• 10 مئی, 2024

میری پیاری سہیلی بشریٰ حمید

تمہارے لئے کیا لکھوں اور کہاں سے شروع کروں سوچا نہیں تھا کہ اب یہ کام بھی تم مجھ سے ہی لو گی۔ تقریباً پانچ چھ سال کا پرانا رشتہ تم ایک دم سے توڑ کر اپنے پیارے ربّ سے جا ملی ہو۔ جانتی ہوں یہ سب عارضی رشتے ہم سب نے چھوڑنے ہی ہوتے ہیں مگر جب تک جان میں جان ہے اپنے پیاروں سے علیحد گی کا تصور بہت مشکل لگتا ہے۔ دنیا سے جاتے ہوئے ہر روز لوگوں کو دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں اور یہ بھی ہم کہتے رہتے ہیں ہم سب نے ہی اللہ کے پاس جانا ہے۔ لیکن جب اپنے ہی گھرسے اپنوں کو جاتے دیکھتے ہیں تو وہ دُکھ اور تکلیف بیان سے باہر ہو جاتی ہے۔ اللہ ہمت دے تو بڑے ضبط سے صرف اپنے ربّ کو راضی رکھنے کے لئے صبر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1957ء کی بات ہے ہمارے ہمسائے میں ایک چھوٹی سی بچی دسویں کا امتحان دے کر رزلٹ نکلنے سے پہلے ہی دلہن بن کر آ گئی۔ برابر میں مکرم چودھری غلام حسین، ان کی بیگم خالہ جی مہرانساء صاحبہ اور اُن کے چھ بیٹے رہائش پزیر تھے۔ اُس گھرانے کی سب سے بڑی بیٹی شادی کے ایک سال بعد ہی وفات پا گئی تھی جس وجہ سے اُن کے گھر میں لڑکی کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جاتی تھی۔ خالہ جی محترمہ مہر انساء ہمیں بے حد پیار کرتی تھیں ہم چار بہنیں اور سب سے چھوٹا بھائی تھا ہمارے والد صاحب افریقہ میں تھے اس لئے خالہ جی بے تکلف ہو کر اکثر ہمارے گھر میری اُمی جان کے پاس آجاتیں اور ہم بہنوں سے بہت محبت کرتیں۔ اس طرح وہ اپنی بیٹی کی یاد کو وقتی طور پر بہلا لیتیں۔

بیٹی کی کمی کو پورا کر نے کے لئے بیٹے کی جلدی شادی کر دی اور دلہن بیاہ کر گھر لے آئیں گھر میں رونق ہو گئی، محترمہ خالہ جی اپنی بہو کے ساتھ بھی بہت محبت سے پیش آتیں لیکن ہمارے ساتھ بھی پیار میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ دلہن بشریٰ کیونکہ ہماری ہم عمر تھیں اس لئے دل بہلانے کے لئے اُس کو بھی ہمارے پاس لے آتیں۔ پھر نہ جانے اللہ تعالیٰ کو کیا منظور تھا کہ کچھ عرصہ بعد خالہ جی کی بھی وفات ہوگئی پھر گھر میں ایک اکیلی نو بیاہتا بشریٰ رہ گئیں۔ کچھ عرصہ بعد بھائی حمید، بشریٰ کے شوہر بھی ملک سے باہر لندن چلے گئے تو بشریٰ تنہائی محسوس کرنے لگی پھر مرد لوگ جب سب کاموں پر چلے جاتے تو مَیں اور بشریٰ گھنٹوں چارپائی دیوار کے ساتھ لگا کر کھڑی ہوجاتیں اور باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ ہم دونوں کی عمروں کا تھوڑا ہی فرق تھا اس لئے ہم دونوں کی دوستی دن بدن بڑھتی گئی۔ اُس کا کوئی بھی کام ہو میں خوشی سے کرتی کوئی بازار سے شاپنگ کرنی ہو تو میرا ساتھ اُس کو میسر تھا۔ غرض وہ ہمارے گھر کا ایک فرد ہی تھی صرف رہتی دوسرے گھر میں تھی۔ ویسے تو اُس گھرانے کے سب ہی لوگ ہمارے بھائیوں کی طرح تھے۔ ہماری امی جان بھی اُس کا اور باقی بچوں کابہت خیال رکھتیں عید ہو یا کوئی بھی تہوار ہو ہماری امی جان بشریٰ کو بھی اپنی بیٹیوں کی طرح چوڑیاں اور کپڑے ایک جیسے ہی بنا کر دیتیں۔

1963ء میں بشریٰ بھی اپنے شوہر کے پاس لندن چلی گئی۔ میری شادی ہوئی اور میں پشاور پہنچ گئی۔ لیکن بشریٰ کے ساتھ رابطہ نہیں ٹوٹا۔ خط و کتابت جاری رہی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا سبب بنایا کہ میرے شوہر 1970ء میں لند ن پہنچ گئے اور آتے ہی بشریٰ اور بھائی حمید سے رابطہ کیا ا ُن دِنوں اپنے لوگوں کی بہت کمی تھی۔ ویسے میرے والد صاحب اورخاندان کے کچھ لوگ بھی یہاں موجود تھے۔ پھر 1972 ء میں مَیں بھی اپنے تین بچوں کے ساتھ لندن پہنچ گئی جہاں سب سے پہلے بشریٰ اور بھائی حمید کے ساتھ ملاقاتوں کا ٹوٹا ہوا رابطہ پھر سے شروع ہو گیا۔ پاکستان میں بھائی حمید کے ساتھ اتنا واسطہ نہیں تھا۔ لندن میں ہماری رہائش کے علاقے بھی قریب قریب ہی تھے جس سے ملاقاتوں کا سلسلہ جلدی جلدی ہو جاتا تھا۔ پھر میری اُمی جان اور بھائی بھی لندن آ گئے۔ اب یہ ہماری پوری فیملی بن گئی بھائی حمید بشریٰ اور بچے اور میرے ایک کزن بھائی جان مبار ک احمد مرحوم سب شامل تھے۔ ہماری ہر عید ہر خوشی اور ہر تہوار اکٹھے ہی گزرتا۔ ہمارے دُکھ سُکھ سب سا نجھے ہو گئے۔ بشریٰ کے بچوں کی شادیاں ہوں یا میرے بچوں کی ہم سب نے مل کر فیصلے کئے اور سب نے ہی مل کر خوشیاں منائیں۔ ایک زمانہ میں مَیں بہت مشکلات سے گزر رہی تھی تو بھائی جان حمید اور فیملی نے میری بے حد مدد کی اُ نہوں نے دن رات ایک کر دیا جب تک ہم اُس مشکل سے نکل نہیں گئے وہ آرام سے نہیں بیٹھے۔ اسی طرح بھائی جان حمید شدید بیمار ہو گئے بار بار دل کے حملے ہوتے تھےبچے چھوٹے چھوٹے تھے بشریٰ جاب بھی کرتی اور میلوں دور انہیں دیکھنے ہسپتال جاتی۔ میرےا باجان سامی صاحب اور میرا بھائی بھی اکثر ہسپتال انہیں دیکھنے جاتے جہاں تک ممکن ہوتا ہم ایک دوسرے کا سہارا بنے رہے۔ جب عیدیں اور جلسے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں شروع ہو ئے وہ بہت مزے کے دن ہوتے تھے ہم سب گھروں سے کھانا بنا کر لے جاتے، کاروں کی چاروں طرف دیواریں بنا کر درمیان میں ہم سب کھانے کے بڑے بڑے دیگچے رکھے سب کو کھانا تقسیم کرنا اور بھائی حمید اور سب مردوں کے کچھ دوستوں کو بھی دعوت دینا اور بھائی حمید کی یہ آ واز (صفیہ!اک پلیٹ ہور بنادو) ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ یا کبھی کبھی بھائی جان کا گھر پر فون آتا (صفیہ کی پکایا اے بہت بھوک لگی ہے بس میں تھوڑی دیر تک آیا) کیا محبتوں بھرے دن تھے۔

بشریٰ کے ساتھ چونکہ بہت اچھا اور لمبا زندگی کا ساتھ رہا اس لئے بے شمار یادیں اور باتیں ہیں۔ بہت ہی تحمل صبر، برداشت کی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی میں بہت سارے واقعات کو جانتی ہوں اُس نے اپنی چھوٹی سی عمر میں کیسے کیسے مشکل ترین وقت دیکھے اور اُف تک نہیں کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس کو بے بہا خوشیوں اور نعمتوں سے بھی نوازا جو سب میرے سامنے ہے۔

چلیں! میں اُس کے صبر اور برداشت کی ایک مثال پیش کرتی ہوں۔ غالباً 1976ء کی بات ہے جب بھائی حمید کو پہلی بار دل کا حملہ ہوا تھا جو بہت ہی شدید قسم کا تھا۔ بھائی جان ہسپتال میں داخل تھے اُس وقت بچے بھی چھوٹے تھے گھر بہت دور تھا لیکن بشریٰ نے بڑی بہادری اور ہمت سے صبر سے وہ وقت کاٹا۔ 1977ء کے شروع میں سامی صاحب اپنی فیملی کو پاکستان ملنے کے لئے گئے جس دن اُن کی واپسی تھی کچھ دن پہلے بشریٰ کی چھوٹی بہن رُقیہ جو کہ بھائی حمید کے چھوٹے بھائی مجید کے ساتھ بیاہی ہو ئی تھی دو جڑواں بچوں کی پیدائش کے وقت وفات پا گئی۔ دو بچے پہلے سے تھے یعنی چار بچوں کی ماں اچانک اس دنیا سے چلی گئی، یہ بہت بڑی خبر تھی جو کہ لندن نہیں پہنچنی چاہئے تھی کیونکہ بھائی حمید صاحب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اُن تک یہ خبر پہنچے۔ پھرسامی صاحب اُس مرحومہ کا جنازہ پڑھ کر اگلے دن پاکستان سے یہ ا ندوہناک خبر لے کر لندن پہنچ گئے۔ اب یہ خبر صرف بشریٰ تک کیسے پہنچائی جائے۔ سامی صاحب نے میری اُمی ابا کو تیار کیا اور مجھے سمجھایا کہ کیا اور کیسے سب کو سنبھالنا ہے۔

میں اور سامی صاحب اگلے دن بشریٰ اور بھائی حمید کو ملنے چلے گئے کہ پاکستان سے بشریٰ کے والدین نے کچھ گفٹ بھیجے ہیں۔ بھائی حمیداور بشریٰ بہت خوش ہوئے کچھ ہی دیر بعد اُمی ابا بھی پہنچ گئے۔ بھائی حمید چونکہ میرے والدین سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اُن کو دیکھ کربہت خوش ہوئے۔ بشریٰ چائے بنانے چلی گئی میں اُس کے پیچھے ہی گئی دو چار منٹ بعد سامی صاحب بھی آ گئے۔ پروگرام کے مطابق ابا جان اور امی نے بھائی حمید کو مصروف کر لیا سامی صاحب نے بشری کو بٹھایا اور اُس کو اچھی طرح سے پہلے تیار کیا کہ تم نے اب یہ بڑی ذمہ داری کیسے نبھانی ہے اُس کی بہن کی خبر سنائی ظاہر ہے بشریٰ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اُس کی صحت مند بہن جس کے ساتھ ہر وقت اُس کی بات چیت رہتی تھی اُسی کی وفات کی خبر ہوگی، بہت ہی مشکل وقت تھا اُس بچاری کے لئے۔ ہم نے اُس کا دل ہلکا کرنے کے لئے وقت دیا۔ سامی صاحب، اُمی اباجان اور بھائی حمید پاکستان کی خبروں میں مصروف ہو گئے۔ میں نے چائے وغیرہ بنائی۔ بشریٰ نے اندر باہر کے کچھ چکر بھائی جان کو دکھانے کے لئے لگائے کچھ گھنٹے ہم نے وہاں گزارے۔ بشریٰ کے لئے آنسوؤں پر قابو پانا اور غم برداشت کرنا بہت مشکل کام تھا جو اُس نے بہادری سے کیا۔ جب ہم نے دیکھا کہ اب وہ کچھ نا کچھ اس قابل ہو گئی ہے کہ اپنے آپ کو سنبھال لے ہم واپس آ گئے۔

جس کی بہن دو نومولود بچوں کی پیدائش پر دنیا چھوڑ گئی ہو کیسے برداشت کر سکتی ہے بہت کوشش کرتی رہی لیکن بھائی جان حمید پریشان تھے کہ بشریٰ کو کیا ہوگیا ہے ایک دم چُپ سی لگی ہوئی آ نکھیں بھی سوجی رہتی ہیں اُن کو یہ خیال تھا کہ شائداب یہ مجھے سنبھال سنبھال کر تھک گئی ہے۔ وہ کوئی نا کوئی اپنے خدشات ظاہر کرتے رہتے تھے۔ بشری نے ہمیں بتایا کہ ہم روزانہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق پارک جاتے تھے ایک دن ہم پارک میں گئے ہوئے تھے کہ بھائی جان نے کوئی ایسی بات کی کہ میں برداشت نہ کر سکی اور میرے آنسو نکل گئےاب بھائی حمید ہیں کہ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ بتاؤ کیا بات ہے پھر وہاں میں نے اُن سے وعدہ لیا کہ جو میں بتاؤں گی وہ آپ نے آرام سے سننا ہے اور ساری بات بتا دی اس طرح بشریٰ کی جان میں جان آئی الحمد للّٰہ بھائی جان نے بھی بہت ہمت سے کام لیا اور بشریٰ کی برداشت اور صبر پر بہت حیران بھی تھے اور شکر گزار بھی کہ تم نے میری خاطر اتنا بڑا غم خود سے کیسے اکیلے اُ ٹھائے رکھا۔ 19 مارچ 1996ء کو بھائی جان حمید بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بیوگی کے 26 سال بشریٰ نے نہایت ہمت و بہادری سے اپنے ہی گھر میں رہ کر گزارے۔ بچوں نے کبھی اکیلے نہیں چھوڑا بہت خدمت کی اور زندگی کے آخری سانس تک بچے اُس کے دل کی دھڑکن بنے رہے۔

یہ میں نے ایک واقعہ لکھا ہے اُس کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آئے جب اُس نے بہادری اور ہمت سے کام لیا۔ 1998ء میں نومبر میں بشریٰ کو کینسر تشخیص ہوا۔ اور دسمبر کے مہینہ میں آپریشن کی تاریخ تھی مگر اُس نے اس تاریخ کو آپریشن سے منع کر دیا کیونکہ اُن ہی دنوں اگلے مہینہ دسمبر میں میری بیٹی سارہ کی شادی تھی۔ بشریٰ نے ہم سے سب کچھ چھپایا۔ شادی کے ایک یا دو ہفتوں کے بعد آپریشن ہؤا۔ شادی کے دوران ہمیں بالکل علم نہیں تھا کہ بشریٰ کس تکلیف سے گزر رہی تھی ہماری خوشی کے موقع پر اپنی تکلیف اور بیماری کو چھپائے رکھا۔

الحمد للّٰہ کینسر کی بیماری سے نجات مل گئی۔ اس کے بعد اُس نے 23 سال بہت اچھے اور صحت مند انسان کی طرح گزارے پھر قریباً دو تین سال اُس نے گھر اور ہسپتالوں کے چکروں میں گزارے۔ بشریٰ بہت خود دار تھی آخری دم تک اپنی مدد آپ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اُس کے سب بچوں نے جی بھر کے خدمت کی بیٹے حیدر نے ایک پل اپنی ماں کو اکیلے نہیں چھوڑا پوتے پوتی دن رات اُس کے بازو بنے رہے۔ یہاں میں بشریٰ کی پوتی مریم کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں جو دن رات اُس کے ساتھ رہتی رات بھر جاگ کر اُس کی دیکھ بھال کرتی اللہ تعالیٰ اُس کو ان نیکیوں کا اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب کُنْ کہہ دے تو باقی سب خدمتیں اور علاج لا علاج ہو جاتے ہیں۔

عزت و اکرام سے اسلامی روایات پر قائم رہنے والی، صوم و صلوة کی پابند، دعا گو، ہر دل عزیز، مضبوط ارادوں کی مالک، نڈر، ہر لمحہ تربیتی پہلو پر نظر رکھنے والی، غریب پرور، محبت و خلوص سے رشتوں کو نبھانے والی، قرآن کریم کی عاشق، خلافت کے ہر حکم پر لبیک کہنے والی، نیک اور مخلص خاتون 7 جون 2022ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

پیارے آقا نے 11 جون 2022ء کو جنازہ پڑھایا اور اُسی دن بروک ووڈ میں اپنے شوہر بھائی حمید کے قدموں کی طرف جگہ پائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری پیاری سہیلی کو اپنے پیاروں کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے۔ مرحومہ نے اپنے پیچھے دو بیٹے انور پاشا حمید، جاوید حیدر حمید، بیٹیاں ریحانہ نثار، فرزانہ دین اور گیارہ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سسب لوا حقین کو صبر جمیل عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین

مَیں اُس کو ہر روز الفضل آن لائن اپنے فون سے ویٹس ایپ پر بھیجتی تھی اور قبول کرنے یعنی گرین لائن سے مجھے علم ہوجاتا تھا کہ اُس نے 6 جون کا الفضل بھی چیک کیا ہوا تھا (یعنی وفات سے ایک دن پہلے)۔ میں اُس کی کچھ پسندیدہ ویڈیو بھی روزانہ بھیجتی تھی جس سے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے اور اکژ وہ قہقہ لگا کر ہنستی تھی۔ یہ میری ہرروز کی روٹین تھی جو اب بند ہو گئی ہے۔ بشریٰ مجھے میرے نام سے ہی بلاتی تھی مگر لکھنے میں ’’میری روشنی‘‘ لکھتی جس سے میں بہت شرمندہ ہو جاتی اور اُس کو کہتی کہ میرا نام ہی لکھو مگر جانے کیوں اُس کو یہ احساس تھا کہ تم میرے لئے ہمیشہ روشنی بن کر رہی ہو اس لئے میں تمہیں روشنی ہی لکھوں گی تم میرے لئے میری روشنی ہو۔ اب صرف اُس کی خواہش کے مطابق میں یہاں اُس کے لئے اپنے نام کے ساتھ روشنی لکھ رہی ہوں۔

میرا 8 تاریخ کا میسج بشریٰ مرحومہ کے نام

پیاری بشریٰ

یہ آج میری آپ کے لئے آخری پوسٹ ہے جو آپ کو جنت میں ملے گی ان شاء اللہ

ہماری دوستی یا بہنوں کی طرح پیار کو ایک بہت لمبا عرصہ ملا جس میں ہم نے ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ دیکھے بھی اور بانٹے بھی ہمارے درمیان ملکوں کی دوری بھی رہی اور قربت بھی رہی۔ لیکن اتنے لمبے عرصہ میں مجھے نہیں یاد کہ کبھی ہمارے دلوں میں کبھی ایک بار بھی رنجش ہوئی یا دل دُکھا ہو، بلکہ پیار اور محبت بڑھتی ہی رہی تمہارے ساتھ ہی نہیں بلکہ بھائی حمید نے جو بہن کا پیار اور مان دیا کبھی کم نہیں ہوا ہماری محبت اور پیار میں کبھی کمی نہیں آئی مجھے خوشی ہے تم اپنے پیاروں کے پاس پہنچ گئی ہو میرے لئے جنت میں کہیں اپنے قریب ہی جگہ ضرور رکھنا، ان شاءاللہ جلد ملاقات ہو گی۔ ہم سب اداس بھی ہیں اور خوش بھی جدائی کا غم بھی ہے اور تمہیں جنت ملی اُس کی خوشی بھی میں جب تک اس فانی دنیا میں موجود ہوں تمہارے سب بچوں کے ساتھ ویسے ہی پیار و محبت رہے گی۔ جو دعائیں تم اُن کے لئے کر کے گئی ہو اُن میں میری دعا ئیں بھی ہمیشہ شامل رہیں گی ان شاء اللہ۔ تمہارے سب بچے مجھے بہت پیارے ہیں۔ اللہ تمہارے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے۔ آمین اللّٰھم آمین

اللہ حافظ تمہاری (روشنی) صفیہ سامی

(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ اختتامی خطاب جلسۂ سالانہ برطانیہ مؤرخہ7؍اگست 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ