• 19 مئی, 2024

آج کل کے معاشرے میں انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس (نفس کے) جہاد کی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ دشمنی کرنے والوں کا، زندگی کے فیشن سے دور جا پڑنے والوں کا انجام ہے کہ جب اگلے جہان میں جا کر ان پر حقیقت واضح ہو گی تو پھر کہیں گے کہ ہماری بدبختی ہمیں گھیر کر یہاں تک لے آئی ہے۔ پس اے اللہ! ہمیں ایک دفعہ لوٹا دے۔ ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو ظلم کرنے والے ہوں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ میرا قانون نہیں ہے۔ اب اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ میرے سامنے سے دور ہو جاؤ اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے۔ اسی میں داخل ہو جاؤ۔ اب میں تمہاری کوئی بات، کوئی چیخ و پکار نہیں سنوں گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو چیخ و پکار یا باتیں سننی تھیں وہ اس دنیا میں اُن کی سنتا ہے جو نیکوں کا عمل ہے، نہ کہ ان لوگوں کی جو یہاں ظلم کرنے کے بعد اگلے جہان میں جا کے (چیخ و پکار) کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ ایسے لوگوں سے سلوک کا ذکر فرمایا ہے جو اُس کے فرستادوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ خدا جو ہر وقت اپنے بندے کی معافی مانگنے کے انتظار میں ہے وہ اب انکار کر دے گا کہ اب وقت گزر گیا۔ جب تم یہاں آ گئے تو یہاں اعمال کی جزا ملنی ہے۔ جو اعمال تم اُس دنیا میں کر آئے ہو، جو حرکتیں تم اُس دنیا میں میرے بندوں کے دل چھلنی کر کے کر آئے ہو، میرے آگے جھکنے والے اور میرے دین کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے جو سلوک تم نے روا رکھا، جس طرح وہ میرے کام کو آگے بڑھانا چاہتے تھے تم نے اُن کے کام میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی، نہ صرف دوسروں کو اُن کی باتیں سننے سے روکا بلکہ اُن پر ظلم کی بھی انتہا کی۔ میرے نام کا کلمہ پڑھنے والوں کو تم نے ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بنایا بلکہ اُن کے خون سے بھی کھیلتے رہے۔ پس اب معافی کس چیز کی؟ آج تمہاری کوئی بات نہیں سنی جائے گی۔ جاؤ اور اپنے ٹھکانے جہنم میں جا کر رہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج یقینا میرے وہ بندے جو میرے حکم کے مطابق، میرے وعدے کے مطابق آنے والے فرستادے پر ایمان لائے، وہی اس قابل ہیں کہ اُن پر میں رحم کروں، اُن کی باتیں سنوں، اُن کو اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دوں۔ دنیا میں اُن پر کئے گئے ظلموں کی جزا اُن پر پیار کی نظر ڈال کردوں۔ اس دنیا میں اُن کی جزا کئی گنا بڑھا کر دوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے وہ لوگو! جو میرے بندوں پر ظلم کرتے رہے، ان پر ظلموں اور ان پر تمسخر نے تمہیں اس حد تک اندھا کر دیا کہ تم میری ذات سے بھی غافل ہو گئے۔ میرے اس حکم کو بھول گئے کہ عمداً مومنوں کی دل آزاری کرنا اور اُن کا قتل کرنا تمہیں جہنم کی آگ میں لے جائے گا۔ تو اپنے اس عہد کو بھول گئے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرو گے۔ تم نے یہ عہد کیا ہے لیکن تم بھول گئے۔ پس جب تم خدا تعالیٰ کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہو، اُس کی یاد سے غافل ہو گئے ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے لگ گئے ہو تو میرا اب تمہارے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ تم نے مظلوموں کی جائیدادوں کو لوٹا، اُنہیں آگیں لگائیں، اُن کی جائیدادوں پر قبضے کئے۔ اُن کے کاروباروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اگر مشترکہ کاروبار تھے تو اُن کے پیسے کھا گئے۔ غرض جرموں کی ایک لمبی فہرست ہے جو تم کرتے رہے۔ پس اب یہ جہنم کی سزا ہی تمہارا مقدّر ہے۔ یہ قرآنِ کریم کہہ رہا ہے۔ کسی قسم کی نرمی اور معافی کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرو اور پھر ایمان لانے والوں اور رحم اور بخشش مانگنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یقینا آج تمہارے صبر اور استقلال اور ایمان میں مضبوطی اور میرے سے تعلق کی وجہ سے، میرے آگے جھکنے کی وجہ سے، میرا عبد بننے کی وجہ سے تم اُن لوگوں میں شمار کئے جاتے ہو جو کامیاب لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے مورد بننے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کا رحم اور بخشش حاصل کرنے والے ہیں۔ پس ان آیات (سورۃ المؤمنون: 107تا 112) کی رو سے یہ مومن اور غیر مومن کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اُس کا رحم اور بخشش حاصل کرنے والے ہیں۔ ہماری ہر قسم کی کوتاہیوں اور کمیوں کی پردہ پوشی فرمائے اور استقلال کے ساتھ دعا ؤں کی طرف ہماری توجہ رہے اور ’’فَآئِزُوۡنَ‘‘ میں ہمارا شمار ہو۔

(خطبہ جمعہ 15؍مارچ 2013ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک اور موقع پر احباب جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اپنی عبادتوں اور قربانیوں کو اس نہج پر کرنے والے بن جائیں۔ ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور زیادتیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعا ئیں کرنے والے ہوں۔ اپنی نسلوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ اور اُس کی عبادت کی محبت پیدا کرنے والے ہوں۔ اور یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے اپنے دلوں میں یہ محبت ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ کبرو نخوت کو چھوڑنے والے ہوں۔ نمازوں میں سستیوں کو دور کرنے والے ہوں۔ ہر وہ نماز جو ہمارے لئے ادا کرنی مشکل نظر آتی ہے، اُس کے لئے خاص کوشش کر کے ادا کرنے والے ہوں۔ اگر ہمارے اندر باجماعت نمازیں ادا کرنے میں سستی ہے تو نماز باجماعت ادا کرنے کی طرف توجہ دینے والے بن جائیں۔ یہ ہمارے لئے قربانیاں ہیں۔ جو ماں باپ کا حق ادا کرنے والے نہیں، وہ اُن کے حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ جو بہنوں بھائیوں اور عزیزوں کے حقوق ادا کرنے والے نہیں، وہ حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔ ہمسائے کو خدا تعالیٰ نے بڑا مقام دیا ہے، ہمسایوں کے حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ یہ کوشش ہر احمدی کی ہونی چاہئے کہ ہمسایوں سے ہر احمدی کا سلوک اُس کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا گرویدہ بنانے والا بن جائے۔ غرضیکہ ہم ہر نیکی کو ادا کرنے و الے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نیکیاں کرنے والے ہوں گے تو تب ہی ہم حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرنے والے بن سکتے ہیں کہ اے اللہ ہماری توبہ قبول کر اور ہم پر رحم کر۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کے رحم کے طلبگار بنتے ہیں تو دوسروں پر بھی ہمیں پھر رحم کی نظر ڈالنی ہو گی۔ یہ نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتے رہیں اور اپنے دائرے میں رحم کرنے والے نہ ہوں۔ پس مسجد کے ساتھ اگر ایک مومن حقیقی رنگ میں منسلک ہوتا ہے تو نیکیوں کے نئے سے نئے دروازے اُس پر کھلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے نئے سے نئے اظہار اُس سے ہوتے ہیں۔ پس آج ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ عطا کردہ مسجد ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے اور یہ اظہار ہم سے ہوں۔ اس مسجد کو یہاں کے رہنے والوں نے خود بھی آباد رکھنا ہے اور اپنے بچوں کے ذریعہ سے بھی آباد کروانا ہے، اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے آباد کروانا ہے۔ ان شاء اللہ۔ صرف مسجد میں آنا مقصدنہیں ہے بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضل جو مساجد کے ساتھ وابستہ ہیں، ہم اُنہیں حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول کرنے والا اور ہماری غلطیوں کو معاف کرنے والا ہو۔

ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرؓ ۃسے یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے۔ صحابہ نے جب عرض کیا کہ جی، فرمائیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ جی نہ چاہتے ہوئے بھی کامل وضو کرنا، اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جانا۔ نیز ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہ رباط ہے، رباط ہے، رباط ہے۔ یعنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، سرحدوں پر گھوڑے باندھنا ہے۔ یہ جہاد ہے تمہارے لئے۔

(سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب الامر باسباغ الوضوء)

پس ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کی بھی ضرورت ہے اور اس مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا جو مقصد ہے، یہ بھی ایک جہاد ہے۔ اس کی طرف بھی ہم نے توجہ دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں گے تو اُس کے فضل کو حاصل کرنے والے ہم بنیں گے۔ اور اس جہادمیں حصہ لینے والے ہوں گے جو نفس کا بھی جہاد ہے اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا بھی جہاد ہے۔ آج کل کے معاشرے میں انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس جہاد کی ہے۔ یہی جہاد ہے جو ہمیں معاشرے کی برائیوں سے بچا کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر کرنے والا بنائے گا۔ خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے گا۔ اور یہی جہاد ہے جو ہمیں اور ہماری نسلوں کو دنیا کی غلاظتوں سے پاک اور صاف رکھنے والا بنائے گا۔

(خطبہ جمعہ 29؍مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

ایک درستگی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2022