• 7 مئی, 2024

بامقصد تخلیق

ایک بے تکلف مجلس میں کسی کے بارے میں رائے دی گئی کہ یہ شخص تو بیکار ہے۔ جس سے اس بات پر توجہ گئی کہ کیا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ کوئی چیز بیکار یا بے مقصد بھی ہو سکتی ہے؟ خیال آیا کہ یہ کائنات توخدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء سے بھری پڑی ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی ہمیں کچھ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی نئی چیزیں نظر آتی رہتی ہیں اور بڑے ہو کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ دیکھ لیا یا کم از کم اس کے بارہ میں جان لیا۔ لیکن کیا یہ درست ہے؟ غور کرتے کرتے اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس دنیا میں زندگی کی آخری گھڑی تک بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر چیز دیکھ چکے ہیں یا اُس کے بارے میں آگاہی حاصل کر چکے ہیں کیونکہ ابھی بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی موجودگی تک سے ہم لا علم ہیں اورسائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی چیزوں کے بارے میں انسان کا علم روز بروزبڑھتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن بہر حال خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی جس چیز پر بھی ہم غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آنے لگتی ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ نے کسی مقصد سے تخلیق کی ہے اور کوئی بھی چیز انسان کے لئے اپنی ذات میں بری نہیں۔ جیساکہ ایک شاعر نے بھی کہا ہے:

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں

خدا تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہر چیز کا کچھ مخصوص امور سرانجام دینا اور اس کا مقصد انسان کی خدمت
خدا تعالیٰ نے انسان کو بطور اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اور تمام دیگر مخلوقات کو انسان کی خدمت پر مامور کر دیا گیا ہے۔

اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان اشیاء سے فائدہ حاصل کرے یا ان ہی کے ذریعے وہ نقصان اُٹھائے۔ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ کائنا ت کی کوئی چیز بھی بے فائدہ نہیں پیدا کی گئی۔ اسی بات کو یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً (آل عمران: 196) یعنی اے ہمارے رب تو نے ہر گزیہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ تمام کی تمام چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے تخلیق کی گئی ہیں۔ جیساکہ اس آیت کریمہ سے بھی ظاہر ہے کہ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا (البقرہ: 30) یعنی وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کا سب پیدا کیا جو زمین میں ہے۔

اسی امر پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو۔ فکر کرو۔ سوچو۔ تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں باربار تاکید یں موجود ہیں۔ کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پار سا طبع ہو جاؤ۔ جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے۔ اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحَنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تمہارے دل سے نکلے گا۔ اُ س وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تاکہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں‘‘

(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ72-73)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔
’’مومن وہ لوگ ہیں جو خدا ئےتعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں اُن میں فکر اور غور کرتے رہتے ہیں اور جب لطائف صنعت الہی اُن پر کھلتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدایا تونے ان صنعتوں کو بیکار پیدا نہیں کیا یعنی وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صِرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قطر اس قدر ہے اور اس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اورماہتاب اور ستاروں سے اس کو اِس قسم کے تعلقات ہیں بلکہ وہ صنعت کی کمالیت شناخت کرنے کے بعد اور اُس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کر جاتے ہیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ 143-144)

دنیا میں جو کچھ بھی ہے انسان کے فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اس رنگ میں صرف قرآن کریم ہی نے پیش کیا ہے۔

اول تو اس سے شرک کا رَد ہوتا ہے کیونکہ جب ہر چیز انسان کے لئے ہے تو پھر اس کا خدا ہونا بے معنی ہے کیونکہ خادم آقا نہیں ہو سکتا۔

دوسرے اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس کا دارومدار تحقیق پر ہے اور تحقیق اس وقت شروع ہوسکتی ہے جب یہ یقین ہو کہ جس چیز کے بارہ میں تحقیق کی جائے گی اس میں سے کوئی فائدہ مند علم پیدا ہو گا۔

پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دنیا جہان کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے ہے۔ ذراغور کیجیئے کہ کس جہالت کے زمانہ میں قرآن کریم نے یہ زبردست نکتہ بیان فرمایا۔

’’جمیعاً‘‘ کا لفظ اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ خواہ مفردات ہوں یا مرکبات، خواہ ذرات ہوں یا مجموعہ ذرات سب کی سب اشیاء انسان کے لئے مفید ہیں۔

پس اگر سائنس کسی مرکب وجود کو پھاڑ کر اس کے اجزاء دریافت کرے تو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق مفردات میں پھر آگے مزید فوائد مخفی نکلیں گے اور صرف فوائد مخفی نہ ہوں گے بلکہ ایسے فوائد مخفی ملیں گے جو انسان کے لئے مفید بھی ہوں گے۔

خدا تعالیٰ کی تخلیق میں لطافت کا پہلو ہمیں بہت زیادہ نظر آتا ہے، ہر چیز کے اندر مخفی باریکی موجود ہوتی ہے مگر انسان اُس باریکی کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن جب وہ اس پر غور و فکر اور تحقیق کرتا ہے تب وہ مخفی شے اُس کو نظر آنے لگتی ہے مگر پھر بھی اکثر و بیشتر وہ اُس کے استعمال سے بے خبر ہوتا ہے۔ مزید تحقیق کے بعد جب وہ اس کے استعمال اور اس کے کام سے آشنا ہوتا ہے تب اس میں مزید باریکی اور اس کے ساتھ مزید مخفی اشیاء نظر آنے لگتی ہیں۔ روحانی آنکھ رکھنے والاشخص جب بھی کسی شے پر غور و فکر کرے گا تو اس کی سوچ کا منتہا، آخر خدا تعالیٰ ہوگا جبکہ صرف سائنسی علم رکھنے والا شخص جب کسی شے پر غور کرے گا تو وہ صرف اس چیز کو ہی منتہا یا آخری حد سمجھے گا۔

یہ صرف خداتعالیٰ کی ہی خلقت کا کمال ہے، انسان کی بنائی ہوئی چیز اتنی باریکی اور گہرائی تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ خدا تعالیٰ نیست سے ہست پیدا کر سکتا ہے یعنی کچھ بھی نہیں سے خدا تعالیٰ پیدا کر سکتا ہے جبکہ انسان کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی چیز ضرور درکار ہوتی ہے خواہ اس نے کچھ بھی بنانا ہو۔

ہماری کائنات یعنی Universe میں بے شمار گیلیکسیز Galaxies موجود ہیں، ان Galaxies میں Solar Systems ہیں اور پھر ان Solar Systemsمیں Planets ہیں۔ اور پھر اُن Planets کے اردگرد مختلف Satellites یعنی چاند یا Asteroids ہیں۔

اسی طرح اگر باریکی میں جائیں تو ایٹم کا خیال آتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں ایک وقت تھا جب سب سے چھوٹا ذرہ Atom خیال کیا جاتاتھا۔ پھر جب سائنسدانوں نے اس کی لطافت پر غور و فکر کیا تب یہ معلوم ہوا کہ ایک ایٹم میں Proton, Neutron اورElectron بھی ہوتے ہیں۔ اب سائنس کی مزید ترقی سے یہ معلوم ہواہے کہ Neutron اور Proton میں مزید لطافت ہے جو ان ذرات سے بھی چھوٹے ہیں۔

200 سے زائد Subatomic Particles سائنسدانوں نے تلاش کر لیے ہیں، جن میں Quarks, Muons, Neutrinos and Mesons وغیرہ شامل ہیں۔

ایٹم کا ایٹم سے اور مالیکیول کا مالیکیول سے ملاپ اور یہ علم کہ ان کے باہمی اتصال میں کون سے کمزور اور کون سے مضبوط ہیں اور پھر اس علم کی بنا پر نئے کیمیائی مادے وغیرہ کیسے بنائے جا سکتے ہیں؟ یہ تمام امور اب بخوبی سمجھے جا چکے ہیں۔ نت نئی معلومات کی وجہ سے مادہ کے مسلمہ خواص میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ سائنس کے مسلمہ اور بنیادی اصولوں سے ٹکرائے بغیر تحقیق کے میدان میں انسانی علم ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اگر کسی آسمانی صحیفہ کے بیان کا ان مسلمہ سائنسی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے جن کی صداقت عرصہ دراز سے مسلّم چلی آرہی ہو تو یقیناً ایسے بیان کی سچائی ثابت ہو جائے گی۔

(الہام، عقل علم اور سچائی صفحہ249)

آج ہزاروں لاکھوں اشیاء کے فوائد معلوم ہو چکے ہیں اور باقیوں کے آئندہ معلوم ہوتے چلے جائیں گے اور جو کوئی کہے کہ دنیا کی ایک شے بھی ایسی ہے کہ بے کار ہے اور اس میں انسان کے فائدہ کا کوئی سامان نہیں ہے اُسے جاہل کہا جا سکتاہے کیونکہ قرآن کریم اسکی بات کو رد کررہاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں

کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا

انسانی جسم میں موجود اپنڈکس (Cecal Appendix) ہی کو لے لیں جس کے ظاہری طور پر تو زیادہ فوائد نظر نہیں آتے بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک زائد چیز ہے جو کہ انسان کے جسم میں موجود ہے جبکہ اس پر ہونے والی تحقیق کا مطالعہ کریں تو اس کے متعلق کئی نئی باتیں جاننے کو ملتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اپنڈکس Lymphoid Tissue کا ایک ذخیرہ اپنے اندر رکھتا ہے اور انتڑیوں کی قوت مدافعت کے نظام میں شامل ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اس میں Microbiota بھی موجود ہوتے ہیں، جب کبھی انسان کو Diarrhea ہو تب یہ جسم کے مختلف کیمیائی توازن کو ہموار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

پھر بظاہر مضر نظر آنے والی اشیا میں بھی انسان کے لئے بہت سے فوائد موجود ہیں:
بظاہرجو چیز یں انسانی زندگی یا اس کے جسم کے لئے مضر نظر آتی ہیں ان میں بھی انسان کے فائدہ کے اسباب موجود ہیں۔ خواہ کوئی کسی قدر ہی خطرناک زہر کیوں نہ ہو اس کا بھی کوئی نہ کوئی مفید استعمال ضرور ہے جس میں انسان کے لئے فائدہ کا پہلو ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر لوگوں نے سنکھیا، کچلہ، سانپ کے زہروں وغیرہ سے طبی فوائد حاصل کئے ہیں۔ چنانچہ دنیا میں بہت سے ایسے زہریلے پودے اور جانور ہیں جن سے اب ادویات بنائی جاتی ہیں۔ مگر افسوس کہ اس کتاب کے کمال کا اعتراف نہیں کیا جس نے اِ ن ایجادات سے بہت پہلے اس زبردست سچائی کی طرف اشارہ کیا تھا۔

ہومیوپیتھی کا علاج بھی اس کی ایک مثال ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر ہانیمن (Dr Hahnemann) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر انسانی جسم میں کوئی ایسی بیماری موجو د ہو جس کو جسم نے کسی وجہ سے نظر انداز کردیا ہو اور اس کا مقابلہ نہ کر رہا ہو تو اگر بہت ہی لطیف مقدار میں کوئی ایسا زہر جس کی علامتیں اس بیماری سے ملتی ہوں جسم میں داخل کر دیا جائے مگر اسے ہلکا کرتے کرتے بالکل بے اثر کردیا گیا ہو تو جسم اس نہایت کمزور بیرونی حملہ کے خلاف جو ردِ عمل دکھائے گا اسی ردِ عمل سے اس اندرونی بیماری کو بھی ٹھیک کردے گا جو اس زہر کی علامتوں سے قریبی مشابہت رکھتی ہے۔

پس وہ طریقہ علاج جس میں انہی زہریلی اشیاء کو ویسی ہی بیماری دور کرنے کے لئے استعمال کیا جائے جیسی وہ خود پیدا کر سکتی ہیں، اسے ہومیو پیتھی یا بالمثل طریقہ علاج کہا جاتا ہے۔

خدا تعالیٰ کی تخلیق کردہ اشیاء
کے منفی استعمال کے نتائج

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 30 میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ انسان کے فائدہ کے لئے ہے پس اس کو فساد اور جھگڑے کا ذریعہ بنانا درست نہیں۔ انسان نے جب بعض اشیاء کا منفی استعمال شروع کردیا تو بنی نوع انسان کے لئے اس کے خطرناک نتائج نکلنا شروع ہو گئے۔ آجکل وہ ایجادات جن کے ذریعے سے انسان فساد پیدا کر سکتا ہے ان میں سر فہرست جنگی ہتھیار اور اسلحہ وغیرہ ہے۔ جب انسان غاروں میں رہتا تھا اس وقت انسان نے مختلف وحشی جانوروں سے دفاع کی خاطر اپنے لئے ہتھیار تیار کئے پھر انہی ہتھیاروں کو جدید شکل دی گئی اور اِن کے ذریعے انسان نے دوسروں کو نقصان پہنچانے یا دوسرے قبائل اور علاقوں پر قبضہ کرنے کی خاطر حملے شروع کئے۔

پھر اسی طرح سوشل میڈیا اور اس کے اثرات ہیں۔ جس سہولت کو انسان نے اپنی آسانی کی خاطر تیار کیا تھا کہ ایک شخص میلوں دُور بیٹھے سے رابطہ کر سکے، نئے علوم سیکھ سکے، نئی زبانوں سے متعارف ہو، دنیا کے مختلف ممالک کی گھر بیٹھے سیر کر سکے۔ اب اس وسیلہ کے ذریعے ہی انسان مصیبت میں پڑ گیا ہے، لوگ اپنی تصاویر لگاتے ہیں پھر ان ہی کے ذریعے Blackmail کئے جاتے ہیں، ان کے بنائے Accounts کو Hack کر لیا جاتا ہے اور اُن کی تمام ذاتی معلومات کو پھیلا دیا جاتا ہے وغیرہ۔ پھر غلط قسم کے پروگرام انٹر نیٹ پر موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں غلط خیالات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور بہت سے گھر تباہ ہونے لگ جاتے ہیں۔

تمام کی تمام چیزیں خدا تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے ہی پیدا کی تھیں مگر کچھ لوگ ان ایجادات کے منفی پہلوؤں کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں جن کے نتیجہ میں ایک پر امن معاشرہ میں خرابیاں، جھگڑے اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔

خدا تعالیٰ کی تخلیق کردہ اشیاء پر
غور و فکر کرنے کے فوائد

نظام کائنات پر غور کرتے کرتے جب دنیوی آنکھیں کُھل جاتی ہیں تو مومن روحانی طور پر بھی بینا ہو جاتا ہے اور روح بے اختیار پکار اُٹھتی ہے کہ اے ہمارے رب تو نے اس عالم میں کچھ بھی بیکار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ تو ہمیں عقل سلیم دے کہ ان کا صحیح استعمال جان سکیں اور تیری مخلوق کوفائدہ پہنچا سکیں۔ پس اس سچی شناخت کے بعد وہ خدا کو تمام عیوب سے مبرا پاتے ہیں اور یہ جان جاتے ہیں کہ وہ بے مقصد کام کرنے سے پاک ہے۔ پھر انسان کو بے مقصد کیسے پیدا کر سکتا ہے۔ ضرور ہے کہ اسے اس کے اعمال کا بدلہ ملے۔ ایسے لوگ انجام بخیر کے لئے دعا گو ہو جاتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں آگ سے بچا اور ہماری زندگی کو بے مقصد بننے سے بچا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 5 اپریل 1995 کو ترجمۃ القرآن کلاس میں رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحَنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی تشریح کرتے ہوئے یہاں ایک لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اُلوالالباب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ہر وہ چیز جس کا کوئی مقصد نہ ہو اور ردی ہو وہ دنیا میں بھی عام طور پر جلانے ہی کے کام آتی ہے۔ پس وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم اپنے اس مقصد کو پالیں، جس مقصد کے لئے تو نے ہمیں پیدا کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے مقصد اور غیر نافع چیزوں کی طرح آگ میں جھونکے جائیں۔

کائنات کی سب چیزیں انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں تو پھرانسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟

کائنات کا وسیع نظام سب کچھ انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ دنیا میں موجود تمام اشیاء سورج، چاند، ستارے، ہوا، پانی، پودے، جانور، مٹی، ریت، پتھر، کوئلہ، تیل وغیرہ۔ ان سب کے استعمال سے انسان فائدے حاصل کرتا ہے اور اپنے واسطے نئی نئی سہولیات نکالتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سب مخلوقات انسان کی خدمت کے لئےمامور کر دی گئی ہیں تو خود انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اسے بغیر کسی خاص مقصد کے تخلیق کیا گیا ہے؟ کیا انسان دنیا میں صرف اس لئے آیا ہے کہ دنیا کی رونقوں اور اس کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو کر چلتا بنے؟ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف دنیا کی چیزوں سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ گویا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، بھاگنا، دوڑنا، کھیلنا، کودنا اور موج مستی کرنا، تو یہ مقصد دنیا میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں حیوانات اور چرند پرند پہلے ہی بہت اچھی طرح پورا کر رہے ہیں، ایسے میں انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی دنیا میں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے اور اس مقصد کی یاددہانی کے لئے دنیا میں اپنے انبیاء اور ان کے جانشین بھیجے اور زندگی گزارنے کے لئے ایک ضابطہ حیات بھی قرآن کریم کی شکل میں عطا کیا۔ تاکہ انسان اپنے مقصد سے ہٹ کر دنیا کی رنگینیوں ہی میں نہ کھو جائے۔ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا۔ اور دیگر تمام مخلوقات کو اس کی خدمت پر لگا دیا تاکہ اس کو اپنے مقصد کے حصول میں آسانی ہو۔

انسان کی پیدائش کے پیچھے ایک علت موجود ہے۔ وہ دراصل اپنے خالق کی عبادت کرنا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا۔ اسی کے واسطے اپنے تمام کام کرنا اور ہر چیز میں خدا تعالیٰ کے عکس کو تلاش کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰریت: 57) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام بیان فرماتے ہیں۔ ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ یعنی جن اور انس کی پیدائش اور ان کی تمام قویٰ کا میں ہی مقصود ہوں۔ وہ اِسی لئے میں نے پیدا کئے کہ تا مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں سو اس نے اِس آیت میں اشارہ کیا کہ جن و انس کی خلقت میں اس کی طلب و معرفت اور اطاعت کا مادہ رکھا گیا ہے اگر انسان میں یہ مادہ نہ ہوتا تو نہ دنیا میں ہوا پرستی ہوتی نہ بت پرستی نہ انسان پرستی کیونکہ ہریک خطا صواب کی تلاش میں پیدا ہوا ہے۔۔‘‘

(منن الرحمن، روحانی خزائن جلد9 صفحہ153-154 بقیہ حاشیہ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تشریح میں مزید فرماتے ہیں ’’اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے مختلف طور کے مدعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں مگر وہ مدعا جو خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے وہ یہ ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ یعنی میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو یہ تومرتبہ حاصل نہیں ہےکہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے اُسے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے۔ اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے۔ خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بِلاشبہ خدا کی پرستش اور خداکی معرفت اور خدا میں فانی ہو جانا ہی ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 100)

پھر آپ ؑ فرماتے ہیں:
پس کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اُس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذّات نہ ہو۔ مَیں اس لئے بار بار اس ایک امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست اور ہو شیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے، اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدو جہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے، تو اس سے مواخذہ ہو گا۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو۔ اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 118)

انسانی پیدائش کی غرض کو پورا نہ کرنے والوں کی خدا تعالیٰ پرواہ نہیں کرتا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عباد ت الہیٰ ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کر لیتا ہے، تو خداتعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔ قُلْ مَا یَعْبَؤُ ابِکُمْ رَبِّی ْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ (الفرقان: 78) مَیں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ ایک جنگل میں کھڑا ہوں۔ شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پر مسلط ہے، ہاتھ میں چھری ہے۔ جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے۔ مَیں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں۔ میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں، تو مَیں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا یَعْبَؤُ ابِکُمْ رَبِّی ْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ (الفرقان: 78) یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلادیں۔ اور یہ کہا کہ تم ہو کیا ؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔

غر ض خداتعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے۔ اور جو اس کی مرضی کے بر خلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ118-119 ایڈیشن 1989ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سورہنا سمجھتے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری اُن کے لئے نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔ اگر زندگی خداکے لئے ہو تو اس کی حفاظت کرے گا۔ بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے محبت کا رابطہ پیدا کر لیتا ہے، خداتعالیٰ اُس کے اعضاء ہو جاتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اُس کے پاتھ پاؤں وغیرہ حتیٰ کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں۔ جس سے وہ بولتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات ِنفس سے پاک ہو جاتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے۔ اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کے منشاء کے موافق ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ اسے اپنا فعل ہی قرار دیتا ہے۔۔۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا ہے کہ میں بچہ تھا، بوڑھا ہوا۔ میں نے کسی خدا پرست کو ذلیل حالت میں نہیں دیکھا اور نہ اُس کے لڑکوں کو دیکھا کہ وہ ٹکڑے مانگتے ہوں، گویا متقی کی اولاد کا بھی خدا تعالیٰ ذمہ دار ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ116-117)

اب اس امر پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جو زندگی کے مقاصد اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں کیا ہم ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں یا نہیں؟

مقام ِافسوس ہے کہ دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی تخلیق کے مقصد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے خالقِ کائنات اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ نہیں اور زندگی کو محض ایک لہو و لعب یا کھیل تماشہ سمجھ کر بسر کرتی دکھائی دیتی ہے اور خدا تعالیٰ سے منہ موڑنے کی بنا پر آئے دن نت نئی آفات اور بلائیں انہیں گھیرتی نظر آتی ہیں۔

ایک انسان جس کے لئے خداتعالیٰ نے اتنی بڑی کائنات پیدا کی اور تمام مخلوقات کو اس کی خدمت پر لگا دیا اُسے کم از کم اپنا یہ فرض تو ادا کرنا چاہئے کہ اپنے خالق حقیقی کو پہچانے، اس کے احکامات کو سمجھے اور پھر ان پر عمل کرتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کرے۔

انسان کے مقصدِ پیدائش کو پہچاننے کے ذرائع

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’اس بات کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے کہ اپنے مقصد پیدا ئش کو کس طرح پہچاننا ہے اور اس کی عباد ت کے طریق کس طرح بجالانے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا رہا ہے جو اپنی قوموں کو اس عبادت کے طریق اور مقصد پیدائش کے حصول کے لئے راہنمائی کرتے رہے اور پھر جب انسان ہر قسم کے پیغام کو سمجھنے کے قابل ہو گیا اس کی ذہنی جلا اس معیار تک پہنچ گئی جب وہ عبادات کے بھی اعلیٰ معیاروں کو سمجھنے لگا اور اس نے دنیاوی عقل و فراست میں بھی ترقی کی نئی راہیں طے کرنی شروع کر دیں۔ آپس کے میل جول اور معاشرت میں بھی وسعت پیدا ہونی شروع ہو گئی تو انسان کامل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا جس نے پھر اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر یہ اعلان کیا کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ: 4) کہ آج میں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتوں اور احسان کو تم پر پورا کر دیا اورتمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا اور اس قرآن میں جس کے لئے دین کو مکمل کیا اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے طریقے بتائے۔

(خطبہ جمعہ 15 جنوری 2010ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پھر فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر یہی فرمایا ہے کہ میں نے جن و انس کو عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ لیکن یہاں پابندی نہیں ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی مخلوق پیدا کی ہے وہ ضرور پیدائش کے وقت سے ہی اپنے ماحول میں بڑے ہوں تو ضرور عبادت کرنے والے ہوں۔ ماحول کا اثر لینے کی ان کو اجازت دی گئی ہے۔باوجود اس کے کہ پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ عبادت کرنے والا ہو اور عبادت کی جائے لیکن ساتھ ہی، جیساکہ میں نے کہا، شیطان کو بھی کھلی چھٹی دے دی، ماحول کو بھی کھلی چھٹی دے دی کہ وہ بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

فرمایا کہ جو میرے بندے بننا چاہیں گے، میرا قرب پانا چاہیں گے وہ بہر حال اپنے ذہن میں یہ مقصد رکھیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عبادت کرنی ہے۔ اور اب کیونکہ ایک مسلمان کے لئے وہی عبادت کے طریق ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں۔ اسی شریعت پہ ہمیں چلنا ہے جو آنحضرت ﷺ لےکے آئے ہیں۔ جس طرح انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے عبادت کے طریق سکھائے ہیں اسی طرح عبادت بھی کرنی ہے۔ اور جو اوقات بتائے ہیں ان اوقات میں عبادت کرنی ہے۔ اگر نہیں تو پھر مسلمان کہلانے کا بھی حق نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے کا بھی حق نہیں ہے۔

(خطبہ جمعہ 3 دسمبر 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے خالق کے پاک کلام کا مطالعہ کرے، اسے سمجھنے کی کوشش کرے اور اس کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ان ہدایات کے مطابق زندگی بسرکرے گا اور خدا تعالیٰ کی تخلیق پر غور وفکر کرتا رہے گا تو بے اختیار کہہ اٹھے گا:

ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رَہ ہے ترے دیدار کا
چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا

اگر مومنین کائناتی علوم پر غور و فکر کے ساتھ عبادت اور دعا سے خدا تعالیٰ کی مدد کے طالب ہو جائیں تو ان عجائبات کو بھی پالیں گے جن تک غیر کو اب تک رسائی حاصل نہیں ہوئی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس رحمٰن و رحیم خدا کی پہچان کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کا فیض عام اور اس کی رحمت جو ہر چیزپر حاوی ہے، ہمیں اس کی عبادت کی طرف مزید توجہ دلانے والی ہو اور پھر اس فیض کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرکے، بے لوث ہو کر ہم حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں۔ اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنے خالق و مالک کے قریب کرنے اور اس کی بندگی کے صحیح طریق سکھانےکی توفیق بخشے۔ آمین

(نبیل احمد اشرف)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کا چھٹا سالانہ کانوکیشن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2022