ایک ایسی آسمانی کتاب جس کا مقام و مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے جس کی شان نرالی ہے، جس کا کلام یکتا اور بے مثال ہے، جس کی نظیر ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، جس میں کوئی شک نہیں ہے، جو ہر قسم کی کمی و بیشی سے پاک ہے،جو فصیح اور بلیغ ہے اور اپنی فصاحت اور سلاست میں بے مثال ہے اور جو اپنی اعلیٰ تعلیمات میں ایسی کامل ہے جیسے آفتاب اور اس کی روشنی جہاں پھیلے سب اندھیروں اور تاریکیوں کو رفع کردیتی ہے۔ یقیناً ایسی کتاب قرآن کریم ہی ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ خصوصیت بھی قرآن کریم کو ہی حاصل ہے کہ خدائے واحد نے اس کے بارے میں خود اعلان فرمادیا کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ کہ یقینًا ہم نے ہی اس کتاب کو ،اس کلام کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی مکمل حفاظت کریں گے۔ایسا اعلان پچھلے صحیفوں کے متعلق کہیں نہیں ملتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج پرانے صحیفے انسانی دست درازی کا شکار ہوچکے ہیں اور ان میں خالص توحید کی تعلیم نہیں رہی ۔انسانی کلام کی ملاوٹ سے وہ صحیفے اب درست حالت میں نہیں رہے اسی لئے قابل عمل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو کامل کہا جاسکتا ہے ان کی حفاظت پر مامور کوئی محافظ بھی نظرنہیں آتا۔ اسی کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
؎ پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے نوشتہ نیا یہی ہے
جب لوگ ایک کامل کتاب کے منتظر ہوگئے اور انسانی دماغ اور سوچ نے ترقی کی وہ منازل طے کرلیں جن کو دور حاضر میں شعوراور ادراک کی اعلیٰ منازل کہا جاسکتا ہے تو اس نے تقاضا کیا کہ تعلیم جس پر عمل کیا جائے وہ بھی مکمل اور کامل اور اعلیٰ درجہ کی ہو سو اسی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے خاتم الکتب یعنی قرآن کریم کو نازل فرمایا۔
؎ شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہی ہے
اور واقعی قرآن کریم جیسی عظیم نعمت کو پاکر ہمیں بےحد شکر بجالانا چاہئے کہ ایسی پاک کتاب ہمیں عطا ہوئی جو تازہ گلاب کی طرح مہکتی ہے اور جس کی تعلیم کی خوشبو دل و دماغ کو معطر کردیتی ہے جیسے کوئی تازہ گلاب نظر اور دل کو تازگی عطا کرتا ہے اسی جیسی مشابہت پر حضرت مسیح موعودؑ نے سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان فرمائی جو کمال صفائی اور حسن اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ صحیفے ایک بند غنچے کی طرح تھے جس میں تعلیمات اور انسانی ضروریات اور احساسات اور جذبات کو واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا تھا اور قرآن اس پھول کی طرح ہے جو مکمل جوبن پر ہو جس کی تمام پتیاں کھل چکی ہوں اور ہر ایک چیز واضح نظر آتی ہو۔
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے
اس کتاب کی مزید خوبی یہ ہے کہ صرف اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ثواب نہیں ملتا بلکہ اس کے حروف بھی انسانی مراتب اور نیکیوں میں ترقی کا موجب ہوجاتے ہیں جیسے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ قرآن کے ہر حرف کے پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی اور دس گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یعنی یہ کلام ایسا ہے کہ اس کا حرف حرف گویا سیپ کے موتیوں کی مانند ہے جو اپنے اندر بے حد خوبصورتی رکھتے ہیں مگر تلاش کرنے والے اور غوروخوض کرنے والے کو ہی وہ دکھائی دیتی ہے ۔
؎ دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ہدیٰ یہی ہے
دیگر کتب سماویہ کا مطالعہ کرنے والے اس بات کے شاہد ہیں اگر وہ تعصب کی عینک اتاردیں تو وہ اس بات کو بیان کئے بغیر نہ رہ پائیں گے کہ قرآن ہی ایسی کتاب ہے جو باقی سب آسمانی اور مقدس کتابوں میں ممتاز ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں ۔باقی کتابیں انسان کو منزل تک پہنچانہیں پاتیں مگر قرآن نہ صرف صراط مستقیم پر چلاتا ہے بلکہ منزل مقصود تک بھی لے جاتا ہے اور نہ صرف جہان فانی میں خیرو بھلائی کی راہیں بتلاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی بھلائی کے راستے اور روشن منازل دکھاتا ہے اور نہ صرف ذہن میں ابھرنے والے وساوس کا جواب دیتا ہے بلکہ دل و دماغ میں اٹھنے والے باریک خیالات کا بھی شافی جواب دیتا ہے اور تمام شکوک جو ایک فلاسفر یا ایک سائنسدان کے دماغ میں آسکتے ہیں ان دلائل کا قلع قمع پہلے ہی کردیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوقرآن کریم سے محبت وعشق دیوانگی کی حد تک تھا۔قرآن کریم کی جامعیت پر دیگرمذاہب کےعلماءکو چیلنج دیا۔ ان کی کتب پرقرآن شریف کی فضیلت و برتری ثابت فرمائی۔نیزایک جگہ فرمایا کہ
’’میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت و فصاحت کا نشان دیاگیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کرسکے۔‘‘
(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 496)
الغرض قرآن کریم سے استدلال و استخراج میں آپ علیہ السلام اور خلفائے کرام کو ید طولی حاصل رہا ہے۔
؎ دل میں یہی ہے ہر دم تیراصحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
بلاشبہ جو انسان قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کو دل میں بسا لے گا،جو اس کی تعلیمات پر شرح صدر سے عمل پیر اہوجائے گا،جو اس کے بتائے ہوئے راستوں پر گامزن ہوجائے گا اس کے شب و روز ضرور روشن ہوجائیں گے۔ اس کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھل جائیں گی کیونکہ جہاں روشنی آجائے وہاں تاریکی ٹھہر نہیں سکتی ۔تب اس کی فہم و فراست مومنانہ ہوجائے گی اس کی سوچ مدبرانہ ہوجائے گی ،اس کی نظر عمیق ہوجائے گی،اس کی فکر دقیق ہوجائے گی،اس کی ذات اصل ہوجائے گی وہ سطحی سوچ اور خواہشات سے آزاد ہوجائے گا اور لوگوں میں سے بہتر اور بہترین ہوجائے گا اسی لئے ہمارے آقا محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا ہے کہ خَیۡرُکُمۡ مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡآنَ وَ عَلَّمَہُ کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ رسول کریم ﷺ ہم سب سے افضل اسی لئے تھے کیونکہ ان کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے جیسے حضرت عائشہؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول کریم ؐ کے اخلاق کے بارے میں کچھ بتائیں تو آپ نے جواب دیا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اور فرمایا کہ کَانَ خُلُقُہُ القُرۡآن۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’تم قرٓن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تمہاری فتح ہوگی‘‘ تو یہ اسی لئے فرمایا کیونکہ قرآن میں تمام سوالات کے جواب موجود ہیں صداقت اسلام اور احمدیت کے تمام دلائل موجود ہیں، خدا کی ہستی اور رسالت کی سچائی کے سب ثبوت پائے جاتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ قرآن کریم کے حافظ تھے اور ساری زندگی قرآن کریم کو سیکھا اور اس کا درس بھی ہمیشہ جاری رکھا ۔حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم سکھایا گیا اور اس قدر علم دیا گیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ کوئی بھی عالم کسی بھی مذہب کا مجھ سے سوال کرے تو اس کا جواب میں قرآن سے دے سکتا ہوں اور قرآن علوم واقعی آپؓ سے پھوٹتے تھے جس کا کچھ اندازہ تفسیر کبیر جیسی عظیم کتاب سے کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح تمام خلفاء ہردور میں قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے کا مشن مکمل کرتے رہے اور اسی کی پاک تعلیم کے لئے مصروف عمل رہے پس آج ہمارا بھی یہی فرض ہے کہ اس عظیم کتاب کی قدر کریں اور اس یکتا کلام کو سمجھنے اور سیکھنے کی طرف توجہ دیں اور اپنی نسلوں میں اس کی اہمیت اور مقام کو اجاگر کریں تا ہماری نسلیں بھی ہدایت پاسکیں۔
رسول کریمؐ نے فرمایا۔قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو قیامت کے دن قرآن اپنے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کےلئے شفیع بن کر کھڑا ہوجائے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھنا بھی عبادت ہے…قرآن شریف کو عمدہ طور پر اورخوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے۔ مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے۔ اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر ے۔ یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کومدنظر نہ رکھا جاوے، اِس پر پورا غور نہ کیا جاوے،قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ285)
انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے ۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ519)
تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیتِ رحمت پر گزر ہو تو وہاں خداتعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خداتعالیٰ کے عذاب سے خداتعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبّر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 157)
قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتا یا ہے۔ اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے۔ اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو۔ اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔
(ملفوظات جلد پنجم ص102)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’تلاوت کا حق کیا ہے؟ تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب قرآن کریم پڑھیں تو جو اوامرونواہی ہیں ان پر غور کریں۔ جن کے کرنے کا حکم ہے ان کو کیا جائے،جن سے رُکنے کا حکم ہے ان سے رُکا جائے… یہ قرآن کریم ہی ہے جو ہدایت کا راستہ دکھانے والی کتاب ہے جس نے اب دنیا میں ہدایت قائم کرنی ہے۔ پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ ثابت کیا، ان کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ وہ مومن ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا کیا اور یہی ایمان لانے والے کہلائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پس حقیقی مومن وہ ہیں جو تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور حقیقی مومن وہ ہیں جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ لہذاتلاوت کا حق وہی اداکرنے والے ہیں جو نیک اعمال کرنے والے ہیں۔ پس اس زمانے میں یہ مسلمانوں کے لئے اِنذار بھی ہے کہ اگر تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو اور وہ عمل نہیں جن کا کتاب میں حکم ہے تو ایمان کامل نہیں… پس یہ ذمہ داری ہے ہر احمدی کی کہ وہ اپنے جائزے لے کہ کس حد تک ان احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دئیے ہیں…قرآن کریم کی تلاوت کا حق مومنین کے نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لئے اپنے اعمال کی حفاظت کرتے رہنا یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ایک مسلمان پر ڈالی گئی ہے۔ اور نہ صرف ہرمسلمان پر اپنی ذات کے بارے میں یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس انعام اور اس کے بڑے اجر سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ یہ نہ ہو کہ صرف اس بات پر فخر رہے کہ ہمیں وہ کتاب دی گئی ہے جس کا مقام سب پہلی شریعتوں سے اعلیٰ ہے بلکہ یہ فکر رہے کہ اس کی تعلیم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے اوپر لاگو کرکے اس کے انعامات کے مستحق خود بھی ٹھہریں اور اپنی نسلوں میں کوشش کرکے اسی تعلیم اور حق تلاوت کو راسخ کرنے کی کوشش کریں……… قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اصل چیز ہے اور جب تک ہم اس پر قائم رہیں گے ہدایت کے راستے نہ صرف خود پاتے رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دکھاتے رہیں گے… قرآن کریم کے تمام احکامات کی پیروی کی کوشش ہی ہے جو ہمیں نجات کی راہیں دکھانے والی ہے… پس ہر احمدی کی آج ذمہ داری ہے کہ اس عظیم صحیفہ الٰہی کی، اس قرآن کریم کی تلاوت کا حق اداکریں۔ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور دنیا کو بھی بچائیں……… آج جب اسلام دشمن طاقتیں ہرقسم کے ہتھکنڈے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تُلی ہوئی ہیں، بیہودگی کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے تو ہمارا کام پہلے سے بڑھ کر اس الٰہی کلام کو پڑھنا ہے، اس کو سمجھنا ہے، اس پر غور کرنا ہے، فکر کرنا، تدبر کرنا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اس کلام کے اتارنے والے خداکے آگے جھکنا ہے تاکہ ان برکات کے حامل بنیں جو اس کلام میں پوشیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔آمین‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 07مارچ 2008ء)
(انجم احمد)