• 25 اپریل, 2024

مخالف مستشرقین کی نظر میں محمدؐ کا اعلیٰ کردار اور ان کا اقرار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
واشنگٹن اروِنگ (Washington Irving) اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ میں لکھتا ہے کہ:’’آپ کی جنگی فتوحات نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم کی مصنوعی شان و شوکت پیدا کی۔ اگران فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کر تیں۔ اپنی طاقت کے جوبن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی۔ یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرہ میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اسے ناپسند فرماتے۔‘‘

(The Life of Mahomet by Washington Irving, Leipzig Bernhard Touchritz 1850, pp.272-273)

پھر سر ولیم میور (Sir William Muir) یہ بھی ایک مستشرق ہے اور کافی کچھ خلاف بھی لکھتا ہے۔ یہ بھی لکھتا ہے کہ:
’’اپنا ہرایک کام مکمل کرتے اور جس کام کو بھی ہاتھ میں لیتے جب تک اس کو ختم نہ کر لیتے اُسے نہ چھوڑتے۔ معاشرتی میل جول میں بھی آپ کا یہی طریق رہتا۔ جب آپ کسی کے ساتھ بات کرنے کے لئے اپنا رُخ موڑتے تو آپ آدھا نہ مڑتے بلکہ پورا چہرہ اور پورا جسم اُس شخص کی طرف پھیر لیتے۔ کسی سے مصافحہ کرتے وقت آپ اپنا ہاتھ پہلے نہ کھینچتے۔ اسی طرح کسی اجنبی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے درمیان میں نہ چھوڑتے اور اگلے شخص کی بات پوری سنتے۔ آپ کی زندگی پر آپ کی خاندانی سادگی غالب تھی۔ آپ کو ہر کام خود کرنے کی عادت تھی۔ جب بھی آپ صدقہ دیتے تو سوالی کو اپنے ہاتھ سے دیتے۔ گھریلو کام کاج میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے …‘‘

پھر لکھتا ہے:’’آپ تک ہرکس و ناکس کی پہنچ ہوتی جیسے دریا کی پہنچ کنارے تک ہوتی ہے۔ باہر سے آئے ہوئے وفود کو عزت و احترام سے خوش آمدید کہتے۔ ان وفود کی آمد اور دیگر حکومتی معاملات کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔ سب سے زیادہ حیران کُن بات یہ ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔‘‘

(The Life of Mahomet by by William Muir, Vol. IV, London:Smith, Elder and Co., 65 Cornhill, 1861, pp.510-13)

پھر یہی ولیم میور لکھتا ہے کہ:’’ایک اہم خوبی وہ خوش خلقی اور وہ خیال تھا جو آپ اپنے معمولی سے معمولی پیروکار کا رکھا کرتے۔ حیا، شفقت، صبر، سخاوت، عاجزی آپ کے اخلاق کے نمایاں پہلو تھے اور ان کے باعث آپ اپنے ماحول میں ہر شخص کو اپنا گرویدہ کر لیتے۔ انکار کرنا آپ کو ناپسند تھا۔ اگر کسی سوالی کی فریاد پوری نہ کر پاتے تو خاموش رہنے کو ترجیح دیتے۔ کبھی یہ نہیں سنا کہ آپ نے کسی کی دعوت ردّ کی ہو خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کا پیش کیا ہو اتحفہ رد کر دیا ہو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ آپ کی ایک نرالی خوبی یہ تھی کہ آپ کی محفل میں موجود ہر شخص کو یہ خیال ہوتا کہ وہی اہم ترین مہمان ہے۔ اگر آپ کسی کو اپنی کامیابی پر خوش پاتے تو گرمجوشی سے اس سے مصافحہ کرتے اور گلے لگاتے اور محروموں اور تکلیف میں گھِرے افرادسے بڑی نرمی سے ہمدردی کا اظہار کرتے۔ بچوں سے بہت شفقت سے پیش آتے اور راہ کھیلتے بچوں کو سلام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ وہ قحط کے ایام میں بھی دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کرتے اور ہر ایک کی آسانی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہتے۔ ایک نرم اور مہربان طبیعت آپ کے تمام خواص میں نمایاں نظرآتی تھی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک وفادار دوست تھا۔ اس نے ابو بکر سے بھائی سے بڑھ کر محبت کی۔ علی سے پدرانہ شفقت کی۔ زید، جو آزاد کردہ غلام تھا، کو اس شفیق نبی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اس نے اپنے والد کے ساتھ جانے کی بجائے مکہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اپنے نگران کا دامن پکڑتے ہوئے اس نے کہا، ’میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا، آپ ہی میرے ماں اور باپ ہیں‘۔ دوستی کا یہ تعلق زید کی وفات تک رہا اور پھر زید کے بیٹے اسامہ سے بھی اس کے والد کی وجہ سے آپ نے ہمیشہ بہت مشفقانہ سلوک کیا۔ عثمان اور عمر بھی آپ سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے حدیبیہ کے مقام پر بیعتِ رضوان کے وقت اپنے محصور داماد کے دفاع کے لئے جان تک دینے کا جو عہد کیا وہ اسی سچی دوستی کی ایک مثال ہے۔ دیگر بہت سے مواقع ہیں جو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر متزلزل محبت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ کسی بھی موقع پر یہ محبت بے محل نہ تھی، بلکہ ہر واقعہ اسی گرمجوش محبت کا آئینہ دار ہے۔‘‘

(ایضاً صفحہ 305-307)
( خطبہ جمعہ 5؍ اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مڈغاسکر میں جلسہ ہائے یوم مصلح موعودؓ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2023