• 3 مئی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 12)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
(قسط 12)

حقیقت دعا اور انکار تاثیر دعا کی اصل وجہ

… دنیا میں کوئی کامیابی اور راحت ایسی نہیں ہے جس کے ابتدا اور اول میں کوئی رنج اور مشکل نہ ہو۔ ہمت کو نہ ہارنے والے مستقل مزاج فائدہ اٹھالیتے ہیں اور کچے اورناواقف راستہ میں ہی تھک کر رہ جاتے ہیں۔ پنجابی میں کسی نے کہا ہے

ایہو ہیگی کیمیا جے دن تھوڑے ہو

پس جب خدا پر سچا ایمان ہو کہ وہ میری دعا ؤں کو سننے والا ہے تو یہ ایمان مشکلات میں بھی ایک لذیذ ایمان ہوجاتا ہے اور غم میں ایک اعلیٰ یا قوتی کاکام دیتا ہے۔ ہموم و غموم کے وقت اگر انسان کو کوئی پناہ نہ ہو تو دل کمزور ہوجاتا ہے اور آخر وہ مایوس ہوکر ہلاک ہوجاتا اور خودکشی کرنے پر آمادہ ہوتا بلکہ بہت سے ایسے بدقسمت یورپ کے ملکوں میں خصوصًا پائے جاتے ہیں۔ جو ذرا سی نامرادی پر گولی کھا کر مر جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خودکشی کرنا خود ان کے مذہب کی موت اورکمزوری کی دلیل ہے۔ اگر اس میں کوئی قوت اور طاقت ہوتی تو اپنے ماننے والوں کو ایسی یاس اور نامرادی کی حالت میں نہ چھوڑتا۔ لیکن اگر خداتعالیٰ پر اسے ایمان ہے اور اس قادر کریم ہستی پر یقین رکھتا ہے کہ وہ دعا ئیں سنتا ہے تو اس کے دل میں ایک طاقت آتی ہے۔

یہ دعا ئیں حقیقت میں بہت قابل قدر ہوتی ہیں اور دعاؤں والا آخر کار کامیاب ہوجاتا ہے ہاں یہ نادانی اور سوء ادب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ لڑنا چاہے۔ مثلاً یہ دعا کرے کہ رات کے پہلے حصہ میں سورج نکل آوے۔ اس قسم کی دعا ئیں گستاخی میں داخل ہوتی ہیں۔ وہ شخص نقصان اٹھاتا ہے اور ناکام رہتا ہے جو گھبرانے والا اور قبل از وقت چاہنے والا ہو مثلاً اگر بیاہ کے دس دن بعد مرد و عورت یہ خواہش کریں کہ اب بچہ پیدا ہو جا وے تو یہ کیسی حماقت ہوگی۔ اس وقت تو اسقاط کے خون اور چھچھڑوں سے بھی بے نصیب رہے گی۔ اسی طرح جو سبزہ کو نمو نہیں دیتا وہ دانہ پڑنے کی نوبت ہی آنے نہیں دیتا۔

میں نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ ایک بار اور شرح و بسط کے ساتھ دعا کے مضمون پر ایک رسالہ لکھوں۔ مسلمان دعا سے بالکل ناواقف ہیں۔ اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو بدقسمتی سے ایسا موقعہ ملا کہ دعا کریں مگر انہوں نے صبر اور استقلال سے چونکہ کام نہ لیا اس لئے نامراد رہ کر سید احمد خانی مذہب اختیار کرلیا کہ دعا کوئی چیز نہیں۔یہ دھوکا اور غلطی اسی لئے لگتی ہےکہ وہ حقیقت دعا سے ناواقف محض ہوتے ہیں اور اس کے اثر سے بے خبر اور اپنی خیالی امیدوں کو پورا نہ ہوتے دیکھ کہ کہہ اٹھتے ہیں کہ دعا کوئی چیز نہیں۔ اور اس سے برگشتہ ہوجاتے ہیں۔

دعا ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے۔ اگر دعا ؤں کا اثر نہ ہوتا تو پھر اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

(الحکم جلد6نمبر45صفحہ 1-3 پرچہ17؍دسمبر 1902)

ہستی باری تعالیٰ کی زبردست دلیل قبولیت دعا ہے

اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے۔ کہ محوو اثبات اس کے ہاتھ میں ہے۔ یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَیُثۡبِتُ (الرعد: 40)

دیکھو اجرام سماوی کتنے بڑے اور عظیم الشان نظر آتے ہیں اور ان کی عظمت کو دیکھ کر ہی بعض نادان ان کی پرستش کی طرف جھک پڑے ہیں اور انہوں نے ان میں صفات الٰہیہ کو مان لیا۔ جیسے ہندو یا اور دوسرے بت پرست یا آتش پرست وغیرہ جو سورج کی پوجا کرتے ہیں اور اس کو اپنا معبود سمجھتے ہیں کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج اپنے اختیار سے چڑھتا ہے یا چھپتا ہے؟ ہرگز نہیں اور اگر وہ کہیں بھی تو وہ اس کا کیا ثبوت دے سکتے ہیں۔ وہ ذرا سورج کے سامنے یہ دعا تو کریں کہ ایک دن وہ نہ چڑھے یا دوپہر کو مثلاً چھپ جاوے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کوئی اختیار اور ارادہ بھی رکھتا ہے۔ اس کا ٹھیک وقت پر طلوع اور غروب تو صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس کا اپنا ذاتی کوئی اختیار اور ارادہ نہیں ہے۔

ارادہ کا مالک تب ہی معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہو اور کرنے والے امر کو کرے اور نہ کرنے والے کو نہ کرے۔

غرض اگر قبولیت دعا نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر بہت سے شکوک پیدا ہوسکتے تھے اور ہوئے اور حقیقت میں جو لوگ قبولیت دعا کے قائل نہیں ہیں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہستی کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو دعا اور اس کی قبولیت پر ایمان نہیں لاتا۔ وہ جہنم میں جائے گا۔ وہ خدا ہی کا قائل نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شناخت کا یہی طریق ہے کہ اس وقت تک دعا کرتا رہے جب تک خدا اس کے دل میں یقین نہ بھردے اور اناالحق کی آواز اس کو نہ آجاوے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 203-205)

جماعت کو نصائح

قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامیدنہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (البقرہ: 21) خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعا ئیں کرلو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرھتے تھے۔ البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو۔ اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے نماز ہرگز ضائع نہیں ہوتی۔ آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔ نماز تو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہوسکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے، اسے کیا فائدہ؟ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعا ئیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعا ئیں کرنی ہوں نماز میں کیا کرو۔ اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 257-258)

قبول ہونے والی دعا کا راز

دعا جب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کیلئے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دعا سکھاتا ہے اور الہامی طورپر اس کا پیرایہ بتادیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔ فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ (البقرہ: 38) اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونیوالی دعا ئیں خود الہاماً سکھا دیتا ہے۔

بعض اوقات ایسی دعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے۔جس کو دعا کرنے والا ناپسند کرتا ہے مگر وہ قبول ہوجاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہے۔ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ (البقرہ: 217)

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 221 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ایک درستگی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2022