• 26 اپریل, 2024

سورۃ الفاتحہ کا تعارف

(یہ مکی سورۃ ہے، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی سات آیات ہیں)

مکرم وقار بھٹی نے ترجمۃالقرآن انگریزی از ملک غلام فرید میں درج سورتوں کے تعارف کا اردو ترجمہ قارئین روزنامہ الفضل لندن آن لائن کے لئے بطور مائدہ تیار کرنے کا عزم کیا ہے۔ آج اس کا آغاز سورۃ فاتحہ سے کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قارئین کے لئے استفادہ کا باعث بنائے اور موصوف کو یہ کام مکمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(ایڈیٹر)

بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی اور ابتداء سے ہی یہ مسلمانوں کی نماز کا لازمی جزو رہی ہے۔ اس سورۃ کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ حجر کی آیت نمبر 88 میں یوں فرمایا ہے کہ

وَلَقَدْ اٰتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ

(الحجر:88)

ترجمہ: اور ىقىناً ہم نے تجھے سات بار بار دہرائى جانے والى (آىات) اور قرآنِ عظىم عطا کئے ہىں۔

اس سورۃ کے مکی ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بعض روایات کے مطابق یہ سورۃ مدینہ میں دوسری مرتبہ پھر نازل ہوئی تھی۔ اس سورۃ کے نزول کا وقت ِ آغاز نبوت کہ ابتداء میں ہی ہے ۔

سورۃ الفاتحہ کے اسماء اور ان کی اہمیت

اس مختصر سورۃ کا معروف نام فاتحۃ الکتاب ہے یعنی اس کتاب (قرآن) کی پہلی سورۃ ااور یہ نام احادیث کی سقہ کتب میں درج ہے جن میں ترمذی اور مسلم شامل ہیں۔ بعدازاں اس نام کو مختصر کر کے سورۃ الفاتحہ یا الفاتحہ کر دیا گیا۔ اس سورۃ کے دیگر کئی اسماء ہیں جن میں سے درج ذیل دس نام مستند ترین ہیں جیسے الفاتحہ، الصلوٰۃ، الحَمد، ام القرآن، القراٰن العظیم، السبع المثانی، ام الکتاب، الشفاء، الرقیہ اور الکنز۔ یہ اسماء اس سورۃ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے روشن دلیل ہیں ۔

  • فاتحۃ الکتاب نام یعنی قرآن کی ابتدائی سورۃ سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی یہ ابتدائی سورۃ پورے قرآن کے مضامین کو کھولنے کے لئے کنجی کا کردار ادا کرتی ہے ۔
  • الصلوٰۃ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ سورۃ ایک مکمل اور کامل دعا ہے۔ اسلامی نماز کی ادائیگی کا لازمی جزو ہے (جیسےکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ یعنی نماز کی کوئی رکعت بغیر سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے مکمل نہیں ہوتی)۔
  • الحمد نام یعنی تعریف اس امر کو اجاگر کرتا ہے کہ یہ سورۃ تخلیق انسان کے بلند پایا مقصدر کو پورا کرتی ہے اور یہ بھی کہ یہ سورۃ خدا اور انسان کے باہمی رشتہ پر روشنی ڈالتی ہے جو نہایت پر شوکت اور خدا کے رحم پر مبنی ہے۔
  • ام القراٰن یعنی قرآن کی ماں سے مراد یہ ہے کہ یہ سورۃ پورے قرآن کے مضامین کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ان مضامین کا خلاصہ ہے جو انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کی ضامن ہیں۔
  • القرآن العظیم یعنی عظیم قرآن نام رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ اگرچہ اس سورۃ کو ام الکتاب اور ام القرآن جیسے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے تاہم یہ اس مقدس کتاب کا ہی حصہ ہے اور اس سے الگ ہرگز نہ ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں۔
  • السبع المثانی یعنی سات بار بار دہرائی جانے والی آیات نام رکھنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سات آیات پر مبنی مختصر سورۃ انسان کی جملہ روحانی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ یہ نام اس امر کی طر ف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس سورۃ کی سات آیات کو نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے۔
  • ام الکتاب یعنی کتاب کی ماں نام رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ اس سورۃ میں مذکور دعا (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ) دراصل قرآنی تعلیمات کے نزول کا بنیادی مقصد تھا یعنی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دینا۔
  • الشفاء یعنی بیماری کی شفا نام میں یہ اشارہ کرنا مقصد ہے کہ یہ سورۃ تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں کے لئے شفاء ہے۔
  • الرُّقیہ یعنی دَم کے طور پر پھونکی جانے والی، اس نام سے مراد ہے کہ اس سورۃ میں صرف بیماریوں کے لئے شفاء ہی نہیں بلکہ شیطان اور اس کے چیلوں کے خلاف حفاظت کرتی ہے۔انسان کے دل کو اِن کے خلاف تقویت بخشتی ہے۔
  • الکنز سے مراد یہ ہے کہ یہ سورۃ ایک خزانہ ہے اور خدائے واحد و یگانہ کے لا متناہی علم کا مخزن ہے ۔

سورۃ الفاتحہ کا ذکر نئے عہد نامہ کی ایک پیشگوئی میں

اِس سورۃ کا معروف ترین نام الفاتحہ ہی ہے۔ یہ ایک لطیف نقطہ ہے کہ نئے عہد نامہ کے ایک پیشگوئی میں یہی درج ہے۔ ’’پھر میں نے ایک اور زور آور فرشتہ کو بادل اوڑھے ہوئےآسمان سے اترتے دیکھا…اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سے کھلی ہوئی کتاب تھی۔ اُس نے اپنا داہنا پاؤں تو سمندر پر رکھا اور بایاں خشکی پر۔ اور ایسی بڑی آواز سے چلایا جیسے ببر دھاڑتا ہے اور جب و ہ چِلایا تو گرج کی سات آوازیں سنائی دیں۔‘‘

(مکاشفہ باب 10 آیت 1 تا 4)

یہاں عبرانی کا جو لفظ فتوح ہے وہی عربی میں فاتحہ استعمال ہوا ہے ۔ پھر یہاں جو فرشتے کے چلانے سے گرج کی سات آوازیں آنے کا ذکر ہے یہ سات آوازیں اس سورۃ کی سات آیات ہیں۔

عیسائی پادریوں کا خیال ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے متعلق ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد (آپ پر سلامتی ہو) جن کے وجود میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے آپ نے اس سورۃ کی تفاسیرتحریر فرمائی ہیں اور اس سورۃ سے اپنے دعویٰ کے دلائل مہیا فرمائے ہیں۔ اور اسکو ہمیشہ ایک مجرب دعا کے طور پر استعمال فرمایا ہے ۔آپؑ نے اس کی سات آیات سے ایسے الہٰی معارف اور ابدی حقائق بیان فرمائے ہیں جو پہلے کسی نے بیان نہیں کئے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ایک سربمہر کتاب تھی یہاں تک کہ حضرت احمدؑ نے اس کے خزائن کھول کر پیش فرمادئے ۔اور یوں مکاشفہ میں مذکور پیشگوئی جو باب 10 آیت 4 میں ہے کہ “جب گرج کی ساتوں آوازیں سنائی دے چکیں تو میں نے لکھنے کا ارادہ کیا اور آسمان پر سے یہ آواز آتی سنی کہ جو باتیں گرج کی ان سات آوازوں سے سنی ہیں ان کو پوشیدہ رکھ اور تحریر نہ کر” پوری ہوئی۔یہ پیشگوئی اس حقیقت پر منتج ہوئی کہ فتوح یا الفاتحہ ایک عرصہ تک ایک بند کتاب کی صورت میں رہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ اس کے خزائن اور روحانی علم ظاہر کر دیا جائے گا۔یہ (خدمت )حضرت احمد ؑ نے انجام دی۔

سورۃ الفاتحہ کا پورے قرآن سے تعلق

یہ سورۃ پورے قرآن کے لئے ایک تعارف کی حیثیت رکھتی ہے ۔درحقیقت یہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے ۔اس لئے آغاز میں ہی اس سورۃ کے پڑھنے سے قاری قرآن کریم میں مذکورہ مضامین سے متعارف ہو جاتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورۃ الفاتحہ قرآن کریم کی اہم ترین سورۃ ہے۔

سورۃ الفاتحہ میں مذکور مضامین

سورۃ الفاتحہ میں جملہ مضامین قرآ ن کا نچوڑ پایا جاتا ہے۔ یہ سورۃ اُن مضامین کا احاطہ کئے ہوئے ہے جن کی تفصیل پورے قرآن تک ممتد ہے۔ اس سورۃ کا آغاز خداتعالیٰ کی اُن بنیادی صفات سے ہوتا ہے جن کے گرد باقی صفات گردش کرتی ہیں اور تخلیق ِ کائنات اور انسان اور خدا کے تعلق کی بحث اُٹھائی گئی ہے۔ چار بنیادی صفات باری تعالیٰ جن میں ربّ (خالق ،پالنے والااور پرورش کرنے والا) رحمٰن (بےانتہا رحم کرنے والا) رحیم (بار بار رحم کرنے والا) اور مالک یوم الدین (جزاسزا کے دن کا مالک) کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کے بعد خداتعالیٰ نے انسان کو بہترین صلاحیتوں سے نوازا اور اس کی جسمانی، معاشرتی، اخلاقی اور روحانی ترقیات کے ذرائع مہیا فرمائے مزید یہ کہ خدا تعالی نے انسان کی محنت اور تگ و دو کو بھرپور نوازنے کے لئے ذرائع بھی مہیا فرمائے ۔

اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہےکہ انسان کو کو عبادت کی غرض سے پیدا کیا گیا ہے ہے یعنی خدائے واحد و یگانہ کی عبادت اور اس کی قربت کے حصول اور یہ بھی کہ انسان مستقل خدا تعالیٰ کی مدد کا طلبگاررہے تاکہ اس عظیم مقصد عبادت کوحاصل کر سکے خدا تعالی کی چار صفات کے ذکر کےبعد ایک ایسی جامع دعا رکھی گئی ہے جس میں انسانی روح کی جملہ ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس دعا میں سکھایا گیا ہے کہ انسان کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا طلبگار رہنا چاہیے کہ وہ ایسے ذرائع مہیا فرمادے جو اس دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کریں مگر جیسا کہ انسان کی فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ اپنے سے پہلے نیک لوگوں کی مثالوں سے تقویت حاصل کرتا اورمتاثر ہوتا ہے جو یہ عظیم مقصد عبادت حاصل کر چکے ہیں۔اس کوسکھایا گیا ہے کہ یوں دعا کرے کہ ان سابقہ نیک لوگوں کی طرح خدا تعالی اس کے لیے بھی لامتناہی اخلاقی و روحانی ترقیات کے دروازے کھول دے۔ آخر پر اس دعا میں ایک تنبیہ بھی ہے کہ سیدھے راستے کی ہدایت ملنے پر بھی وہ بھٹک سکتا ہے، اپنے مقصد سے دور جا سکتا ہے اور خالق سے دور ہو سکتا ہے اس لیے اس کو بھی سکھایا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ان سیدھے راستے سے بھٹکانے والی باتوں سے خدا تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا رہے ۔یہ وہ مضامین ہے جن کو سورۃ الفاتحہ میں کوزہ میں بندکیا گیا ہے اور یہی وہ مقاصد ہیں جن کی تفصیل پورے قرآن میں پھیلا دی گئی ہے اور کئی طرح کی مثالوں سے ان امور کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مومنوں کو کو حکم دیا گیا ہےکہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے پہلے خدا تعالی کی پناہ (تعوذ) طلب کر لیا کریں جیسا کہ سورۃ النحل کی آیت 99 میں فرماتا ہے کہ جب تو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ ۔اب یہاں پناہ مانگنے سے مرادہے کہ

  1. ہم پر کوئی برائی اثرانداز نہ ہو
  2. کوئی نیکی یا اچھائی ہم سے رہ نہ جائے
  3. نیکی کی راہ پر چلنے کے بعد پھر ہم دوبارہ برائی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

جو الفاظ (تعوذ) تلاوت قرآن کریم سےپہلے پڑھے جاتے ہیں وہ یوں ہیں میں اللہ تعالی کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود کے شر سے۔ اور یہ الفاظ ہر بار تلاوت کرنے سے پہلے پڑھنا ضروری ہیں ۔

قرآن کریم کی 114 سورتیں ہیں۔ اس لفظ (سورۃ) کے کئی معانی ہیں جیسے

  1. بلند مرتبہ
  2. نشانی
  3. ایک بلند و بالا عمارت
  4. مکمل اور جامع چیز

مندرجہ بالا معانی کے روح سےقرآن کریم کی سورۃ سے مراد ہے کہ اس کو پڑھنے سےقاری کے مرتبہ اور مقام میں اضافہ ہوتا ہے، یہ قرآن کریم کے کسی بھی مضمون کے آغازاور اختتام کے لیے بطور نشان کے ہے، ہر سورۃ ایک نہایت بلند وبالا روحانی عمارت کےمترادف ہے، ہر صورت اپنی ذات میں ایک مکمل اور جامع مضمون بیان کرتی ہے۔

سورۃ کا لفظ بھی مضامین کی اس ظاہری تقسیم کو بیان کرنے کے لیے خود قرآن کریم نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 24 اور سورۃ نور کی آیت نمبر 2 میں استعمال فرمایا ہے۔ سورۃ کا لفظ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ایک سورۃ کے نازل ہونے پر فرمایا ’’ابھی ایک سورۃ نازل ہوئی ہے ہے وہ یوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (مسلم) اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مضامین کی اس ظاہری تقسیم کے لیے سورۃ کا لفظ ابتدائے اسلام سے مستعمل ہے اور بدعت نہ ہے۔

(وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیّین ماننا ایمان کا جزو ہے