• 4 مئی, 2024

ہر عمل، چاہے وہ نیک عمل ہو، عملِ صالح نہیں بن جاتا

ہر عمل، چاہے وہ نیک عمل ہو، عملِ صالح نہیں بن جاتا
جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ عملِ صالح نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
قویٰ کی کمی ہوتی ہے۔ اس لئے انسان بعض دفعہ اپنوں سے بھی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً دنیا میں آجکل انتخابات ہو رہے ہیں۔ مجھے بعض شکایات آتی ہیں کہ ہم نے فلاں کو ووٹ دیا یا فلاں عہدیدار نے پوچھا کہ تم نے فلاں کو کیوں اپنی رائے دی، اُس کو ووٹ کیوں دیا؟ اب جماعتی انتخابات تو ایسے ہیں کہ ہر ایک آزاد ہے، کسی کو پوچھنے کا حق نہیں۔ اگر کسی نے سچائی سے اپنے خیال میں کسی کو بہتر سمجھتے ہوئے ووٹ دیا تو کسی عہدیدار کا حق نہیں بنتا کہ جا کے اُسے پوچھا جائے کہ تم نے کیوں فلاں کو دیا، فلاں کو کیوں دیا؟ یہی اگر انسان میں کمزوری ہو، اپنی بعض غلطیاں ہوں تو ایک دفعہ یہ سچائی کا اظہار ہو جائے تو اگلی دفعہ پھر سچائی کا اظہار نہیں کرتا، کہیں میری غلطیاں اور کمزوریاں نہ پکڑی جائیں۔ یا تقویٰ کی کمی ہو، جیسے بعض لوگ اظہار کر دیتے ہیں کہ ہمیں فکر ہے کہ یہ عہدیدار پھر ہمارے خلاف اپنے دلوں میں رنجشیں نہ رکھیں۔ یہ تقویٰ کی کمی ہے، سچائی کی کمی ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر حق سمجھتے ہوئے کسی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو پھر سچائی یہی ہے، تقویٰ یہی ہے کہ بے فکر رہے۔ ہاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی چل رہی ہوتی ہے اور ایسی رنجشیں رکھنے والوں کو خود بھی اللہ تعالیٰ بعض دفعہ پکڑتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ جماعتی نظام کوئی ایسا ہے جس میں جس کا جو دل چاہے، کرتا چلا جائے۔ کہیں نہ کہیں کسی پکڑ میں انسان آ جاتا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اگرچہ عام نظر میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے بھی قائل ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں۔ بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی۔ اور دوسری طرف اُن اعمالِ صالحہ کے مخالف کام کرنا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال، اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں کیو نکہ ان میں اخلاص اور روحانیت کا شمّہ بھی نہیں ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان اعمالِ صالحہ کے برکات اور انوار ساتھ نہیں ہیں۔ خوب یادرکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہو گا اور یہ اعمال کام نہ آئیں گے۔ اعمال صالحہ اُسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ صلاح کی ضد فساد ہے۔ صالح وہ ہے جو فساد سے مبرّا منزہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ499 ایڈیشن 2003ء)

اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جواب طلبیاں شروع ہو جائیں، لوگوں کو خوفزدہ کیا جانے لگے تو یہ بھی فساد کے زُمرہ میں آتا ہے۔ پس یہ انسان کو ہر وقت اپنے مدّنظر رکھنا چاہئے، اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اعمالِ صالحہ انہوں نے بجا لانے ہیں۔ اور اعمالِ صالحہ یا اپنے اعمال کی اصلاح اُس وقت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے متقیوں کی یہ نشانی رکھی ہے، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والوں کی یہ نشانی رکھی ہے کہ ہر عمل، چاہے وہ نیک عمل ہو، عملِ صالح نہیں بن جاتا جبتک کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ عملِ صالح نہ ہو۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں عملِ صالح بنانے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی ضرورت ہے، اُس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے، استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 21؍جون 2013ء بحوالہ السلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تیسرا جلسہ سالانہ مایوٹ آئی لینڈ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2022