• 10 مئی, 2025

جِنّی گوڈی، اُنّی ڈوڈی

میں نے اس سے قبل ایک آرٹیکل میں اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ہمیں قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا کے مادی نظام کا روحانی نظام کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ جیسے مادی پانی اور روحانی پانی، مادی ستارے اور روحانی ستارے، مادی چاند اور روحانی چاند اور مادی سورج اور روحانی سورج وغیرہ وغیرہ۔ اسی نظام کو اگر ہم مندرجہ بالا عنوان ’’جنی گوڈی، اُنّی ڈوڈی‘‘ کے حوالہ سے دیکھیں تو اللہ کو پانے کے لئے، حضرت محمد مصطفیؐ سے مثالی محبت کرنے کے لئے، قرآن کریم سے حقیقی پیار کرنے کے لئے اور سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء سے عقیدت رکھنے اور اس کے اظہار کے لئے اسی طرح محنت کرنی پڑے گی جتنی محنت ایک کسان فصل اور ایک مالی یا باغبان پھل حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے۔ ہم نے عموماً دیکھا ہے کہ مالی، باغبان یا کسان زمین کو اچھی طرح گوڈتا ہے یا ہل چلاتا ہے۔ مٹی کو اوپر تلے کر تا ہے۔ کسان ہل کے ساتھ گہرائی میں جاکر مٹی کو الٹتا پلٹتا ہے۔ بسا اوقات ایک دفعہ ہل چلانے کے بعد کھیت کو پانی دے دیتا ہے اور وَتر آنے یا زمین نم ہونے پر دوبارہ ہل چلاتا ہے تااچھی فصل یا زیادہ اور عمدہ پھل حاصل کر سکے کیونکہ وہ جانتا ہے ’’جِنّا ہل اُنا پھل‘‘

اسی طرح ہر مومن روحانی دنیا میں اپنی کھیتی کاکسان ہے، باغبان ہے، مالی ہے۔ جس حد تک وہ اپنی روحانی کھیتی کو اپنے نیک اور صالح اعمال سے نرم رکھے گا۔ نمازوں سے، نماز تہجد و نوافل سے، فرض اورنفلی روزوں سے، تلاوت قرآن پاک سے، اللہ اس کے رسول سے محبت رکھنے سے، حضور ایدہ اللہ سے پیار اور عقیدت کا اظہار کر کے اور آپ کی تمام نصائح و ہدایات کو حرز جان بنا کر نیز اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کر کے اپنی روحانی کھیتی میں ہل چلائے گا۔ اسی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں، رحمتوں کی بارش نازل کرے گا۔ اگر مادی دنیا میں ایک بالی میں 700 یا اس سے بڑھ کر دانے ہو سکتے ہیں تو روحانی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ بے حساب انعامات اور فضلوں سے نوازتا ہے۔ اور ہم سے ہر ایک اس امر پر گواہ ہے اور ہمارے بزرگوں اور آباء و اجداد نے حضرت مسیح موعودؑ کے مشکل دور میں اپنے اعمال سے روحانی کھیتی میں بیج بوئے ہم تمام آج ان کے پھل کھا رہے ہیں۔ ہمارے کسی بزرگ نے اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں کے ذکر میں کہا تھا کہ ہم دراصل اپنے بزرگوں کا ’’کٹھا‘‘ ہوا کھا رہے ہیں اور اگر ہم اپنی روحانی کھیتی میں مسلسل محنت سے ہل چلا کربیج بوتے رہے۔ نئے نئے پھولوں کی نرسری لگاتے رہے تو ہماری اولادیں اور نسلیں ہمارا ’’کٹھا‘‘ ہوا کھائیں گی۔ مجھے وہ کہاوت یاد آرہی ہے کہ ایک بزرگ اپنی عمر کے آخری حصہ میں پھل دار پودا لگارہے تھے۔ کسی نے بزرگ سے دریافت کیا کہ آپ تو عمر کے آخری حصہ میں ہیں۔ اس پودے سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ بزرگ نے جوابا ًکہا کہ ہمارے بزرگوں نے پھل دار درخت لگائے اور ہم ان درختوں کے پھل کھارہے ہیں۔ میں لگاؤں گا تو ہماری اولادیں اور نسلیں ان پھلوں سے مستفید ہوں گی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

الفضل کے پیارے قارئین! اوپر بیان کردہ مثال سے ایک اور سبق بھی اُجاگر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس طرح مادی پھل صرف باغبان کے لئے ہی تقویت اور فائدہ کا باعث نہیں ہوتا بلکہ اس کے اہل و عیال، عزیز و اقارب اور ارد گرد کے ماحول میں بسنے والے ہی صرف فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ جہاں جہاں بھی یہ پھل جائے گا۔ اُس جگہ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے اور ان کو بھی فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے بعینہ روحانی دنیا میں ایک مومن جوکھیتی تیار کر تا ہے۔ اس سے اس کے اہل و عیال، عزیز و اقارب اور دیگر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1400 سال گزرنے کے بعد ابو قحافہ، ابو قحافہ ہی نہیں رہے بلکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ بن گئے۔ عمر صرف عمر ہی نہیں بلکہ آج بھی حضرت عمر فاروقؓ کا نام ہمارے دلوں میں زندہ ہے اور اپنے نیک کاموں اور نیک نمونہ کی وجہ سے تا قیامت ہماری نسلوں میں زندہ رہے گا۔ اسلام بھی ایک باغ کی طرح ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فرمایا ہے کہ میں ایک باغیچہ لگا رہا ہوں۔ اور اس باغیچہ کے ایک درخت کے حوالہ سے ہر احمدی کو مخاطب ہو کر فرمایا ’’اے میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو!‘‘ پس آج اس اسلامی باغ اور جماعتی باغیچہ اور سبزہ زاروں کا ہم میں سے ہر ایک کسان بھی ہے۔ مالی بھی ہے۔ باغبان بھی ہے اور Care taker بھی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنے نیک عمل اور عمدہ مثالی نمونہ سے اس باغ اور اس باغیچہ کو سر سبز و شاداب رکھنا ہے۔ اس میں زائد اُگنے والی گھاس اور جڑی بوٹیوں کو (مراد رسومات و بدعات ہیں) تلف کرنا ہے۔ ضائع کرنا ہے تازیادہ سے زیادہ صحت مند عمدہ پھل پھول لگے۔ اور اپنے ساتھ سست اور کمزور احمدیوں کو بھی اس باغ کا محافظ بنانا ہے۔ ان کا مالی بنانا ہے۔ تاہم سب مل کر ایک باغ اور باغیچہ کی گوڈی کریں اور زیادہ سے زیادہ پھل حاصل کریں گے۔ جنّی کھاد پاواں گے اُنّا ہی مفاد حاصل کراں گے۔ ’’جنا گڑ پاواں گے اُنا مٹھا کھاواں گے‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

حق نے کر ڈالی ہیں دُہری خدمتیں تیرے سپرد
خود کو تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: اے خدا! جس طرح مقناطیس، لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی طرح ہم تیری محبت اور تیرے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں اور ہم وہ نقطہ مرکزی ہو جائیں جس پر خدا اور بندہ آپس میں مل جاتا ہے اور ہمارا دل وہ گھر بن جائے۔ جس میں خدا اور انسان کی محبت جاگزین ہو جاتی ہے۔

(الفضل 18 نومبر 1937ء)

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کا چھٹا سالانہ کانوکیشن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2022