• 6 مئی, 2024

حضرت مولوی خیرالدین بٹؓ

حضرت مولوی خیرالدین بٹؓ آف نارووال

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2012ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کے بارے میں سلسلہ وار خطبات ارشاد فرمائے۔جن میں حضور انور نے صحابہ کا اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ سے محبت،اخلاص و وفا،پاک باطنی،ایمانی غیرت،دلیری،شجاعت،حضرت مسیح موعودؑ سے شرفِ ملاقات، غیر معمولی محبت و اخوت،ابتلاؤں کا دور،صبر واستقامت،مشکلات و مصائب،تبلیغی واقعات بڑے تفصیل سے بیان فرمائے۔اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعتوں میں ایک سر کلر بھی بھیجوایا کہ اپنے بزرگوں کے ذکر کو اکٹھا کر کے بھیجوائیں اور موجودہ نسل کو اُ ن کے بارے میں بتائیں۔تو دل میں بڑی خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی اپنے آباء کے بارے میں کچھ معلومات جمع کرو ں اور اس بات کاعہداپنے دل سےکیا کہ میں خلیفہ وقت کی اس تحریک پر لبیک کروں گی۔

میرے داداجان کا نام حضرت مولوی خیرالدین صاحبؓ ولد عبدالصمد تھا۔ آپ کی قوم کشمیری بٹ تھی۔ آپ نارووال کے رہنے والے تھے۔ آپ دینی تعلیم ایک استادمکرم نور محمد صاحب سے حاصل کر رہے تھے تو 1902ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ظہورکا بتایا کہ امام مہدی آ گیا ہے۔اس پر آپ نے اس بارہ میں تحقیق و معلومات حاصل کیں تو دل ایمان لا کر مطمئن ہوگیا۔تو آپ نے تیرہ سال کی عمر میں پہلے بذریعہ خط بیعت کی اور پھر چند ماہ بعد ایک قافلہ قادیان جا رہا تھا ان کے ساتھ قادیان پیدل سفرکیا اور قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر شرفِ بیعت بھی حاصل کیا اور کچھ دن حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں گذارے۔آپ کو آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ سے بہت محبت تھی۔ آپ ایک نہایت پُر جوش داعی الیٰ اللہ تھے۔اکثر مباحثےاور مناظرےمیں شامل ہوتےاور دل میں احمدیت کی تبلیغ کا خاص ذوق و شوق تھا جو چھپے نہیں چھپ سکتا تھا جہاں مجلس لگتی آپ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر چھیڑ لیتے اور آپ کے آنے کا مقصد بیان کرتے۔طبیعت میں نیکی کی رغبت بہت نمایاں تھی۔صوم وصلوۃ کے پابند اور باقاعدہ تہجد گذارتھے۔

آ پ نے نو عمری میں شال بافی کا کام سیکھا جس کی پانچ روپے ماہوار آمدنی ملتی تھی۔ آپ درمیانے قد کے تھے اور آپ کی جسمانی بناوٹ میں پیدائشی طور پر ایک بازو قدرے چھوٹا تھا۔ رنگ صاف اور چہرہ چوڑا تھا۔ آپ مشکلات کے وقت دعا کرتے ہوئے اکثرحضرت مصلح موعودؓ کی نظم کا یہ شعر نہایت درد اور رقت بھرے انداز سے بار بار دوہرایا کرتے تھے۔

میں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں
چین دل آرامِ جاں پاؤں کہاں

آ پ کے بارے میں جو بچپن سے باتیں اور واقعات سنتےرہے کہ آپ مناظروں میں شامل ہوتے اور مناظرہ کرتے نیز نارووال میں 1933ء اور 1934ء میں جب بہت مخالفت بڑھ گئی۔یہاں تک کہ مخالفین گھروں کے قریب اکٹھے ہوکر گالیاں دیتے اور احمدیوں کے گھروں میں پتھر مارتے جس کی وجہ سے روز مرہ کی زندگی دو بھر ہوجاتی۔میری پھپھو جان مکرمہ وزیر بیگم صاحبہ بتاتی ہیں کہ جو پتھر ہمارے گھر گرے تو آپؓ نے وہ اکٹھے کر کے رکھ لئے اور کہا کرتے یہ حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کا ثبوت ہےکہ پہلے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔

آپ کے بارے میں تاریخِ احمدیت میں 1960ء میں وفات پانے والے بعض جلیل القدر اصحاب حضرت مسیح موعودؑ اور دیگر مخلصین ِ جماعت میں آ پ کا ذکرخیر یوں تحریر ہے:
حضرت مولوی خیر الدین صاحب آف نارووال۔

(ولادت اندازاً 1889ء بیعت 1903ء وفات 19؍مئی 1960ء بعمر 71 سال)

’’حد درجہ خلیق اور ملنسار اور تہجد گزار بزرگ تھے، دنیاوی اعتبار سے آپ کی تعلیم تیسری جماعت تک تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ روحانی نے آپ کے سینہ کو علم سے معمور کر دیا تھا۔ عموماً پنجابی میں تقریر فرماتے اور قّوت بیانی سے مجمع کو مسحور کر دیتے تھے۔تبلیغ کا شوق آ پ کی زندگی میں نمایاں نظر آتا تھا۔عمر بھر دعوت ِالی اللہ کے کام میں مصروف رہے اوربہت سی سعید روحوں کو آپ کے ذریعہ قبول ِ حق کی سعادت حاصل ہوئی آ پ جماعت احمدیہ کے آنریری مبلغ تھے اگر کہیں سُن پاتے کہ جماعت کا جلسہ ہورہا ہے تو اکثر اپنے خرچ پر یا پیدل سفر کر کے جلسہ میں شرکت کرتے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور آ پ کے خاندان سےدلی اُنس و محبت تھی۔ خدمت خلق سے خاص قلبی بشاشت محسوس کرتے تھے۔‘‘

(تاریخَ ِ احمدیت جلد 20 صفحہ790)

آپ اکثر مناظروں میں شامل ہوتے اور مدِ مقابل کو شکست دیتے ہوئے اسلام احمدیت کے روشن دلائل کے ذریعہ کامیاب ہوتے۔اس کے بارے میں اخبار الفضل قادیان 11؍ اکتوبر 1930ء کی اشاعت میں اس مناظرے کی روئداد یوں بیان ہے۔

روئداد مناظرہ نارووال

’’ 5ستمبر کو جماعت اہل حدیث سے مناظرہ قرار پایا۔ باوجودیکہ ہماری جماعت نہایت کمزور ہے۔ تاہم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرکے ہم نے خود ہی میدان میں اُترنا مناسب جانا۔خدا کا شکر ہے کہ مناظرہ نہایت ہی بخیرو خوبی کامیاب ہوا۔ہماری طرف سے مناظر مولوی عبداللہ صا حب امام مسجد اور مولوی خیر الدین صاحب سیکرٹری تبلیغ اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی غلام رسول اور مولوی عبدالرحیم اہل حدیث مقرر ہوئے۔یہ لوگ اپنی علمی لیاقت کا خاص طور پر گھمنڈ کرتے تھے اور عربی میں اعلیٰ مہارت رکھنے کے دعویدار تھے۔موضوع مناظرہ وفات مسیح ناصری اور صداقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مقرر ہوچکے تھے۔شرائط میں طے ہوچکا تھا۔کہ مناظرہ میں سوائے قرآن مجید کے اور کوئی کتاب پیش نہ کی جائے گی۔پہلے وقت میں وفات مسیح پر مولوی عبداللہ صاحب نے نہایت متانت سے مناظرہ کیا اور نہایت سنجیدگی سے قرآن مجید کی آ یات سے حضرت مسیح کی وفات ثابت کی دوسرے وقت میں مولوی خیر الدین صاحب نے صداقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر نہایت مفصل اوروضاحت سے بحث کی۔ لوگوں پر اس کا بہت ہی اثر ہوا۔ 6؍ ستمبر کو پھر جماعت اہل حدیث کی طرف سے چیلنج مناظرہ دیا گیا۔جو 5؍ستمبر کے مناظرے کی کامیابی کا ایک اعلیٰ ثبوت تھا۔ یہاں انکار ہی کیا تھا۔چیلنج منظور کر لیا گیا اور مناظرہ سابقہ مسائل اور شرائط پر 7اور 8؍ ستمبر کو قرار پایا۔

پہلے دن مولوی خیر الدین صاحب نے نہایت ہی اچھےپیرائے میں مناظرہ کیااور حریف کو ایسی شکست فاش دی کہ حریف نے اپنی کمزوری کو محسوس کرکے صرف و نحو کی آڑ میں چھپنا چاہا لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔

دوسرے دن صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ ہوا جس میں مولوی صاحب نے اس قدر مدلل دلائل سےمخالفین پر صداقت کے صاف صاف اور عام فہم ثبوت دیئے کہ اُن کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے اور وہ ان کا آخری وقت تک کوئی جواب نہ دے سکے۔الغرض دیگر مذاہب اور دیگر مسلمانوں نے باوجود اَشد ترین مخالف ہونے کے ہماری کامیابی کو تسلیم کیا۔ بعض مسلمان تو یہاں تک پکار اُٹھے کہ وہ ان مطالبات کا حل اپنے علماء سے کرائیں گے۔جو جماعت احمدیہ نے مناظرہ میں پیش کئے ہیں۔ میں مولوی تاج دین صاحب کا جنہوں نے بیمار ہونے کے باوجود مناظرہ کو کامیاب بنایا تہِ دل اور صمیم قلب سے مشکور ہوں خدا تعالیٰ آپ کو اجر عظیم بخشے اور کامل صحت بخشے ’’۔خاکسار نذیر احمد۔احمدی نارووال۔

( اخبار الفضل قادیان دارالامان 11؍ اکتوبر 1930ء صفحہ 16نمبر45 جلد18)

اس مناظرے کا حوالہ تاریخ َ احمدیت میں عنوان اندورنِ ملک مشہور مباحثات کے واقعہ 9نمبر میں بھی مختصر مناظرے کے بارے میں درج ہے۔’’ مباحثہ نارووال ضلع سیالکوٹ احمدی مناظر مولوی عبداللہ صاحب امام مسجد احمدیہ نارووال و مولوی خیرالدین صاحب سیکرٹری تبلیغ نارووال۔ غیر احمدی مولوی غلام رسول صاحب و عبدالرحیم صاحب‘‘(مناظر اہلحدیث) تاریخ مناظر 5۔7۔8؍ ستمبر 1930ء موضوع بحث حیات و وفات مسیح و صداقت مسیح موعود۔

( تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 244خلافت ثانیہ کا سترہواں سال)

1934ء اور 1935ء کے سالوں میں جب جماعتی مخالفت بہت زیادہ ہو گئی کہ احراریوں کی طرف سے احمدیوں پرحملے ہونے لگے۔تاریخِ احمدیت جلد 6 میں صفحہ نمبر 491 میں درج ہے بعنوان ’’ مصائب جھیلنے والی بعض جماعتوں اور افراد کا خصوصی تذکرہ‘‘ اس فہرست میں 8 نمبر میں لکھا ہے ’’ کہ نارووال (ضلع سیالکوٹ) میں احمدیوں کے گھروں پر سنگ باری کی گئی۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد 6 صفحہ 491)

1935ء میں جب حالات بہت خراب ہوگئے تو آ پ نے اس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ سے کیا کہ نارووال جو میرا گاؤں ہے اب یہاں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ 31؍مارچ 1935ء کی الفضل قادیان میں نارووال میں ایک احراری کی بدزبانی کے حوالے سےاس کا مختصر سا ذکر تحریر ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے ان مشکلات کے پیشِ نظر آپ کو نارووال سے بدوملہی کی طرف ہجرت کرنے کا مشورہ دیا۔پھر آپ بدوملہی آ گئے یہاں آ کر آپ نے دودھ،دہی،جلیبی اور برفی مٹھائی کی دوکان شروع کر لی۔ بدوملہی جس مکان میں رہائش اختیار کی۔وہ پہلے ایک ہندو کا کچا مکان تھا وہاں سے اکثر سانپ نکل آتے۔ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ آپ بڑی بہادری سے سانپ کو مار دیا کرتے تھے۔آپ اکثردوکان پر ایک ملازم اور اپنے بیٹے کو چھوڑ کرتبلیغ کے کاموں کے لئے نکل جاتے اور جہاں جلسہ یا تبلیغی پروگرام ہوتے وہاں بہت شوق سے شامل ہوتے۔میرے والد صلاح الدین بٹ صاحب اور پھپھو جان وزیر بیگم صاحبہ بتاتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب کبھی حضرت مصلح موعودؓ سے فیملی کاکوئی فرد ملتا تو تعارف میں کہتا کہ میں مولوی خیر الدین کا بیٹا یا بیٹی ہوں تو حضرت مصلح موعودؓ بڑی شفقت سے فرماتے‘‘ کہ نارووال والے مولوی خیر الدین کے’’ آپ بدوملہی کے صدر جماعت بھی رہے۔ آپ مزاح بھی کرلیا کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ مسجد کے پاس کھڑےتھے ایک غیر از جماعت شیخ صاحب جو شیعہ مسلک کے تھے آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے مولوی صاحب مرغ ذبح کروادیں جب تیاری ہو گئی تو آپ نے کہا کہ شیخ صاحب آپ خود کیوں نہیں ذبح کرلیتے اس پر شیخ صاحب کہنے لگے ہمیں تو خون دیکھ کر حضرت امام حسینؓ کا خون یاد آجاتا ہے۔اس پر آپ نے بر جستہ جواب دیا کیاآپ نے ہمیں یزید سمجھ رکھا ہے۔

آپ کاسلسلہ تبلیغ کے پروگرام بدوملہی میں بھی جاری رہے۔اس کے بارے میں روزنامہ قادیان الفضل دارالامان 5؍مارچ 1942ء کی اخبار میں صفحہ نمبر 5 پر ’’ بدوملہی میں اختلافی مسائل پر تقریریں اور غیر مبائعین سے کامیاب مناظرہ۔‘‘

’’اس رپورٹ میں آپ کا ذکر بھی ہے کہ آ پ جماعت کےقابل علماء کے ساتھ اس مناظرہ میں شامل ہوئے۔یہ مناظرہ اس لئے ہوا کہ مولوی غلام مصطفٰے صاحب مولوی فاضل اور دیگر احباب کی سعی ِبلیغ سے تھوڑے عرصہ میں چار غیر مبائع دوستوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرلی اس کامیابی پر لاہوری جماعت کے افراد نے 25؍ فروری بذریعہ منادی غیر مبائعین نےاعلان کیا کہ ختم نبوت پر تقریر کریں اور سوال جواب کے لئے وقت دیا جائے۔اس پر جماعتی وفد ان کے جلسہ میں شامل ہوئے تقریر ختم ہونے پر وقت کا مطالبہ کیا گیا مگر انہوں نے تنگدلی دکھائی۔ایک ہندو دوست نے اس پر کہا کہ ڈیڑھ گھنٹے کے مقابلہ میں کچھ وقت تو دیا جائے۔بڑی قیل وقال کے بعدفیصلہ ہوا کہ ڈیڑ ھ گھنٹہ ختم نبوت کے موضوع پر تبادلہ خیالات پبلک جلسہ ہوگا۔جس میں بتایا جائے گا کہ کونسا فریق حضرت مسیح موعودؑ کے مسلک کو ترک کر چکا ہے اور کون اسِ پر قائم ہے پھر جلسہ کی کاروائی مولوی محمدؐ صاحب فاضل دیا لگڑھی کی زیرِ صدارت کاروائی ہوئی۔تلاوت نظم کے بعد النبوۃ فی الاسلام کے موضوع پر خواجہ خورشیداحمد صاحب واقفِ زندگی نے تقریر کی۔ قرآن،احادیث، اقوال آئمہ سلف تحریرات حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ و اکابرین کے پیغام کی روشنی میں ثابت کیا۔ ان کے بعد مولوی خیرالدین نے نہایت دلچسپ پیرایہ میں بتایا کہ ان لوگوں نے سابقہ عقائد سے کیوں اِنحراف کیا ہے۔ پھر مولوی غلام مصطفٰے صاحب نے امیر غیر مبائعین کی تفسیر قرآن اور حضرت مسیح موعودؑ کے موضوع پر تقریر کی اور متعدد مثالیں دے کر بتایا۔۔۔ اس کے بعد نورالدین صاحب نے خلافت اور انجمن کے موضوع پر تقریر کی اور متعدد مثالیں دے کر بتایا۔۔۔ایک معزز لاہوری دوست چوہدری غلام حیدر صاحب ریئس بدوملہی تشریف لائے تھے۔۔۔ان کے کہنے پر مناظرہ قرار پایا۔ جو مضمونوں پر مشتمل تھا۔ایک پیش گوئی مصلح موعود۔ دوسرا ختم نبوت۔ مناظرہ 27؍ فروری کو شروع ہوا۔۔۔مناظرہ مولوی غلام مصطفٰے صاحب اور صدر مولوی احمد علی صاحب اور فریق مخالف کی طرف سے مناظر مولوی احمد یار صاحب اور صدر ہیڈ ماسٹر صاحب ہائی سکول بدوملہی تھے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ہر دو مضمونوں میں ہمیں شاندار کامیابی عطا فرمائی۔۔۔ اسِ مناظرہ میں مولوی خیرالدین صاحب نے دس روپے انعام رکھے اور نورالدین صاحب ایک سو روپیہ جناب حکیم عبدالحکیم صاحب کے پاس انعام بطور امانت رکھا جو حکیم صاحب نے 24 گھنٹہ کے انتظار کے بعد واپس کردیئے۔( یہ انعام اس لئے رکھا گیا کہ غیر مبائعین کا مقصد جو حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق تحقیر کرنا تھا اسِ لئے جیتنے والے فریق کے لئے بطور انعام رکھے تھے)حاضرین میں سے سمجھدار طبقہ نے مناظرہ کی کامیابی پر مبارک باد دی۔‘‘

( روزنامہ الفضل قادیان دارلامان 5؍ مارچ 1942ء صفحہ نمبر 5 )

آ پ کی صحت بوجہ شوگر بڑی عمر میں کمزور ہو گئی تھی۔ اکثر کہتے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری وفات

گھر سے باہر ہوگی۔19؍ مئی 1960ءکے دن آپ گھر کاسودا سلف لا کر نماز کے لئے مسجد چلے گئے وہاں آپ کی وفات مسجد میں عصر کی نماز کے دوران ہوئی۔ میری پھپھو جان وزیر بیگم بیان کرتی ہے کہ جس دن والد صاحب کی وفات ہوئی۔ وہ اس وقت بحرین میں اپنی فیملی ساتھ مقیم تھی۔ 19؍ مئی کے دن اخبار الفضل ان کے گھر آیا اس کا مطالعہ کرتے ہوئے انہوں نے کسی کے والد کی وفات کا ذکر پڑھ کر کہتی ہیں کہ مجھے اپنے والد صاحب یاد آگئے میرا دل بھر گیا اور میں زارو قطار رونے لگی۔ اس کے ایک ہفتہ بعد خط موصول ہو ا کہ آپ کی وفات ہوگئی ہے۔ دادی اماں کا بھی ذکر کرتی چلوں آپ کا نام بیگم بی بی تھا آ پ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ابتدائی دورِ خلافت میں بیعت کی۔ داداجان اپنی فیملی میں اکیلے احمدی تھے۔آ پ نے اپنے کسی بچے کی شادی فیملی میں نہیں کی مبادا اولاد کو مشکلات نہ درپیش ہوں۔

آپ کی وفات پر واقف ِزندگی مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب سیالکوٹی جو تبلیغی پروگرام میں آپ کے ساتھ ہوتے تھے انہوں نے روزنامہ الفضل ربوہ میں آپ کا ذکرِ خیر تحریر کیا۔جو تایا جی مکرم رفیع الدین بٹ نے مجھے بھیجا تھا۔ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
‘‘ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی اور سلسلہ حقہ احمدیہ کے مخلص خادم قوم مولوی خیر الدین صاحب آف نارووال حال بدوملہی ضلع سیالکوٹ 19؍ مئی بروز جمعرات بحالت نماز حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے 71سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون حضرت مولوی خیر الدین صاحبؓ پابند و صوم صلوۃ تھے اور حد درجہ خلیق اور ملنسار بزرگ تھے جب بھی ملاقات کا اتفاق ہوتا تو آپ ہمیشہ خندہ پیشانی اور دلی مسرّت کے ساتھ ملتے۔ جب کوئی ایمان افروز واقعہ عرض کیا جاتا تو خوشی سے آپ کا چہرہ چمک اٹھتا باوجود اس کے کہ آپ کسی علمی درس گاہ سے تعلیم حاصل کئے ہوئے نہیں تھے تاہم آپ کافی دینی معلومات رکھتے تھے گفتگو کچھ اس انداز سے فرماتے تھے کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔تقریر کرنے کا خاص ملکہ تھا۔آپؓ عمر بھر اصلاح و ارشاد کے کام میں مصروف رہے اور بہت سی سعید روحوں کو آپؓ کےکے ذریعہ قبول حق کی سعادت حاصل ہوئی۔حضرت مولوی صاحب مرحومؓ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ دینی کاموں میں صرف کیا آپؓ جماعت کے آنریری مربی تھے اگر کہیں سن پاتے کہ فلاں مقام پر جماعت کا کوئی جلسہ منقعد ہورہا ہے۔تو اکثر اپنے خرچ پر یا پیدل سفر کر کے جلسہ میں شرکت کرتے۔ سیالکوٹ زور بعض دیگر اضلاع کی جماعتوں کے اکثر احباب مرحومؓ کو بخوبی جانتے تھے اور آپؓ کے اوصاف کے نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے بھی معترف تھے۔غرض دینی اغراض کے لئے آپ کی زندگی وقف تھی۔ میں نے متعددبار دیکھا کہ مولوی صاحبؓ جب بھی کبھی حضرت مسیح موعودؑ یا حضور کے کسی صحابیؓ کا ذکر فرماتے تو آپؓ کی آنکھیں پُر نم ہوتیں ایسا معلوم ہوتا جیسے کوئی عاشق صادق اپنے معشوق کے اوصاف بیان کرتے وقت ایک خاص لذت اور خوشی محسوس کرتا ہے۔حضرت مولوی صاحبؓ کو صحابہؓ اور حضورؑ کی مبشر اولاد اور خاندان مسیح موعودؑ سے دلی اُنس ومحبت تھی۔ایں زمانہ میں جبکہ دین کی محبت سرد پڑ گئی تھی اور نخِل ایمان خشک پڑ گیا تھا اور اللہ والوں سے دنیا خالی نظر آتی تھی خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرما کر پھر سے دین کے والہ وشیدا انسان پیدا کر دیئے اور قدرت ِ خدا وندی نے شجرِ اسلام کے ساتھ ایسے روحانی اور شیریں پھل لگا دیئے کہ جنہیں دیکھ کر ایک جمان از سرِ نو نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر گامزن ہوگیا۔ یہ روحانی پھل حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ ہی تو ہیں۔مولوی خیر الدین صاحبؓ کا وجود بھی ایسے ہی بزرگ لوگوں میں شامل تھے۔ احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحبؓ مرحوم کی روح کو اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے اور مرحوم کے لواحقین اور عزیزوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

( روزنامہ الفضل ربوہ 23؍ جون 1960ء صفحہ 4)

آپ کی ساری اولاد اب خدا تعالیٰ کے حضور ہوچکی ہے۔ اولاد کے نام یہ ہیں:

  1. بیٹی۔ مکرمہ غلام فاطمہ مرحومہ اہلیہ خواجہ ہدایت اللہ صاحب مرحوم۔
  2. بیٹے۔ مکرم فضل الدین بٹ صاحب مرحوم۔ وفات 2004ء
  3. بیٹی۔ مکرمہ مختار بی بی مرحومہ اہلیہ بشیر احمد بٹ صاحب مرحوم۔ وفات 2001ء
  4. بیٹے۔ مکرم رفیع الدین بٹ صاحب مرحوم۔ وفات 6؍ دسمبر 2020ء میں ہوئی۔ ان کی وفات کا ذکر خیر 22؍جنوری 2021ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے یوں بیان فرمایا ‘‘ اگلا ذکر رفیع الدین بٹ صاحب کا ہے۔ یہ چھ دسمبر کو بانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

آپ حضرت مولوی خیر دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے جوانی میں نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔ مختلف مقامات پر جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ بدوملہی ضلع نارووال کے صدر جماعت اور امیر حلقہ بھی رہے۔ واہ کینٹ جماعت کے صدر بھی رہے۔ اسیر راہ مولیٰ ہونے کا بھی ان کو اعزاز ملا۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں اور ان کے ایک دامادنسیم احمد صاحب نائیجیریا میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان تمام مرحومین کے درجات بلند کرے اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے۔ آمین ‘‘

5. بیٹی۔مکرمہ وزیر بیگم مر حومہ اہلیہ نیاز احمد صاحب مرحوم۔ وفات 13؍ اپریل 2021ء
6. بیٹے۔ مکرم مصباح الدین بٹ صاحب مرحوم۔
7. بیٹے۔مکرم صلاح الدین بٹ صاحب مرحوم۔ 13؍ اگست 2010ء
8. بیٹی۔ مکرمہ رضیہ بٹ مرحومہ۔ 6 اکتوبر 2019ء
9. بیٹی۔ مکرمہ رفعیہ شاہین مرحومہ اہلیہ شیخ اعجاز احمد صاحب۔ وفات 2000ء

دعا ہے خدا تعالیٰ آ پ کی دو بہوؤں اور ایک داماد کا سایہء تا دیر بچوں پر سلامت رکھے۔ آمین

خدا تعالیٰ کے فضل سے آ پ کے پوتے،پوتیاں، نواسے، نواسیاں یورپ کے ممالک جرمنی، فرانس، برطانیہ اور پاکستان میں مقیم ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب خلافت اور جماعت سے منسلک ہیں۔ اس وقت آپ کے ایک نواسے مکرم فہیم احمد نیاز امیر جماعت فرانس ہیں اور آپ کی ایک پوتی مکرمہ فرحت فہیم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ فرانس ہیں یہ محض خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کی ساری نسل کو ہمیشہ خلافت اور جماعت کے ساتھ وابستہ رکھے نیز جماعت کے فدائی خدمت گزار بنائے۔آمین

(نصرت قدسیہ وسیم۔ فرانس)

پچھلا پڑھیں

مڈغاسکر میں جلسہ ہائے یوم مصلح موعودؓ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2023