• 9 جولائی, 2025

حضرت میاں معراج الدین پہلوانؓ

تعارف صحابہ کرامؓ
حضرت میاں معراج الدین پہلوانؓ۔ لاہور

حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان رضی اللہ عنہ ولد میاں فضل الدین صاحب حلقہ بھاٹی گیٹ محلہ پٹ رنگاں لاہور کے رہنے والے تھے۔ 1898ء میں بیعت کی۔آپ کی بیعت پر گھر والوں کی طرف سے آپ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے بڑی استقامت کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کیا۔ قبولیت احمدیت کے سوال پر فرمایا:
’’میاں عبدالعزیز صاحب مغل ہمارے محلہ میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔ پنڈت لیکھرام کے قتل کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ تمام شہر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا چرچا رہتا تھا کہ 1898ء (اغلبًا 1897ء ہوگا کیونکہ 1898ء میں حضرت اقدسؑ کا کوئی کوئی سفر لاہور ثابت نہیں، 1897ء میں آپؑ سفر ملتان سے واپسی پر لاہور میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ ناقل) میں حضورؑ ہمارے بازار بھاٹی دروازہ میں سے گذرے۔ حضور کے ساتھ کوئی تیس کے قریب آدمی تھے۔ مجھے اور میاں مولا بخش صاحب دکاندار کو جب علم ہوا ہم بھی حضور کی زیارت کے لیے بازار میں پہنچے۔ میاں مولا بخش صاحب نے حضور کو دیکھ کر پہلے ایک اچھا سا کلمہ کہا جو مجھے یاد نہیں۔ اور پھر کہا سبحان اللہ! یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ مولا بخش صاحب احمدی نہیں ہوئے مگرمخالفت بھی کبھی نہیں کی۔‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور مرتبہ شیخ عبدالقادر سوداگر مل صفحہ252-253)

آپ نے دسمبر 1938ء میں اپنی روایات قلمبند کرواتے ہوئے حضرت اقدسؑ کے سفر لاہور 1904ء کے متعلق بیان فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کئی روز تک لاہور میں تشریف فرما رہے۔ انہی دنوں میں ایک رسالہ آپؑ نے تحریر فرمایا تھا جسے مولوی عبدالکریم رضی اﷲ عنہٗ نے ایک عظیم الشان مجمع میں پڑھ کر سُنایا اور اِسی عظیم الشان مجمع میں حضرت امام علیہ السلام نے بذاتِ خود بھی اپنے دعویٰ کے متعلق مختصر سی بصیرت افروز تقریر فرمائی۔ خاکسار نے بفضلِ خدا اس تقریر کو سُنا ہے اور اس عظیم الشان کی عظیم الشان کیفیت اور حضرت مہدی علیہ السلام کی شان و شوکت اور علمائے سوء کی وحشیانہ حرکات اور ان کی ناکامی اور نبی اﷲ کی کامیابی کا نظارہ اب تک میرے دل و دماغ میں تازہ بتازہ موجود ہے۔ اب وہ لیکچر آپ کا لیکچر لاہور کے نام سے موسوم ہے۔ یہ لیکچر بیرون بھاٹی دروازہ عقب مزار حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش ایک خام منڈوہ میں پڑھا گیا تھا۔

دیگر1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور مولوی کرم الدین بھیں کے مقدمہ کی پیشی کے لئے تشریف لے گئے تو خاکسار بھی لاہور سے گورداسپور میں پہنچ گیا۔ عدالت کے باہر ایک گراؤنڈ میں کھانا کھانے کے لئے جب دستر خوان بچھایا گیا اور حضورؑ اُس پر معہ اپنے خدام کے کھانا کھانے کے لئے تشریف فرما ہوئے تو خاکسار بھی حضرت امام علیہ السلام کے سامنے ایک یا دو حضرات کے فاصلہ سے کھانا کھانے کے لئے بیٹھا تھا ( تو میں نے دیکھا کہ حضور بالکل چھوٹا سا ٹکڑا روٹی کا توڑتے اورؔ ذرا سا سالن لگا کر دہن مبارک میں ڈالتے اور دیر تک اُس چباتے رہتے۔ چنانچہ اسی طرح تمام احباب کے کھانا کھالینے کے بعد تک حضور علیہ السلام کھاتے رہے۔ جب سب خُدّام کھانا کھا چکے تو آپؑ نے بھی کھانا چھوڑ دیا۔ میں نے خیال کیا کہ اس عرصہ میں شاید آپ نے روٹی کا چوتھا حصہ ہی کھایا ہو گا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر7 صفحہ215-217)

احمدیت کی خاطر غیرت کا ایک اظہار آپ کی بیٹی کے رشتے کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
’’میں عرصہ دراز سے احمدی ہوں، میرے والد فضل الدین صاحب اور دوسرے رشتہ دار غیر احمدی ہیں۔ بوجہ میرے احمدی ہونےکے میری اور رشتہ داروں کی باہم کشیدگی ہے۔ تین چار مہینہ کا عرصہ ہوتا ہے کہ میری بیوی کے رشتہ داروں نے مجھ پر یہ زور ڈالنا شروع کیا کہ مَیں اپنی لڑکی مسماۃ بختاور نابالغہ عمر 13 سال کا نکاح اپنی بیوی کی خالہ کے لڑکے مسمی فیروز دین ولد غلام حسین پیشہ تارکش ساکن لاہور موری دروازہ سے کرنے پر رضامند ہوجاؤں لیکن مَیں نے ہر بار انکار کیا اور کہا کہ مَیں احمدی ہوں، غیر احمدیوں میں اپنی لڑکی کا نکاح مذہبی طور پر نہیں کر سکتا کیونکہ ہمارے امام کا حکم ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینی ناجائز ہے۔ اسی ردّ و کد میں 12،13 اگست جبکہ میرے سکونتی گھر کی مرمت ہو رہی تھی معلوم ہوا کہ لڑکی گھر میں نہیں ہے۔ بیوی سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ بے پردگی کی وجہ سے لڑکی کو موضع بابو صابو میں اس کی پھوپھی کے پاس بھیج دیا ہے۔ میں نے کہا اچھا۔ اس کے دو تین روز بعد میرے والد صاحب جو بوجہ غیر احمدی ہونے کے دوسرے رشتہ داروں سے ملے ہوئے تھے وہ بھی اس گاؤں میں چلے گئے۔ جب جانے لگے تو مَیں نے دریافت کیا کہ آپ کیوں جاتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ لڑکی کو ملنے جاتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے مورخہ 21؍اگست کی صبح کو اطلاع ملی کہ 20، 21 اگست کی درمیانی شب کو والد صاحب سے مل کر میری بیوی کے رشتہ داروں نے میری لڑکی کا نکاح فیروز دین سے کردیا ہے۔ چونکہ یہ نکاح سازش سے ہوا ہے اور میری اجازت اور مرضی کے خلاف ہوا ہے جو شرعًا ناجائز ہے اس لیے مَیں بحیثیت ولی شرعی اس تحریر کے ذریعہ اعلان کرتا ہوں کہ جو نکاح قریبًا موضع بابو صابو میں میری لڑکی کا پڑھا گیا ہے وہ میری اجازت سے نہیں پڑھا گیا اور میری بے خبری میں دھوکا سے لاہور سے باہر دوسرے موضع میں پڑھا گیا ہے جوکسی طرح جائز نہیں ہے۔

المعلن (والد دختر) معراج الدین احمدی پہلوان ولد فضل الدین غیر احمدی بھاٹی دروازہ محلہ پٹ رنگاں لاہور

(الفضل 26؍اگست 1919ء صفحہ2)

تبلیغ احمدیت میں بھی ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ آپ کی بھتیجی مبارکہ انجم صاحبہ ایم اے سابقہ لیکچرار جامعہ نصرت ربوہ بیان کرتی ہیں:
’’… ابا جان کے برادر اکبر حضرت میاں معراج الدین صاحب پہلوان صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنہیں تبلیغ کا خاص ملکہ حاصل تھا، آپ کے مطب میں بیٹھ کر اکثر تبلیغ میں مصروف رہتے اور ہر طرح کے خیالات رکھنے والے لوگ آتے اور ان سے تبادلہ خیالات کرتے تھے ….‘‘

(الفضل 21؍ستمبر 1971ء صفحہ4)

آپ نے 22؍مارچ 1965ء کو بعمر 85 سال لاہور میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 17098) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ کےقطعہ رفقاء میں دفن کیے گئے۔ خبر وفات دیتے اخبار الفضل نے لکھا:
’’محترم میاں معراج الدین صاحب مرحوم بہت نیک، مخلص، صابر و شاکر اور بے نفس بزرگ تھے۔ دینی مسائل پر خاصا عبور حاصل تھا اور اصلاح و ارشاد کی غیر معمولی قابلیت اور جوش رکھتے تھے۔ آپ لاہور کے قدیم احمدیوں میں سے تھے۔ 1898ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا اور پھر شدید مخالفتوں کے باوجود اپنے اخلاص میں ترقی کرتے چلے گئے….‘‘

(الفضل 26؍مارچ 1965ء صفحہ8)

آپ کے بھائی محترم حکیم سر اج الدین احمد صاحب آف لاہور (وفات: 12؍دسمبر 1970ء) بھی ایک مخلص وجود تھے۔ ان کا ذکر خیر اخبار الفضل 16؍دسمبر 1970ء، الفضل 21؍ستمبر 1971ء اور الفضل 22؍ستمبر 1971ء میں درج ہے۔

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

تیسرا جلسہ سالانہ مایوٹ آئی لینڈ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2022