• 24 جون, 2025

مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتدین کا عبرتناک انجام

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ یعنی پُرانے اعتراضات کو نئے الفاظ میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کے ساتھ جاری ہے ،اگرچہ اِس قسم کے تمام اعتراضات رد شدہ ہیں،لیکن پھر بھی قارئین کے لیے ان بے بنیاد اعتراضات کی دوبار ہ تردید ہراحمدی کی ذمہ داری ہےتاکہ ماحول میں فتنہ و فساد کی بجائے،مناسب جوابات کا علم حاصل کرکے امن قائم رہے۔

چنانچہ حال ہی میں ہمارے ملک میں ایک نام نہاد ختم نبوت کانفرنس میں ،شامل ایک مقرر نے شاملین کانفرنس کو اشتعال دلانے کے لیے اِس قسم کے خلاف واقعہ اور قیاس مع الفارق کے طور پر دلائل کاسہارا لینے کی ناکام کوشش کی تھی کہ ’’وفات نبی کے بعد پہلا اجماع جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ جنگ کرنے پر ہوا تھا۔ اور ختم نبوت کے مسئلہ کی وجہ سے مسیلمہ کذاب سے جنگ یمامہ ہوئی۔رسول پاک نے کل 23غزوات کیے اور ٹوٹل 259صحابہ شہید ہوئے۔ جبکہ صرف جنگ یمامہ میں جو مسیلمہ کذاب سے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہوئی 1200 صحابہ نے جان قربان کی ، جن میں سے 700 حفاظ قرآن تھے۔

قارئین کرام اگرچہ اس مختصر بیان میں کئی قسم کے اعتراضات اٹھائے گئے، جن کا جواب پہلے دیا جاچکا ہے، لیکن فی الوقت اس مضمون میں مرتدین کے بارے مزید تبصرہ اور جھوٹے دعوی نبوت کرنے والوں میں سے مسیلمہ کذاب کے بارے کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔

اوّلاً عمومی قاعدہ کی بات جو کہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہر ایک صحابی کا قول یا فعل شریعت اسلام میں متفقہ طور پر حجت شرعیہ سمجھاگیا ہے؟

اس بارہ میں بلاتبصرہ چند اقوال درج کیے جاتے ہیں۔ تا معلوم ہو کہ ہمارے مخالفین کے مستند علماء کے نزدیک ہر صحابی کا قول یا فعل انفرادی طور پر ہر ایک کے لیے شرعی حجت ہے یا نہیں ہے؟ چنانچہ اصول حدیث کے مشہور رسالہ میں لکھا ہے کہ

(1)مَا رُوِيَ عَن الصَّحَابِيّ من قَول أَو فعل مُتَّصِلا كَانَ أَو مُنْقَطِعًا وَهُوَ لَيْسَ بحجةٍ على الْأَصَح

ترجمہ:جو بھی کسی صحابی کا قول یا فعل مروی ہے خواہ وہ متصل ہے یا منقطع۔ وہ حجت نہیں ہے۔ اور یہ بات صحیح طور پر تسلیم شدہ ہے۔

(رسالة في أصول الحديث (مطبوع ضمن كتاب: رسالتان في المصطلح) المؤلف: علي بن محمد بن علي الزين الشريف الجرجاني (المتوفى: 816هـ) الناشر: مكتبة الرشد – الرياض،الطبعة: الأولى، 1407هـ،باب :فِي أَقسَام الحَدِيث وأنواعه،الْفَصْل الأول فِي الصَّحِيح هُوَ مَا اتَّصل سَنَده بِنَقْل الْعدْل،الْفَصْل الثَّالِث، جلد 1۔صفحہ 86)

(2)حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:

قَول الصَّحَابِيّ لَيْسَ بِحجَّة عِنْد الشَّافِعِي:

ترجمہ: یعنی کسی صحابی کاانفرادی حیثیت میں ہر قول حجت نہیں ہے۔

(عمدۃ القاری،کتاب الحج،بابُ تَفْسِيرِ قَوْلِ الله تعَالى:ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أهْلُهُ حاضِرِي المَسْجِدِ الْحَرَامُ (الْبَقَرَة: 691)جلد نمبر 9 صفحہ 206. الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

(3) کتاب کشف الاسرار شرح المنار جو اصول فقہ کی مشہور اور مستند کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ
قال الشافعی لا نقلد الصحابی لأن قول الصحابی لیس بحجۃ ،اذ لو کان قولہ حجۃ فدعا الناس الیٰ قولہ کالنبی علیہ السلام

ترجمہ:حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہم صحابی کی ہر بات میں لازماً تقلید نہیں کرتے، کیونکہ ہر صحابی کا قول حجت نہیں۔ کیونکہ اگر صحابی کا قول حجت ہوتا تو وہ اپنے قول کی طرف لوگوں کو اُسی طرح دعوت دیتا ،جسطرح کہ نبی علیہ السلام اپنے قول کی طرف دعوت دیتا ہے۔

(مأخوذ از قتل مرتد اور اسلام زیر عنوان قتل مرتد اور صحابہ۔صفحہ 142)

(4) تفسیر مظہری از مولانا ثناء اللہ پانی پتی نے حضرت ابوہریرہ کی درایت پر جرح کی ہے۔چنانچہ ’’تفسیر مظہری‘‘ میں آیت ’’وَاِنْ مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ

’’تَاوِیْلُ الْآیٰتِ بِاِرْجَاعِ الضَّمِیْرِ الثَّانِیْ اِلٰی عِیْسَی مَمْنُوْعٌ۔ اِنَّمَا ھُوَ زَعْمٌ مِنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ لَیْسَ ذٰلِکَ فِیْ شَیْءٍ فِی الْأَحَادِیْثِ الْمَرْفُوْعَۃِ وَکَیْفَ یَصِحُّ ھٰذَا التَّاوِیْلُ‘‘

(تفسیر مظہری، زیر آیت وان من أھل الکتاب الّا لیؤمننّ بہ(النساء:١٦٠)

’’دوسری ضمیر کو حضرت عیسی ؑ کی طرف راجع کرکے آیت کی وہ تفسیر کی جاسکتی ہے جس سے مضمون مذکور کا استفادہ ہوسکے۔یہ بات قابل تسلیم نہیں۔یہ صرف حضرت ابوہریرہ ؓ کا خیال اور رائے ہے۔کسی صحیح مرفوع حدیث میں مذکور نہیں۔اور نہ یہ تشریح درست ہے۔‘‘

(تفسیر مظہری اردو ترجمہ جلد سوم زیر آیت بالا۔صفحہ 214۔مترجم سید عبدالدائم جلالی۔شائع کردہ خزینہ علم وادب ،الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور)

(5) اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول شاشی میں لکھا ہے کہ
وَالْقسم الثَّانِي من الروَاة هم المعروفون بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَة دون الِاجْتِهَاد وَالْفَتْوَى كَأبي هُرَيْرَة وَأنس بن مَالك:

ترجمہ:کہ راویوں میں سے دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ اور دیا نتداری کے لحاظ سے تو مشہور ہیں مگر اجتہاد اور فتوی ٰ کے اعتبار سے قابل اعتبار نہیں جیسے ابوہریرہؓ و انس ؓ بن مالک ۔

(أصول الشاشي،از نظام الدين أبو علي أحمد بن محمد بن إسحاق الشاشي (المتوفى: 344ه)الناشر: دار الكتاب العربي – بيروت،الْبَحْث الثَّانِي،فصل فِي أَقسَام الْخَبَر،بحث تَقْسِيم الرَّاوِي على قسمَيْنِ۔صفحہ 275)

(6) احناف کے نزدیک جو اَمر قیاس سے معلوم ہوسکتا ہے ،اس میں صحابی کی تقلید ہرگز ضروری نہیں۔چنانچہ قمرالاقمار شرح نورالانوار میں علامہ بحرالعلوم نے لکھا کہ

یہ احتمال کہ صحابی نے آنحضرتﷺسے سنا ہوگا،اس بات کو واجب نہیں کرتا کہ صحابی کے قول کی تقلید کی جائے۔ کیونکہ قیاس ایک شرعی حجت ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔پس ایسی چیز کو جس پر عمل کرنا واجب اور ضروری ہے محض احتمال سے کہ شاید سنا ہوچھوڑا نہیں جاسکتا۔ نیز لکھا ہے کہ اگر صحابی اپنی طرف سے اجتہاد کرتا ہے اور روایت کو رسول کریمﷺ کی طرف منسوب نہیں کرتا تو:

لمّا لم یرفعہ، علم انہ من اجتہادہ،واجتھادہ و اجتھاد غیرہ متساویاً فی احتمال الخطاء بِعَدْمِ عصمتہ فلا یکون حجۃ وھذا فیمایدرک بالقیاس

پس جب صحابی اپنی بات کو (رسول اللہﷺ) کی طرف مرفوع نہیں کرتا،تو معلوم ہواکہ وہ اپنے اجتہاد سے ایسا کہتا ہے۔ اور صحابی اور غیر صحابی کا اجتہاد اس امر میں برابر ہے،کہ دونوں میں خطاء کا احتمال ہے، کیونکہ وہ معصوم نہیں۔پس اُس کا قول حجت نہیں۔ یہ ایسے امور کے متعلق ہےجو قیاس سے معلوم ہوسکتے ہیں۔

(قتل مرتد اور اسلام از مولانا شیر علی صاحبؓ۔ زیر عنوان قتل مرتد اور صحابہ۔صفحہ نمبر 220۔شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

مرتدین اور مانعین زکوۃ کے خلاف جہاد

أغلباً مولوی صاحبان عرب کے قبائل کی طبیعت سے بالکل ناواقف ہیں، کیونکہ وہ ارتداد کے لفظ کو سن کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ مرتدین عرب بالکل بے ضرر لوگ تھے۔ اُن کا اس سے زیادہ کوئی قصور نہ تھا کہ وہ زکوۃ خلیفہ وقت کو ادا کرنا ضروری نہ سمجھتے اور نماز پڑھنا چھوڑ بیٹھے تھے۔حالانکہ ایسا بالکل نہ تھا۔اس کی قدر تفصیل پوانٹس کی شکل میں ذیل میں تحریر کی جاتی ہے۔

ارتداد

قارئین کرام! ان باغی اقوام کے ارتداد کے عملی رنگ میں یہ معانی تھے کہ انہوں نے اُس سلطنت اسلامی سے جس کی ماتحتی کا جوّا وہ اپنی گردنوں پر رکھ چکے تھے بغاوت اختیار کی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ارتداد کے بعد انہوں نے اسلام کے خلاف تلوار اُٹھا لی، اور جو مسلمان اُن کے علاقہ میں مقیم تھے اور وہ اسلام پر قائم رہے اُن بے گناہ مسلمانوں کو اِ ن ظالموں نے قتل کیا۔ اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے لشکر جمع کرنےشروع کردیئے،اسلامی سلطنت سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا، اور اِس سے بڑھ کر خود دارالسلطنلت اسلامیہ پر حملہ کیا۔اور اس کا محاصرہ کیا۔

(1) اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفات رسول ﷺ سے قبل جس لشکر کے بھجوانے کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا۔وفات نبی ﷺ کے بعد اُس لشکر اسامہ کی روانگی کے وقت عمائد مہاجرین وانصار نے حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ ایسے خطرناک حالات نے اب جنم لیا ہے کہ اب لشکر کو روانہ کرنا مصلحت کے خلاف ہے،چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت اسامہ نے روانگی سے پہلے حضرت عمرؓ کو ان عمائدین کا سفیر بنا کرحضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجا اور مع لشکر واپس آنے کی اجازت مانگی اور وجہ یہ پیش کہ

فَإِنَّ مَعِي وُجُوهَ النَّاسِ وَجلتھم، وَلا آمَنُ عَلَى خَلِيفَةِ رَسُولِ اللّٰهِ وَثِقَلِ رَسُولِ اللّٰهِ وَأَثْقَالِ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَتَخَطَّفَهُمُ الْمُشْرِكُونَ

ترجمہ:یعنی میرے ساتھ بڑے بڑے آدمی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ ایسا نہ ہوکہ مشرکین خلیفہ وقت اور آنحضرت ﷺ کی حرم محترم اور دوسرے مسلمانوں پر حملہ نہ کردیں۔

(تاریخ طبری،باب. ذكر امر ابى بكر في أول خلافته)

(2) مرتدین کے خلاف صدیق اکبر ؓنے تلوار اٹھائی تو اس لیے نہیں کہ انہوں نے محض ارتداد کیا تھا بلکہ وجہ بغاوت اور ان کی طرف سے حملہ کی پہل تھی۔چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ

وَكَانَ أوّل من صادم عبس وذبيان، عاجلوه فقاتلهم قبل رجوع أسامة۔:

ترجمہ: یعنی سب سے پہلے جن قبیلوں نے مدینہ پر حملہ کیا وہ عبس اور ذبیان تھے۔انہوں نے پہلے حضرت ابوبکرؓ پر حملہ کیا اور اُسامہ کی واپسی سے پہلے حضرت ابوبکر ؓنے ان کے ساتھ جنگ کی۔

(تاریخ طبری، حوادث السنة الحادية العشرة بعد وفاة رسول الله، حوادث متفرقة)

(3) یاد رہے کہ وفات نبی ﷺ کے بعد مرتدین نے مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پیش دستی کی تھی، اور اُن کو قلیل اور کمزور دیکھ کر سمجھا کہ ہم مدینہ کو فتح کرلیں گےاور اسلامی سلطنت کے پایہ تخت پر قابض ہوجائیں گے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق خلیفہ وقت کی تائید کی اور دشمنوں کو خائب وخاسر لوٹادیا۔ نیز ان لوگوں نے نہ صرف مدینہ پر ہی حملے کئے تھے بلکہ انہوں نے مرتد ہوتے ہی وفات نبیﷺ کے بعد صادق الایمان مسلمانوں کو بھی تہ تیغ کر دیا تھا، جو ان قوموں میں بستے تھے۔ اور یہ مسلمان باوجود اپنی قوم کے مرتد ہوجانے کے اسلام پر قائم رہے تھے۔ چنانچہ ابن خلدون میں لکھا ہے کہ

فعاجلته عبس وذبيان ونزلوا في الأبرق ونزل آخرون بذي القصة ومعهم۔۔ من بني أسد، فزارہ، غطفان، طئی، ثعلبہ، بنوکنانہ وغیرہ :ناقل)۔۔وبعثوا وفدا إلى أبي بكر،نزلوا على وجوه من الناس،يطلبون الاقتصار على الصلاة دون الزكاة، فأبي أبو بكر من ذلك،وجعل على أنقاب المدينة علياً والزبير وطلحة وعبد اللّٰه بن مسعود،وأخذ أهل المدينة بحضور المسجد ورجع وفد المرتدين،وأخبروا قومهم بقلّة أهل المدينة فأغاروا على من كان بأنقاب المدينة۔۔۔۔واقتتلوا۔۔إلا وقد هزموهم وغنموا ما معهم۔۔۔ووثب بنو ذبيان وعبس على من كان فيهم من المسلمين فقتلوهم وفعل ذلك غيرهم من المرتدين۔۔وقدم أسامة فاستخلفه أبو بكر على المدينة :

(تاریخ ابن خلدون، الخلافة الإسلامية الخبر عن الخلافة الإسلامية في هذه الطبقة وما كان فيها من الرّدة والفتوحات وما حدث بعد ذلك من الفتن والحروب في الإسلام ثم الاتفاق والجماعة)

ترجمہ: یعنی عبس و ذبیان قبیلوں نے پہلے حضرت ابوبکر ؓ پر حملہ کیا۔ اور دوسری قومیں یعنی بنواسد، فزارہ، غطفان، طئی، ثعلبہ، بنوکنانہ وغیرہ ذی قصہ مقام میں آکر جمع ہوگئے۔ پھر انہوں نے اپنا ایک وفد حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھجوایا۔ وہ لوگوں کے سامنے آپ کی خدمت میں پیش ہوئے۔اور ڈیمانڈ کی کہ ہمیں نماز میں کمی کردی جائے اور زکوۃ مکمل معاف کردی جائے۔حضرت ابوبکرؓ نے اُن کی اس بات کا انکار کردیا۔ نیز حفاظت کی خاطر مدینہ کے اطراف کناروں پر حضرت علی، زبیر، طلحہ،عبداللہ بن مسعودر رضی اللہ عنہم کی قیادت میں محافظ مقرر کردیئے۔ اور اہل مدینہ کو مسجدنبوی میں جمع کیا، اور انہیں ساری صورتحال کی بابت آگاہ کیا۔ جب مرتدین کا وفد واپس چلا گیا ہے۔اورانہوں نے اپنے ساتھیوں کومدینہ میں مسلمانوں کی کم تعداد کی بابت بتایا۔ اس پر پھران مرتدین نے مدینہ پر اِس کے اطراف سے حملے شروع کردیئے۔اور ان کے ساتھ لڑائی ہوئی۔۔۔البتہ مسلمانوں نے اِنہیں شکست دی اور مال غنیمت بھی حاصل کیا۔

(4) نیز لکھا ہے کہ: آنحضرتﷺ کی وفات کی خبر سنتے ہی بنوذبیان اور عبس نے اُن لوگوں پر حملہ کردیا۔ جو اُن میں مسلمان تھے اور یہ کام صرف بنوذبیان اور عبس نے ہی نہیں کیا بلکہ اُن کے سوا جو دوسری مرتد قومیں تھیں اُنہوں نے ابھی اِسی طرح اُن مسلمانوں کو قتل کردیا جو اُن میں آباد تھے۔

(تاریخ ابن خلدون ، الخلافة الإسلامية الخبر عن الخلافة الإسلامية في هذه الطبقة وما كان فيها من الرّدة والفتوحات وما حدث بعد ذلك من الفتن والحروب في الإسلام ثم الاتفاق والجماعة)

(5) بلکہ اس بھی بڑھ کر تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ

فوثب بنو ذبيان وعبس على من فيهم مِنَ الْمُسْلِمين، فقتلوهم كل قتلة، وفعل من وراءهم فعلهم

(تاریخ طبری، حوادث السنة الحادية العشرة بعد وفاة رسول الله،حوادث متفرقة)

یعنی جیسے ہی آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر پہنچی بنوذبیان اور عبس اُن مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔جو اُن میں رہتے تھے اور اُن کو ہر ایک طریق سے قتل کیا اور جو قومیں ان کے علاوہ بستی تھیں انہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔یعنی اُنہوں نے بھی ایسے لوگوں کو قتل کردیا جو اسلام پر قائم رہے۔

(6) اس وقت مسلمانوں کی حالت کیسی تھی ،اس کا اندازہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اُس موقعہ کے خطاب سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب لشکر اسامہ روانہ ہوچکا تھا اور مدینہ پر مرتدین اور مانعین زکوۃ حملہ کررہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

وقال لهم:إن الأرض كافرة،وقد رأى وفدهم منكم قلة، وإنكم لا تدرون أليلا تؤتون أم نهارا! وأدناهم منكم على بريد.وقد كان القوم يأملون أن نقبل منهم ونوادعهم، وقد أبينا عليهم، ونبذنا إِلَيْهِم عهدهم، فاستعدوا وأعدوا فما لبثوا إلا ثلاثا حَتَّى طرقوا الْمَدِينَة غارة مَعَ الليل، وخلفوا بعضهم بذي حسى، ليكونوا لهم ردءا:

یعنی تمام ملک اب کافر ہے، اور اُن کے وفد نے تمہاری قلیل تعداد کو دیکھ لیا ہے،تمہیں معلوم نہیں کہ رات کے وقت تم پر حملہ کریں یا دن کو،اور اُن میں سے قریب ترین لوگ تم سے صرف ایک منزل کے فاصلہ پر ہیں۔وہ چاہتے تھے کہ ہم اُن کی بات قبول کرکے اُن سے معاہدہ کرلیں۔اور ہم نے اس سے انکار کیا۔پس تم اُن کے حملہ کے لئے تیار ہوجاؤ۔اور ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ اُنہوں نے رات کے وقت مدینہ پر آ کر چھاپہ مارا، اَور ایک جماعت کو ذی حسی مقام میں چھوڑ کر آئے تھے تاکہ وہ بوقت ضرورت ان کے مددگار ہوں۔

(تاریخ طبری، حوادث السنة الحادية العشرة بعد وفاة رسول الله،حوادث متفرقة)

ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حملہ مخالفین نے کیا تھا مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر۔نہ کہ مسلمانوں نے خود اس کی پہل کی تھی۔

(7) نیز یاد رہے کہ صرف ارتداد ہی اختیار نہیں کیا تھا اور زکوہ دینے سے انکار ہی نہ تھا ،بلکہ ان مخالفین نے صادق الایمان مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔چنانچہ لکھا ہے کہ

ووثب بنو ذبيان وعبس على من كان فيهم من المسلمين فقتلوهم وفعل ذلك غيرهم من المرتدين۔۔وقدم أسامة فاستخلفه أبو بكر على المدينة :

یعنی جونہی کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر پہنچی بنوذبیان اور عبس اُن مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے،جو اُن میں رہتے تھے اور اُن کو ہر ایک طریق سے قتل کیا اور جو قومیں ان کے علاوہ تھیں انہوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔

(تاریخ ابن خلدون ، الخلافة الإسلامية الخبر عن الخلافة الإسلامية في هذه الطبقة وما كان فيها من الرّدة والفتوحات وما حدث بعد ذلك من الفتن والحروب في الإسلام ثم الاتفاق والجماعة)

(8) تاریخ کامل میں لکھا ہے کہ:
وَكَانَ إِنْفَاذُ جَيْشِ أُسَامَةَ أَعْظَمَ الْأُمُورِ نَفْعًا لِلْمُسْلِمِينَ، فَإِنَّ الْعَرَبَ قَالُوا: لَوْ لَمْ يَكُنْ بِهِمْ قُوَّةٌ لَمَا أَرْسَلُوا هَذَا الْجَيْشَ، فَكَفُّوا عَنْ كَثِيرٍ مِمَّا كَانُوا يُرِيدُونَ أَنْ يَفْعَلُوهُ۔

یعنی لشکر اسامہ کے بھیجے جانے سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا کیونکہ عرب قوموں نے کہا کہ اگر مسلمانوں میں طاقت اور قوت نہ ہوتی تو وہ ایسے وقت میں اس لشکر کو روانہ نہ کرتے۔پس اس خیال سے وہ اپنے بدارادوں سے رُک گئے۔

(تاریخ کامل، ذِكْرُ أَحْدَاثِ سَنَةِ إِحْدَى عَشْرَةَ ،ذِكْرُ أَخْبَارِ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيِّ بِالْيَمَنِ)

(9) اسی طرح تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ
ولم يقبل (خالد بن ولید بعد ھزیمتھم۔ناقل) من أحد من أسد ولا غطفان ولا هَوَازِن ولا سليم ولا طيئ إلا أن يأتوه بالذين حرقوا ومثلوا وعدوا على أهل الإسلام فِي حال ردتهم۔

ترجمہ: یعنی جب بنی اسد اور غطفان ،ہوازن اور بنی سلیم وغیرہ کو شکست ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو معافی دینے سے انکار کیا کہ جب تک کہ وہ ان لوگوں کو پیش نہ کریں جنہوں نے مرتد ہونے کے بعد مسلمانوں کو آگ میں ڈال کر جلایا اور اُن کےہاتھ اور پاؤں اور ناک وغیرہ کاٹے اور ان پر ظلم کیے۔

(تایخ طبری،حوادث السنة الحادية العشرة بعد وفاة رسول الله،ذكر ردة هَوَازِن وسليم وعامر)

پس ثابت ہوا کہ جن لوگوں نے وفات نبیﷺ کے بعد ارتداد اختیار کیا ،اُن کا ارتداد مذہبی اختلاف تک محدود نہ تھا ،بلکہ انہوں نے سلطنت اسلامی سے بغاوت اختیار کی۔ تلوار کو ہاتھ میں لیا۔ مدینہ منورہ پر حملہ کیا،اپنی اپنی قوم کے مسلمانوں کو قتل کیا۔آگ میں ڈالا اور اُن کا مثلہ کیا۔گویا یہ سب سلطنت کے باغی تھے۔

فتنہ مانعین زکوٰۃ

حضرت ابوبکرؓ نے مانعین زکوۃ سے اس لئے قتال کیا تھا کہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ سے زکوۃ کو روکا اور مسلمانوں کے لئے جنگ برپا کی۔چنانچہ لکھا ہے کہ

وَإِنَّمَا قَاتل الصّديق، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، مانعي الزَّكَاة لأَنهم امْتَنعُوا بِالسَّيْفِ ونصبوا الْحَرْب للْأمة ۔

ترجمہ: یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مانعین زکوۃ سے اس لیے قتال کیا کہ انہوں نے یہ زکوۃ دینے سے انکار بذریعہ سیف کیا تھااور انہوں نے لڑائی کی امت سے طرح ڈالی تھی۔

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، كتاب اسْتِتابَةِ المُرْتِّدينَ والمُعانِدينَ وقِتالِهِمْ)، بابُ قَتْلِ مَنْ أَبى قَبُولَ الفَرَائِضِ وَمَا نُسبُوا إِلَى الرِّدَّةِ)

اس شہادت سے ظاہر ہے کہ جنگ کی ابتداء مانعین زکوۃ کی طرف سے ہوئی یعنی نہ صرف ان لوگوں نے زکوۃ کے ادا کرنے سے انکار کیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف خود ہی تلوار اُٹھائی اور جنگ کی بنیاد ڈالی۔

٭نیز یاد رہے کہ صرف زکوۃ سے انکار ہی سلطنت کا باغی بنا دیتا ہے۔کیونکہ زکوۃ حکومت کا ٹیکس ہے۔اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ بھی تھے اور وقت کے حکمران بھی تھے۔اور زکوۃ کی وصولی اپنی صوابدید پر منحصر نہیں تھی بلکہ اسلامی حکومت کی طرف سے ہمیشہ عمّال مقرر کیے جاتے تھے اور عمّال تشخیص کرتے اور زکوۃ وصول کرتے تھے،جبکہ امام الصلاۃ بالعموم بیان شدہ اصول کے مطابق لوگ خود مقرر کرتے تھے،مرکز اسلام کی طرف سے مقرر نہیں کیے جاتے تھے۔

٭اسی طرح فریضہ زکوۃ اور فریضہ صلاۃ میں ایک یہ بھی فرق ہے کہ،کیونکہ نماز کا تعلق صرف فرد سے ہے جبکہ زکوۃ کا تعلق صرف فرد سے نہیں بلکہ حکومت کو بھی اس میں دخل ہےجیسا کہ فرمایا:

تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ»

یعنی یہ ایک ٹیکس ہے جو دولتمندوں سے وصول کرکے فقراء پر خرچ کیا جاتا ہے۔

(بخاری کتاب الزکوۃ)

باقی یہ بات درست ہے حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ نے منکرین زکوۃ سے جہاد نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق جو خلیفہ وقت تھے انہوں نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا۔ جبکہ جمع قرآن والا مشورہ قبول کرلیا تھا۔گویا دونوں جگہ فیصلہ خلیفہ وقت کا تھا، جس طرح رسول پاکﷺ مشورہ لینے کے بعد فائنل فیصلہ کیا کرتے تھے۔ چونکہ حیات نبیﷺ میں منکرین زکوۃ کا کوئی باقاعدہ فتنہ نہ تھا اس لیے جہاد نہ کیا گیا۔

جھوٹے مدعیان نبوت کا انجام

رسول اﷲؐ کے زمانہ میں دعویٰ نبوت کرنے والوں میں خاص طور پر معروف احباب میں سے مسیلمہ کذاب، سجاح ،طلیحہ اسدی اور اسود عنسی تھے۔فی الوقت اِس مضمون میں صرف مسیلمہ کذاب کا ذکر کیا جائے گا۔

(قارئین کرام! باقی مکذبین کے حالات کے متعلق جامع معلومات کے لیے ’’قتل مرتد اور اسلام۔از حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ‘‘ انتہائی مفید ہے)

مسیلمہ کذاب

احادیث میں ذکر ہے کہ مسلمیہ کذاب اپنی قوم بنو حنیفہ کے کثیر لوگوں کے ساتھ مدینہ آیا اور آنحضرتﷺ سے مطالبہ کیا کہ مجھے اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں تو میں آپ کی بیعت کر لوں گا۔ بخاری میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اپنے خطیب ثابت بن قیسؓ کے ساتھ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس نے آپ سے کہا آپ اپنے بعد خلافت ہمارے سپرد کر دیں یا حکومت میں برابر شریک کر لیں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میں اپنی یہ چھڑی تمہیں دینے کا روادار بھی نہیں اور میں تجھے وہی جھوٹا مدعی سمجھتا ہوں جو مجھے رؤیا میں دکھایا گیا کہ میرے خلاف خروج کریں گے اور بغاوت کریگا۔ پھر رسول اﷲﷺ نے حضرت ثابت بن قیس کو اپنا نمائندہ مقرر کر کہ اُس سے اعراض کرتے ہوئے تشریف لے گئے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺفَجَعَلَ يَقُولُ: إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ، وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِﷺ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ،وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِﷺقِطْعَةُ جَرِيدٍ،حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:‘‘لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ القِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا،وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيكَ،وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لَيَعْقِرَنَّكَ اللَّهُ،وَإِنِّي لَأَرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ،مَا رَأَيْتُ، وَهَذَا ثَابِتٌ يُجِيبُكَ عَنِّي’’ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ‘‘إِنَّكَ أُرَى الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا أَرَيْتُ’’،فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:‘‘بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ،فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا،فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي المَنَامِ:أَنِ انْفُخْهُمَا،فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا،فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي’’أَحَدُهُمَا العَنْسِيُّ، وَالآخَرُ مُسَيْلِمَةُ۔

ترجمہ:۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب رسول اللہﷺ کے زمانے میں آیا اور کہنے لگا۔ اگر محمد اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں تو میں ان کا پیروہوں گا اور وہ مدینہ میں اپنی قوم کے بہت سے لوگوں کے ساتھ آیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس آئے اور آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی۔ آپ آکر مسیلمہ کے سامنے جب کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا کھڑے ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: اگر تو مجھ سے یہ لکڑی کا ٹکڑا بھی مانگے۔ میں تمہیں یہ بھی نہ دوں اور تو ہرگز اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ جو تیرے لئے مقدر ہے اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا گیا۔ تو اللہ تمہاری جڑ کاٹ دے گا اور میں تمہیں وہی شخص دیکھ رہا ہوں جس کے متعلق مجھے خواب میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے اور یہ ثابت ہیں جو میری طرف سے تمہیں جواب دیں گے۔ اور یہ کہہ کر آپ اس کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ ابن عباسؓ کہتے تھے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا کہ تم کو میں وہی شخص دیکھ رہا ہوں جس کے متعلق مجھے خواب میں وہ کچھ دکھایا گیا جو دکھایا گیا۔ ابوہریرہؓ نے مجھ سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ایک بار میں سویا ہوا تھا کہ اس اثنا میں میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے۔ ان کی کیفیت نے مجھے فکر میں ڈال دیا۔ پھر مجھے خواب میں وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں۔ چنانچہ میں نے ان پر پھونکا اور وہ اڑگئے۔ میں نے ان کی تعبیر دو جھوٹے شخص سمجھے جو میرے بعد ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے ایک عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ۔

(بخاری،کتاب المغازی،بَابُ وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ)

تاریخ طبری کے مطابق مسلمیہ نے واپس یمامہ جا کر نبوت کا دعویٰ کر دیا اور رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں اپنے خط میں لکھا کہ

من مسيلمة رَسُول اللَّهِ إلى محمد رَسُول اللَّهِ سلام عليك، فإني قد أُشركت فِي الأمر معك، وإن لنا نصف الأرض ولقريش نصف الأرض، ولكن قريشا قوم يعتدون:

ترجمہ: مسیلمہ رسول اﷲ (نعوذ باللہ) کی طرف سے یہ خط محمد رسول اللہ (ﷺ۔فداہ أبی و امی) کی طرف یہ خط ہے۔ آپ پر سلامتی ہو۔اَمّا بعد:پس میں آپ کے ساتھ اَمر (حکومت) میں برابر کا شریک ہوں۔ قریش اور ہمارے درمیان ملک آدھا آدھا ہو گا۔ البتہ قریش کی قوم زیادتی کرنے والی اور حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہے۔

(تاریخ طبری زیر عنوان: كتاب مسيلمه الى رسول الله والجواب عنه)

رسول کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں اِس کے دعویٰ نبوت کے باوجود صحابہ کو اس کے قتل کا ارشاد نہیں فرمایا اور شراکت حکومت و ملک کے دعویٰ کے جواب میں حضورﷺ نے طبرانی کے مطابق اُس کو لکھا کہ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ محمد رسول اللّٰه إِلَى مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابِ۔سَلامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى،أَمَّا بَعْدُ، إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

(الأَعراف:921)

ترجمہ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محمد رسول اللہﷺ کی جانب سے مسیلمہ کذاب کی جانب۔سلامتی اُس پر ہے جس کی ہدایت کی پیروی کی۔ أَمَّا بَعْدُ: ىقىناً مُلک اللہ ہى کا ہے وہ اپنے بندوں مىں سے جسے چاہے گا اس کا وارث بنا دے گا اور عاقبت متقىوں کى ہى ہوا کرتى ہے

(تاریخ طبری زیر عنوان: كتاب مسيلمه الى رسول الله والجواب عنه)

پس رسول اﷲ ﷺنے اپنی زندگی میں مسیلمہ کے محض دعویٰ نبوت کی وجہ سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔جبکہ رومی سرحدپر شورش کا پتہ چلا تو آپ نے انکے خلاف اپنے صحابہ کا لشکر زیر قیادت حضرت اسامہ تیار فرمایا۔

بعد میں جب مسیلمہ باغیانہ سرگرمیوں میں حد سے بڑھنے لگا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے رسول اﷲﷺکی وفات کے بعد اس کی بغاوت کچلنے کے لئے حضرت خالد بن ولید اور دیگر صحابہ کی سرکردگی میں لشکر وں کو روانہ کیا۔ اور ان سے لڑائی میں وہ مارا گیا۔چنانچہ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ مسیلمہ نے رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں دعویٰ نبوت کیا مگر جارحیت اور بغاوت کا ارتکاب زمانہ صدیقی میں کیا۔چنانچہ خلاصۃً وجوہات قتال حسب ذیل ہیں:

1:۔ مسیلمہ کذاب کی بغاوت کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ اس نے یمامہ پر رسول اﷲ ﷺکے مقرر فرمودہ حاکم ثمامہ بن اثال کو وہاں سے بے دخل کر کے نکال دیا۔

وأخرج ثمامة بن أثال عامل رسول اللّٰه ﷺ على اليمامة

(تاریخ الخمیس جلد دوم صفحہ 160۔زیر عنوان: (ذكر ابتداء مرضه وكيفيته))

2:۔ باغی ہونے کے ساتھ مسیلمہ قتل کے جرم کا بھی مرتکب ہوا۔اس نے رسول اﷲ ﷺ کے صحابی حبیب بن زید سے اپنی نبوت منوانا چاہی اور انکار پر ان کے ایک عضو کاٹا اور اس طرح اعضاء کاٹ کاٹ کر انہیں آگ میں جلا دیا۔ اس لئے وہ قصاص کے قانون کے مطابق بھی واجب القتل تھا، جبکہ عبداللہ جو ساتھ تھا وہ مرتد ہوگیا تھا،اس لیے وہ اس سے بچ گیا تھا۔چنانچہ اصل عربی الفاظ یہ ہیں:

فأصابهما مسيلمة فقال لهما أتشهد ان انى رسول الله فقال له الاسلمى نعم فأمر به فحبس فى حديد وقال له حبيب لا أسمع فقال اتشهد ان محمدا رسول الله قال نعم فأمر به فقطع وكلما قال له اتشهد انى رسول الله قال لا اسمع فاذا قال أتشهد ان محمدا رسول الله قال نعم حتى قطعه عضوا عضوا حتى قطع يديه من المنكبين ورجليه من الوركين ثم أحرقه بالنار

(تاریخ خمیس جلد2 صفحہ 217۔زیر عنوان: (ذكر تقديم خالد بن الوليد الطلائع امامه من البطاح۔الناشر: بيروت)

3:۔ مسیلمہ کی بغاوت کا تیسرا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اسلامی حکومت کے علاقہ یمامہ پر قبضہ کر کے اپنی نماز نگری کو تقویت دینے کے لئے مکہ کے حرم کے مقابل پر یمامہ کے حرم ہونے کا اعلان کر دیا اور اس کے حلیف قبائل ارد گرد غارت گری کر کے اس کے حرم یمامہ میں آ کر پناہ گزیں ہونے لگے۔

(تاریخ طبری)

4:۔ مسیلمہ کی بغاوت کا چوتھا ثبوت یہ ہے کہ اس کی قوم بنو حنیفہ نے مسلمان قبائل بنو عامر وغیرہ پر کھل کر حملوں کا آغاز کر دیا۔

(تاریخ طبری)

5:۔مسیلمہ کی بغاوت کا پانچواں ثبوت یہ ہے کہ اس نے دیگر باغی قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کے منصوبے بنائے۔ان میں خاص طور پر بنو تغلب کی ایک باغی سردار عیسائی عورت سجا ح قابل ذکر ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کر کے چار ہزار کا لشکر جمع کر لیا تھااور غارت گری کا قصد کر کے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے نکلی۔بعدازاں دونوں نے شادی کرلی اور باہم مل کر مسلمانوں کے خلاف قتال کیا۔

(تاریخ طبری)

پس جو مولوی حضرات! مسیلمہ کذاب کی مثال دیتے ہیں کہ وہ بھی تو کلمہ، نماز وغیرہ پڑھتا تھا۔تو یاد رہے کہ یہ ایک بالکل غیر مطابقی مثال ہے۔یا تو وہ جان بوجھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور یا ناقص علم کے باوجود عالم کہلاتے ہیں۔

چنانچہ مستند تاریخ طبری وغیرہ میں ان حالات کا تفصیل سے تذکرہ موجود ہے مثلاً طبری اور سیرت ابن ہشا م وغیرہ کے مطابق مسیلمہ کذاب نے شراب اور زنا کو حلال کیااور فجر اور عشاء کی نماز یں معاف کردیں اور یوں اسلامی شریعت منسوخ کرکے شرعی نبوت کا دعویدار بنا اور نئی شریعت ایجادکی۔

وَوَضَعَ عَنْهُمْ الصَّلاةَ، وَأَحَلَّ لَهُمُ الْخَمْرَ وَالزِّنَا

(تاریخ طبری۔سنه عشر،زیر عنوان قدوم وفد بنى حنيفه ومعهم مسيلمه) و (سیرۃ ابن ہشام جلد2ص576)

اسی طرح مشہور اہل حدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خاں صاحب نےتو یہاں تک لکھا ہے کہ

’’اس (مسیلمہ) نے آنحضرت ﷺ کے بالمقابل تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا اور شراب اور زنا کو حلال قرار دیا۔نیز فریضہ نماز کو ساقط کردیا قرآن مجید کے مقابلہ میں سورتیں لکھیں۔‘‘

(حجج الکرامہ بزبان فارسی۔صفحہ 234۔235۔در فصل بیستم۔مطبع شاہجہان بھوپال)

اِس کاذب کی بعض مزعومہ آیات نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب حج الکرامہ میں درج بھی کی ہیں۔

(حجج الکرامہ بزبان فارسی۔صفحہ 234۔235۔در فصل بیستم۔مطبع شاہجہان بھوپال)

مشت از خروارہ کے طور پر تاریخ طبری سے اُس کذاب کی مزعومہ آیات کے کچھ الفاظ عبرت کے لیے نقل کرتا ہوں (نقل کفر ،کفر نہ باشد)۔

اس کذاب نے کہا تھاکہ

لَقَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى الْحُبْلَى، أَخْرَجَ مِنْهَا نَسَمَةً تَسْعَى، مِنْ بَيْنِ صِفَاقٍ وَحِشَى، وَوَضَعَ عَنْهُمْ الصَّلاةَ، وَأَحَلَّ لَهُمُ الْخَمْرَ وَالزِّنَا

ترجمہ: یعنی اللہ نے حاملہ عورت پر انعام کیا کہ دوڑنےوالے انسان کو اُس کی کُوکھ اورانتڑیوں کے درمیان سے پیدا کیا

(تاریخ طبری۔ سنه عشر،زیر عنوان قدوم وفد بنى حنيفه ومعهم مسيلمه)

قارئین کرام! اِن مرتدین نے اُس سلطنت اسلامی سے جس کی ماتحتی کا عہد و پیمان کر چکے تھے بغاوت اختیار کی تھی۔ پس خلاصہ کلام یہ کہ محض ارتداد کی وجہ سے یہ لوگ سزائے قتل کے حقدار نہیں بنے۔بلکہ ایسے مرتدین جنہوں نے ارتداد کے ساتھ ساتھ بغاوت اور قتال کیا۔وہ مجرم شمار ہوئے۔اور یہ قتال بوجہ ارتداد نہیں بلکہ محارب ہونے کی وجہ سے تھی۔اور قرآنی اصول ہے کہ

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ:

ترجمہ: اور بدى کا بدلہ، کى جانے والى بدى کے برابر ہوتا ہے پس جو کوئى معاف کرے بشرطىکہ وہ اصلاح کرنے والاہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے ىقىناً وہ ظالموں کو پسند نہىں کرتا

(الشورىٰ 41)

نیز اِس قسم کے محاربین کی سزا بوجہ تعزیز ،نہ کہ بطور حد۔قرآن نے خود بیان کردی ہے:

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: ىقىناً اُن لوگوں کى جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہىں اور زمىن مىں فساد پھىلانے کى کوشش کرتے ہىں ىہ ہے کہ انہىں سختى سے قتل کىا جائے ىا دار پرچڑھاىا جائے ىا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دىئے جائىں ىا انہىں دىس نکالا دے دىا جائے ىہ ان کے لئے دنىا مىں ذلت اور رسوائى کا سامان ہے اور آخرت مىں تو اُن کے لئے بڑا عذاب (مقدر)ہے

(المائدة 34)

آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ’’دعوت فکر‘‘ ہے کہ

یارو خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں؟
خوُ اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں؟
باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں؟
حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں؟
کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے؟
آخر قدم بصدق اٹھاؤ گے یا نہیں؟
کیونکر کرو گے ردّ جو محقق ہے ایک بات؟
کچھ ہوش کرکے عذر سناؤ گے یا نہیں؟
سچ سچ کہو اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب
پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھاؤ گے یا نہیں؟

(براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ 57مطبوعہ 1880ء۔درثمین صفحہ 4)

٭…٭…٭

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 15 جولائی 2020ء