• 18 مئی, 2024

ہمارا ٹیگ، ہماری پہچان۔ احمدیت

گزشتہ دنوں خاکسار نے مکرم ذیشان محمود مبلغ سیرالیون سےمسز فائقہ بشریٰ آف بحرین کا چودہ قسطوں پر مشتمل تیار کردہ روحانی و علمی مائدہ بعنوان ’’ارشادات نور‘‘ کی جب یکجائی پوسٹ بنانے کی درخواست کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان 14 اقساط میں سے صرف 4 اقساط پر ’’حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ‘‘ کا Tag لگا ہوا تھا وہ میں نے اکٹھی کر لی ہیں۔ باقی 9 اقساط پر Tag نہ ہونے کے باعث ڈھونڈنے میں مشکل ہوئی تاہم 14اقساط پر مکمل پوسٹ تیار ہو گئی ہے۔

میں نے باوجود یہ علم رکھنے کے کہ کمپیوٹر میں Tagging کا ایک فنکشن ہوتا ہے نادانی اور اپنی کم علمی کی بناء پر محترم موصوف سے پوچھ ڈالا کہ Tag کس بلا کا نام ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں جب مضمون آن لائن کرنا مقصود ہو تو اس کی کیٹیگری کی تعیین کے لئے، اس کی پہچان کے لئے ٹیگ لگایا جاتا ہے۔ جس سے اس مضمون کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔ اسی لئے ’’ارشاداتِ نور‘‘ پر مشتمل 14 مضامین میں سے جن پر Tag لگا ہوا تھا اس سے ان کا ملنا آسان ہو گیا۔

موصوف سے بات ختم ہوتے ہی خاکسار نے ان تین حرفی لفظ Tag (ٹیگ) پر غور کرنا شروع کر دیا اور ریسرچ بھی کی۔ ڈکشنری کا سہارا لینے پر وہ مفہوم کھل کر سامنے آیا جو خاکسار کے اس آرٹیکل لکھنے کا باعث بنا۔

یہ لفظ انگریزی اور اردو دونوں ڈکشنریوں میں یکساں مستعمل ہوا ہے۔ اس کے معنوں کے مطابق لفظ ’’ٹیگ‘‘ کاغذ، گتے، پلاسٹک، کپڑے، دھاگے یا چمڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا کہلاتا ہے جو کتب میں نشان کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

آج کل کی اصطلاح میں اسے bookmark بھی کہا جا سکتا ہے۔ جماعت احمدیہ اسلام آباد نے خاکسار کی رہنمائی میں ایک بک مارک تیار کر کے طبع کروایا تھا۔ جو قرآن کریم میں بطور نشانی استعمال ہوتا رہا اور آج بھی وہ ہمارے گھر قرآن کا حصہ بنا ہوا ہے۔ یہ تو ایک ثانوی بات درمیان میں آ گئی۔ ٹیگ کے معانی بیان ہو رہے تھے۔ ٹیگ اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو کپڑوں، جوتوں پر پہچان کے لئے لگا ہوتا ہے۔ اس سے اس کا سائز ظاہر ہوتا ہے۔ کس کمپنی کا بنا ہوا ہے۔ کھیلوں میں کھلاڑیوں اور جانوروں پر بھی پہچان کے لئے ٹیگ لگائے جاتے ہیں۔ انگریزی ڈکشنری میں اس کی وجہ to identify اور to describe درج ہے۔ کھیلوں میں جب وننگ چبوترے پر اول دوم سوم کے کھلاڑیوں کو لایا جاتا ہے تو ان کو بھی پہچان کے لئے tag کیا جاتا ہے۔

لفظ ٹیگ کا استعمال صرف مادی دنیا کی چیزوں کی پہچان کے لئے نہیں بلکہ ہم ذی روح انسانوں کی بھی پہچان ہمارے اوپر لگے لیبل اور ٹیگ سے ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔ ہم احمدی مسلمان کی پہچان اور ٹیگ اللہ کے ساتھ اپنے مضبوط تعلق سے ہوتی ہے۔ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مثالی و دلی محبت و عقیدت سے ہوتی ہے۔ ہماری پہچان ابدی کتاب قرآن کریم ہے جو ہماری زندگیوں کا سرمایہ ہے۔ ہم پر احمدیت کا جو لیبل لگ چکا ہے اس کی عزت و لاج کے لئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام ارشادات و فرمودات کو حرزِ جاں بنانا ضروری ہے۔ احمدیت کا سہرا اپنی پیشانی پر سجانے سےقبل خلافت سے حقیقی پیار کر کے خلیفۃ المسیح کے ساتھ عقیدت و محبت کے معیاروں کو بڑھانا ہے۔ آپس میں پیارو محبت اور دنیا میں امن و سلام و آشتی کی تعلیم کو عملی رنگ دینا ہے۔ تا دنیا کے ہر کنارے سے یہ آواز آئے کہ ہے تو یہ قادیانی مگر ہے سچا، جھوٹ نہیں بولتا، جھوٹی گواہی نہیں دیتا، دیانت دار ہے، رشوت نہیں لیتا، معاشرے میں بسنے والوں کا حق ادا کرتا ہے۔ اس کے گھر سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آتی ہے۔

ایک وہ ٹیگ بھی ہے جو نام نہاد مولویوں اور بعض مسلمانوں نے اپنے اوپر مسلمانی کا لگا رکھا ہے۔ جو اپنی مسلمانی کا دم بھی بھرتے ہیں۔ تسبیحیں بھی ہاتھوں میں لئے مسجدوں کی طرف نمازوں کی ادائیگی کے لئے تیز قدموں کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ حج کا فریضہ بھی خصوصی طور پر ادا کرتے ہیں، درود بھی پڑھتے ہیں۔ مگر جھوٹ بھی بولتے ہیں، جھوٹی گواہی بھی دیتے ہیں۔ لوگوں کو چالاکی سے ورغلاتے بھی ہیں۔ رشوت بھی لیتے ہیں۔ قتل و غارت سے بھی نہیں چوکتے۔ دنگا فساد ان کی عادت اور فتنہ برپا کرنا ان کی علامت ہوتی ہے۔ سڑکوں پر غل غپاڑہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

اسلام کی یہ پہچان نہیں۔ اسلام کی اصل پہچان تو وہ ہے جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے مشعل راہ چھوڑی ہے۔ صحابہ نے بطور نمونہ ہمارے لئے اس کی راہیں آسان کی ہیں۔ صحابہ کی طرح ہمارے اندر اتحاد و اتفاق چاہیے۔ صحابہ کی طرح انسانیت سے پیار چاہیے۔ صحابہ کی طرح ہمارے اندر اللہ تعالیٰ سے پیار، اس کے رسولؐ سے پیار، اس کی پیاری کتاب قرآن کریم سے پیار ضروری ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ کو فرمایا کہ اے لڑکے! اگر تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو گے تو تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے (ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے احکام الٰہی کی حفاظت فرمائی۔ خود بھی عمل کیا اور دوسروں سے عمل کروایا بھی۔

ایک روایت ہے کہ ایک مہاجر صحابی نے قرآنی احکام کی فہرست تیار کرکے تمام احکام خداوندی پر عمل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب میں ایک حکم پر عمل کرنے کے علاوہ باقی تمام احکام کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکا تو میں باقی بچ جانے والے حکم کی تعمیل کے لئے مدینہ کی گلی کوچوں میں سرگردان پھرتا ہر گھر کے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی کہ کوئی مجھے یہ کہہ دے کہ میں اس وقت نہیں مل سکتا اور میں واپس چلا آؤں اور یوں اس حکم (النور: 29) پر بھی عمل ہو جائے مگر یہ حکم بغیر عمل کے رہ گیا۔

(700 احکام خداوندی از حنیف محمود صفحہ37)

صحابہ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حد تک پیار کرتے تھے کہ جنگ بدر کے موقع پر انصار صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار یوں کیا کہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی۔ ہم آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔ دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری نعشوں کو روند نہ ڈالے۔

احمدیت کا لیبل اور ٹیگ وہی ہے جو اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ احمدیت کی پہچان وہی ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی۔ ہمیں بھی اس ٹیگ کو اپنے اوپر چسپاں کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ خلیفۃ المسیح سے پیار و عقیدت سے پیش آنا۔ ان کی ہر بات کو حرزِ جاں بنانا۔ اطاعت کے تمام زینے بخوبی انجام دینا بہت ضروری ہے۔ چاہیے کہ یہی ہماری پہچان ہو اور ڈکشنری کے الفاظ to identify اور to describe احسن رنگ میں ہم پر لاگو ہوں۔

لاہور کے قیام کے دوران میں نے اچکن سلوانے کے لئے انار کلی میں مشہور و معروف ایک ٹیلر کی دکان کا وزٹ کیا تو مجھے اس کی دکان پر یہ لکھا دیکھ کر بہت حیرانگی ہوئی کہ

God makes men and we make them gentlemen

میں نے اسے پڑھ کر اپنے ساتھ کھٹرے بیٹے سعید الدین احمد سے مخاطب ہو کر کہا کہ بیٹا ! مجھے اس فقرے سے شرک کی بو آ رہی ہے اسے یوں ہونا چاہئے کہ

God makes men and Quran makes them gentlemen

گویا یہ مضمون آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بارے بیان معروف فقرے ’’کان خلقہ القرآن‘‘ کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بس ہمارا ٹیگ اور پہچان قرآن ہے۔ ہمیں اسی کو سینے سے لگانا ہے اور اسی کی تعلیم کو اپنا کر اپنے آپ کو حسین سے حسین تر بناتے چلے جانا ہے۔

خاکسار نے اس سے قبل اسی مضمون کے حوالے سے کئی ایک آرٹیکلز میں ٹیگ کے مقابل پر۔ کئی ناموں سے توجہ دلائی ہے۔ جیسے اسلامی باغ کا پودا/درخت۔ شاخ یا ڈالی۔ مالی و باغبان۔ پھل۔ روحانی فرزند یا بیٹا۔ آئینہ۔ چراغ یا دیا۔ عطر و خوشبو۔ تسبیح کا منکا وغیرہ وغیرہ

ان تمام الفاظ کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر لاگو کر کے جماعت کی ڈکشنری میں اپنے آپ کو بطور ہیرا جڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہیرا بننے کے لئے تیز دھات سے اپنے آپ کو تراشنا و خراشنا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

تیسرا جلسہ سالانہ مایوٹ آئی لینڈ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2022