوڑے حدزنا کے طور پر لگائے اور جس عورت کے ساتھ اس نے زنا کے ارتکاب کا اقرار کیا تھا، اس عورت کے  اس فعل سے انکار اور الزام لگانے والے شخص کو جھوٹا قرار دینے پر حضورﷺنے اس عورت کو کچھ نہیں کہا اور اس زنا کا اقرار کرنے والے مرد کو اسی کوڑے قذف کی سزا کے طور پر بھی لگوائے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب اذا اقرالرجل بالزنا و لم تقرالمراۃ)

البتہ دوسرے فریق کے اقرار زنا  پر اس پر بھی حد زنا قائم کی جائے گی اور فریق اوّل پر حدقذف نہیں لگائی جائے گی۔ چنانچہ حضورﷺنےایک مزدوری کرنے والے لڑکے کے، گھر کی عورت کے ساتھ زنا کرنے پر لڑکے کو بھی زنا کی سزا دی اور عورت کے اقرار زنا  پر اس عورت پر بھی حد زنا نافذ فرمائی۔

(صحیح بخاری کتاب الحدودبَاب الِاعْتِرَافِ بِالزِّنَا)

احادیث سے یہ بھی  ثابت  ہوتا ہے کہ اگر زنا کے معاملہ میں پوری شرائط کے ساتھ گواہیاں موجود نہ ہوں اور نہ ہی زنا کے ارتکاب کا اقرار موجود ہو، لیکن زنا کے قرائن موجود ہوں تب بھی کسی فریق پر حد زنا نافذ نہیں ہو گی۔ چنانچہ احادیث میں مذکورہ ایک واقعہ (جس میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بھائی عتبہ بن ابن وقاص نے اپنی وفات کے وقت اپنے بھائی کو یہ وصیت کی تھی کہ عبد بن زمعہ کی فلاں لونڈی کے ساتھ اس کے تعلقات رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ حاملہ ہوئی ہے، اس لئے اس لونڈی کے ہاں جو بچہ پیدا ہو گا، وہ میرا ہو گا لہٰذا اس بچہ کی پیدائش کے بعد وہ بچہ تم لے لینا۔ چنانچہ بچہ کی پیدائش پر جب فریقین (حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور لونڈی کے مالک عبد بن زمعہ) کے مابین تنازعہ پیدا ہوا تو اس معاملہ) میں حضورﷺ نے متنازعہ بچہ لونڈی کے مالک کے سپرد کیا اور اس بچہ کے باپ ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے دعویٰ کو ردّ فرما دیا۔ لیکن اپنی زوجہ حضرت سودہ بنت زمعہ (جو لونڈی کے مالک عبد بن زمعہ کی بہن ہونے کی بناء پر اس متنازعہ بچہ کی پھوپھی لگتی تھیں) کو اس بچہ سے پردہ کا حکم دیا۔ کیونکہ اس بچہ کی شکل زنا کا اقرار کرنے والے عتبہ بن ابی وقاص سے ملتی تھی۔

(صحیح بخاری کتاب البیوع بَاب تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ)

مذکورہ بالا  تمام امور کا تعلق اس قسم کے  زنا کے ساتھ ہے جو فریقین کی باہمی رضامندی کے ساتھ ہوا اور ایک فریق  یا فریقین نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ جس پر اعتراف کرنے والے فریق کو اس وقت  موجود شرعی حکم کے مطابق سزا دی گئی۔

زنا بالجبر کے الزام  کی صورت میں اسلامی سزا اور اس کے نفاذ کا طریق

باقی جہاں تک کسی فریق  کی طرف سے اس کے ساتھ زبردستی زنا (یعنی زنا بالجبر) کئے جانےکے الزام  کا معاملہ ہے تواس بارہ میں بھی ہمیں قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ دونوں سے راہنمائی ملتی ہے۔ چنانچہ  قرآن کریم میں تو   ایک نبی پر اس قسم کا الزام لگنے کے  واقعہ کے ذریعہ ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ سورۃ یوسف علیہ السلام کی آیات 24 تا 30 میں اس واقعہ کی تفصیل موجود ہے کہ کس طرح عزیز مصر کی بیوی نےگھر کے تمام دروازے بند کر کے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کی مرضی کے خلاف اس فعل بد کیلئے ورغلانے کی کوشش کی لیکن جب وہ اپنے اس بد ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکی اور حضرت یوسف علیہ السلام  اس سے بچنے کیلئے دروازہ کی طرف بھاگے تو اس عورت نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ زبردستی کرتے ہوئے  ان کی قمیض پیچھے سے پھاڑ دی۔ اور جب وہ دروازے تک پہنچے تو انہوں نے اس عورت کے خاوند کو دروازہ کے پاس کھڑا پایا جس پر اس عورت نے اپنے خاوند کے سامنے مکر کرتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام  پر اس کے ساتھ  بدی کرنے کا  جھوٹا الزام لگا دیا۔ اور حضرت یوسف  علیہ السلام نے اس عورت کے  اس الزام سے انکار کیا اور کہا کہ اس عورت نے مجھ سے میری مرضی کے خلاف یہ فعل کروانا چاہا تھا۔لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔

اب بظاہر  یہاں صرف فریقین کے ایک دوسرے کے خلاف متضاد بیانات تھے اور اس واقعہ کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا سوائے اس عورت کے خاوند کے اور اس نے بھی ان دونوں کو صرف دروازے کی طرف  بھاگتے ہوئے  آتے دیکھا تھا۔ ایسی صورت میں قرآن کریم نے جھوٹ اور سچ میں امتیاز کرنے کیلئے اس واقعہ کے قرآئن کو دیکھنے کے طریق کو اپنایا۔ چنانچہ لکھا  ہے کہ اس کنبہ کے ایک فرد نے یہ تجویز دی کہ چونکہ اس عورت کے کپڑے صحیح سلامت ہیں اور اس آدمی کا کرتہ تازہ پھٹا ہوا ہے۔ پس اگر اس آدمی کا کرتہ آگے سے پھاڑا گیا ہے تو اس عورت نے سچ کہا ہےاور وہ آدمی یقیناً جھوٹا ہے۔ لیکن اگر کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یقیناً یا تو اس آدمی نے یہ حرکت کرنے کیلئے اپنے کرتہ کو خود پھاڑا ہو گا یا اس عورت نے خود کو بچانے کیلئے مزاحمت میں اس آدمی  کے کرتہ کو پھاڑ دیا ہو گا۔ لیکن اگر اس آدمی کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو پھر یہ شخص سچا ہے اور یہ عورت جھوٹی ہے کیونکہ کوئی شخص یہ حرکت کرنے کیلئے پیچھے سے اپنا کرتہ نہیں پھاڑ سکتا بلکہ ایسی صورت میں یقیناً یہ شخص اپنے آپ کو بچانے کیلئے بھاگا ہو گا اور عورت نے اسے پکڑنے کیلئے اس کے کرتہ کو پیچھے سے کھینچ کر پھاڑ دیا ہو گا۔ چنانچہ اس شخص کی تجویز پر جب حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتہ کو دیکھا گیا تو  وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا جس پر عزیز مصر نے اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ واقعہ یقیناً تمہاری چالبازی سے ہوا ہے۔ اور اے عورتو تمہاری چالبازی یقیناً بہت بڑی ہوتی ہے۔

اس قرآنی بیان میں ایک قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ کسی مرد پر زنا بالجبر کا الزام لگانے والی عورت کے معاملہ کا فیصلہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرائن (یعنی کرتہ کا پھٹا ہونا) دیکھنے کی تجویز دینے والے کیلئے بھی ’’شَہِدَ شَاھِدٌ‘‘ یعنی ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی کے الفاظ استعمال کر کے قرآئن کو بھی گواہی ہی قرار دیا ہے۔

نیز قرآن کریم کے اس حکم سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ کسی شخص کے دوسرے پر صرف الزام لگانے کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ الزام غلط بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے جب تک کوئی الزام گواہوں یا قرائن سے ثابت نہ ہو کسی ملزم کو کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔

زنا بالجبر کے الزام کی صورت میں معاملہ کی تحقیق اور سزا کے نفاذ کی بابت صحاح ستہ کی دو کتب سنن ابی داؤد اور سنن ترمذی میں احادیث مذکور ہیں۔ جن میں یہ ذکر ہے کہ حضور ﷺ کے عہد مبارک میں ایک عورت نماز کیلئے گھر سے نکلی تو راستہ میں کسی شخص نے اسے پکڑ کر زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔ اور وہاں سے بھاگ گیا۔ پھر ایک دوسرا شخص وہاں سے گزرا تو اس متاثرہ عورت نے اس دوسرے شخص کے بارہ میں لوگوں کو بتایا کہ اس شخص نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ چنانچہ وہاں سے گزرنے والی مہاجرین کی ایک جماعت نے اس شخص کو پکڑ لیا جس کے متعلق اس عورت کا خیال تھا کہ اس نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔پھر  جب اس آدمی کو اس عورت کے سامنے لایا گیا تو اس نے کہا ہاں یہی وہ شخص ہےجس نے اس کے ساتھ زیادہ کی  ہے۔ پھر وہ  لوگ اس شخص کو رسول اللہﷺکے پاس لائے اور آپ نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو اسی وقت ایک اور آدمی کھڑا ہوا جس نے درحقیقت اس عورت کے ساتھ زنا کیا تھا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اس کے ساتھ زنا کیا تھا۔ نبی کریمﷺنے اس عورت سے فرمایا کہ جاؤ اللہ نے تمہیں بخش دیا۔ اور پہلے آدمی سے اچھا کلام کیا اور زانی کے بارہ میں فرمایا کہ اسے سنگسار کردو۔ پھر اس سزا پانے والے شخص کے بارہ میں فرمایا کہ  اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ سب کے سب ایسی توبہ کریں تو بخش دیئے جائیں۔

(سنن ابی داؤد کتاب الحدود بَاب فِي صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ)

اس روایت کے یہ الفاظ  کہ حضورﷺنے اس عورت کے الزام پر ایک ایسے شخص کو سزا دینے کا حکم صادر فرما دیا جس نے یہ جرم کیا ہی نہیں تھا، قابل غور ہیں۔ ان الفاظ سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ آنحضورﷺ نے نعوذ باللہ شواہد اور قرائن کو دیکھے بغیر اور حالات و و اقعات کا جائزہ لئے بغیر  نہایت عجلت میں یہ غلط فیصلہ فرما دیا۔ جو عدل و انصاف کے بارہ میں بیان اسلامی  تعلیم  سے بہت بعید ہے اور جس کا تصور کرنا بھی حضورﷺکی حکیمانہ، عادلانہ اور وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی جیسی صفات سے متصف ذات بابرکت سے  محال  نظر آتاہے۔

اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے مبعوث ہونے والے آخری  زمانہ کے حکم و عدل ،آنحضورﷺکے روحانی فرزند اور آپؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے قبولیت احادیث کے بارہ جو زریں اصولوں بیان فرمائے ہیں،ان میں ایک اصول  آپ نے یہ بھی بیان فرمایا:۔

 کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے فَبِاَىِّ حَدِيْثٍ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤْمِنُوْنَ (الجاثیہ: 7) یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے۔ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے۔

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ12،11)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اس اصول کی روشنی میں جب ہم  اس حدیث  کی شروح پر نظر ڈالتے ہیں تو سنن ابی داؤد کی شرح فتح الودود میں اس حدیث کی ایک  ایسی تشریح  ہمیں ملتی ہے جس سے یہ حدیث  آنحضورﷺکے اسوہ کے عین مطابق ٹھہرتی ہے۔

 چنانچہ اس   کتاب میں لکھا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ کہ ’’حضورﷺنے اس (پہلے ملزم) کے بارہ میں سزا کا حکم دیا”سے مراد ہے کہ اس معاملہ کے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے یہ راوی کا اپنا خیال ہے ۔ورنہ  جب اس شخص کو حضور ﷺ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو ابھی حضور ﷺ اس (واقعہ کے حالات اور اس) ملزم کے (سابقہ کردار اور) حالات کے بارہ میں تحقیق و تفتیش فرما رہے تھے کہ اصل مجرم نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔

(فتح الودود شرح سنن ابی داؤد کتاب الحدود بَاب فِي صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ)

پس  حدیث کی یہ تشریح  جہاں اس حدیث کی صداقت ثابت کر رہی ہے، وہاں اس تشریح سے یہ امر بھی مستنبط ہوتا ہے کہ سزا دینے میں جلدی نہیں کر نی چاہئیے۔ اور  صرف ایک فریق کے الزام لگانے سے ہی دوسرے کو مجرم نہیں سمجھ لینا چاہئیے جبکہ دوسرا فریق اپنے پر لگے الزام سے  انکاری ہو۔ کیونکہ بعض اوقات واقعات کی کڑیاں  اس طرح آپس میں  ملتی  دکھائی دیتی ہیں کہ سرسری نظر  میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ الزام درست ہے۔ لیکن جب گہرائی میں جا کر تمام حالات  و واقعات  کا بغور جائزہ لیا جائے اور الزام لگانے والے اور ملزم کی سابقہ زندگی اور اس کے سابقہ کردار کو مد نظر رکھ کر تمام قرائن اور شواہد پر ان تمام چیزوں کو پرکھا جائے تو فیصلے مختلف بھی ہو جاتے ہیں۔

زنا بالجبر یا زنا بالاکراہ کے بارہ میں فقہاء سلف کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ زنا ہی کی ایک قسم ہے اور اس کیلئے شریعت میں وہی سزا ہے جو زنابالرضا کیلئے مقرر ہے۔ نیز زنا بالجبر کے ثبوت کا معیار بھی بعینہ زنا بالرضا یعنی چار مسلمان مرد گواہوں کی عینی شہادت ہے۔ چار چشم دید مسلمان گواہ اگر میسر ہوں تو سو کوڑے یا رجم کی حد کا نفاذ ہوگا، بصورت دیگر یہ حدود نافذ نہیں کی جائیں گی۔ یہ شرعی حدود ہیں جو سنت متواترہ سے ثابت ہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ فقہاء کے نزدیک ثبوت جرم اور نفاذ حدود کے اعتبار سے زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو معیار ثبوت اور جو شرعی حدود زنا بالرضا کیلئے قائم ہیں، وہی زنا بالجبر کیلئے بھی مقرر ہیں۔

البتہ ان کے نزدیک دونوں جرائم میں صرف یہ فرق ہے کہ زنا بالرضا میں دونوں فریق سزا کے مستوجب ہوتے ہیں جبکہ زنا بالجبر میں اس کا مستحق صرف جبر کرنے والا فریق ہے، جبر کا شکار ہونے والا فریق اس سزا سے مستثنیٰ ہے۔ اس استثناء کیلئے فقہاء نے قرآن کریم کی آیت و َ مَنۡ یُّکۡرِھۡہُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِکۡرَاھِہِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔(سورۃ النور: 33) یعنی جو کوئی ان کو مجبور کرے۔ تو اللہ ان عورتوں کی مجبوری کے بعد بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے (وہ ان پر گرفت نہیں کرے گا)۔ نیز آنحضور ﷺ کا یہ فرمان کہ

إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي)

یعنی اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک سے اور زبردستی (کروائے گئے کام) کی سزا سے درگزر فرمایا ہے۔کو اپنے موقف کی بنیاد قرار ہے۔

 چنانچہ بہت سے اسلامی ممالک میں زنا اور زنا بالجبر ہر دو کے ثبوت کا معیار چار مسلمان مرد گواہوں کی چشم دید گواہی اور  جرم ثابت ہونے کی صورت میں سو کوڑوں یا رجم کی حد مقرر ہے۔

فقہاء سلف کے اس موقف کے  بالمقابل جدید زمانہ کے بعض مسلمان اسکالرز نےزنا بالجبر یا زنا بالاکراہ کو زنا بالرضا سے الگ قرار دیا ہے نیز ان کے نزدیک زنا بالجبر اسلامی اصطلاح حدود کے زمرہ  میں نہیں آتا بلکہ اس کا تعلق تعزیرات سے ہے۔ نیز عصر حاضر کے ان  اسکالرز نے زنا بالجبر  کو محاربہ اور فساد کے تحت بیان کر کے اس کے ثبوت  کیلئے چار گواہوں کی شرط  کی بجائے شواہد اور حالات و قرائن  سے اس کا  ثابت ہونا درست مانا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کیلئے قتل تک کی عبرتناک سزا مقرر کرنے کا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ لیکن ثبوت جرم کیلئے ان جدید فقہاء کا بھی موقف یہی ہے کہ صرف کسی کے الزام لگانے سے سزا کا نفاذ نہیں ہو جائے گا بلکہ اس الزام کے ثبوت کیلئے شواہد اور قرآئن کو بہرحال پیش کرنا لازمی ہوگا۔

پس خلاصہ کلام یہ کہ جبری زنا کا معاملہ ایسا نہیں کہ اس میں صرف متاثرہ فریق کے الزام پر ہی اسلام سزا نافذ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس میں بھی گواہوں یا شواہد و قرائن کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے کہ الزام لگانے والا بھی غلط ہو سکتا ہے خواہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہو جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام  کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے، یا اسے ملزم کو پہنچاننے میں غلطی لگی ہو، جیسا کہ سنن ابی داؤد کی مذکورہ بالا روایت سے ثابت ہوتا ہے۔

ایسے معاملات میں گواہی کی عدم موجودگی کی صورت میں  قرائن وشواہد سے استفادہ کرنا اور ہر زمانہ کے لحاظ سے اس زمانہ میں دستیاب ذرائع سے کام لینا اسلامی تعلیم کے قطعاً منافی نہیں۔ چنانچہ فقہاء نے اس قسم کے معاملات کے فیصلوں کیلئے  طبی معائنہ اور جدید ٹیکنالوجی وغیرہ سے حاصل ہونے والے قرائن و شواہد کو بھی قابل قبول قرار دیا ہے۔

حضرت  مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے سورۃ النور کی آیت نمبر 5 کی تفسیر میں زنا اور اس سے متعلقہ امور کی بابت اسلامی تعلیم کی جو نہایت بصیرت افروز تشریح بیان فرمائی ہے، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:۔

1۔ زنا چار گواہوں کی گواہی سے یا بغیر جبر و تشدد کے اپنے اقرار سے ثابت ہوتا ہے۔

2۔ محصنات  میں مرد و  عورت  دونوں  شامل ہیں جس  طرح مرد  والے صیغہ میں عورتیں  شامل ہوتی ہیں۔

3۔ آج کل اس حکم کی بہت ضرورت ہے کیونکہ لوگ بلا دلیل اور بلا ثبوت محض  کھیل تماشہ کے طور پر دوسرے پر الزام لگادیتے ہیں۔

4۔ الزام لگانا بہت  بڑا گناہ ہے اور  اللہ تعالیٰ  نے زنا کی سزا سو کوڑوں  کے بعد  اس کی سزا اسی کوڑے  رکھے ہیں جو زنا  کی سزا کے قریب قریب ہے۔

5۔ المحصنا ت کے معنی  یہ ہیں کہ جن پر بد کاری کا الزام  لگایا گیا ہو،  اگر وہ الزام  شہادت سے ثابت  نہیں ہوتا تو خدا تعالیٰ  کی  نگا ہ  میں  وہ یقینی طور پر  پاکدامن   ہیں اور الزام لگانے والا  کذاب اور جھوٹا ہے۔ اور اس بات کا مستحق  ہے کہ اسے سزا دی جائے ۔ کیونکہ قاعدہ  کے مطابق  بار ثبوت مدعی پر ہوتا  ہے۔

6۔اگر کوئی خود زنا کاری کا اقرار کرتا ہے  اور چار دفعہ اقرار  کرتا ہے  تو ایسی صورت میں شریعت صرف اسی اقرار کرنے والے کو مجرم قراردے گی۔ عورت کو مجرم قرار نہیں دے گی۔ اگر اس سے عورت کا نام معلوم ہو تو عورت سے بغیر قسم دیئے صرف اتنا سوال کیا جائیگا کہ کیا یہ درست کہتا ہے یا غلط؟ اور اگر عورت کہے کہ وہ غلط  کہتا ہے تو عورت کو چھوڑ دیا جائے گا۔

7۔ اپنی  طرف الزام کی نسبت دینا کوئی تقویٰ اور نیکی کی بات نہیں بلکہ وقاحت اور بےشرمی پر دلالت کرتا ہے۔ زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام پر اپنی ذات کے متعلق الزام لگایا تھا۔ کیا اس سے زلیخا کے تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے یا اس کی مکاری اور چالبازی کا ثبوت ملتا ہے۔

8۔ حضور ﷺ نے بھی  زنا کا  اقرار کرنے والے  کی بات کو پسند نہیں فرمایا بلکہ غصہ سے منہ دوسری طرف  پھیر لیا اور اس  کے اس فعل کو دیوانگی قراردیا۔

9۔ حدیث  میں آتا ہے کہ جب ایک شخص نے بیان کیا کہ  فلاں شخص کا بیٹا میرے بھائی کا ہے کیونکہ  میرے بھائی نے کہا تھا کہ وہ  لڑکا اصل میں میرا ہے تو حضورﷺ نے یہ سن کر اس کی تعریف نہیں کی  اور  نہ یہ  فرمایا کہ ہم دوسرے فریق سے قسم لیتے ہیں  بلکہ  فرمایا کہ بیٹا تو اسی کا ہوگا جس کی وہ  بیوی ہے  اور زنا کرنے والے کو سنگساری  کی سزا ملے گی۔

10۔ اگر کوئی شخص اقرار کرنے کی بجائے  کسی دوسرے  شخص پر الزام لگائے  تو جس  پر اتہام  لگایا جائے گا اس سے پوچھا  بھی نہیں  جائے گا اور  نہ اس سے قسم  یا  مباہلہ کا  مطالبہ   کرنا جائز ہوگا۔ کیونکہ  حدود میں قسم  یا مباہلہ کرنا شریعت  کی ہتک کرنا ہے۔  اور  یہی پرانے فقہاء کا مذہب ہے۔

11۔جن امور میں حد مقرر  ہے ان میں  قسموں کے ذریعہ حد قائم  نہیں کی جاسکتی۔ایسے امور کا فیصلہ بہرحال گواہوں کی گواہی پر  منحصر ہوگا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں  حضرت مغیرہ بن شعبہ   گورنر  بصرہ پر  جب بدکاری کا الزام لگایا گیا تو  تین گواہوں  کی گواہی ان کے خلاف تھی اور چوتھے   کی گواہی   میں فرق تھا اور اس نے کہا کہ اس نے  زنا اس طرح  نہیں دیکھا جیسا دیکھنے کی  شرط ہے  تو حضرت عمرؓ  نے تین گواہوں پر  حد قذف  لگوائی ۔ اور  کسی شخص کے کہنے پر  کہ تین گواہ تو موجود ہیں  چوتھے کی گواہی کچھ کمزور  ہے ۔ اس لئے  ملزم کو قسم  دیکر پوچھ لیں  کہ یہ بات سچ ہے  یا نہیں؟ مگر ان کو قسم نہ دی گئی۔اور الزام لگانے والوں کو کوڑوں کی سزا کے علاوہ شہادت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اور حضرت عمرؓ نے اعلان فرمایا کہ ان لوگوں کی شہادت آئندہ کسی معاملہ میں قبول نہیں کی جائے گی۔

(ملخص از تفسیر کبیر جلد6 صفحہ260 تا 266)

ضمناً  یہاں پر اس امر کوبیان کرنا بھی ضروری معلوم  ہوتا کہ سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر زنا کا الزام لگانے اور ان کے پاس اپنے حق میں گواہ نہ ہونے  کی صورت میں  جو لعان کے طریق کار کی بابت تعلیم دی  ہے، بعض لوگوں  کے نزدیک لعان کے اس طریق  کار کو میاں بیوی کے علاوہ عام لوگوں کے درمیان بھی زنا کے الزام کی صورت میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ درست موقف نہیں ہے۔  اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس موقف  کی تردید فرمائی ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر کے مذکوربالا ارشاد کے علاوہ حضور ؓ کی کئی اور تقاریر و تحریرات میں بھی اس امر کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی  مسئلہ کے بارہ میں ایک خط کا جواب اپنے دست مبارک سے تحریر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
’’چونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عام طور پر لوگوں کو ٹھوکر لگی ہوئی ہے اس لئے میں اپنے ہاتھ سے اس خط کا جواب لکھتا ہوں۔ قرآن کریم کی رو سے زنا کا الزام لگانے والے دو قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ خاوند یا بیوی۔۲۔ غیرمرد یا عورت۔ اگر الزام لگانے والا خاوند یا بیوی ہو۔ (خاوند کا صریح ذکر قرآن کریم میں ہے۔ بیوی کا معاملہ اس پر قیاس کیا جاوے گا ۔کیونکہ قرآن کریم میں سوائے خاص طور پر مذکور ہونے کے بالمقابل حکم بیان ہوتے ہیں۔) تو گواہوں کی عدم موجودگی میں ملاعنہ ہو گا۔ یعنی ایک دوسرے کے مقابل اسے قسم دی جاوے گی۔ ایک گواہ کے مقابل ایک قسم ہو گی۔ اور پانچویں دفعہ لعنت ہو گی۔ جھوٹے پر عذاب نازل ہونے کی دعا کی جاوے گی۔ اگر غیرخاوند یا غیرزوجہ الزام لگاوے تو اس کیلئے صرف چار گواہ لانے ہوں گے۔ نہ اس کے کہنے پر قسم دی جا سکتی ہے ۔نہ الزام لگانے والے کی قسم کچھ حقیقت رکھتی ہے۔

بغیرگواہوں کے الزام لگانے والا بہرحال جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے الزام  کے مقابل پر قسم  نہ کھانے والا ہرگز ہرگز زیرالزام نہیں۔ رسول کریمﷺ نے حضرت عائشہؓ سے جب الزام کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب تک دینے سے انکار کر دیا ۔اور کہا کہ اگر مانتی ہوں تو جھوٹ ہے اور اگر انکار کرتی ہوں تو لوگ نہ مانیں گے۔ پس میں جواب ہی کچھ نہیں دیتی۔ خدا شاہد ہے۔ خدا نے ان کے اس فعل کی تائید کی۔ اور ان کو بری قرار دیا۔ پس پبلک میں اس پر قسم لینا بطور عدالت کے نہ جائز ہے نہ ایسی قسم حجت ہے۔ اور شرعاً الزام لگانے والا جھوٹا ہے۔ اور اس کو ہم اس وقت تک جھوٹا سمجھیں گے جب تک وہ چار گواہ نہیں لاتا۔ اور اگر اسلامی شریعت ہو تو اس کو کوڑے لگیں گے۔ اگر اس نے فی الواقع کچھ دیکھا بھی ہے تو اس کا فرض ہے کہ خاموش رہے اور خداتعالیٰ کی ستاری کے مقابل نہ کھڑا ہو جائے۔‘‘

(اخبار الفضل قادیان دارالامان شمارہ نمبر9، جلد11، مؤرخہ 7 اگست 1923ء صفحہ6)

اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی زیادتی کی صورت میں متاثرہ فریق کا فوری طور پر متعلقہ حکام کو اس زیادتی سے مطلع کرنا ضروری ہے۔ کسی مجبوری کی وجہ سے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس مجبوری کو ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہو گی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ زنا بالجبر میں عورت کے الزام کی حیثیت کی بابت فرماتے ہیں:۔

۱۔ میرے نزدیک  یہ معاملہ  صرف اور صرف  تعزیر کا ہے  اور اسی کے  مطابق الزام  کی چھان بین اور جرم ثابت ہونے پر  تعزیری  کاروائی ہونی  چاہئیے۔

(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بنام سیکرٹری صاحب مجلس افتاء مؤرخہ 28 جولائی 1993ء)

زنا بالجبر میں عورت کے الزام کی حیثیت  کے مسئلہ پر  حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس افتاء کی درج ذیل سفارشات کو منظور فرمایا:۔

۱۔  زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت کو اپنی فریاد متعلقہ حکام تک پہنچانے کی اجازت  ہے اور اس کیلئے  چار گواہ لانے کی اس پر پابندی نہیں ہوگی۔ بلکہ قرائن کے مطابق جس طرح کسی بھی دوسرے الزام کا  معاملہ ہے اس کو بھی نبٹایا جائے گا۔ ایسی صورت میں قرائن کے ذریعہ فیصلہ کرنے کے بارہ میں سورۃ یوسف کی آیات 27 تا 29 ایک راہنما اصول ہیں۔

۲۔ اگر ایسی عورت الزام ثابت نہ کرسکے  تب بھی اس پر قذف کی حد نہیں لگائی جائے گی۔ سوائے اس کے کہ یہ ثابت  ہو جائے کہ یہ عورت بد نیتی اور محض کسی کو ذلیل و رسوا کرنے کیلئے سازش کر رہی ہے اور اس الزا م میں اپنے آپ کو بھی ملوث کررہی ہے۔ ایسی صورت میں عدالت اگر مدعا علیہ مطالبہ کرے تو   اس عورت کیلئے مناسب  سزا تجویز کرسکتی ہے۔

۳۔ عورت کو حتی الامکان جلد از جلد حکام کو اس زیادتی سے مطلع کرنا چاہئیے۔ لیکن اگر کسی مجبوری یا بدنامی کے خوف کی وجہ سے وہ اس میں تاخیر کرتی ہے تو اس وجہ سے اس کی سماعت کو ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر اس عرصہ میں بعض ثبوت ضائع ہوتے ہیں تو اس کا نقصان مدعیہ کو ہی ہو گا۔ اور اس کی ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔ تاہم عدالت کے فرائض میں یہ شامل ہونا چاہئیے کہ وہ اس تاخیر کی وجوہ کو زیر غور لا کر فیصلہ کرے۔

(رپورٹ مجلس افتاء مؤرخہ 23 اپریل 1998ء منظور فرمودہ 07 مئی 1998ء)

مجلس افتاء کی ان  سفارشات  کے تیسرے پوائنٹ کے خط کشیدہ فقرہ کے بارہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل ارشاد بھی فرمایا، جسے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اسی  رپورٹ پر درج کرتے ہوئے لکھا۔ فرمایا:۔
’’باقی تو سب سفارشات ٹھیک ہیں لیکن رپورٹ میں تاخیر کی وجہ سے سماعت کو ردّ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے معاملات میں رسول اللہ ؐ نے فوراً قدم اٹھایا ہے۔ اورتاخیر کے اندر تو توبہ بھی ہو جاتی ہے۔ تاخیر کے ساتھ جب وہ شکایت کا فیصلہ کرتی ہے تو گزشتہ  کسی حوالہ کا حق اسے نہیں ہونا چاہئیے۔ زیادتی کرنے والے کو منع کرنے  کے باوجود اگر وہ آخری وقت میں بھی کرتا ہے تو صرف اس کی شکایت کرے تاکہ اسے فوری شکایت سمجھا جائے۔ ورنہ کیا  پتہ دونوں باہمی رضا مندی سے  کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔‘‘

(ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ محررہ  07 مئی 1998ء، بر رپورٹ مجلس افتاء مؤرخہ 23 اپریل 1998ء)

قرآن کریم، احادیث نبویہﷺاور مذکورہ بالا ارشادات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی بھی زیادتی کی صورت میں متاثرہ فریق کا فوری طور پر داد رسی کیلئے متعلقہ حکام کے پاس رپورٹ کرنا  لازمی ہے۔  کسی مجبوری کی وجہ سے اگر کوئی متاثرہ فریق ایسا نہیں کر پاتا توجب بھی وہ متعلقہ حکام کے پاس داد رسی کیلئے جائے گا تو ایسی صورت میں متعلقہ حکام کو یہ اختیار پہنچتا ہے کہ وہ اس رپورٹ پر کارروائی کرنے سے قبل اس مجبوری کو بھی زیر بحث لائیں کہ کیا واقعی اس کی مجبوری ایسی تھی کہ وہ فوری طور پر اپنے پر ہونے والی زیادتی کی اطلاع نہیں کر سکتا تھا۔

زنا بالجبر کی سزا

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جبری زنا اسلامی سزاؤں کی اصطلاح تعزیرات کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس لئے اس کی سزا بھی جرم کی نوعیت کے مطابق ہو گی۔ احادیث سے ثابت  ہوتاہے کہ حضورﷺنے زنا بالجبر کی صورت میں اس کا ارتکاب کرنے والے کو رجم یعنی سنگساری کی سزا دی۔

(سنن ابی داؤد کتاب الحدود بَاب فِي صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ)

اسلام میں سنگساری کی سزا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
غرض اس جگہ ہم نے آپ کو کافی جواب دے دیا ہے کہ قرآن شریف پر جبر کا اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ ہم جبر یہ کہلاتے ہیں۔ آپ کو اب تک مسلمانوں کے عقیدہ کی بھی کچھ خبر نہیں۔ یہ بھی آپ نہیں جانتے جس حالت میں اللہ تعالیٰ چور کے ہاتھ کاٹنے کیلئے اور زانی کے سنگسارکرنے کیلئے قرآن کریم میں صاف حکم فرماتا ہے تو پھر اگر جبری تعلیم ہوتی تو کونسا  سنگسار ہوسکتا تھا۔ قرآن شریف میں نہ ایک نہ دو بلکہ صدہا آیات انسان کے اختیارکی پائی جاتی ہیں۔ اگر آپ چاہیں گے تو کوئی مکمل فہرست پیش کر دی جائے۔

جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ252)

مسئلہ رجم کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
میرے نزدیک چونکہ سنگسار کا لفظ قطعیت کے ساتھ یہاں ملتا ہے اور چونکہ اس فساد میں صرف زنا نہیں بلکہ زنابالجبر شامل ہوسکتا ہے تو وہ زنا کی سزا نہیں ہوگی محض، بلکہ ایسا زنا جس سے ایک عورت پر ظالمانہ حملہ ہوا ہے اور اس کو ہمیشہ کیلئے مجروح کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یہ عام زنا نہیں ہے ۔ ایک معصوم بچی کے ساتھ ایسی حرکت کی جاتی ہے۔ تو قرآن کریم کی تعلیم اگر صرف عام زنا کی حد ان سب معاملات پر بھی لگاتی تو اس سے قرآن کریم کی تعلیم ایک قسم سے نامکمل ثابت ہوتی کہ موقعہ اور محل کے بغیر معمولی جرم کی بھی وہی سزا دی جارہی ہے اور نہایت بھیانک جرم کی بھی وہی سزا دی جارہی ہے۔ اس لئے وہ آیت ہے جس میں یہ سارے امکانات کھلے رکھ دیئے گئے ہیں او رسوسائٹی کو حق دیا گیا ہے کہ اگر تم جرم کی نوعیت عام جرموں سے بڑھ کر پاؤ اور نہایت خبیث قسم کے لوگوں سے واسطہ ہو تو وہاں تم یہ یہ سزائیں جاری کرسکتے ہو۔ اُس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ ایک زنا بالجبر بھی شامل ہے ۔ اس لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں یہ حوالہ دیا ہے وہاں چونکہ اس کے سوا حوالہ نہیں لازماً ہمیں اس کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا ورنہ قرآن کریم میں سورہ نور میں جو ذکر ہے اس میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

 (درس القرآن فرمودہ 24رمضان المبارک بمطابق 14 فروری  1996ء)

پھر حضور ؒ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موقف کی تائید میں آیت إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (سورۃ المائدہ: 34) کا ذکر کر کے اس  آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
 پس زنا کے ساتھ اس آیت کا ایک تعلق ایسا ہے جو آنحضرتﷺکے ایک فعل سے ثابت ہے۔ آپ نے ایک ایسے نوکر کو جس نے کسی آزاد عورت سے یہ حرکت کی تھی اُس کو نہ صرف سوکوڑے لگوائے بلکہ ایک سال کیلئے ملک بدر بھی کردیا۔ تو اس آیت میں فساد کے تابع جہاں معاملے زیادہ سنگین ہوجائیں ، جہاں ظلم عام حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے سنگین صورت اختیار کرچکے ہوں وہاں یہاں تک سزائیں دینے کا اختیار ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں نہ کسی کو صلیب دیا گیا، نہ کسی کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے گئے اور ملک بدر کرنے کا واقعہ البتہ ملتا ہے۔ اس لئے سنگسار والی بات بھی اگر ہے تو وہ میں نے بیان کیا ہے یا زنا کے ایسے تعلق میں ہے جہاں یہودی تھے اور یا ایسے تعلق میں ہے جہاں سورۃ  نور کے نزول سے پہلے کی بات ہے۔ پس یہ سنگسار کی آیت اُن کیسوں پر اطلا ق کرے گی جیسے مثلاً کسی زنا بالجبر کے کیس میں انتہائی ظالمانہ حرکت ہوتی ہے۔ اگر وہاں بھی عام سو کوڑے مارے جائیں اور باقیوں کو بھی تو یہ  بات کوئی انسانی فطرت کے مطابق نہیں ہے ۔ ایک معصوم بچی کو جس کی عمر ہی بڑی نہیں ہوئی نہایت ہی ظالمانہ طریق پہ اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،یہ روز مرہ یہاں ہورہا ہے۔  اور ساری عمر کیلئے اس بیچاری کو بیکار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتالوں میں بھی اُس کو بچانے کی جدو جہد بڑی محنت سے ہوتی ہے او رکہتے ہیں کہ شاید بچے ،شاید نہ بچے۔ اندر سے سارا نظام اُدھڑ کے تباہ ہوجاتا ہے۔ اس کو صرف سو کوڑے کی سزا دی جائے گی؟ جہاں فطرت انسانی بولتی ہے کہ ان بدبختوں کو شدید قسم کی سزائیں دینی لازم ہیں۔ وہاں یہ آیت کام آتی ہے اور یہاں سنگساری کا حکم آجاتا ہے۔

پس بالجبر کے اندر لے آئیں یا معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی سمجھی جائے۔ ہر ایسا موقعہ پر جہاں فطرت تقاضا کرتی ہے کہ سزا زیادہ سخت ہو وہاں  قرآن کریم کی یہ آیت اس فطرت کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ہاں موجود ہوں۔  اور یہ وہ آیت ہے  جس کی رو سے تم یہ یہ سزائیں بھی دینے کے مختار ہو مگر یہ شاذ کے طور پر ہوگا۔ اور شاذ ہونا اس بات سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺکی ساری زندگی میں ان میں سے بعض پر تو عمل ہوا ہی نہیں ناں! معلوم ہوتا ہے اُس سنگینی کے ساتھ وہاں کوئی جرم نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں رسول اللہﷺیہ فیصلہ صادر فرماتے۔  اور جہاں کسی حد تک ہوا وہاں ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی موجود ہے۔

(درس القرآن فرمودہ 24رمضان المبارک بمطابق 14 فروری  1996ء)

ایک سوال کے جواب میں اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا حضرت  امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے مکتوب مؤرخہ 15 اکتوبر 2018ء میں  فرماتے ہیں:۔
جو زنا باہمی رضامندی سے ہوا ہو اگر وہ اسلامی طریقۂ شہادت کے ساتھ ثابت ہو جائے تو فریقین کو سو کوڑوں کی سزا کا حکم ہے۔ لیکن جس زنا میں زبردستی کی جائے اور اس میں نہایت وحشیانہ مظالم کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ یا  کوئی زانی چھوٹے بچوں کو اپنے ظلموں کا نشانہ بناتے ہوئےاس گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوا ہو تو ایسے زانی کی سزا صرف سوکوڑے تو  نہیں ہو سکتی۔ ایسے زانی کو پھر قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت 34 اور سورۃ الاحزاب کی آیت 61 تا 63 میں بیان تعلیم کی رو سے قتل اور  سنگساری جیسی انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔لیکن اس سزا کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت وقت کودیا گیا ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ عمومی طور پر حکومت وقت کیلئے ایک راستہ کھول دیا گیا۔

چنانچہ انہیں آیات قرآنیہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی قسم کے زانی کیلئے سنگساری کی سزا کے قرآن کریم میں بیان ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔

(بنیادی مسائل کے جوابات نمبر07۔الفضل انٹرنیشنل جلد28، شمارہ07، مؤرخہ  22جنوری 2021ء صفحہ 12)

زنا بالجبر کے ثبوت کے طریق کار اور اس جرم کی سزا  نیز اس جرم  کا جھوٹا الزام لگانے والے کی سزا کے بارہ میں دنیاوی قوانین کے مقابلہ پر اسلامی قانون کی خوبی بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک  سوال کے جواب میں  فرماتے ہیں:۔
دنیا کے معاملات میں  یہ مشکل ہے  کیونکہ عالم الغیب تو کوئی نہیں ہے۔ اس لئے قطعی ثابت ہونا یانہ ہونا یہ دو چیز یں فیصلہ کن ہیں۔ اور اگر اس کی سزا نہ رکھی جائے تو دوسرے معصوموں کی زندگی اور عزت خطرہ میں ہے۔ یہ اس قانون کی بہت خطرناک غلطی ہے۔ سزا بہر حال رکھنی چاہئیے تھی۔ تحقیق مکمل ہونی چاہیے۔تحقیق کے بعد عاجز آجائیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں علم نہیں  لیکن یہ عورت الزام  ثابت کرنے سے بہر حال قاصر رہی ہے۔اس لئے کوئی قدغن لگنی چاہئیے۔ اور اس کی بریت اور اس کی ذلت کا جو جرمانہ ہے وہ اس پر ڈالنا چاہئیے۔

لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ اس سے جو واقعۃ  ًبیچاری مظلوم ہیں،  ان کے رستہ میں روک پیدا ہو گی۔ تو میرے خیال میں تو اس روک کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ آجکل جو Scientific ذرائع ہیں، ان کے ذریعہ گواہوں کی عدم موجودگی میں بھی یہ بات ثابت ہو سکتی ہے ۔ اور ریپ کے حالات میں تو عام ڈاکٹر بھی جو با قاعدہ Genetic نشانات کی تلاش نہ بھی کرنے والے ہوں، وہ بھی معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ ریپ کا کیس ہے یا بالا رادہ کسی کی بدکرداری  ہے۔ تو مجھے وجہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیوں مظلوم عورتیں اس وجہ سے پیچھے رہ جائیں گی کہ کوئی کسی کے اوپر جھوٹا الزام لگائے تو اس کو سز املتی ہے۔

 کم سے کم اس طریقہ کار سے مظلوم عورتوں کیلئے تو کوئی حوصلہ شکنی نہیں۔ مگر بعض عور تیں، مثلاً ابھی امریکہ کا کیس ہے۔ ٹائسن جو ایک مشہور باکسر تھا۔ اب شاید آجکل میں ہی وہ رِہا ہو رہا ہے۔ تو اس کے اوپر ایک عورت نے الزام لگایا کہ اس نے مجھ پہ  ریپ کیا ہے۔ اوراس کو تین سال قید بھی ہوئی اور بہت بڑا جرمانہ بھی ہوا۔ اب یہ جو چیز ہے یہ  دوسری طرف اوباش عورتوں کو بھی تو اس بات پر آمادہ کر سکتی ہے کہ وہ جب چاہیں لوگوں کو اپنے دام میں پھنسائیں۔ چاہے وہ پھنسے یانہ پھنسے۔ لیکن ایسے احتمالات ظاہر ہو جائیں کہ خطرہ ہو کہ وہ اس کا مجرم ہے۔ اور پھر اس کو جرمانے ، اس کی بے عزتی، یہ ساری چیز یں۔ یہ Tabloids ایسی چیزوں پہ ہی Publish پارہے ہیں۔

تو  ایسی سو سائٹی میں اگر اس کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ پھر ایسے کیس بھی یہ لے لیتے ہیں جس میں پرانے زمانے کے لمبے  ایک تعامل  کا دخل ہو تا ہے۔ یہ جو کیس ہے  اس میں یہ نہیں تھا کہ وہ کہتی ہے کہ ادھر اس پر کوئی ظلم ہوا اور اس نے فوراً جا کے میڈیکل پیشی کی اور پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور اسی وقت Examination ہوا۔  وہ کیس یہ ہے کہ وہ  پہلے کسی وقت وہاں ہوٹل میں  آیا جایا کرتی تھی تو اس کو وہاں اس نے بلایا۔  اور پھر خاموش رہی ہے۔

 اب ایسے کیس کو تو اسلام قبول نہیں کرے گا۔  کیونکہ اگر کرے گا تو پھر اس عورت کو بھی سزاملے گی۔ کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ شامل ہو ، شر یک ہو ۔ پھر اگر مرد انکار کر تا ہے تو مرد بچے گا، عورت نہیں بچے گی۔ سوائے اس کے کہ وہی چار گواہوں والی بات ثابت ہو ۔ تو اس لئے قرآن کریم نے معصوموں کی حفاظت پر زیادہ زور دیا ہے۔  مجرموں کے پکڑنے پر ایسا زور نہیں دیا جتنا معصوموں کی حفاظت پر زور دیا ہے ۔ مجرموں کو پکڑنے پر اس لئے بھی زور نہیں دیا کہ اللہ تعالیٰ  کے پاس سب نے پہنچنا ہے، اس کے ہاتھ سے کوئی نہیں نکل سکتا۔ لیکن قانون کی بھی روح  یہی ہے کہ اگر ایک معصوم کو بچانے کی خاطر چند مجرم چھوڑ نے بھی پڑیں تو معصوم کی حفاظت ضروری ہے۔ آجکل مغربی دنیا میں دن بہ دن معصوم کے مقابل پر مجرم کی حفاظت ہو رہی ہے۔  اور نام اس کا معصوم کی حفاظت رکھا جارہا ہے  کہ شاید یہ مجرم نہ ہو۔ یہ جو سوچ ہے یہ اتنا دوسری طرف الٹ چکی ہے کہ اب اس کے نتیجہ میں مجرم دلیر ہو گئے اور معصوم آدمیوں کی زندگیاں خطرہ میں پڑ گئیں۔ ان کی عزتیں خطرہ میں پڑ گئیں۔ تو قانون تو در اصل اللہ ہی بہتر بناسکتا ہے۔ لیکن یہ اتناتو کر سکتے ہیں کہ اس کی نقالی کر یں اور اس کی روح کو پیش نظر رکھ کر قوانین بنانے کی کو شش کریں۔

(مجلس سوال و جواب مؤرخہ 24 مارچ 1995ء)

الغرض قرآن کریم، سنت رسولﷺ، احادیث نبویہﷺ، بانی جماعت احمدیہ  حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام  کے ارشادات کی روشنی میں یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اسلام میں زنا  اورزنا بالجبر کو ثابت کرنے  کاطریق کار ،ان افعال بد کے ثابت ہونے پر مجرموں کو سزا دینے نیز قذف  یعنی جھوٹی تہمت لگانے پر سزا دینے کا بہترین اور واضح نظام موجود ہے۔ اسلام کا یہ نظام حدودو و تعزیرات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا بیان فرمودہ ہے جو ازلی اور ابدی حیثیت سے گزشتہ ساڑھے چودہ سو سال سے اپنے متبعین کیلئے رحمت و برکت، امن و آشتی، عدل و انصاف، عزت و احترم، اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کا ضامن ہے۔ ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فرستادوں نے اس پر  عمل کیا اور اپنے  اپنے دور  میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہونے والے علم و ہدایات کے ساتھ اس نظام کی تشریحات و تفاسیر بیان فرمائیں۔  اور اپنے اپنے وقت میں اس نظام کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ یہ ایسا نظام ہے جس کا دنیا کا ہر  قانون مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن اس الہٰی نظام سےحقیقی طور پر مستفید ہونے کیلئے اسلام کی دیگر تعلیمات کی طرح تقویٰ اللہ  کو اختیار کرنا اوّلین شرط ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں پر قائم فرمائے  اور ہمیں قرآن کریم کے احکامات، آنحضورﷺ کی سنت ، آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق کے ارشادات اور آپ کے ذریعہ قائم ہونے والی قدرت ثانیہ کے تمام مظاہر کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے تا ہماری دنیا و آخرت سنور جائے۔ آمین یا رب العالمین

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

باقی مسلمانوں کے پاس خلافت کی نعمت نہیں ہے