• 3 مئی, 2024

مغربی معاشرہ میں اسلامی اقدار کا احیاء

(قسط دوم)

ایک مصنف ہیں ڈاکٹر گریس کیٹر مین، ایم ڈی، وہ اپنی کتاب You and your childs problems میں لکھتے ہیں کہ :

‘‘A tragic, by-product of fear in the lives of children as early as preadolescence is the interest and involvement in super natural occult phenomena’’.

یعنی بچوں کی زندگی میں جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے، اس عمر سے پہلے یا اس دوران میں خوف کی انتہائی مایوس کن حالت جو لا شعوری طورپر پیدا ہو رہی ہے وہ مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی اور ملوث ہونے کی وجہ سے ہے۔

اب halloween کی وجہ سے جو بعض باتیں پیدا ہو رہی ہیں ان میں یہ باتیں صرف یہاں تک نہیں رکتیں کہ costume پہنے اور گھروں میں مانگنے چلے گئے بلکہ بعض بڑے بچے پھر زبردستی گھرو الوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اور دوسری باتوں میں،جرموں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں ۔ اور نَتِیْجَةً پھر جہاں وہ معاشرے کو، ماحول کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں وہاں ماں باپ کے لئے بھی دردِ سر بن جاتے ہیں ا ور اپنی زندگی بھی برباد کر لیتے ہیں۔ اس لئے مَیں پھر احمدیوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ احمدی بچوں اور بڑوں کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھائیں۔ جو ہمارا مقصد ہے اس کو پہچانیں۔ وہ باتیں کریں جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ مغربی معاشرے کا اثر اتنا اپنے اوپر نہ طاری کریں کہ بُرے بھلے کی تمیز ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی ذات کی بڑائی کو بھی بھول جائیں۔ اور مخفی شر ک میں مبتلا ہو جائیں اور اس کی وجہ سے پھر ظاہری شرک بھی ہونے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے؟ یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستارِ الٰہی کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ پرستش اس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اٹھ جائے۔ اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو۔ اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ562-566)

ویلنٹائن ڈے

یہ دن بھی امریکہ میں بڑی شدّومدّ کے ساتھ اور اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال قریباً 190 ملین ویلنٹائن ڈے کے کارڈ امریکہ میں بھجوائے جاتے ہیں۔ اور اس سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے کا شغل مچایا جاتا ہے ۔ جوکہ ہر طرح سے غیر اسلامی و غیراخلاقی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 12 جنوری 1889ء کو دس شرائط بیعت کا اشتہار شائع فرمایا تھا اس میں چھٹی شرط یہ بھی تھی۔

’’کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ و قال الرسول کو اپنے ہریک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔‘‘

(اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء)

سنن ابن ماجہ کتاب المقدمہ باب من احیاء سنۃ قدامیتت میں ایک حدیث ہے:۔
’’حضرت عمروؓ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص میری سنتوں میں سے کسی سنت کو اس طور پر زندہ کرے گا کہ لوگ اس پر عمل کرنے لگیں تو سنت کے زندہ کرنے والے شخص کو بھی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اسے اپنا لیا تو اس شخص کو بھی ان پر عمل کرنے والوں کے گناہوں سے حصہ ملے گا اور ان بدعتی لوگوں کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہو گی۔‘‘

اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔
’’تو اس حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں، جو دین سے دور لے جانے والی، اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں، وہ سب مردود رسمیں ہیں، سب فضول ہیں، رد کرنے کے لائق ہیں۔ پس ان سے بچو……‘‘

پھر حضور فرماتے ہیں: ’’آجکل آپ یہاں اس مغربی معاشرہ میں رہ رہے ہیں، یہاں کے بےتحاشا رسم و رواج ہیں، جو آپ کو مذہب سے دور لے جانے والے، اسلام کی خوبصورت تعلیم پر پردہ ڈالنے والے رسم و رواج ہیں، طور طریق ہیں…… ہر احمدی کا اتنا مضبوط کریکٹر ہونا چاہئے، اتنا مضبوط کردار ہونا چاہئے کہ مغربی معاشرہ اس پر اثرانداز نہ ہو…… اس لئے درج ذیل حدیث کو جس میں آنحضرت ﷺ نے بہت فکر کا اظہار فرمایا ہے پیش نظر رکھیں۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ بات جس کے سبب سے میں تمہارے بارہ میں خائف ہوں وہ ایسی خواہشات ہیں جو تمہارے شکموں میں اور تمہاری شرمگاہوں میں پیدا ہو جائیں گی۔نیز ہوا و ہوس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گمراہیوں کے بارے میں بھی خائف ہوں۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ423۔ ماخوذ از شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ106-107)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گزر جائے گی خواہ تنگی میں گزرے خواہ فراخی میں مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے۔ پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خداتعالیٰ سے اس نے صفائی کر لی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیت سے توبہ کر کے ہر ایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کر کے پکارا ہے بچتا رہا تو خداتعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرے گا اور وہ اس مقام پر ہو گا کہ خدا اس سے راضی ہو گا اور وہ اپنے رب سے راضی ہو گا اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لاپرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا انجام خطرناک ہے۔‘‘

(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ117-118)

پس اس شرط بیعت، اور احادیث نبویہ میں نیز حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات جو یورپ وغیرہ کے معاشرہ کے لئے ہیں سب ہی میں اصولی ہدایات بیان ہو گئی ہیں پس ہر ایک ایسی بات یا شغل یا فعل اور کام اور Celebration جس کے پیچھے ہوا و ہوس، بدعت، بداخلاقی، اور شرک ہو اسے ہم نے کسی حالت میں اپنے گھروں میں اور معاشرہ میں پنپنے نہیں دینا کہ یہ غیراسلامی اور غیر اخلاقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین

٭…٭(باقی آئندہ)٭…٭

(سیّد شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 15 جولائی 2020ء