• 10 دسمبر, 2024

سب سے بڑی خیانت

مؤرخہ20؍دسمبر2022ء کا شمارہ الفضل ترتیب پا کر میرے لیپ ٹاپ میں بغرض اصلاح و پروف موجود تھا جس کے صفحہ نمبر ایک پر صد سالہ جشن تشکر لجنہ اماء اللہ کی مناسبت سے آیت قرآنی، حدیث، ارشاد حضرت مسیح موعودؑ اور فرمان خلیفہ کے حوالہ سے اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے بے مثل اصول موجود ہیں۔ آیت قرآنی میں ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ(البقرہ:188)اور اسی کی مناسبت سے حدیث، ارشاد حضرت مسیح موعودؑ اور ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک شخص اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الادب )

حدیث مبارکہ کے الفاظ ‘‘ سب سے بڑی خیانت ’’نے مجھے جکڑ لیا اور اس بات کا عہد لیے بغیر کہ ان الفاظ کو اپنے اداریے کا حصہ بناؤمجھے آگے بڑھنے سے روک لیا۔ خاکسار نے بزعم خود اس پر اس لیے حامی بھر لی کہ اوّل۔ اس کی آج کل بہت زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور دوم۔ رمضان بھی قریب ہے۔ میں نے رمضان کی اہمیت و برکات پر اداریے لکھنے بھی شروع کر دیے ہیں اور یہ مجوزہ تحریر، ضبط تحریر میں آنے کے بعد کمپوزنگ اور پروف کے مراحل سے گزر کر الفضل میں جگہ پاتے وقت ہم رمضان کو اھلاً و سھلاً کرنے کو تیار بیٹھے ہوں گے۔

خاکسار اپنے اس مضمون کو رمضان سے اس لیے جوڑ رہا ہے کہ محولہ بالا آیت کریمہ، سورۃ البقرہ کے اُس حصہ میں درج ہے جہاں اس کے سیاق و سباق میں رمضان کی فرضیت، اہمیت و برکات اور احکام کے حوالے سے آیات ہیں۔ ہُنَّ لِبَاسٌ والی آیت بظاہر اس مضمون سے لا تعلق معلوم ہوتی ہے لیکن اللہ کی حکمتوں، بھیدوں اور اس کے اسرار کو کون جان سکتا ہے۔ ایک حکمت تو اس میں یہ سمجھ آتی ہے کہ رمضان میں مومن مردوں اور عورتوں کے دل پسیجے ہوتے ہیں۔ احکام الٰہی کی تعمیل کے لیے ایک مومن اللہ کی رضا کی خاطر دوڑ رہا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں معاشرہ کو خوشگوار رکھنے والے یونٹس میں سے بنیادی یونٹ میاں بیوی کو پیار محبت سے رہنے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بدیوں، خامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ

(البقرہ:188)

ترجمہ:وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔

(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )

آئیں! اب ہم دیکھتے ہیں کہ لباس کس کام آتا ہے۔ لباس انسان کا عیب اور ننگ چھپاتا ہے۔ لہٰذا میاں بیوی ایک دوسرے کے عیبوں کا ذکر نہ کریں اور ستر پوشی سے کام لیں۔

دوم:لباس زینت کا باعث بنتا ہے۔ لہذا میاں بیوی کا آپس کا تعلق اور خوشگوار ماحول نہ صرف ایک دوسرے کے لیے خوبصورتی کا باعث ہو بلکہ دوسروں کو بھی بھلا محسوس ہو۔

سوم:لباس انسان کو سردی گرمی سے بچاتا ہے اور بدن کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہونا چاہیے اور طعن و تشنیع سے نہ صرف خود بچیں بلکہ دوسروں کے حملوں سے ایک دوسرے کو بچائیں۔

تفسیر کبیر میں زیر نظر آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’پس ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔ فرماتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ لباس کا کام دیں۔ یعنی (1) ایک دوسرے کے عیب چھپائیں۔ (2) ایک دوسرے کے لیے زینت کا موجب بنیں۔

(3) پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اُسی طرح مرد و عورت دکھ سُکھ کی گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ غرض جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے سردی گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے۔ اسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیے۔ حضرت خدیجہؓ کی مثال دیکھ لو۔ انہوں نے شادی کے معاً بعد کس طرح اپنا سارا مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دقّت پیش نہ آئے اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیتے جائیں۔ یہ اہلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کا کتنا شاندار نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا۔ ‘‘

( تفسیر کبیر جلد دوئم صفحہ411)

لفظ ’’لباس‘‘ ہی کی تشریح بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ آپؓ نے تحریر فرمایا:
’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ

(البقرہ:188)

یعنی عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تُم ان کے لیے لباس ہو۔ پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ عورت مرد کے لیے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کے لیے۔

مردو عورت دونوں کو ایک لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا۔ کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو۔ لیکن اس کا لباس گندہ ہو تو وہ گندہ ہی کہلاتا ہے۔ پس ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیے۔ اسی طرح لِتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا کا مفہوم پورا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لیے بطور رفیقِ سفر کے کام کرتے ہیں۔ ‘‘

( فضائل القرآن صفحہ 175-176)

سیدنا حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ لباس کے مفہوم میں بیان فرماتے ہیں:
’’ عورتیں تمہار الباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ جیسا کہ لباس میں سکون، آرام، گرمی سردی سے بچاؤ، زینت، قسما قسم کے دُکھ سے بچاؤ ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے۔ جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی، ایسا ہی مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کریں۔ اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں۔ اس کا نتیجہ رضائے الٰہی اور نیک اولاد ہے۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک چاہیے اور ان کے حقوق ادا کرنا چاہیے۔ اس زمانہ میں ایک بڑا عیب ہے کہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔‘‘

( خطبہ جمعہ 4؍ جون1909ء از خطبات نور صفحہ 400)

خاکسار نے یہ مضمون بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’لباس‘‘ میں بھی بیان کیا ہے۔ جس کا کچھ حصہ یہاں بیان کیا ہے۔ہم اکثر عدالتوں میں، قضا میں یا ایسے اصلاح احوال والے شعبوں اور محکموں میں میاں بیوی کے جھگڑوں کے حوالہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے عیوب کھول کھول کر جج یا قاضی کے سامنے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ جن کو سُن کر انسان تو شرماتے ہی ہیں۔ کمرہ عدالت بھی شرمندہ ہو رہا ہوتا ہے۔ میں لاہور میں مربی ضلع کے فرائض ادا کر رہا تھا کہ ایک دن اچانک جامعہ کے میرے ایک بزرگ استاد میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے۔ برخودار! آپ میرے خاندان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ میرا فلاں بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے۔ ہمارے خاندان میں طلاق کیا، لفظِ طلاق بھی بہت مکروہ جانا جاتا ہے۔ میرے بیٹے کو سمجھائیں کہ وہ طلاق دینے سے باز رہے۔

چونکہ ہمارا بچپن ایک ہی محلہ میں گزرا تھا۔ اس لیے میں ان کے بیٹے کو جانتا تھا اور ان کا بیٹا بھی مجھ سے شنا سائی رکھتا تھا۔ میں نے جب اس نوجوان کو بلا کر سمجھانے کی کوشش کی اور طلاق دینے کی وجہ پوچھی تو یہ نوجوان کچھ بتانے کو تیار نہ ہوا۔ دو تین بیٹھک میں مجھے اس حوالہ سے ناکامی ہوئی۔ جب نوجوان نے میری کسی بات کو وقعت نہ دی اور طلاق دینے پر مصر رہا تو میں نے اسے کہا کہ پھر تاخیر نہ کرو اور اپنے عقد سے فوراً فارغ کر دو۔ تو اس نے طلاق نامہ پر دستخط کرتے ہوئے بلکہ دستخط کر کے یہ سعادت مند نوجوان مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ

مربی صاحب! طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے قبل یہ خاتون میری بیوی اور میرا لباس تھی۔ اس لیے میں نے اپنے لباس کو آپ کے سامنے باتیں کر کے گندہ نہیں ہونے دیا اور اب یہ کسی اور کا لباس بننے جا رہی ہے میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی اور کے لباس کو بھی گندہ نہیں کروں گا اور آپ میرے منہ سے یا میرے عمل سے اس خاتون کے متعلق کوئی بات نہ سنیں گے۔

اس نوجوان کے اس عندیہ سے اندازہ ہوا کہ لڑائی جھگڑے کا اصل سبب اس خاتون کا کسی اور مرد کی طرف رجحان تھا جسے اس نوجوان نے چھپائے رکھا۔ یہ ہے وہ اسلامی نمونہ جسے اپنانے کی ضرورت ہے۔ میاں کو بیوی اور بیوی کو میاں کے متعلق معاشرے میں یا خاندان میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور لباس کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک دوسرے کے عیوب، کمزوریوں اور خامیوں کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں اس حوالہ سے عہدو پیمان پکے کرنے کی ہم سب کو توفیق دے اور ہر میاں بیوی کو اس قسم کی سب سے بڑی خیانت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقع پر فرمایا ہے کہ ’’ خائن اللہ تعالی کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے۔ فرماتا ہے ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ(البقرہ:188) یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ یعنی آپس کے تعلقات کی پردہ پوشی جو ہے وہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں ہی خداتعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔

پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدو ر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑکنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو۔ بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں۔ ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔

لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خد اکی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہو گی۔ جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا اور جب تقویٰ کے ساتھ میاں بیوی کا جو ایک دوسرے کا لباس ہیں اس کا بھی خیال رکھا جائے گا اور اسی طرح معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب پوشی کرنے کے لئے آپس کے تعلقات میں بھی کسی اونچ نیچ کی صورت میں تقویٰ کو مدنظر رکھا جائے گا۔

(خطبہ جمعہ 3؍ اپریل2009ء، الفضل آن لائن 20؍دسمبر2022ء)
( ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

مڈغاسکر میں جلسہ ہائے یوم مصلح موعودؓ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2023