• 29 اپریل, 2024

فقہی کارنر

ایک شخص نے ایک لمبا خط (حضرت مسیح موعودؑ کو) لکھا کہ سیونگ بنک کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔

حضرت اقدس نے فرمایا کہ۔
یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوؤں پر غور نہ کیا جائے اور ہر قسم کے حرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے نہ کئے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کئے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ ان کو اختیار کرے اور اس سے پرہیز رکھے۔ ایمان صِراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے۔ مثلاً اگر دنیا میں سوٴر کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے۔ ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لئے ہلاکت کا موجب ہے تب ہم فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَا غٍ وَ لَا عَادٍ کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں۔

(الحکم نمبر17جلد6 مئورخہ 10 مئی 1902ء صفحہ11)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

میری پیاری سہیلی بشریٰ حمید

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اگست 2022