• 5 مئی, 2024

دوسری بات تربیت کی ہے اور وہ افرادِ جماعت کا خلافت کے ساتھ تعلق ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جن پیشگوئیوں کے مطابق جو قرآنِ کریم اور حدیث میں واضح ہیں، مسیح موعودنے چودھویں صدی میں آنا تھا، وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپ کی کتب کو پڑھے۔ انگریزی دان جو ہیں یا جن کو اردو زبان نہیں آتی ان کے لئے دوسرے ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں اتنا لٹریچر موجود ہے کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے اس بارے میں وضاحت سے موجود ہے۔ اپنے عقیدے کو مضبوط اور پختہ کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے اعتراضوں کے جواب دیں۔ خود تیاری کریں گے تو علم بھی حاصل ہو گا اور اعتراضوں کے جواب بھی تیار ہوں گے۔

اس کے لئے بھی علاوہ اس کے کہ ہر شخص خود کرے، جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنانے چاہئیں کہ کس طرح ہم اس بارے میں ہر فرد تک یہ تعلیم پہنچا دیں کہ آپ کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ یہ تو عقیدے کی بات ہو گئی جو میں نے کر دی ہے۔

دوسری بات تربیت کی ہے اور وہ افرادِ جماعت کا خلافت کے ساتھ تعلق ہے۔ خلافت کے ساتھ تعلق میں آج کل اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ دیا ہوا ہے۔ اسی طرح alislam ویب سائٹ ہے۔ پس ان سے بھی جوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو، نوجوان کو، مرد ہو عورت ہو جوڑنے کی کوشش کریں اور نظامِ جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے۔ مخلصین اور باوفا مخلصین کی بہت بڑی تعداد ہے جو بڑی کوشش سے آتے ہیں اور یہاں مسجد میں آ کر بھی خطبہ سنتے ہیں اور دنیا میں مختلف جگہوں پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی سنتے ہیں اور باقاعدگی سے سنتے ہیں، بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ دو تین دفعہ سنتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی تعداد ہے جو نہیں سنتی۔ یہاں یوکے (UK) میں ہی ایسے لوگ ہیں جو خطبات نہیں سنتے اور نہ ہی دوسرے پروگرام دیکھتے ہیں بلکہ وہ بعض پروگراموں میں شامل بھی نہیں ہوتے۔ ایک جماعت میں کافی تعداد میں لوگوں نے خلافِ تعلیمِ سلسلہ بعض حرکتیں کیں جس کی وجہ سے مجبوراً اُن پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں۔ جب مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اُن میں سے اکثریت ایسی ہے جو خطبات نہیں سنتے، یا جن کا جماعت میں زیادہ تر actively آنا جانا نہیں ہے، نہ جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں لیکن جماعت کے ساتھ تعلق کیونکہ اُن کے خون میں تھا اس لئے جب اُن پر پابندیاں لگیں، اُن کو تھوڑی سی سزا دی گئی تو پریشان بھی ہو گئے اور انتہائی فکر اور درد سے مجھے معافی کے خط بھی لکھنے لگ گئے۔ بعض مجھے ملے بھی تو اُس وقت بھی روتے تھے۔ اگر وہ صرف دنیادار ہی ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ پس ایسے بھی ہیں جو دنیا کے کاروباروں کی وجہ سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں اور جب اُنہیں توجہ دلائی جاتی ہے تو پھر اُنہیں شرمندگی کا احساس بھی ہوتا ہے اور توبہ و استغفار بھی کرتے ہیں اور آئندہ سے جماعت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ پس یہ یاددہانی کروانا اور نگرانی بھی رکھنا یہ جو جماعتی نظام ہے، سیکرٹریان، مبلغین اور ذیلی تنظیمیں ہیں، ان سب کا کام ہے کہ خلافت سے ہر فرد کا ذاتی تعلق پیدا کروانے کی کوشش کریں۔ دلوں میں خلافت سے تعلق اور وفا کو جو پہلے ہی ہے اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ جب اُن کو سمجھایا جائے تو یہ لوگ مزیدنکھر کے سامنے آتے ہیں۔ اگر کوئی گرد پڑ بھی گئی ہو تو وہ جھڑ جاتی ہے۔ کیونکہ جب کوئی تعزیر کی جاتی ہے تو اُس وقت اس وفا کا شدت سے اظہار ہوتا ہے۔

اگر تربیت کا شعبہ مستقل خلیفہ وقت سے رابطے کی تلقین کرتا رہے اور خطبات اور جلسوں اور سارے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں تو جہاں خلافت سے مزید تعلق مضبوط ہو گا، وہاں تربیت کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(خطبہ جمعہ 16؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کا چھٹا سالانہ کانوکیشن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2022